انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عبداللہ بن الزبیر الحمیدیؒ نام ونسب عبداللہ نام،ابوبکر کنیت،پورا سلسلہ نسب یہ ہے،عبداللہ بن الزبیر بن عیسیٰ بن عبیداللہ بن اسامہ بن عبداللہ بن حمید بن زہیر بن الحارث بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی۔ (توالی التاسیس لابن حجر:۳۷) خاندان اوروطن امام حمیدی نسلاً خالص عرب تھے،مکہ معظمہ کی خاک پاک سے اُٹھے اورآخر میں اسی کا پیوند بنے،جیسا کہ مذکورہ بالا مفصل نسب نامہ سے ظاہر ہے،قریش کے مشہور خاندان اسد بن عبدالعزیٰ کی ایک معزز شاخ بنو حمید سے نسبی تعلق رکھتے تھے۔ اس باعث اسدی،مکی،قرشی اورحمیدی کی نسبتوں سے مشہور ہوئے،ان میں آخر الذکر نسبت کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بعض علماء کا اختلاف ہے،لیکن اصح ومرجح یہی ہے کہ بنو حمید کے خاندان والے حمیدی کہلاتے ہیں،حافظ ابن اثیر نے اسی کو اختیار کیا اور علامہ سمعانی نے ارجح قرار دیا ہے،اصمعی کے اس قول سے بھی اس کی مزید تائید ہوتی ہے: حمید یون کلھم من بنی اسد بن قریش (اللباب فی تہذیب الانساب:۱/۳۲۱ وکتاب الانساب ورق:۱۷۷) تمام حمیدی بنو اسد بن قریش کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ فضل وکمال امام حمیدی ان نامور اہل علم اتباع تابعین میں تھے، جنہوں نے نہ صرف علم وعمل کے چراغ روشن کیے ؛بلکہ قرطاس وقلم کے ذریعہ زروجواہر کے انبار لگادیئے،ان کی شہرہ آفاق مسند حدیث کے قدیم ترین اورمستند ذخیروں میں شمار کی جاتی ہے،امام بخاری جیسے محتاط محدث ان کی روایت کو اپنی جامع کا سرآغاز بناتے ہیں،حدیث میں خصوصی فیضان رکھنے کے ساتھ انہیں فقہ وافتاء پر کامل عبور حاصل تھا، اپنے گوناگوں علمی کمالات کی وجہ سے "عالم اھل مکۃ" ان کا لقب ہی پڑ گیا، تمام اربابِ تذکرہ بہت نمایاں طور پر ان کے فضل وکمال کا اعتراف کرتے ہیں۔ چنانچہ حافظ ذہبی "الامام العلم الحافظ الفقیہ"لکھتے ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۲/۲) ابن عماد الحنبلی"کان اماما حجۃ"علامہ زرکلی احد الائمۃ فی الحدیث اورسبکی، محدث مکۃ وفقیھھا تحریر فرماتے ہیں (شذرات الذہب:۲/۴۵،الاعلام :۲/۱۵۵۷،طبقات الشافعیہ:۱/۲۶۳) حافظ جلال الدین السیوطی رقم طراز ہیں:"احد الائمۃ صاحب المسند" (حسن المحاضرۃ :۱/۱۴۶) شیوخ امام حمیدی کی جلالتِ مرتبت اورتبحرِ علمی کا مزید ثبوت ان کے شُیوخ واساتذہ کی طویل فہرست پر ایک نظر ڈالنے سے مل جاتا ہے،جس میں امام شافعی، مسلم بن خالد، فضیل بن عیاض جیسے فخر زمانہ ائمہ کے نام ملتے ہیں، کہاجاتا ہے کہ وہ حضرت سفیان بن عیینہ کے کیسۂ فیض سے کامل بیس سال تک مستفید ہوتے رہے (الانساب للسبعانی:۱۷۷) حافظ ابن حجر رقم طراز ہیں: صحب ابن عینیۃ فاکثر عنہ وھو من اصح الناس عنہ حدیثاً (توالی التاسیس :۳۷) انہوں نے حضرت سفیان بن عیینہ کی بڑی صحبت اُٹھائی اوراسی باعث ان سے بکثرت روایتوں کا سماع حاصل کیا۔ چنانچہ تمام لوگوں میں ابن عیینہ سے سب سے زیادہ صحیح الروایت ہیں۔ ان کے علاوہ حمیدی نے جن علماء سے اکتساب علم کیا ان میں کچھ کے نام یہ ہیں: ابراہیم بن سعد، ولید بن مسلم، وکیع ابن الجراح الرواسی،مروان ابن معاویہ، عبدالعزیز بن ابی حازم،دراوردی،بشر بن بکر التینسی۔ (تہذیب التہذیب:۵/۲۱۵) تلامذہ خودان کے چراغِ علم سے روشنی حاصل کرنے والے تلامذہ میں بلند پایہ ماہرین فن شامل تھے،چند ممتاز نام یہ ہیں، امام بخاری،محمد بن یحییٰ الذہلی، ابوزرعہ،ابو حاتم،بشر بن موسیٰ،سلمہ بن نسیب،یعقوب بن سفیان،محمد بن یوسف السنائی،عبداللہ بن فضالہ،محمد بن احمد القرشی،احمد بن ازہر نیشاپوری،یعقوب بن شیبہ ،محمد بن یسخر،یوسف بن موسیٰ القطان،اسماعیل بن سمویہ،محمد بن یونس الکدیمی،ہارون الحمال،امام بخاری ان کے خاص فیض یافتہ تھے،اور وہ اپنے استاد سے اس درجہ متاثر تھے کہ جامع صحیح میں ۷۵۱ حدیثیں ان کے واسطہ سے روایت کی ہیں،مزید برآں امام مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، اورابن ماجہ نے بھی بواسطہ ان سے روایت کی ہے۔ (تہذیب التہذیب:۵/۲۱۵) حفظ وضبط حافظہ کی قوت بلا کی پائی تھی جس کی بدولت حدیث کا ایک وسیع سرمایہ ان کے دماغ میں محفوظ تھا؛چنانچہ اہلِ نظر محققین نے مستند ذرائع سے لکھا ہے کہ امام حمیدی کو اپنے شیخ سفیان بن عیینہ کی مرویات سے دس ہزار حدیثیں زبانی یاد تھیں (طبقات الشافعیہ:۱/۲۶۴)اسی باعث علامہ ابنِ سعد ان کو کثیر الحدیث لکھتے ہیں۔ ثقاہت وعدالت ثقہ شیوخ حدیث کے فیضان نے ان کی روایات کو بھی استناد وحجیت کے بلند ترین مقام پر پہنچادیا تھا، ماہرین فن متفقہ طورپر تسلیم کرتے ہیں کہ حمیدی کی مرویات اسناد کے اعتبار سے جس اعلیٰ پایہ کی ہیں،اس کے بعد کسی بلندی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ،حد وانتہاء ہے کہ امام بخاری نے ان ہی کی روایت سے اپنی جامع صحیح کا آغاز کیا ہے اوربقول ابن حجر وہ امام حمیدی پر اتنا اعتماد کرتے تھے کہ ان کی روایت ملنے کے بعد وہ کسی دوسرے کی مرویات کو خاطر میں نہ لاتے تھے (توالی التاسیس:۳۷)ابو حاتم کا بیان ہے کہ ھو اثبت الناس فی ابن عیینۃ وھورائیس اصحابہ وھو ثقۃ امام (تہذیب التہذیب:۵/۲۱۵،حسن المحاضرہ:۱/۱۴۶) وہ سفیان بن عیینہ کی مرویات کے بارے میں سب سے زیادہ ثبت تھے اور وہ ان کے تلامذہ کے سرخیل تھے،اسی طرح وہ ثقہ امام تھے۔ علاوہ ازیں ابن حبان ، ابو حاتم،ابن سعد اورحاکم نے بھی ان کی توثیق کی ہے۔ (طبقات الشافعیہ:۱/۲۶۳،وتذکرۃ الحفاظ:۲/۳) فقہ وافتاء حدیث کی طرح فقہ میں بھی امتیازی حیثیت حاصل تھی، امام شافعیؒ سے اس فن میں خصوصی مہارت پیدا کی اورجب وہ مصر تشریف لے گئے،تو حمیدی بھی ان کے ہمراہ رہے،اس طرح وہ امام صاحب کے بکثرت اجتہادات کے امین تھے،مصر میں اپنے شیخ کی وفات کے بعد مکہ واپس آگئے اوروہاں مفتی وفقیہ کی حیثیت سے بڑی شہرت پائی،حافظ سیوطی نے لکھا ہے کہ وہ مکہ میں افتاء کا مرکز بن گئے تھے،امام بخاریؒ نے ان سے فقہ کی بھی تحصیل کی تھی جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے نقل کیا ہے۔ جزم وکل من ترجم البخاری بان الحمیدی من شیوخہ فی الفقہ والحدیث (حسن المحاضرہ:۱/۱۴۶) امام بخاریؒ کے تذکرہ نویسوں نے بوثوق لکھا ہے کہ وہ فقہ وحدیث میں امام حمیدی کے شاگرد تھے۔ حاکم کا بیان ہے کہ حمیدی مکہ کے مشہور مفتی،فقیہ اور محدث تھے۔ (فتح الباری:۱/۱۱) اعترافِ عُلماء امام حمیدی کے فضل وتقدم اور بلندی شان کا اعتراف بکثرت علماء نے کیا ہے،جن میں نہ صرف ان کے تلامذہ اورہم عصر اہل علم ؛بلکہ ان کے بعض شیوخ کے اسمائے گرامی بھی شامل ہیں؛چنانچہ ربیع بن سلیمان المرادی سے مروی ہے کہ امام شافعیؒ اکثر فرمایا کرتے: مارأیت صاحب بلغم احفظ من الحمیدی (طبقات الشافعیہ:/۲۶۳) میں نے حمیدی سے بڑا حافظ نہیں دیکھا۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں: حمیدیؒ، شافعیؒ،اورابن راہویہ میں ہر ایک امام تھا۔ (شذرات الذہب:۲/۴۵) ابن عدی کا بیان ہے کہ "کان من خیار الناس" (توالی التاسیس :۳۵) حاکم کہتےہیں: ھولا ھل الحجاز فی السنۃ کاحمد بن حنبل لاھل العراق (طبقات الشافعیہ :۱/۲۶۲) وہ حدیث میں اہلِ حجاز کے لیے وہی مقام رکھتے تھے،جو عراق میں امام احمد کو حاصل تھا۔ امام بخاریؒ شہادت دیتے ہیں کہ حمیدی حدیث میں امام تھے۔ (طبقات الشافعیہ:۱/۲۶۲) یعقوب بن سفیان کا ارشادہے: حدثنا الحمیدی ومالقیت انصح للاسلام واھلہ منہ (تہذیب التہذیب :۵/۲۱۵) حمیدی نے ہم سے حدیث بیان کی اورہم نے ان سے بڑھ کر کسی کو اسلام اورمسلمانوں کا خیر خواہ نہیں دیکھا۔ شمائل ومناقب زہد وورع اورپاکبازی ونیک طینتی ان کی سیرت کے روشن پہلو ہیں،سنت نبویﷺکے حد غلو تک متبع تھے اورغالباً اسی باعث اہل رائے کو ناپسند فرماتے تھے،عقائد ونظریات اصول السنہ کے نام سے امام حمیدیؒ کا ایک مختصر رسالہ پایا جاتا ہے،اس کے مطالعہ سے ان کے بعض عقائد اورمسلک پر بڑی وضاحت سے روشنی پڑتی ہے،یہ رسالہ مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی نے اپنی مسند کے آخر میں شامل کردیا ہے،ذیل میں ہم اسی سے حمیدی کے مذہبی خیالات اخذ کرکے درج کرتے ہیں: عقیدۂ قدر کے بارے میں فرماتے ہیں "ہمارے نزدیک سنتِ ثابتہ یہ ہے کہ انسان خیر و شر اورتلخ وشیریں کے بارے میں تقدیر پر کامل ایمان رکھے اوریہ یقین رکھے کہ ہر راحت و مصیبت اللہ جل شانہ کے فیصلہ کے مطابق ہوتی ہے۔ ایمان کے متعلق کہتے ہیں، وہ قول و عمل دونوں کا نام ہے جس میں کمی و بیشی ہوتی ہے، قول بغیر عمل کے بیکار ہے،اورقول وعمل بغیر نیت کے غیر مفید ہیں، اسی طرح اگر قول عمل اورنیت سب ہو لیکن اتباعِ سنت نہ ہو تو اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں،سفیان بن عیینہ فرمایا کرتے تھے "الایمان قول وعمل یزید وینقص"ان کے بھائی ابراہیم بن عیینہ نے کہا اے ابو محمد یہ نہ کہیے کہ ایمان میں کمی ہوتی ہے،یہ سن کر حضرت سفیان غضبناک ہوگئے اورفرمایا، اولڑکے تم خاموش رہو،ایمان یقیناً کم ہوتاہے،یہاں تک کہ بالکل ختم ہوجاتا ہے۔ فرمایا:قرآن پاک خدا کا کلام ہے جو شخص اسے مخلوق کہتا ہے وہ بدعتی ہے۔ فرمایا:صحابہ کرام کا احترام نہایت ضروری ہے،ہر مومن کو ان کے لیے استغفار ودعا کرتے رہنا چاہیے؛کیونکہ خداوندِ قدوس نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے: "وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ" (الحشر:۱۰) اورجو ان کے بعد آئے دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے اورہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں،گناہ معاف فرما،اس میں مسلمانوں کو صحابہؓ کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا ہے،پس جو کوئی ان کو بُرا بھلا کہے وہ سنت سے منحرف ہے اورایسا شخص مالِ غنیمت سے محروم کردیا جائے گا۔ وفات ربیع الاول ۲۱۹ھ میں اپنے وطن مکہ ہی میں رحلت فرمائی، سالِ وفات ۲۲۰ھ بھی بیان کیا جاتا ہے،لیکن اکثر نے اول الذکر ہی کو اختیار کیا ہے۔ (تہذیب التہذیب:۵/۲۱۶،والعبرفی خبر من غبر:۱/۳۷۷) تصنیفات مذکورہ بالا رسالہ اصول السنہ کے علاوہ امام حمیدی کی کئی اورتصانیف کے نام بھی ملتے ہیں جو یہ ہیں: ۱۔کتاب الرد علی النعمان ۲۔کتاب التفسیر ۳۔مسند (مقدمہ مسند حمیدی:۱/۸،بحوالہ کتاب الجرح والتعدیل ،ج۱،ق۱،ص۴۰) مسند:یہ امام حمیدی کی سب سے زیادہ مشہور کتاب ہے جس نے انہیں علم حدیث کی تاریخ میں ایک زندہ جاوید مقام عطا کیا ہے،مختلف ممالک میں مسانید کے مجموعے مرتب کرنے میں جن علماء کو شرف اولیت حاصل ہو اان میں حمیدی کانام بھی ہے ،کہاجاتا ہے کہ مکہ میں سب سے پہلے ان ہی نے مسند تصنیف کی،یہ گیارہ اجزاء پر مشتمل ہے (الرسالۃ المستطرفہ:۵۷) اور اس میں ۱۲۹۳ حدیثیں ہیں،اکثر روایتیں مرفوعاً مروی ہیں اورصحابہ وتابعین کے کچھ آثار بھی اس میں شامل ہیں۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے مسند حمیدی کا آغاز جابر بن عبداللہ کی حدیث کو قرار دیا ہے،لیکن یہ واقعہ کے خلاف ہے، بقول مولانا اعظمی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شاہ صاحب نے کسی غیر مستند نسخہ پر اعتماد کرتے ہوئے ایسا لکھ دیا ہےورنہ جیسا کہ مسند سے ظاہر ہے،حضرت ابو بکر صدیقؓ کی حدیث سے اس کا آغاز ہوا ہے اوریہی تمام اربابِ مسانید کا طریقۂ کار رہا ہے کہ وہ پہلے خلفائے راشدین کی علی الترتیب روایات نقل کرتے ہیں،اس کے بعد عشرہ مبشرہ صحابہ کی حدیثیں اس کے بعد دوسروں کی ،امام حمیدی نے اسی سنت کی اتباع کی ہے۔ مسند کے نسخے ایک زمانہ تک نایاب رہے پھر مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے جو قدیم کتب کی تلاش وتحقیق اورتصحیح وتحشیہ میں شہرت رکھتے ہیں اورجنہوں نے اس سلسلہ کے کئی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، مسند کے کئی مخطوطات کا پتہ چلایا جو دارالعلوم دیوبند مکتبہ سعید یہ، حیدرآبادجامعہ عثمانیہ اوردارالکتب الظاہر یہ دمشق میں محفوظ تھے۔ ان ہی قلمی نسخوں کی مدد سے مولانا اعظمی نے ۱۹۶۳ء میں پہلی بار مسند حمیدی کو دو جلدوں میں اڈٹ کیا ہے اورمجلس العلمی کراچی سے ان کی اشاعت ہوئی، دوسری جلد کے آخر میں رسالہ اصول السنہ بھی شامل ہے۔ مسند کے رواۃ مسند کو امام حمیدی سے بکثرت علماء نے روایت کیا ہے،حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ابو اسماعیل السلمی (۲۸۰ھ) اوربشر بن موسیٰ الاسدی کا نام ذکر کرنے کے بعد "رواۃ غیر واحد" لکھ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ مسند کے اور بھی بہت سے رواۃ ہیں۔ لیکن آج جو مسند ہمارے سامنے موجود ہے وہ امام بشر بن موسیٰ الاسدی سے مروی ہے ،اس کے علاوہ کسی دوسرے کی روایت کردہ مسند کا اب تک سراغ نہیں لگ سکا ہے،ذیل میں بشر کا مختصر تعارف درج کیا جاتا ہے۔ بشر نام، ابو علی کنیت،اورنسب نامہ یہ ہے،بشر بن موسیٰ بن صالح بن شیخ بن عمیرہ بن حبان بن سراقہ بن مرثد بن حمیری (تاریخ بغداد:۷/۸۶)۱۹۰ھ میں پیدا ہوئے،وطن مالوف بغداد تھا،بنواسد کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے،جو فضل وتقدم ،امارت وریاست اورشرافت میں بہت مشہور اورترقی یافتہ خاندان تھا اورحقیقت یہ ہے کہ امام بشر تمام خاندانی خصوصیات کے امین تھے۔ (المنتظم:۶/۲۸) امام بشر نے ابو نعیم فضل بن دکین،روح بن عبادہ،خلاد بن یحییٰ ،ہوذہ بن خلیفہ،عبداللہ بن الزبیر الحمیدی،حسن بن موسیٰ الاشیب،علی بن الجعد،اصمعی،سعید بن منصور،خلف بن الولید اور عمر بن الحکام وغیرہ مشاہیر اہل علم کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اوران کے جملہ کمالات کو اپنے سینے میں منتقل کیا،یہاں تک کہ ان کی جلالتِ مرتبت کی بنا پر امام احمد بن حنبل بھی بایں ہمہ تبحر وفضل ان کی توقیر وتکریم کرتےتھے (تذکرۃ الحفاظ:۲/۱۸۷)دارقطنی کا بیان ہے: بشر بن موسیٰ الاسدی ثقۃ نبیل (تاریخ بغداد:۷/۸۷) بشر بن موسیٰ الاسدی ثقہ اورشریف انسان تھے۔ علامہ ابن الجوزی رقم طراز ہیں: کان ھو فی نفسہ ثقۃ امینا عاقلا رکینا (المنتظم :۶/۲۸) وہ بذاتِ خود نہایت ثقہ امین اوربہت عقلمند تھے۔ ۲۶،ربیع الاول ۲۸۸ھ بروز شنبہ ان کی شمع بغداد میں گل ہوگئی،مقبرہ باب البتن میں تدفین ہوئی،جنازہ میں ایک جمعِ غفیر شریک تھا(تاریخ بغداد:۷/۸۸)کہا جاتا ہے کہ امام بشر آخر زندگی میں اپنی پیری اورضعف کے بارے میں اکثر یہ اشعار پڑھا کرتے تھے: ضعفت ومن جاز الثمانین یضعف وینکرمنہ کل ماکان یعرف ویمشی رویدًا کالا سیر مقیدًا تدانی خطاہ فی الحدید ویرسف (المنتظم:۶/۲۸)