انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قبیلۂ ایاد کی واپسی اسی سال جب کہ پورے صوبہ جزیرہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا تو وہاں سے قبیلہ ایاد جو عیسائی مذہب رکھتا تھا جلا وطن ہوکر ہر قل کے ملک میں چلا گیا اوروہاں سکونت اختیار کرلی،فاروق اعظمؓ نے اس بات سے مطلع ہوکر ہر قل کولکھا کہ مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے کہ قبائل عرب سے ایک قبیلہ ہمارا ملک چھوڑ کر تمہارے شہروں میں چلا گیا ہے،اگر تم اُن عربوں کو اپنے ملک سے نہ نکال دو گے تو ہم ان تمام عیسائیوں کو جو ہمارے ملک میں آباد ہیں نکال کر تمہارے پاس بھیج دیں گے۔ ہر قل نے اس فاروقی خط کو پڑھتے ہی فوراً قبیلہ ایاد کو جو چار ہزار نفوس پر مشتمل تھا اپنے علاقے سے نکال دیاوہ شام اور جزیرہ میں واپس آکر آباد ہوگئے، فاروق اعظمؓ نے عراق عجم پر حبیب بن مسلمہؓ کو اور عراق عرب پر ولید بن عقبہ کو انتظامی افسر مقرر فرمایا تھا،ان عربوں کے واپس آنے پر ولید بن عقبہ کو لکھا کہ ان لوگوں کو اسلام لانے پر مجبور نہ کرو، اگر وہ جزیہ دینا منظور کریں تو قبول کرلو، یہ بات کہ سوائے اسلام کے کوئی درخواست منظور نہ کی جائے گی،جزیرۃ العرب مابین مکہ ومدینہ اوریمن کے لئے مخصوص ہے،ہاں اس شرط کا ان لوگوں کو ضرور پابند بناؤ کہ جن لڑکوں کے والدین مسلمان ہوگئے ہیں ان کو عیسائی نہ بنائیں، یعنی مسلمانوں کی اولاد کو عیسائی بنانے کی کوشش نہ کریں اور جو مسلمان ہونا چاہے اُس کو نہ روکیں۔ ولید بن عقبہ نے اس حکم فاروقی کی تعمیل کی چند روز کے بعد ایاد نے ایک سفارت مدینہ منورہ میں بھیجی کہ ہم سے کوئی رقم جزیہ کے نام سے وصول نہ کی جائے،فاروق اعظمؓ نے ان کی اس درخواست کو منظور کرکے جزیہ سے دو چند رقم صدقہ کے نام سے وصول کرنے کا حکم وہاں کے عامل کو لکھ بھیجا اورقبیلہ ایاد نے اس کو بخوشی منظور کرلیا ،چند روز کے بعد قبیلہ ایاد نے ولید بن عقبہ کی شکایت کی تو حضرت فاروق اعظمؓ نے معزولی کرکے اُن کی جگہ فرات بن حیان اور ہند بن عمر الجملی کو مقرر فرمایا۔ اس جگہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبہ جزیرہ کی فتح کو بعض مورخین نے فتوحاتِ شام میں شمار کیا ہے،بہرحال عیاض بن غنمؓ اور خالد بن ولیدؓ جو عیاض بن غنمؓ کے کمکی بن کر آئے تھے،حضرت ابو عبیدہؓ کی افواج یعنی افواج شام سے آئے تھے ،صوبہ جزیرہ کی فتح کو شام وعراق دونوں کی فتوحات میں شامل سمجھنا چاہئے۔