انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** شخصی جمہوری سلطنت اسلام نے دنیا میں جس قسم کی حکومت کرنی چاہی ہے اورجونمونہ صدر اسلام میں پیش کیاہے اُس کو شخصی جمہوری سلطنت کے نام سے موسوم کرتے ہیں، اسلام کا مجوزہ نظامِ حکومت خالص جمہوری اورخالص شخصی سلطنتوں کی درمیانی حالت سمجھنا چاہئے،خلیفہ یا شہنشاہ یا حکمراں کے انتخاب میں ہر اسلامی طبقہ کو اظہار رائے کا موقع حاصل ہوتا ہے، مستحق حکومت وخلافت اورمسلمانوں کے بہترین شخص کے انتخاب میں تمام وہ صورتیں اختیار کرلینی جائز ہیں جن کے ذریعہ کا امکان ہے اوربہترین شخص کا تعین ہوجائے کسی اساسی قانون یا دستور العمل یا جدید نظامِ حکومت کے بنانے کی مسلمانوں کو ضرورت ہی نہیں کیونکہ قرآن مجید اورسنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس موجود ہے،پس بہترین شخصیت کے انتخاب کر لینے کا کا م بھی مسلمانوں کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے جو شخص قرآن وحدیث سے زیادہ واقف اوراس کی زندگی قرآن وسنت کے سانچے میں زیادہ ڈھلی ہوئی نظر آتی ہو وہ زیادہ مستحق اس امر کا ہے کہ مسلمانوں کا حاکم بنایا جائے،قرآن وحدیث کی تعلیمات کے موافق ملک وقوم کو چلانا اوراحکامِ خدا ورسول کو نافذ کرنا مسلمانوں کے حاکم کا خاص کام ہے مسلمان اپنے حکمراں کو اگر وہ خدا اور رسول کے حکم کی مخالفت میں کوئی حرکت کرے فوراً روک اورٹوک سکتے ہیں لیکن اس کے ہر ایک حکم کی تعمیل کو جو قرآن وسنت وحدیث کے خلاف نہ ہو ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ ضروری سمجھے اور اس سے بغاوت وسرکشی کاخیال تک بھی دل میں نہ آنےدے،مسلمانوں کا حکمراں اگر بے راہ روی اور خدا ورسول کے صاف احکام کی خلاف ورزی اختیار کرے تو فوراً معزول کیا جاسکتا ہے لیکن اگر وہ اپنے فرائض اورملک و قوم کی خدمات خدا ترسی اورنیک نیتی کے ساتھ بجا لاتا ہے تو اس سے بڑھ کر اورکیا حماقت ہوسکتی ہے کہ ایک تجربہ کار، مفید ملک و قوم نیک طینت اورقیمتی شخص کو محض اس لئےبرطرف کیا جائے اور نئے شخص کے انتخاب کی زحمت گوار ا کی جائے کہ اس سے پہلے خلیفہ یا حکمراں کو تین یا پانچ سال کی مدت گذر چکی ہے،مسلمانوں کا خلیفہ در حقیقت مسلمانوں کا خادم یا مسلمانوں کا چوکیدار وپاسبان یا امین ہوتا ہے پس کسی خادم یا پاسبان یا امین کو اگر وہ اپنے فرائض عمدگی سے بجا لاتا ہے ہم کیوں اس کے فرائض سے ہٹائیں اور کسی نئے تجربہ کی مصیبت میں اپنے آپ کو مبتلا کریں،مسلمان اپنے خلیفہ سے کوئی قانون بنوانا نہیں چاہتے، مسلمان اپنے خلیفہ کو اپنے روپیہ سے عیش پرستی و تن پروری کا موقع بھی نہیں دینا چاہتے، مسلمانوں کا خلیفہ ایک نہایت معتدل اورمعقول نظام کے ماتحت امیروں سے بقدر مناسب مال ودولت وصول کرتا اوراُس کو غریبوں، مفلسوں ،یتیموں وغیرہ حاجتمندوں کے لئے خرچ کرتا ہے،مسلمانوں کی سلطنت کا تمام خزانہ مسلمانوں کا مشترکہ مال ہے اور ا نہیں کی فلاح وبہبود کے لئے خرچ ہوتا ہے نہ یہ کہ مسلمانوں کا خلیفہ یا بادشاہ اُس کو ذاتی ملکیت سمجھے اوراپنے اختیار سے جو چاہے کرے مسلمانوں کی سلطنت میں چونکہ امرا سے ایک مناسب ٹیکس وصول کیا جاتا اور محتاجوں کو دیا جاتا ہے،لہذا قوم میں سرمایہ داروں اورمزدوری پیشہ لوگوں کے درمیان وہ کش مکش پیدا ہی نہیں ہوسکتی جس میں آج تمام یورپ گرفتار ہے، مسلمانوں کا خلیفہ مسلمانوں کاچوکیدار وپاسبان بھی ہوتا ہے اوران کاسرپرست ومربی بھی،وہ مسلمانوں کا باپ بھی ہوتا ہے اور ان کا اُستاد پیربھی، مسلمانوں کا خلیفہ مسلمانوں کا اتالیق بھی ہوتا ہے اور ان کا سپہ سالار بھی ،وہ مسلمانوں کا خادم بھی ہوتا ہے اوراُن کا شہنشاہ بھی ،اگر کوئی اہم معاملہ پیش آجائےمثلاً کسی ملک پر چڑھائی یا کسی قوم سے لڑائی کرنی ہو،کسی سے صلح کرنی ہو،کسی کی مدد کے لئے فوج بھیجنی ہو، مسلمانوں کی حفاظت اورملک کے امن وامان کی خاطر کونسی مؤثر تدبیر اختیار کرنی چاہئے وغیرہ ایسے تمام اہم معاملات میں مسلمانوں کا خلیفہ مسلمانوں سے ضرور مشورہ کرتا ہے؛ کیونکہ قرآن کریم نے ایسا ہی حکم دیا ہے،لیکن اس مشورے کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ عام لوگ اپنی کثرت رائے سے خلیفہ وقت اورملک و قوم کے حکمراں کی رائے کو معطل کرکے اُس کے خلاف منشاء عمل در آمد کرانے پر مجبور کرسکیں ؛بلکہ اس مشورے کا منشاء صرف یہ ہوتا ہے کہ خلیفۂ وقت کو ایک رائے قائم کرلینے میں مدد ملے، یعنی خلیفہ سب کی رائے سنتا اورمخالف وموافق دلائل سے آگاہی حاصل کرتا اورآخر میں ایک بہترین رائے قائم کرکے اُس پر عمل درآمد شروع کردیتا ہے۔"وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ" مذکورہ بالا نظامِ حکومت جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے،خلافت راشدہ میں اس کا نمونہ نظر آسکتا ہے،خلافتِ راشدہ کے بعد مسلمانوں کی حکومت کا نظام عام طور پر شخصی وراثتی سلطنت میں تبدیل ہوگیا، لیکن تعلیم اسلام کی خوبیوں اوراسلامی اخلاق کے جلوے اکثر ملکوں اوراکثر خاندانوں کی حکومت میں نمایاں طور پر نظر آتے رہے اور مجموعی طور پر مسلمانوں نے جیسے حکومت کی ایسی اچھی اور قابلِ تعریف حکومت کسی دوسری قوم کو میسر نہیں آئی،جمہوری حکومت جس کی مثالیں یورپ وامریکہ پیش کررہے ہیں،ہرگز ہرگز اُس نظامِ حکومت کا مقابلہ نہیں کرسکتی جو اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔