انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوہ اُحد۳ھ جنگ بدر کے بعد ایک طرف تو خود اہل مکہ کے دلوں میں آتشِ انتقام موج زن تھی، دوسری طرف مدینہ کے یہودیوں اورمنافقوں نے ان کو برانگیختہ کرنے میں کوتاہی نہیں کی تیسری طرف ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے جس کے باپ اور بھائی بدر میں قتل ہوئے تھے ابو سفیان کو غیرتیں دلائیں؛چنانچہ ابو سفیان جو تمام سردارانِ مکہ کے مقتول ہونے کے بعد مکہ میں سب سے بڑا سردار سمجھا جاتا تھا، جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہوا، تجارتِ شام کا قافلہ جو جنگِ بدر کے قریب ابو سفیان کی نگرانی میں واپس آیا تھا ۵۰ہزار مثقال سونا،ایک ہزار اونٹ منافع میں لایا تھا، اس قافلہ کا یہ تمام مال اس کے مالکوں میں تقسیم نہیں کیا گیا؛بلکہ یہ سب سامانِ جنگ کی تیاری و فراہمی میں لگادیا گیا ،ملک عرب کے دوسرے قبیلوں میں شعراء روانہ کئے گئے،انہوں نے لوگوں کو قریش کی امداد پر آمادہ کیا؛چنانچہ تمام بنو کنانہ اوراہلِ تہامہ قریش کے شریک ہوگئے قریش کے تمام حلیف قبائل نے اُن کی مدد کی مکہ کے حبشی غلاموں کو بھی شریکِ جنگ اورداخلِ فوج کیا گیا،رجز خواں مرد اوربہادری دلانے کے لئے عورتیں بھی ساتھ لے لی گئیں،غرض پورا سال مکہ والوں نے تیاریوں میں صرف کیا اوران تیاریوں میں مدینہ کے یہودیوں اور منافقوں نے خفیہ طور پر ہر قسم کی خبریں پہنچا کر اورمشورے دے کر قریش کی سب سے زیادہ امداد کی۔ غرض تین ہزار جنگ جو اورنبرد آزما بہادروں کا لشکر ماہِ شوال کی ابتدائی تاریخوں میں روانہ ہوا،جنگ بدر کے مقتول سردارانِ قریش کی لڑکیاں اوربیویاں بھی ہمراہ چلیں کہ اپنے عزیزوں کے قاتلوں کو قتل ہوتا ہوا دیکھیں،شعراء بھی ساتھ تھے وہ اپنے اشعار سُنا سُنا کر راستہ بھر بہادروں کے دلوں میں لڑائی کا جوش اور شوق پیدا کرتے ہوئے آئے،شرفاء قریش کی عورتوں میں ابو سفیان کی بیوی ہندہ بن عتبہ سپہ سالار تھی جس طرح مردوں میں ابو سفیان تمام لشکر کا سپہ سالارِ اعظم تھا،جبیر بن مطعم کا ایک حبشی غلام وحشی نامی تھا، اُس نے وحشی کو بھی ہمراہ لیا کیونکہ وحشی حربہ( چھوٹا نیزہ) چلانا خوب جانتا تھا،یعنی حربہ کو پھینک کر مارتا تھا، جس کا نشانہ بہت ہی کم خطا جاتا تھا،جبیر بن مطعم نے کہا کہ اگر تونے حمزہؓ کو قتل کیا تو تجھے آزاد کردوں گا،ہند بنت عتبہ زوجہ ابو سفیان نے کہا کہ اگر تو نے میرے باپ کے قاتل حمزہؓ کو قتل کیا تو تجھے اپنا تمام زیور اُتار کردے دوں گی،بعض تاریخوں میں اس لشکرِ کفار کی تعداد پانچ ہزار بھی لکھی ہے،لیکن صحیح یہ ہے کہ ان کی تعداد تین ہزار جنگ جو آدمیوں پر مشتمل تھی،عورتیں اور شاگرد پیشہ لوگ ان تین ہزار کے سوا ہوں گے۔ کفار کا یہ لشکر مکہ سے روانہ ہوکر مدینہ کے قریب پہنچ گیا،تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے قریب پہنچنے کی خبر ہوئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی وقت صحابہ کرام کو بلا کر مجلسِ مشورت منعقد کی،عبداللہ بن ابی منافق بھی جو مسلمانوں میں شامل سمجھا جاتا تھا، اس مجلس میں موجود تھا،آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے یہ تھی کہ ہم کو مدینہ ہی میں رہ کر مدافعت کرنی چاہئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ رائے اس لئے بھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا تھا کہ تلوار کی تھوڑی سی دھار گر گئی ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ تھا کہ شاید اس معرکہ میں مسلمانوں کو کچھ نقصان پہنچے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تھا کہ اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک زرہ میں ڈال دیا ہے،زرہ کی تعبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو سمجھا تھا، عبداللہ بن ابی منافق کی بھی یہی رائے تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر مدافعت کی جائے،ممکن ہے کہ اس نے اس رائے کے پیش کرنے میں کوئی اپنی خاص مصلحت مد نظر رکھی ہو مگر صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے اکثر کی یہ رائے ہوئی کہ ہم کو مدینہ سے باہر نکل کر مقابلہ کرنا چاہئے تاکہ دشمن کو ہماری کمزوری کا احساس نہ ہو، بوڑھی عمر کے صحابہؓ میں سے تو اکثر کی رائے یہی تھی کہ مدینہ میں بیٹھ کر مدافعت کریں مگر نوجوانوں نے اس کو پسند نہ کیا، یہ ۱۴ شوال جمعہ کا واقعہ ہے،اس مشورہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جمعہ ادا کی،نماز پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے اور وہاں سے زرہ پہن کر اورمسلح ہوکر باہر نکلے اب ان لوگوں کو خیال آیا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کی مخالفت کی کہیں یہ بات مصیبت نہ ہو اور آپﷺ سے عرض کیا کہ آپﷺ اگر پسند فرماتے ہیص کہ مدینہ کے اندر رہ کر ہی مدافعت کی جائے توایسا ہی کیجیے ہم کو کوئی عذر نہیں ہے لیکن آپﷺ نے کثرتِ رائے اورمجلسِ مشورت کے نتیجے کو اس لئے پامال کرنا مناسب نہ سمجھا کیونکہ کوئی وحی اور خدائے تعالیٰ کی طرف سے حکم اس کے متعلق نازل نہ ہوا تھا،ان لوگوں کی دلداری بھی مد نظر تھی جو جنگِ بدر میں شریک نہ ہوئےاور اب اپنی بہادر یوں کے جوہر دکھلانے کے لئے بے تاب تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعد نماز ِ جمعہ مدینہ سے روانہ ہوئے،مدینہ میں ایک صحابی ابن ام مکتومؓ کو چھوڑ گئے کہ نماز پڑھایا کریں اور آپ کی غیر موجودگی میں مدینہ کا انتظام درست رکھیں،ایک ہزار آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مدینہ ےسے روانہ ہوئے۔