انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** دوسری مثال فقیہ الامت سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: "ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا وَعَلَى جَنْبَتَيْ الصِّرَاطِ سُورَانِ فِيهِمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ وَعَلَى الْأَبْوَابِ سُتُورٌ مُرْخَاةٌ وَعَلَى بَابِ الصِّرَاطِ دَاعٍ يَقُولُ أَيُّهَا النَّاسُ ادْخُلُوا الصِّرَاطَ جَمِيعًا وَلَاتَتَفَرَّجُوا وَدَاعٍ يَدْعُو مِنْ جَوْفِ الصِّرَاطِ فَإِذَاأَرَادَ يَفْتَحُ شَيْئًا مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ قَالَ وَيْحَكَ لَاتَفْتَحْهُ فَإِنَّكَ إِنْ تَفْتَحْهُ تَلِجْهُ وَالصِّرَاطُ الْإِسْلَامُ وَالسُّورَانِ حُدُودُ اللَّهِ تَعَالَى وَالْأَبْوَابُ الْمُفَتَّحَةُ مَحَارِمُ اللَّهِ تَعَالَى وَذَلِكَ الدَّاعِي عَلَى رَأْسِ الصِّرَاطِ كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالدَّاعِي فَوْقَ الصِّرَاطِ وَاعِظُ اللَّهِ فِي قَلْبِ كُلِّ مُسْلِمٍ"۔ (مسنداحمد،باب حدیث النواس بن سمعان الکلابی،حدیث نمبر:۱۶۹۷۶) ترجمہ :اللہ تعالی نے صراط مستقیم کی مثال ایک راہ سے دی ہے جس کے دونوں طرف دودیواریں ہوں ان میں دروازے کھلتے ہوں اور دروازوں پر پردے لٹکے ہوں،راستے کے سرپر ایک پکارنے والا کہہ رہا ہے۔رستے پر سیدھے چلے آؤ،ادھر ادھر نہ ہونا اوراس کے اوپر ایک اورآواز دینے والا ہے،جب بھی کوئی انسان ان دروازوں میں سے کسی دروازے کو کھولنے کا ارادہ کرتا ہے،وہ کہتا ہے اے تیری بربادی اسے تو نہ کھول اگر تو اسے کھولے گا تو اس میں پھنس کر رہ جائے گا پھر آنحضرتﷺ نے اس کی تفسیر بیان فرمائی آپ نے کہا: راہ سے مراد اسلام ہے،کھلے دروازوں سے مراد اللہ کی حرمتیں ہیں،(جن امور کو اللہ تعالی نے ناقابل عبور ٹھہرایا ہے) لٹکے ہوئے پردوں سے مراد اللہ کی حدیں ہیں (جنہیں پھاندنے کی اجازت نہیں) راہ (صراط)کے سرپر پکارنے والا قرآن ہے اوراس کے اوپر آواز دینے والی اللہ تعالی کی طرف سے ایک ناصحانہ آواز ہے جو ہر قلب مومن پر دستک دے رہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مثال میں صراط مستقیم پر چلنے کی ہدایت فرمائی ہے،آپ نے اس کے دونوں طرف دیواریں ذکر کیں جن کے ورے اللہ کی حدیث لوٹتی ہیں اور انسان حرام کا مرتکب ہوتا ہے،صراط مستقیم پر چلنا ان سے بچ کر ہی میسر آسکتا ہے، یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے سورہ فاتحہ میں صراط مستقیم طلب کرنے کی ہدایت کی ہے اوراس میں مغضوب علیہم اورضالین سے بچ کر نکلنے کی بھی ہم دعا مانگتے ہیں، جو امور اکابر اسلام میں اجتہادی طور پر مختلف ہوگئے وہ ان اختلافات کے باوجود پوری وسعت سے صراط مستقیم میں ہی شامل رہیں گے۔ اجتہاد کی حضورﷺ نے مذمت نہیں فرمائی اس میں خطا بھی ہو جائے تو مجتہد مخطئی کو اس پر ماجور بتلایا؛لیکن ٹیڑھی راہ اختیار کرنے کی حضورﷺ نے مذمت فرمائی اوراس سے بچنے کا حکم دیا؛ پس! ٹیڑھی راہوں میں وہی راہیں شمار ہوں گی جو اصولا مختلف ہوں اور آپ اس میں حق و باطل کا فاصلہ قائم کریں، مسالک اربعہ بتلانا اس حدیث سے کھلا تصادم ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس مضمون کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان الفاظ میں بھی نقل کیا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: "خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْماًخَطًّا ثُمَّ قَالَ: هَذَا سَبِيلُ اللَّهِ، ثُمَّ خَطَّ خُطُوطاً عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ قَالَ: هَذِهِ سُبُلٌ، عَلَى كُلِّ سَبِيلٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ يَدْعُو إِلَيْهِ، ثُمَّ تَلاَوَأَنَّ هَذَا صِرَاطِى مُسْتَقِيماً"۔ (سنن الدارمی،باب فی کراھیۃ اخذ الرای،حدیث نمبر:۲۰۸) ترجمہ: آنحضرتﷺ نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا یہ اللہ کی طرف جانے والی سیدھی راہ ہے، پھر آپﷺ نے اس کے دائیں بائیں بہت سے خطوط کھینچے اور فرمایا :یہ وہ راہیں ہیں جن میں سے ہر ایک پرایک شیطان بیٹھا ہے اور وہ لوگوں کو اس کی طرف بلاتا ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: "وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ" (الانعام:۱۵۳) ترجمہ:اوریہ راہ ہے میری سیدھی سو اس اس پر چلو اورنہ چلو اوررستوں پر وہ تمہیں جدا جدا کردیں گے۔ اس حدیث میں دائیں بائیں لڑنے والوں سے اجتہادی فاصلے مراد نہیں اعوجا جی فاصلےپیش نظر ہیں ورنہ اس حدیث: "إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَكَمَ فَأَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ وَاحِدٌ"۔ (سنن الترمذی،باب ماجاء فی القاضی یصیب ویخطئی،حدیث نمبر:۱۲۴۸) سے کھلا تصادم لازم آئے گا۔ پھر اس مثال میں انسان کے ضمیر کو بڑا وقیع مقام دیا گیا ہے،پہلا داعی قرآن ہے جس کی دعوت انسان کو خارج سے پہنچتی ہے، دوسرا داعی وہ آواز ہے جو انسان کے اندر سے اٹھتی ہے، یہ اس کے ضمیر کی آواز ہے،یہ مضراب اللہ رب العزت کی طرف سے ہر مرد مومن کے دل پر لگتا ہے،غور کیجئے آنحضرتؐ نے کس شانِ بلاغت سے اسلام کے دین فطرت ہونے کا اثبات فرمایا اوراسے دل کی آواز قرار دیا ۔