انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** علامہ سید سلیمان ندویؒ (م:۲۲نومبر۱۹۵۳ء) ۱۔نوح ؑ کا جوش تبلیغ، ابراہیم ؑ کا ولولہ توحید، اسحاق ؑ کی وراثت پدری، اسماعیل ؑ کا ایثار،موسی ؑ کی سعی وکوشش،ہارون ؑ کی رفاقت حق، یعقوب ؑ کی تسلیم، داؤد ؑ کا غربت حق پر ماتم، سلیمان ؑ کا سرود حکمت، زکریاؑ کی عبادت، یحییٰ ؑ کی عفت، عیسیٰ ؑ کا زہد، یونس ؑ کا اعتراف قصور،لوط ؑ کی جان فشانی،ایوب ؑکا صبر،یہی وہ حقیقی نقش ونگار ہیں جن سے ہماری روحانی اوراخلاقی دنیا کا ایوان آراستہ ہے اورجہاں کہیں ان صفات عالیہ کا وجود ہے وہ انہی بزرگوں کی مثالوں اورنمونوں کا عکس ہے۔ ۲۔مذہب کیا چیز ہے؟خدا اوربندوں اورباہم بندوں کے متعلق جو فرائض اورواجبات ہیں ان کو تسلیم کرنا اورادا کرنا،دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ حقوق اللہ اورحقوق العباد کے بجا لانے کا نام ہے،اس لئے ہر مذہب کے پیروؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے پیغمبروں اوربانیوں کی سیرتوں میں ان حقوق ،فرائض اورواجبات کی تفصیل تلاش کریں اوران کے مطابق اپنی زندگی کو اس قالب میں ڈھالنے کی کوشش کریں، حقوق اللہ اورحقوق العباد دونوں حیثیتوں سے جب آپ تفصیلات ڈھونڈیں گے تو وہ پیغمبر اسلام کے سوا آپ کو کہیں نہیں ملیں گے۔ (خطبات مدارس،ص:۳۷) ۳۔نیکیاں دو قسم کی ہوتیں ہیں ایک سلبی اورایک ایجابی،مثلاً آپ پہاڑ کے ایک کھوہ میں جاکر عمر بھر کے لئے بیٹھ گئے تو صرف یہ کہنا صحیح ہوگا کہ بدیوں اوربرائیوں سے آپ نے پرہیز کیا،یعنی آپ نے کوئی کام ایسا نہیں کیا جو آپ کے قابل اعتراض ہو،مگر یہ تو سلبی تعریف ہوئی،ایجابی پہلو آپ کا کیا ہے؟کیا آپ نے غریبوں کی مدد کی،محتاجوں کوکھانا کھلایا،کمزوروں کی حمایت کی،ظالموں کے مقابلہ میں حق گوئی سے کام لیا،گرتوں کو سنبھالا،گمراہوں کو راستہ دکھایا،عفو،کرم،سخا،مہمان نوازی،حق گوئی،رحم،حق کی نصرت کے لئے جوش،جدوجہد ،مجاہدہ،ادائے قرض،ذمہ داریوں کی بجا آوری ،غرض تمام وہ اخلاق جن کا تعلق عمل سے ہے، وہ صرف سلب فعل اور عدم فعل سے نیکیاں نہیں بن جائیں گے، نیکیاں صرف سلبی پہلو ہی نہیں رکھتیں ،زیادہ تر ایجابی اورعملی پہلو پر ان کو مدار ہوتا ہے۔ (خطبات مدارس،ص:۴۱) ۴۔بیوی سے بڑھ کر انسان کی اندرونی کمزریوں کا واقف کار کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا مگر کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ آنحضرتﷺ کی صداقت پر سب سے پہلے آپ کی بیوی ایمان لائیں،وہ نبوت سے پہلے پندرہ برس تک آپ کی رفاقت میں رہ چکی تھیں اورآپ کے ہر حال اورہر کیفیت کی نسبت ذاتی واقفیت رکھتی تھیں، باایں ہمہ جب آنحضرتﷺ نے پیغمبری کا دعوی کیا تو سب سے پہلے انہی نے اس دعوی کی سچائی کو تسلیم کیا۔ (خطبات مدارس،ص:۶۷) ۵۔بڑے سے بڑا انسان جو ایک ہی بیوی کا شوہر ہو وہ بھی یہ ہمت نہیں کرسکتا کہ وہ اس کو یہ اذن عام دے دے کہ تم میری ہر بات،ہرحالت اورہر واقعہ کو برملا کہہ دو اور جو کچھ چھپارکھا ہے وہ سب پر ظاہر کردو،مگر آنحضرتﷺ کی بیک وقت نو بیویاں تھیں اوران میں سے ہر ایک کو یہ اذن عام تھا کہ خلوت میں مجھ میں جو کچھ دیکھو وہ جلوت میں سب سے برملابیان کردو، جو رات کی تاریکی میں دیکھو وہ دن کی روشنی میں ظاہر کردو،جو بندکوٹھڑیوں میں دیکھو اس کو کھلی چھتوں پر پکارکر کہہ دو، اس اخلاقی وثوق واعتماد کی مثال کہیں اور مل سکتی ہے؟ (خطبات مدراس،ص:۶۷) ۶۔اسلام کی نگاہ میں آپ ﷺکی حیات ایک مسلمان کے لئے کامل نمونہ ہے،اس لئے اس نمونہ کے تمام پہلو سب کے سامنے ہونے چاہئیں اوروہ سب کے سامنے ہیں، اسی سے ثابت ہوگا کہ آپ ﷺ کی زندگی کے سلسلہ کی کوئی کڑی گم نہیں ہے،کوئی واقعہ زیر پردہ نہیں ہے،جو کچھ ہے وہ تاریخ کے صفحات میں آئینہ ہے اوریہی ایک ذریعہ کسی زندگی کے کامل ،معصوم اوربے گناہ یقین کرنے کا ہے،نیز ایسی ہی زندگی جس کے ہر پہلو اس طرح روشن ہوں،انسان کے لئے نمونے کا کام دے سکتی ہے۔ (خطبات مدراس،ص:۸۰،۸۱) ۷۔دنیا کی عظیم الشان غلطیوں میں سے جواب بھی دنیا کے اس حصہ میں قائم ہیں جہاں حضرت محمدﷺکا پیغام قبول نہیں کیا گیا ،ایک یہ ہے کہ لوگوں نے خدا کے بندوں کے درمیان حسب ونسب،مال ودولت،رنگ وروپ،صورت وشکل کی دیواریں قائم کردی ہیں، ہندوستان نے ابتداء سے آج تک اپنے سوا سب کو ملیچھ اورناپاک قراردیا اورخوداپنے کو چار ذاتوں میں تقسیم کرکے ان میں عزت اورحقوق کی ترتیب قائم کی،شودروں کو مذہب کا بھی حق نہ تھا، قدیم ایران میں بھی یہ چار ذاتیں اسی طرح قائم تھیں،رومنس نے اپنے کو آقائی اوراپنے سوا سب قوموں کو غلامی کے لئے مخصوص کرلیا، بنی اسرائیل نے صرف اپنے آپ کو خدا کی اولاد قراردیا اورسب کو جینٹل قراردیا اورخود اپنی قوم کے اندر بھی مختلف بیرونی مدارج قائم کردئیے، خود یورپ کا اس تہذیب اورانسانی محبت ومساوات کے دعویٰ کے باوجود کیا حال ہے؟ (خطبات مدارس،ص:۱۶۲) ۸۔خاموشی،سکون،خلوت نشینی اورمنفردانہ زندگی اسلام نہیں ہے،اسلام جدوجہد،سعی وعمل اورسرگرمی ہے ،وہ موت نہیں حیات ہے۔ (خطبات مدارس:۱۶۶) ۹۔اسلام سرتاپا جہاد اورمجاہدہ ہے؛ لیکن خلوت میں بیٹھ کر نہیں ؛بلکہ میدان میں نکل کر،محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمہارے سامنے ہے،خلفائے راشدین کی زندگی تمہارے سامنے ہے، عام صحابہ کی زندگیاں تمہارے سامنے ہیں، وہی تمہارے لئے نمونہ ہے اوراسی میں تمہاری نجات ہے اوروہی تمہارا ذریعہ فلاح ہے اور وہی ترقی سعادت کی راہ ہے۔ (خطبات مدارس ،ص:۱۶۶) ۱۰۔حضرت محمد ﷺ کا پیغام بدھ کے پیغام کی طرح ترک خواہش نہیں ہے ؛بلکہ تصحیح خواہش ہے (خطبات مدارس،ص:۱۶۶) ۱۱۔ایمان اوراس کے مطابق عمل صالح یہی اسلام ہے،اسلام عمل ہے ترک عمل نہیں، ادائے واجبات ہے عدم واجبات نہیں،ادائے فرض ہے ترک فرض نہیں، اس عمل اور ان واجبات اور فرائض کی تشریح تمہارے پیغمبر اوران کے یاران باصفا کی زندگیوں اور سیرتوں میں ملے گی جن کا نقشہ یہ ہے: "مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا" (الفتح:۲۹) محمد ﷺ خدا کے رسول اورجولوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر بھاری،آپس میں رحم دل ہیں، ان کو دیکھو گے کہ وہ رکوع اورسجدہ میں ہیں، وہ خدا کی مہربانی اورخوشنودی کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ (خطبات مدارس،ص:۱۶۶) (۱)حضور ﷺ کے فیوض وبرکات ہر وقت جاری ہیں اپنے میں استفادہ کا مادّہ ہونا چاہئے اور اس کی صورت حضور ﷺ کی محبت ِ عقلی ہے جس کا مظہر اتباع ِ احکام و سنّت ہے ۔ (۲)سوانح و تراجم کا پورا دفتر اس دعوی کا شاہد ہے کہ زبان کی روانی اور قلم کی جولانی دل کی تابانی کے بغیر سراب کے نمو سے زیادہ نہیں ،خواہ وہ اس وقت کتنا ہی تابناک نظر آتا ہو مگر وہ مستقبل اور مستقل وجود سے محروم ہے ۔ (۳)دین کی خدمت کی راہیں مختلف ہوسکتی ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اخلاص ہو اور سلف کی راہ سے سرِ مو تجاوز نہ ہو گو قدیم جوہر کی بقاکے ساتھ جدید نقش و نگار سے پرہیز نہیں ، لیکن اگر یہ جدید نقش و نگار اصل قدیم جوہر کو فنا کردے تو اس نقش و نگار سے بے نقش ہی رہنا اچھا ہے ۔ (۴)اخلاص کے بغیر تو اعمال مردہ ہیں ، مگر اخلاص و ریا کی حقیقت سمجھ لیں ، اخلاص نام ہے خالق کی رضا کے لئے کام کرنے کا اور ریا نام ہے مخلوق کی رضا کے لئے کام کرنے کااب آپ اس روشنی میں اپنے اعمال پر نگاہ رکھیں ، نفس کا جائزہ لیتے رہیں اور حسن ِ نیت کی کوشش میں لگے رہیں ۔ (۵)تصوف سر تا پا عمل ہے ۔ (۶)ذکر کے اثر کا ظہور یہی ہے کہ طاعات و مرضیات ِ الٰہی کا ذوق بڑھے ، مخلوق میں شہرت اور مقبولیت کی خواہش اس راہ کا کانٹا ہے ۔ (۷)عجب ، ریاء ، کبر ، رنگ برنگ صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں اور یہ سالک کے لئے سخت خطرناک ہیں، اس لئے ان سے بچنے کا اہتمام ضروری ہے ۔