انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قرآن سے دلچسپی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتداً یہی فکر رہتی تھی کہ کسی طرح یہ قرآن اور یہ پیغام الہٰی جلد سے جلد ان کو یاد ہوجائے اور ان کے سینہ میں محفوظ ہوجائے؛ تاکہ وہ اس پیغامِ الہٰی کو جوں کا توں بلا کسی کمی زیادتی اور ردّوبدل کے اپنی امت تک پہونچاسکیں اور وہ بھی اپنے خداداد حافظہ سے اپنے سینوں میں اسے محفوظ کرلیں؛ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبی امی تھے اسی طرح جس امت کی طرف آپ کی بعثت ہوئی تھی وہ بھی امی (بے پڑھی لکھی) تھی۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا: "ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّیْنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ" (الجمعۃ:۲) ترجمہ: "وہی ذات ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے؛ انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے؛ اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے"۔ جن لوگوں کو پڑھنے لکھنے سے واسطہ نہیں ہوتا ان کا زیادہ تراعتماد اپنے حافظہ ہی پر ہوتا ہے؛ چنانچہ اہل عرب اپنی حیرت انگیز قوتِ حافظہ کی وجہ سے دنیا بھر میں ممتاز تھے او رانھیں صدیوں تک کی گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکنے کے بعد قرآن کریم کی وہ منزلِ ہدایت نصیبہوئی تھی جسے وہ اپنی زندگی کا سب سے عزیز سرمایہ تصور کرتے تھے، اس لیے انھوں نے اسے یاد رکھنے کے لیے کیا کچھ اہتمام کیا ہوگا اس کا اندازہ ہروہ شخص کرسکتا ہے جو ان کے مزاج وطبیعت سے واقف ہے، خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کے یاد کرنے اور اس کے حفظ کرنے کے سلسلہ میں اس قدر حریص تھے کہ نزولِ وحی کے وقت آپ اس کے الفاظ کو اسی وقت دوہرانے لگتے تھے تاکہ اچھی طرح یاد ہوجائے اور کوئی کلمہ یاحرف دورانِ وحی ان سے چھوٹنے نہ پائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرماکر آپ کو اطمینان دلایا: "لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖo إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗo" (القیامۃ:۱۶،۱۷) ترجمہ: "آپ قرآن پاک کو جلدی یاد کرنے کے خیال سے اپنی زبان کو حرکت نہ دیجئے (کیونکہ) اس (قرآن) کا جمع کرنا اور اس کا پڑھوانا ہم نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے"۔ اسی طرح قرآن کریم صحابہ کرام کی بھی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا وہ اسے یاد کرنے اور حفظ کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی فکر میں رہتے تھے اور جسے قرآن مجید جس قدر زیادہ یاد ہوتا تھا اسی لحاظ سے ان میں اس کا مقام ومرتبہ ہوتا تھا؛ حتی کہ بعض عورتوں نے اپنے شوہروں سے محض اس لیے کوئی مہر طلب نہیں فرمایا کہ وہ انھیں قرآن کریم کی کوئی سورۃ یاد دلادے وہ لوگ راتوں میں اٹھکر نمازوں میں تلاوتِ قرآن کی لذت کو نیند کی لذت پر ترجیح دیتے تھے؛ اگر رات کی تاریکی میں کسی کا گزر ان کے گھروں پر سے ہوتا تھا تو تلاوتِ قرآن پاک کی وجہ سے شہد کی مکھی کی طرح بھن بھناھٹ کی آواز اسے سنائی دیتی تھی، قرآنِ پاک کے ساتھ انہی توجہات کا نتیجہ تھا کہ ایک بڑی جماعت حفاظِ کرام کی حضورﷺ کی زندگی ہی میں منظر عام پر آگئی جن میں چاروں خلفاء راشدین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت سعد رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہٗ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت سالم مولی ابی حذیفہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہٗ، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہٗ، ان کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہٗ، حضرت عبداللہ بن السائب رضی اللہ عنہٗ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے نام تاریخ میں محفوظ رہ گئے، یہ سب مہاجرین میں سے ہیں اور انصار میں سے جنھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں حفظِ کلام پاک مکمل کیا ان کے نام یہ ہیں، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہٗ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہٗ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہٗ، حضرت مجمع بن حارثہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابوزید رضی اللہ عنہم اجمعین ایک قول یہ بھی ہے کہ ان میں سے بعض حضرات نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی وفات کے بعد حفظِ کلام پاک مکمل کیا؛ بہرحال جو بھی ہو اس سے اتنا تو اندازہ ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں حفظِ قرآن پاک مکمل کرنے والوں کی تعداد کافی تھی؛ حتی کہ بئرمعونہ کا واقعہ ۴ھ میں پیش آیا اس میں ۷۰/قراء کی جماعت شہید ہوئی۔ (مناہل العرفان:۱۷۳،۱۷۴) اس کے علاوہ دورِ صدیقی میں جنِگ یمامہ کے موقع پر بھی ۷۰/قراء شہید کئے گئے اور ایک قول کے مطابق ۷۰۰/قراء شہید کئے گئے۔ (تفسیرقرطبی:۱/۳۷۔ عمدۃ القاری:۱۳/۵۳۳) عہدِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابتِ قرآن سے زیادہ حفظ قرآن پر توجہ دینے کی وجوہالغرض نزول قرآن کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی توجہ کتابتِ قرآن سے زیادہ حفظِ قرآن پر تھی اس لیے کہ اس زمانہ میں لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی، کتابت کے وسائل مہیا نہ تھے، کتابوں کو شائع کرنے کے لیے پریس وغیرہ کے ذرائع موجود نہ تھے، اس کے علاوہ قرآن کریم ایک ہی دفعہ پورا کا پورا نازل نہیں ہوا؛ بلکہ اس کی مختلف آیات اور سورتیں ضرورت اور حالات کی مناسبت سے نازل کی جاتی رہی ہیں، اس لیے عہدِ رسالت میں یہ ممکن نہ تھا کہ شروع ہی سے اسے کتابی شکل میں لکھ کر محفوظ کرلیا جائے۔