انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اس کے دوسرے دن پھر ابن عباسؓ آئے اورکہا "ابن عم میرا دل نہیں مانتا، صبر کی صورت بنانا چاہتا ہوں،مگر حقیقۃ ًصبر نہیں کرسکتا، مجھے اس راستہ میں تمہاری ہلاکت کاخوف ہے، عراقیوں کی قوم فریبی ہے ،تم ہر گز ان کے قریب نہ جاؤ، مکہ ہی میں رہو، تم اہل حجاز کے سردار ہو، اگر ان کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ وہ واقعی تمہیں بلانا چاہتے ہیں تو ان کو لکھو کہ پہلے وہ اپنے دشمنوں کو نکال دیں،پھر تم جاؤ،لیکن اگر نہیں رکتے اوریہاں سے جانے ہی پر اصرار ہے تو یمن چلے جاؤ، وہ ایک وسیع ملک ہے وہاں قلعے اورگھاٹیاں ہیں تمہارے باپ کے حامی ہیں اور بالکل الگ تھلگ مقام ہے، تم اسی گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر لوگوں کو دعوتی خطوط لکھو اورہر طرف اپنے دعاۃ بھیجو، مجھ کو امید ہے کہ اس طرح امن و عافیت کے ساتھ تمہارا مقصد حاصل ہوجائے گا ،یہ سن کر حضرت حسینؓ نے فرمایا مجھ کو یقین ہے کہ آپ میرے شفیق ناصح ہیں ،لیکن اب تو میں ارادہ کرچکا ہوں، حضرت ابن عباسؓ جب بالکل مایوس ہوچکے تو فرمایا، اچھا اگر جاتے ہی ہو تو عورتوں اوربچوں کو ساتھ نہ لے جاؤ، مجھ کو خطرہ ہے کہ تم بھی عثمانؓ کی طرح اپنے بچوں اور عورتوں کے سامنے نہ قتل کردیئے جاؤ اور وہ غریب دیکھتے رہ جائیں، لیکن کار کنانِ قضا وقدر کو کچھ اور ہی منظور تھا، اس لیے ابن عباسؓ کی ساری کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اورحضرت حسینؓ کسی بات پر رضامندنہ ہوئے، (طبری:۷/۲۷۲،۲۷۵) پھر ابوبکر بن حارث نے آکر عرض کیا کہ آپ کے والد ماجد صاحب اقتدار تھے ان کی طرف مسلمانوں کا عام رجحان تھا ان کے احکام پر سرجھکاتے تھے،شام کے علاوہ تمام ممالک اسلامیہ ان کے ساتھ تھے، اس اثر واقتدار کے باوجود جب وہ معاویہ کے مقابلہ میں نکلے تو دنیا کی طمع میں لوگوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا،تنہا ساتھ ہی چھوڑنے پر اکتفا نہیں کیا ؛بلکہ ان کے سخت مخالف ہوگئے اورخدا کی مرضی پوری ہوکر رہی ان کے بعد عراقیوں نے آپ کے بھائی کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی آپ کی نگاہ کے سامنے ہے، ان تجربات کے بعد بھی آپ اپنے والد کے دشمنوں کے پاس اس امید پر جاتے ہیں کہ وہ آپ کا ساتھ دیں گے، شامی آپ سے زیادہ مستعد اورمضبوط ہیں،لوگوں کے دلوں میں ان کا رعب ہے، یاد رکھئے کہ آپ کے پہنچتے ہی شامی کوفیوں کو طمع دلا کر توڑلیں گے اوریہ سگِ دنیا فوراً ان سے مل جائیں گے اورجن لوگوں کو آپ کی محبت کا دعویٰ ہے اور جنہوں نے مدد کا وعدہ کیا ہے وہی لوگ آپ کو چھوڑ کر آپ کے دشمن بن جائیں گے،ابوبکر حارث کا یہ پرزور استدلال بھی حضرت حسینؓ کے عزم راسخ کو بدل نہ سکا ،آپ نے جواب دیا خدا کی مرضی پوری ہوکر رہے گی (مسعودی:۳/۴۵۷،برحاشیہ نفع الطیب)اس کے بعد حضرت ابن عمرؓ اوردوسرے خاص خاص ہوا خواہوں نے روکنا چاہا، لیکن قضائے الہی نہیں ٹل سکتی تھی۔