انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حیاتِ طیبہ:۱۰ہجری(۶۳۱ء) حضرت ابراھیم کی وفات واقدی کی روایت کی بموجب حضور اکرمﷺ کے صاحبزادہ حضرت ابراہیمؓ کی ماہ ربیع الاول میں وفات ہوئی، تاریخ وفات میں اختلاف ہے بعض نے رمضان اور بعض نے آخر ذی الحجہ ۱۰ ہجری لکھا ہے، انتقال سے کچھ دیر قبل حضور ﷺ کو اطلاع دی گئی، آپﷺ حضرت عبدالرحمن ؓ بن عوف کے ساتھ آئے، بچہ کو ماں ( حضرت ماریہؓ قبطیہ) کی گود سے اپنی آغوش میں لیا، آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے عرض کیا : آپﷺ نے تو رونے سے منع فرمایا ہے ، حضور ﷺ نے فرمایا : یہ رحمت اور قلب کی رقت ہے ، دو آوازیں منع ہیں ایک لہو و لعب اور گانے کی اور دوسری نوحہ کی،" آنکھ روتی ہے، دل غمگین ہے لیکن ہم وہی بات کہیں گے جو اللہ کو پسندہے، ابراہیمؓ ہم تیری جدائی سے رنجیدہ ہیں، دایہ نے غُسل دیا ، ان کا جنازہ چھوٹی چار پائی پر اٹھایا گیا ، جنت البقیع میں چار تکبیر کہہ کر حضور نے خود نماز جنازہ پڑھائی ،قبرمیں حضرت فضلؓ بن عباس اور اسامہ ؓ بن زید نے اتارا، قبر بنائی گئی اور اس پر آنحضرت ﷺ کے سامنے پانی چھڑکا گیا، قبر پر پانی ڈالنے کا یہ پہلاواقعہ ہے، حضور ﷺ نے فرمایا: اگر ابراہیمؓ زندہ رہتا تو اس کی ماں کے تمام عزیزوں کو آزاد کر دیتااور قبطیوں پر سے جزیہ ختم کر دیتا۔ سورج گرہن عرب کا خیال تھا کہ جب کوئی بڑا آدمی مر جاتا ہے تو چاندیا سورج میں گہن لگ جاتا ہے ، اتفاق سے اس روز ابراہیمؓ نے وفات پائی سورج گرہن تھا، عام طور پر مشہور ہوگیا کہ یہ ان کی موت کا اثر ہے ، آنحضرتﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا ، چاند اور سورج اللہ کی نشانیاں ہیں، کسی کو موت سے ان میں گہن نہیں لگتا، آپﷺ نے صلوٰۃ کسوف پڑھی، ایک یورپین مورخ نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ حضرت محمد (ﷺ) کی صداقت کی بہترین دلیل ہے ، اگر حضور ﷺ چاہتے تو عرب کے عام اعتقاد کے مطابق اس گرہن کا سبب اپنے فرزند کی موت کو قرار دے کر اپنی عظمت میں اضافہ نہ کرلیتے؟ دنیوی عزت و عظمت کے طالب تو ایسے واقعات کی تلاش میں رہتے ہیں مگر آپ ﷺ نے اس مصنوعی عزت کو قبول کرنے سے انکار کردیا اپنی صداقت پر مہر لگادی ( سیرت طیبہ ، مولانا سجاد میرٹھی )اس سن کے واقعات میں ام المومنین حضرت ریحانہؓ کی وفات ہے اور متعہ کو مذموم رواج قرار دے کر ممنوع قرار دیا گیا۔