انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مسجد ضرار جلائی گئی(شعبان۹ہجری) جب حضور اکرم ﷺ تبوک تشریف لے جارہے تھے تو اس وقت منافقین نے اسلام کے خلاف سازشیں کرنے اور باہر سے آنے والے دشمنان اسلام کے ٹھہرانے کے لئے مسجد کے نام سے ایک عمارت بنائی تھی، یہ عمارت مدینہ منورہ سے کچھ دور پر مسجد قباء کے قریب بنی سالم بن عود کے محلہ میں تھی، حضور ﷺ تبوک تشریف لے جا نے سے پہلے چند منافقین حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا… " یا رسول اللہ ! ہم نے بیماروں اور معذوروں کی آسانی کے خیال سے قباء میں ایک نئی مسجد بنائی ہے حضور ﷺ ایک مرتبہ تشریف لا کر نماز پڑھائیں تو ہمارے لئے برکت و سعادت کا باعث ہو" لیکن حضور ﷺ نے جنگی تیاریوں کی بدولت اس معاملہ کو موخر کردیا تھا، حضور ﷺ کی تبوک سے واپسی کے دوران اس نام نہاد مسجد کی حقیقت حضور ﷺ پر ظاہر فرما دی گئی کہ منافقین وہاں جمع ہو کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیا کرتے ہیں اسی لئے حضور ﷺ کو اس سے قطعاً بے تعلق رہنے کا حکم دیا گیا ، مسجد ضرار کے متعلق حسب ذیل آیات نازل ہوئیں: ( ترجمہ ) " اور وہ لوگ جنھوں نے اس غرض سے مسجد بنائی کہ نقصان پہنچائیں اور کفر کی باتیں کریں اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالیں اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے اس سے پہلے لڑ چکے ہیں ان کے لئے گھات کی جگہ بنائیں اور اگر ان سے پوچھا جائے گا تووہ قسمیں کھا کر کہیں گے کہ ہم تو بھلائی چاہتے تھے لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ (سورۂ توبہ : ۱۰۷) جب آپﷺ مدینہ کے قریب پہنچے اور ایک گھنٹہ کا راستہ رہ گیا تو مالک بن دختم سالمی اور معن بن عدی عجلی کو حکم دیا کہ وہ قباء جائیں اور اس عمارت کو جو مسجد کے نام سے بنائی گئی ہے منہدم کر دیں، چنانچہ اس کو گرا کر آگ لگا دی گئی۔ ( زرقانی بحوالہ سیرت طیبہ) حضور اکرم ﷺ ماہِ رجب میں تبوک کے لئے روانہ ہوئے تھے اور اواخر شعبان یا اوائل رمضان میں واپس ہوئے، تبوک سے واپس ہونے کے بعد حضور اکرم ﷺ حسب معمول سب سے پہلے مسجد نبوی میں تشریف لے گئے اور وہاں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد کچھ دیر تک بیٹھے رہے ، اطلاع ملنے پر منافقین نے جن کی تعداد اسّی یا بیاسی تھی آئے اور قسمیں کھاکر معذرت کرنے لگے، آپﷺ نے ان کے ظاہر کو قبول کرتے ہوئے ان کا باطن اﷲ کے حوالے کردیا۔