انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اہلِ بدعت سے لی گئی روایات اہلِ بدعت سے وہ لوگ مراد ہیں جوبدعت فی العقائد کے مجرم ہوئے، جیسے: معتزلہ، قدریہ، شیعہ، خوارج، کرامیہ اور جہمیہ وغیرہ، بدعت فی الاعمال اس سے اخف ہے اور اہلِ بدعت دونوں ہیں، جن محدثین نے فن حدیث پر بطور ایک فن کے نظر کی ان کا نقطۂ صرف یہ رہا کہ جوصورت بھی ہو روایت صحیح ہو انہیں کسی بدعتی میں بھی بیان کی پختگی نظر آئی توانہوں نے اس سے روایت لے لی، جن علماء نے حدیث کومحض ایک فن کے طور پر نہیں پورے تدین اور اعتماد سے دیکھا انہوں نے اہلِ بدعت سے روایت لینے کوجائز نہ سمجھا، وہ دین کو بدعتی سے حاصل کرنا جائز نہ سمجھتے تھے۔ حضرت امام ابنِ سیرینؒ (۱۱۱ھ) اور حضرت امام مالکؒ (۱۷۹ھ) اہلِ بدعت سے روایت لینے کے حق میں نہیں، وہ اس کی اجازت نہیں دیتے، امام ابویوسفؒ (۱۸۲ھ)، حضرت سفیان ثوریؒ(۱۶۱ھ) اور امام شافعیؒ (۲۰۴ھ) اس کے جواز کے قائل ہیں، یہ حضرات کہتے ہیں کہ سوائے روافض (اثناعشری شیعوں) کے دیگراہلِ بدعت سے (اگروہ جھوٹ بولنے والے نہ ہوں اور ان کی یادداشت کمزور نہ ہو) روایت لی جاسکتی ہے، امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) اس میں تفصیل کے قائل ہیں، جواہلِ بدعت اپنی بدعات کوفروغ دینے والے ہوں ان کی روایت کسی صورت میں قبول نہ کی جائے گی اور غیرداعی اہل بدعت کی روایت دیگر شرائط پوری ہونے پر قبول کی جاسکتی ہے۔ روافض سے روایت نہ لینے کی وجہ یہ ہے کہ تقیہ ان کے مذہب کا جزو ہے وہ کسی مذہبی مصلحت سے خلاف واقعہ بات کہنا جائز سمجھتے ہیں؛ سونہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہاں کہاں جھوٹ بول رہے ہیں ؎ تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم خطیب بغدادی لکھتے ہیں: "وقال کثیر من العلماء یقبل اخبار غیرالدعاۃ من اہل الاھواء فاما الدعاۃ فلایحتج باخبارہم"۔ (الکفایہ فی علوم الروایہ:۱۲۱) ترجمہ:بہت سے علماء نے کہا ہے کہ ان اہل بدعت کی جوداعی الی البدعۃ نہ ہوں روایت قبول کی جاسکتی ہے؛ لیکن ان لوگوں کی جواپنی بدعات کی طرف دعوت دیتے ہیں روایت سے احتجاج نہیں کیا جاسکتا۔ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے شرح صحیح مسلم میں اس پرتفصیل سے بحث کی ہے۔ (فتح الملہم:۱/۶۵) امام مالکؒ تویہاں تک فرما گئے کہ: "لایوخذ العلم عن اربعۃ عن مبتدع ولاعن سفیہ ولاعمن یکذب فی احادیث الناس وان کان یصدق فی احادیث النبیﷺ ولاعمن لایعرف ھٰذا الشان"۔ ترجمہ:علم حدیث چارشخصوں سے نہ لیا جائے، نہ بدعتی سے نہ بیوقوف سے نہ اس شخص سے جولوگوں کی باتوں میں جھوٹ بول لیتا ہو؛ اگرچہ حدیث نبوی میں سچ ہی کہتا ہو اور نہ اس سے جواس (موضوع) کی شان کو ہی نہ جانتا ہو۔ (مقدمہ اوجز المسالک:۶) جہاں تک ہوسکے اہلِ بدعت سے روایت نہ لے اگر کہیں روایت بایں نظرلی ہے کہ شاید کسی دوسری روایت میں متابعت کے کام آئے توبھی ان لوگوں کی مجلس کولازم نہ پکڑے؛ تاکہ انہیں باقاعدہ استاد نہ کہنا پڑے اور وہ بھی پوری احتیاط کے ساتھ، سیدنا حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں: "ولا شک ان اخذ الحدیث من ہذہ الفرق یکون بعد التحری والاستصواب ومع ذلک، الاحتیاط فی عدم الاخذ لانہ قد ثبت ان ھؤلاءِ الفرق کانوا یضعون الاحادیث لترویج مذاھبھم وکانوا یقرون بہ بعد التوبۃ والرجوع واللہ اعلم"۔ (مقدمہ مشکوٰۃ:۶) ترجمہ:اس میں شک نہیں کہ ان فرقوں سے حدیث لینا غور اور پڑتال کے بعد ہی چاہئے اور اس کے باوجود احتیاط نہ لینے میں ہی ہے؛ کیونکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ لوگ اپنے خیالات باطلہ کورواج دینے کے لیے حدیثیں گھڑتے تھے اور جب (ان میں کسی کو) توبہ کی توفیق ہوجاتی تواقرار کرتے (کہ انہوں نے بدعقیدگی کے دور میں کیا کیا حدیثیں گھڑی تھیں)۔ یہ ادب واحترام توشیخ کے عقائد واعمال کے متعلق ہے کہ اہلِ حق میں سے ہو گمراہ فرقوں میں سے نہ ہو،تاہم اس ادب واحترام کا بھی اپنا ایک مقام ہے جواخلاق وعادات کی راہ سے قائم ہوتا ہے۔