انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** صدیق اکبرؓ کا آخری خطبہ جب تحریر لکھی جاچکی تو آپ نے حکم دیا کہ لوگوں کو پڑھ کر سُنادو،پھر خود اُسی شدت مرض کی حالت میں باہر تشریف لائے اورمسلمانوں کے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا: کہ میں نے اپنے کسی عزیز رشتہ دار کو خلیفہ نہیں بنایا اورمیں نے صر ف اپنی ہی رائے سے عمر فاروقؓ کو خلیفہ نہیں بنایا؛بلکہ صاحب الرائے لوگوں سے مشورہ کرلینے کے بعد خلیفہ بنایا ہے،پس کیا تم اس شخص کے خلیفہ ہونے پر رضا مند ہو،جس کو میں نے تمہارے لئے انتخاب کیا ہے؟ یہ سُن کر لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کے انتخاب اورآپ کی رائے کو پسند کرتے ہیں،پھر صدیق اکبرؓ نے فرمایا کہ تم کو چاہئے کہ عمر فاروقؓ کا کہنا سُنو اوراس کی اطاعت کرو سب نے اقرار کیا اُس کے بعد عمر فاروقؓ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ: ‘‘اے عمرؓ! میں نے تم کو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا نائب بنایا ہے،اللہ تعالیٰ سے ظاہر وباطن ڈرتے رہنا اے عمرؓ اللہ تعالیٰ کے بعض حقوق ہیں، جو رات سے متعلق ہیں،اُن کو وہ دن میں قبول نہیں کرے گا، اسی طرح بعض حقوق دن سے متعلق ہیں،جن کو وہ رات میں قبول نہیں کرے گا،اللہ تعالیٰ نوافل کو قبول نہیں فرماتا جب تک کہ فرائض ادا نہ کئے جائیں، اے عمرؓ! جن کے اعمال صالحہ قیامت میں وزنی ہوں گے ،وہی فلاح پائیں گے اورجن کے اعمال نیک کم ہوں گے وہ مبتلا ئے مصیبت ہوں گے،اے عمرؓ! فلاح ونجات کی راہیں قرآن مجید پر عمل کرنے اورحق کی پیروی سے میسر ہوتی ہیں، اے عمرؓ!کیا تم کو معلوم نہیں کہ ترغیب و ترہیب اور انذار وبشارت کی آیات قرآن مجید میں ساتھ ساتھ نازل ہوئی ہیں،تاکہ مومن اللہ تعالیٰ سے ڈرتا اور اُس سے اپنی مغفرت طلب کرتا رہے،اے عمرؓ ! جب قرآن مجید میں ذکر اہل نار کا آئے تو دعا کرو کہ الہی ! تو مجھے ان میں شامل نہ کرنا اورجب اہل جنت کا ذکر آئے تو دعا کرو کہ الہی تو مجھے ان میں شامل کر،اے عمرؓ تم جب میری ان وصیتوں پر عمل کروگے تو مجھے گویا اپنے پاس بیٹھا ہوا پاؤ گے۔ یہ تحریر اوروصیت وغیرہ کی کاروائی ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ھ بروز دوشنبہ عمل میں آئی ۲۲ اور ۲۳ جمادی الثانی کی درمیان شب میں جو شب سہ شنبہ تھی،بعد مغرب بعمر ۶۳ سال آپ کا انتقال ہوا اور عشا سے پہلے دفن کردئے گئے سوا دوسال آپ نے خلافت کی مکہ کے عامل حضرت عتاب اسیدؓ نے بھی مکہ میں اسی روز انتقال کیا جس روز ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمرؓ کی خلافت کے لئے تحریر لکھوائی اورمسلمانوں کو اس کی اطلاع دی،وہ صدیق اکبرؓ کی زندگی کا آخری دن تھا،اُسی روز بعد تکمیل تحریر حضرت مثنیٰ بن حارثہ جو حیرہ(عراق) سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تھے مدینہ منورہ پہنچے،وہاں (عراق) کی یہ صورت پیش آئی تھی کہ جب خالد بن ولیدؓ نصف فوج خود لے کر اورنصف مثنی بن حارثہؓ کے پاس چھوڑ کر شام کی طرف روانہ ہوگئے تو بہمن جادویہ ایرانی سپہ سالار یہ سمجھ کر کہ اب خالد بن ولیدؓ کی غیر موجود گی میں مسلمانوں کا اس ملک سے نکال دینا آسان ہے،ایک لشکر عظیم لے کر آیا، مثنیٰ بن حارثہؓ نے حیرہ سے چل کر بابل کے قریب اس ایرانی لشکر کا استقبال کیا،جنگ عظیم برپا ہوئی،بڑے کشت وخون کے بعد ایرانیوں کو شکستِ فاش نصیب ہوئی، مثنیٰ بن حارثہؓ نے مدائن کے قریب تک ایرانیوں کا تعاقب کیا اور پھر حیرہ واپس چلے آئے،اس شکست کے بعد ایرانیوں نے اپنے اندرونی جھگڑوں کو ملتوی کرکے اورایرانی سپہ سالاروں اور وزیروں نے اپنی رقابتوں کو فراموش کرکے از سرنو تیاریاں شروع کیں،تمام ملک اور صوبوں میں زندگی،جوش اورہمت کی لہر دوڑگئی ایرانی قبائل اوررؤساء ملک سب مسلمانوں کے خلاف میدانِ جنگ میں جانے اور اورلڑنے مرنے پر مستعد ہوگئے ،حضرت مثنیؓ نے جب ایرانیوں کی جنگی سرگرمیوں کے حالات سُنے،تو اُن کو اپنی قلت فوج کے تصور سے پریشانی ہوئی،لہذا وہ بشیر بن خصامہؓ کو اپنی جگہ مقرر کرکے خود عازم مدینہ ہوئے کہ خلیفہ الرسول کو زبانی بالتفصیل تمام حالات سُنائیں اور اس موقعہ کی اہمیت و نزاکت سمجھائیں، حضرت مثنیٰ جب مدینہ میں پہنچے تو صدیق اکبرؓ کی زندگی کے صرف چند گھنٹے باقی تھے،انہوں نے مثنیٰ سے تمام حالات سُنے اورحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم مثنیٰ کے ساتھ فوج جمع کرکے ضرور اورجلد روانہ کرنا،جب حضرت عمرؓ آپ کے پاس سے باہر نکلے تو آپ نے فرمایا،اے اللہ میں نے عمرؓ کو مسلمانوں کی بہتری اور فتنہ وفساد کے خطرہ کو دور کرنے کے لئے اپنے بعد خلیفہ منتخب کیا ہے میں نے جو کچھ کیا ہے مسلمانوں کی بھلائی کے لئے کیا ہے تو دلوں کے حال سے خوب واقف ہے،میں نے مسلمانوں سے مشورہ بھی لے لیا ہے اوراُن میں سے اُس شخص کو جو سب سے بہتر قوی اورمسلمانوں کی بھلائی چاہنے والا اورامین ہے اُن کا والی بنایا ہے،پس تو میرا خلیفہ اُن میں قائم رکھ وہ تیرے بندے ہیں اور اُن کی پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے اُن کے والیوں کو نیک بنا اورعمرؓ کو بہتر خلیفہ بنا اوراُس کی رعیت کو اُس کے لئے اچھی رعیت بنادے۔