انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دولتِ غزنویہ جیسا کہ اوپر مذکور ہوچکا ہے،عبدالملک بن نوح نے الپتگین کو خراسان کی گورنری پر مامور کیا تھا، عبدالملک کے بعد جب اُس کا بھائی منصور بن نوح سامانی ۳۵۰ھ میں تخت نشین ہوا تو الپتگین جو منصور بن نوح کی تخت نشینی کے خلاف رائے ظاہر کرچکا تھا،خراسان کے دارالامارت سے مقام غزنی میں چلا آیا جو اُس زمانے میں ایک معمولی سی بستی تھی،یہاں الپتگین مضبوط ہوکر بیٹھ گیا اوراپنی ایک خود مختار ریاست قائم کرکے حکومت کرنے لگا۔ ۳۶۷ھ میں الپتگین کا انتقال ہوا،تو اُس کی جگہ اُس کا بیٹا اسحٰق غزنی کا فرماں روا ہوا مگر چند ہی روز کے تجربہ سے وہ نااہل ونالائق ثابت ہوا اورفوجی سرداروں نے اُس کو معزول کرکے یا اپنی موت سے اُس کے مرجانے پر سبکتگین کو جو الپتگن کا سپہ سالار اورداماد بھی تھا اپنا بادشاہ بنالیا۔ سبکتگین کی نسبت مشہور ہے کہ وہ الپتگن کا غلام تھا، مگر یہ غلامی محض اتفاقی طور پر وقوع میں آئی تھی،یعنی بعض ڈاکوؤں نے اُس کو راستے میں تنہا پاکر گرفتار کرلیا اوربخارا میں لے جاکر بظور غلام فروخت کردیا،سبکتگین کا سلسلہ نسب ایران کے بادشاہ یزدجرد تک پہنچتا ہے یعنی سبکتگین بن جوق قرایحکم بن قراارسلان بن قراملت بن قرانعمان بن فیروز بن یزد جرو تک پہنچتا ہے یعنی سبکتگین بن جوق قرایحکم بن قراارسلان بن قراملت بن قرانعمان بن فیروز بن یزد جرد،لیکن اس شجرۂ نسب کی صحت کا ثبوت بہم پہنچانا دشوار ہے،بعض مؤرخین نے سبکتگین کو ترک بتایا ہے،بعض کا بیان یہ ہے کہ وہ باپ کی طرف سے ترک اورماں کی طرف سے ایرانی تھا، بہرحال اس میں شک نہیں کہ وہ حسب ونسب کے اعتبار سے ایک شریف آدمی تھا،ایشیائی دستور کے موافق کسی بادشاہ کے امیر وسردار اوربڑے بڑے اہل کار اپنے آپ کو بادشاہ کا غلام کہنے میں اپنی بے عزتی نہیں سمجھتے اس لئے ممکن ہے کہ الپتگین کی فوج کا سپہ سالار ہونے کی وجہ سے سبکتگین نے اپنے کو الپتگین کا غلام کہا ہو(ملکم صاحب کا یہی خیال ہے) سبکتگن نے قریباً بیس سال غزنی کے تخت پر حکومت کی،شہر بست کو فتح کیا،جو غزنی سے کئی سو میل کے فاصلے پر دریائے ہیرمند کے دونوں کناروں پر آباد ہے،ہرات کی جنگ میں کامیابی حاصل کی،پنجاب وسندھ کے راجا جے پال نے اُس ملک پر فوج کشی کی تو اُس کو شکست فاش دے کر گرفتار واسیر کیا اورخراج کے وعدے پر رہا کردیا، جے پال نے بد عہدی کی اوردوبارہ تین لاکھ کے لشکر جرار سے سبکتگین کے ملک پر حملہ آور ہوامگر سبکتگین نے صرف چند ہزار سپاہیوں کی مدد سے اُس کا مقابلہ کیا اوراس مرتبہ بھی اُس کو شکست دے کر گرفتار کرلیا اورپھر اُس سے اقرار اطاعت لے کر چھوڑدیا (جے پال کی لڑائیوں کا حال تاریخ ہندوستان میں مفصل لکھا جائے گا)نوح بن منصور نے اُس کو ناصر الدین کا خطاب عطا کیا اوراُس کے بیٹے محمود کو سیف الدولہ کے خطاب سے مخاطب فرمایا،سبکتگین نے غزنی کی سلطنت کو بہت وسیع کیا اور ۳۸۷ھ میں اس جہان فانی سے کوچ کر گیا،سبکتگین کے بعد اُس کا بیٹا امیر اسمعیل بلخ میں تخت نشین ہوا، مگر چھ مہینے کے بعد اپنے بھائی سبکتگین سے لڑکر مغلوب ومعزول ہوا۔ ۳۸۷ھ محمود بن سبکتگین غزنی کے تخت پر بیٹھا،خلیفہ قادر باللہ عباسی نے اُس کو یمین الدولہ اورامین اللملت کا خطاب عطا فرمایا تھا،محمود غزنوی نے تخت نشین ہوتے ہی نہایت قابلیت کے ساتھ مہمات سلطنت کو انجام دینا شروع کیا،لوگوں نے عبدالملک سامانی بادشاہ بخارا کو محمود کے خلاف فوج کشی پر آمادہ کیا،محمود نے مجبوراً مقابلہ کیا اورعبدالملک شکست کھا کر بخارا کی طرف بھاگا،بخارا پر ایلج خان یا ایلک خان بادشاہ کا شغر نے حملہ کرکے قبضہ کیا،عبدالملک سامانی قید ہوا،محمود غزنوی نے ایلج خاں بن بغراخان پر حملہ کرکے اُس کو بخارا سے بھگادیا،اوربخارا کو اپنی حدود مملکت میں داخل کیا، اس کے بعد مغلوں کے سردار طغاخان بن التوخان کو شکست دے کر اپنی سلطنت کے حدود کو بحر کاسپین (بحیرۂ اخضر تک پہنچادیا،ولایت خوارزم پر بھی قبضہ کیا سیستان وخراسان کے علاقے سبکتگین کے زمانے سے سلطنت غزنی میں شامل تھے مجدالدولہ دیلمی کو مغلوب واسیر کرکے رے اوراصفہان کی ولایتوں پر بھی قبضہ کیا،ادھر ہندوستان پر بھی اُس کو مجبوراً بہت سے حملے کرنے پڑے جن کی اصل حقیقت اورتفصیلی کیفیت تاریخ ہند میں لکھی جائے گی،غرض کہ محمود غزنوی نے بہت جلد دریائے ستلج سے لے کر بحیرہ کاسپین تک اور ماوراالنہر سے لے کر بلوچستان ورعراق تک ایک نہایت وسیع سلطنت قائم کرلی۔ محمود غزنوی بّراعظم ایشیا کے نہایت نامور اورزبردست شہنشاہوں میں شمار ہوتا ہے اُس کے زمانے میں فارسی زبان کو کاص طور پر رونق حاصل ہوئی،عربی زبانوں کی ترویج و اشاعت میں جو مرتبہ حجاج بن یوسف ثقفی کو حاصل ہے،وہی مرتبہ فارسی زبان کی ترویج واشاعت میں محمود غزنوی کو حاصل ہے،محمود غزنوی نہایت سچا پکاّ مسلمان،بے تعصّب اورعلم دوست شخص تھا،لیکن تعجب ہے کہ بعض اغراض خاص یا موجودہ حکومت وسلطنت کی مصلحتوں نے اُس کو ہمارے زمانے میں مذموم،متعصب لالچی،ظالم،سفاک اورہندوؤں کا دشمن جانی مشہور کردیا ہے، ان جھوٹی اورگمراہ کن باتوں کی حقیقت تاریخ ہند میں بے پردہ کی جائے گی،انشاء اللہ تعالی ،اسی زمانے میں فردوسی نے شاہنامہ لکھا تھا ۴۲۱ھ میں محمود غزنوی نے وفات پائی،سبکتگین اورمحمود غزنوی کو دربار سامانیہ سے امیر الامرائی کا خطاب حاصل تھا مگر ۳۸۹ھ میں محمود غزنوی نے اپنی خود مختاری کا اعلان کرکے عبدالملک سامانی کا نام خطبہ سے خارج کردیا تھا،اسی سال خلیفہ قادر باللہ عباسی نے اُس کو یمین الدولہ کا خطاب عطا کیا تھا، محمود غزنوی ۹ محرم ۳۶۱ھ کو پیدا ہوا تھا،ساٹھ سال کی عمر میں فوت ہوا،محمود غزنوی اپنے زمانے میں سب سے زیادہ طاقتور مسلمان بادشاہ تھا،اُس نے اپنی اس وسیع سلطنت کا اپنے دونوں بیٹوں کے لئے وہی انتظام کیا تھا جو خلیفہ ہارون الرشید عباسی نے اپنے دونوں بیٹوں امین و مامون کے لئے کیا تھا، محمود غزنوی کے دونوں بیٹے بھی آپس میں اسی طرح لڑے جیسے کہ امین ومامون لڑے تھے،مگر جس طرح مامون الرشید اپنے بھائی امین الرشید پر غلبہ پاکر شوکت سلطنت کو باقی رکھ سکا،محمود کا بیٹا مسعود اپنے بھائی محمد پر غالب ہوکر سلطنت کی عظمت وشوکت کو باقی نہ رکھ سکا، محمود غزنوی نے ماوراالنہر،خراسان،غزنی پنجاب وغیرہ کی حکومت اپنے چھوٹے بیٹے محمد کو دی تھی اورخوارزم ، عراق،فارس،اصفہان اوغیرہ ممالک بڑے بیٹے مسعود کو دئیے تھے،محمود کے فوت ہوتے ہی دونوں بھائیوں میں جھگڑا شروع ہوا،محمود غزنی کے تخت پر بیٹھا اورمسعود نے رے میں جلوس کیا،اوّل اس بات پر نزاع شروع ہوا کہ مسعود بڑا بھائی ہونے کی وجہ سے خواہاں تھا کہ میرا نام خطبہ میں محمد سے پہلے لیا جائے،محمد کہتا تھا ہ میں باپ کے تخت پر بیٹھا ہوں،میرا نام تمام ممالک میں خطبہ کے اندر مسعود سے پہلے پڑھا جائے،یہ تو صرف بہانہ تھا،دونوں بھائی ایک دوسرے کو زیر کرنے پر آمادہ تھے،آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسعود نے حملہ کرکے غزنی کو فتح اوراپنے بھائی محمد کو قید کرلیا،قید کرنے کے بعد محمد کی دونوں آنکھوں کو بے بصار کیا گیا۔ تخت غزنی پر جلوس کرکے مسعود نے بلوچستان ومکران پر حملہ کرکے اُس علاقے کو بھی اپنی حکومت میں شامل کرلیا، کسی سلطنت میں جب دو شہزادے تخت کے لئے لڑا کرتے ہیں تو ضرور سلطنت کے ہر حصے میں سرکش اورباغی طاقتیں پیدا ہوجایا کرتی ہیں؛چنانچہ محمد بن محمود کے اندھا ہونے کے بعد سلطان مسعود بن محمود کو اس وسیع اور عظیم الشان سلطنت کو سنبھالنا دشوار ہوگیا،سلجوقی ترکوں نے بتدریج ترقی پاکر خوارزم کے علاقے میں لوٹ مار شروع کردی،ادھر ہندوستان وپنجاب میں بھی یہاں کے بعض صوبہ داروں نے تمردوسر کشی پر کمر باندھی اوریک لخت حکومت کا شیرازہ بکھرنے لگا، سلطان مسعود نے بڑی ہمت اور استقلال سے کام لیا،کوارزم وخراسان میں سلجوقیوں کو متواتر شکستیں دیں اورانہیں حالات میں موقعہ نکال کر ہندوستان پر بھی حملہ آور ہوا، اورسرستی وہانسی کے زبردست قلعوں کو فتح کرکے مسمار کیا،ہندوستان سے فوراً غزنی کی طرف واپس گیا،تو دیکھا کہ سلجوقی پہلے سے بھی زیادہ تعداد کے ساتھ برسر مقابلہ ہیں،مسعود نے اُن کو ہر مرتبہ شکست دی لیکن وہ بھی ہر مرتبہ سنبھل سنبھل کر اورلوٹ لوٹ کر مقابلے پر آتے رہے،سلطان مسعود کی فوج میں ہندوؤں کی بہت بڑی تعداد بھرتی ہوگئی تھی،اورکئی ہندو اُس کی فوج میں سپہ سالاری کے عہدے پر فائز تھے جن کے ماتحت بہت سی ہندو پلٹنیں اورہندو رسالے تھے،مسعود کو ہندوؤں کی فوجیں تیار کرنے اوراُن کو فوجی تعلیم دے کر شائستہ بنانے کا خاص شوق تھا؛چنانچہ اُس نے کئی ہندو سرداروں کو محض اس لئے ہندوستان بھیجا کہ وہ ہندوستان سے اپنے بھائی بندوں کو فوج میں بھرتی کرکے لائیں جب ہندوستان کے ہندو سپاہی غزنی پہنچے تو مسعود نے ایرانیوں اورافغانیوں سے زیادہ اُن کی تنخواہیں مقرر کیں،ایک شخص مسمی تلک کو امیر الامرائی اورمہاراجگی کا خطاب دے کر سپہ سالاراعظم بنایا،یہ مہاراجہ تلک ایک ہندو حجام کا لڑکا تھا،لہذا اُس کے مرتبہ کو سب سے زیادہ رفیع دیکھ کر اکثر امرائے دربار سلطان مسعود سے بددل ہوگئے اورانہوں نے حرف شکایت زبان پر لانا شروع کردیا،سلطان مسعود کی اس ہندو نوازی پر اس لئے اور بھی سب کو تعجب ہے کہ مکران کی لڑائی میں ہندو پلٹنوں نے سخت بزدلی اورنامردی دکھائی تھی، اوراس امتحان کے بعد ہرگز کسی کو توقع نہ تھی کہ سلطان مسعود اس طرح ہندوؤں کا گرویدہ ہوجائے گا،آخر خراسان کے ایک جنگل میں سلجوقیوں سے جب معرکہ آرائی ہوئی تو ان ہندو سپاہیوں نے سب سے پہلے فرار کی عار گوار کرکے سلطان مسعود اوراُس کی افغانی فوج کو خطرہ اورہلاکت میں مبتلا کردیا،چند جاں نثاروں کی پامردی سے سلطان مسعود اپنی جان تو بچالایا مگر شکست فاش کی ندامت اپنے ہمراہ لایا،اس شکست کے بعد سلطان مسعود پر کچھ ایسی بددلی اورکم ہمتی طاری ہوئی کہ اُس نے اپنے وزیر اوراپنے بیٹے مودود کو غزنین میں چھوڑ کر اورتمام اموال وخزائن اونٹوں ہاتھیوں چھکڑوں اورآدمیوں پر لدواکر اورہمراہ لے کر ہندو سرداروں کے ساتھ اس ارادے سے ہندوستان کی طرف روانہ ہوا کہ لاہور کو دارسلطنت بناؤں گا اور وہیں قیام کروں گا، چونکہ سلطان مسعود نے اپنا یہ ارادہ پہلے ہی غزنین میں ظاہر کردیا تھا،لہذا وہاں کے سرداروں اور امیروں نے سلطان کو اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی اورسمجھایا کہ اس شکست کا تدارک انشاء اللہ تعالیٰ بہت جلد ہوجائے گی، اورہم سلجوقیوں کو مارا کر خراسان سے بھگادیں گے،اپنے باپ کے دارالحکومت کو آپ نہ چھوڑیں، مگر مسعود پر کوئی اثر نہ ہوا،اورغزنین کے خزانے میں جھاڑ دے کر اورتمام جواہرات ،نقدی،زیورات حتیٰ کہ ظروف اورقیمتی کپڑے تک بھی سب کے سب لے کر غزنین سے چل دیا اور اپنے بیٹے مودود کو جوا ن دنوں بلخ وبدکشاں کی طرف تھا خط لکھ کر بھیج دیا،کہ ‘‘ میں تم کو غزنین وخراسان وغیرہ کا حاکم مقرر کرتا ہوں،اورمیرے پاس سے تمہارے نام احکام وفرامین اورمناسب ہدایات پہنچتی رہیں گی،اُن پر عمل کرنا اور ترکوں سے ملک کو پاک کرنے کی کوشش میں مصروف رہنا’’ یہاں تک کہ معہ سامان جب دریا ئے سندھ کو عبور کیا تو اس طرف آتے ہی ہندو پلٹنوں اور ہندو سرداروں نے جو ہمراہ تھے،آنکھیں بدلیں اورسب کے سب شاہی کزانے پر ٹوٹ پڑے،وہ تمام خزانہ جو سبکتگن اورمحمود غزنوی نے چالیس بچاس سال کے عرصہ میں جمع کیا تھا،ذراسی دیر میں دریائے سندھ کے کنارے ہندوؤں نے لوٹ لیا اورسلطان مسعود کو مسلمانوں کی اس مختصر جماعت کے ساتھ چھوڑ کر منتشر ہوگئے۔ اس دل شکن اورروح فرسا نظارہ کو دیکھ کر مسلمانوں کی اس مختصر جمعیت نے سلطان مسعود کو اس کے اختلال ودماغی کے سبب معزول کردیا اوراُس کے بھائی محمد کوجونا بینا اور اس سفر میں مسعود کے ہمراہ قید کی حالت میں تھا آزاد کرکے اپنا بادشاہ بنایا،محمد کے بادشاہ ہونے کا حال سُن کر ہندو فوج کے بہت سے آدمی پھر محمد کے گرد آکر جمع ہوگئے؛کیونکہ اُن کو اب اس بات کا خوف نہ تھا کہ مسعود ہم سے انتقام لے سکے گا، مسعود جب گرفتارہوکر محمد کے سامنے پیش کیا گیا تو محمد نے بھائی سے اپنی آنکھوں کا بدلہ نہیں لیا ؛بلکہ صرف یہ دریافت کیا کہ تم اپنے لئے اب کیا پسند کرتے ہو،مسعودنے کہا کہ مجھ کو قلعہ کری میں رہنے کی اجازت دی جائے؛چنانچہ محمد نے اس کو قلعہ کری میں معہ ال وعیال بھجوادیا اوراپنے نام کا سکہ خطبہ پبجاب اورسرحدی علاقہ میں جاری کیا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے احمد نے باپ کی اجازت واطلاع کے بغیر قلعہ کری میں جاکر اپنے چچا مسعود سے اپنے باپ کی آنکھوں کا بدلہ اس طرح لیا کہ اُس کو قتل کردیا،یہ حال سُن کر محمد کو ملال ہو، اوراپنے بھتیجے مودود کے پاس جو بلخ میں تھا، پیغام بھیجا کہ تیرے باپ مسعود کو میں نے اپنے حکم سے قتل نہیں کرایا؛بلکہ احمد نے میرے منشا کے خلاف یہ ناشائستہ حرکت کی ہےمودود جو بلخ میں سلجوقیوں کے خلاف مہم تیار کرہا تھا،اس خبر کو سنتے ہی فوج لے کر چلا،ادھر سے دریائے سندھ کے کنارے محمد کی فوج نے اُس کو روکا لڑائی ہوئی جس میں مودود کو فتح ہوئی اورمحمد اوراس کے تمام اہل وعیال کو مودونے گرفتار کرکے اپنے باپ کے انتقام میں قتل کیا،اس کے بعد مودود غزنین جاکر ۴۳۵ ھ میں علی کے بعد عبدالرشید بن مودود تخت نشین ہوا،مگر چند ہی روز کے بعد ایک سردار طغرل نامی نے عبدالرشید کو قتل کرکے تاج شاہی اپنے سرپر رکھا،مگر امرائے سلطنت نے بہت جلد متفق ہوکر طغرل کو قتل کیا اور ۴۴۴ھ میں فرخ زاد بن مسعود کو غزنی کے تخت پر بٹھایا۔ فرخ زاد نے تخت نشین ہوکر ہمت وقابلیت کا اظہار کیا اورلشکر فراہم کرکے خراسان کو سلجوقیوں کے قبضے سے نکالنے کی کوشش کی،ابتداءً کئی لڑائیوں میں فرخ زاد کو سلجوقیوں پر فتح حاصل ہوئی،مگر آخر جب الپ ارسلان سلجوقی سے مقابلہ ہوا،توغزنی کے لشکر کو شکست ہوئی اور خراسان کے ملک پر فرخ زاد کو قبضہ حاصل نہ ہوسکا۔ ۴۵۰ھ میں فرخ زاد کے بعد اس کا بھائی ابراہیم بن مسعود تخت نشین ہوا،سلطان ابراہیم غزنوی بڑانیک ،عابد،بہادر اورعقلمند شخص تھا،اُس نے تخت نشین ہوکر یہی مناسب سمجھا کہ سلجوقیوں کے ساتھ صلح کرلی جائے؛چنانچہ سلجوقیوں نے نہایت خوشی کے ساتھ صلح کرلی،اس صلح کے بعد وہ اپنے آپ کو خراسان کا جائز حکمران سمجھنے لگے،اورآئندہ کے لئے غزنویوں اورسلجوقیوں کے درمیان جنگ وپیکارکا سلسلہ بند ہوا، اس طرف سے مطمئن ہوکر سلطان ابراہیم نے ہندوستان کی طرف توجہ کی اب تک غزنی کے سلاطین چونکہ اپنے مقامی جھگڑوں اورسلجوقیوں کی لڑائیوں میں مصروف تھے لہذا عرصہ سے ہندوستان کی طرف توجہ نہیں ہوسکی تھی،اس عرصہ میں ہندوستان کے اکثر سردار اورراجے خود مختار ہوکر باج وخراج کی ادائیگی سے گریز کرنے لگے تھے،سلطان ابراہیم نے ہندوستان کے سرکشوں پر متعدد حملے کئے اور اس طرف اپنی حکومت کو خوب مضبوط ومستقل بنایا،سلطان ابراہیم نے ۴۲یا ۴۳ سال حکومت کی اور۴۹۳ ھ میں وفات پائی۔ اس کے بعد مسعود بن ابراہیم تخت نشین ہوا اور۱۶ سال حکمراں رہ کر ۵۰۹ ھ میں فوت ہوا ،مسعود بن ابراہیم نے کچھ عرصہ کے لئے لاہور کو بھی اپنا دارالسلطنت بنایا تھا۔ مسعود کے بعد اُس کا بیٹا ارسلان تخت نشین ہوا اور تین سال تک حکومت کی ۵۱۲ھ میں سلطان سنجر سلجوقی نے غزنین کو فتح کرکے ارسلان کے بھائی بہرام بن مسعود بن ابراہیم کو غزنی کے تخت پر بٹھایا۔ بہرام نے ۳۵سال سے زیادہ عرصہ تک حکومت کی،ہندوستان پر اس نے بھی باغیوں کی گوشمالی کے لئے متعدد حملے کئے اورلاہور میں اکثر مقیم رہا، اسی کے عہد حکومت میں کتاب کلیلہ دمنہ لکھی گئی،خمسہ نظامی بھی اسی کے عہد کی تصنیف ہے،سلطان بہرام کے آخری عہد میں غوریوں نے غزنی پر حملہ کرکے بہرام کو غزنین میں بے دخل کردیا،وہ بھاگ کر ہندوستان کی طرف چلاآیا اورلاہور میں ۵۴۷ھ میں فوت ہوا،اب غزنویوں کے قبضہ میں صرف ہندوستان یعنی پنجاب کا ملک رہ گیا تھا،غزنین وغیرہ پر غوریوں کی حکومت ہوگئی تھی۔ بہرام کی وفات کے بعد لاہور میں اُس کا بیٹا خسرو شاہ تخت نشین ہوا،اس نے غزنین کو غوریوں کے قبضے سے نکالنے اورواپس لینے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا ،آخر آٹھ سال پنجاب پر حکومت کرنے کے بعد لاہور میں فوت ہوا۔ اُس کے بعد اُس کا بیٹا خسرو ملک بن خسروشاہ ۵۵۵ھ میں مقام لاہور تخت نشین ہوا،خسروملک کو غوریوں نے گرفتار کرکے پنجاب پر بھی قبضہ کرلیا،اس طرح دولتِ غزنویہ کا خاتمہ ہوکر اُس کا صرف افسانہ باقی رہ گیا۔