انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مکہ میں داخلہ قریش سے لڑائی کی نوبت نہیں آئی اور حضور ﷺ ۲۰ رمضان کو فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے ، ارشاد ہوا ! جو اللہ کی شہادت دے کر مسلمان ہوجائے اسے امان ہے، جو صحنِ کعبہ میں پناہ لے اسے امان ہے ، جو ہتھیار پھینک دے اسے امان ہے ، جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اسے امان ہے بجز سولہ افراد کے جو امان سے محروم ہیں، حضرت عباسؓ نے عرض کیا… یا رسول اللہ ! ابو سفیان اپنی قوم کے سردار ہیں ان کے لئے بھی کوئی ایسی خصوصیت ہو جو اعزاز و اکرام کا باعث ہو ، آپﷺ نے ارشاد فرمایا ! جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے اسے امان ہے اور جو شخص حکیم بن حزام کے مکان میں پناہ لے اسے بھی امان ہے ، ابو سفیان کا مکان مکہ کی چوٹی پر اور حکیم بن حزام کا نشیب میں تھا، حضرت ابو سفیانؓ اور حضرت حکیم ؓبن حزام کے مکانوں کو دارالامن بنانے کا فیصلہ بے وجہ نہیں کیا گیا تھا، مکی دور میں ایک مرتبہ مشرکین نے آنحضرت ﷺ کو بہت ستایا تھا، حضرت ابو سفیانؓ حضورﷺ کو ان سے بچا کر اپنے گھر لے گئے اور پناہ دی تھی، یہ اسی احسان کابدلہ تھا جو حضور ﷺ نے دیا اور حضرت ابو سفیانؓ کے گھر کو مامن قرار دیا، ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ غزوۂ بدر کے بعد حضرت زینب ؓ ( حضور ﷺ کی صاحبزادی ) زوجہ حضرت ابو العاصؓ مکہ سے تشریف لے جا رہی تھیں کہ راستہ میں ہباربن اسود نے آپ کے اونٹ کو روک لیا اور کجادے کی رسی کو کاٹ دیا جس کی وجہ سے اونٹ گر گیا اور حضرت زینبؓ کا حمل ساقط ہوگیا، اس وقت بھی ابو سفیانؓ نے ان کی مدد کی اور حضرت زینبؓ کو اپنے گھر لے گئے اور ان کی تیمارداری کی اور جب وہ اس قابل ہوگئیں کہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں تو انہیں مدینہ روانہ کردیا ، ان کے اس احسان کا بدلہ حضور ﷺ نے بہتر طریقہ سے چُکایا، اسی طرح حضرت حکیمؓ بن حزام نے بھی شعب ابو طالب کی محصوری کے زمانہ میں جبکہ ابو طالب معہ آل بنی ہاشم کے پناہ گزیں تھے اُن سے نہایت ہمدردانہ سلوک کیا تھا، وہ اکثر رات کے وقت اونٹوں پر غلہ لاد کر شعب میں ہانک دیا کرتے تھے، اس کے علاوہ غزوۂ بدر کے موقع پر سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ کو لڑائی سے باز رہنے پرحضرت حکیمؓ بن حزام نے راضی کر لیا تھا، حضرت حکیمؓ بن حزام ، اُم المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بھتیجے تھے اور ان کا مکان حضرت خدیجہؓ کا آبائی مکان تھا ، ان کے ان احسانات کا بدلہ حضور ﷺ نے بہتر طریقہ میں عطا کیا اور ان کے گھر کو دار الامن قرار دیا، حضوراکرم ﷺ نے ممکنہ تدابیر اختیار فرمائیں کہ معاملات بغیر جنگ کے طئے ہو جائیں اور خونریزی نہ ہو ، دراصل حضور ﷺ یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی ہیبت سرداران قریش کے دلوں پر بیٹھ جائے اور وہ اہل مکہ کو سمجھائیں کہ خون خرابے کے بغیر ہتھیار ڈال دیں ، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جنگ کی نوبت نہیں آئی، حضرت خالد ؓ بن ولید اور عکرمہ بن ابو جہل کا مقابلہ: تا ہم قریش کے ایک گروہ نے جس میں سفیان بن اُمیہ، سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابو جہل تھے حضرت خالدؓ بن ولید کی فوج پر تیر برسائے اور معمولی جھڑپ ہوئی، نتیجہ یہ ہواکہ قریش کے چوبیس آدمی اور ہذیل کے چار آدمی قتل ہوئے اور مسلمانوں میں سے تین حضرات یعنی حضرت کر زبن جابری فہری ، حضرت جیش بن اشعر اء اور حضرت سلمہ بن الیلا نے شہادت پائی ، حضرت خالدؓ نے مجبور ہوکر حملہ کیا ، یہ لوگ تیرہ لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے، اشرار کے بھاگ جانے کے بعد مسلمان خاموشی کے ساتھ مکہ کی آبادی میں سے گذرنے لگے ، مشرک عورتیں بال کھولے راستوں پر کھڑی مجاہدوں کے گھوڑوں کے منہ پر اپنی اوڑھنیاں مارنے لگیں ، حضوراکرم ﷺ نے جب یہ منظر دیکھا تو بے اختیار مسکرا کر حضرت ابو بکرؓ صدیق سے فرمایا: حسّان نے کیا کہا تھا ، حضرت ابو بکرؓ نے حضرت حسّان ؓبن ثابت کا یہ شعر پڑھا جس کا مطلب ہے ، " عنقریب ہمارے گھوڑے دوڑتے چلے آتے ہوں گے اور عورتیں ان کو اوڑھنیوں سے مار رہی ہوں گی"