انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اخلاق وعادات اخلاق حضرت علی مرتضی ؓ نے ایام طفولیت ہی سے سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن عاطفت میں تربیت پائی تھی اس لیے وہ قدرتاًمحاسن اخلاق اورحسنِ تربیت کا نمونہ تھے، آپ کی زبان کبھی کلمہ شرک وکفر سے آلودہ نہ ہوئی اورنہ آپ کی پیشانی غیر خدا کے آگے جھکی ،جاہلیت کے ہر قسم کے گناہ سے مبرا اورپاک رہے، شراب کے ذائقہ سے جو عرب کی گھٹی میں تھی، اسلام سے پہلے بھی آپ کی زبان آشنانہ ہوئی اور اسلام کے بعد تو اس کا کوئی خیال ہی نہیں کیا جاسکتا۔ امانت ودیانت آپ ایک امین کے تربیت یافتہ تھے، اس لیے ابتداء ہی سے امین تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی امانتیں جمع رہتی تھیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو ان امانتوں کی واپسی کی خدمت حضرت علی ؓ کے سپرد فرمائی،(اسدالغابہ ج۴ : ۱۹) اپنے عہد خلافت میں آپ نے مسلمانوں کی امانت بیت المال کی جیسی امانت داری فرمائی، اس کا اندازہ حضرت ام کلثوم ؓ کے اس بیان سے ہوسکتا ہے کہ ایک دفعہ نارنگیاں آئیں، امام حسن ؓ، امام حسین ؓ نے ایک نارنگی اٹھالی،جناب امیر ؓ نے دیکھا تو چھین کر لوگوں میں تقسیم کردی۔(ازالۃ الخفاء بحوالہ ابن ابی شیبہ) مال غنیمت تقسیم فرماتے تھے تو برابر حصے لگاکر غایت احتیاط میں قرعہ ڈالتے تھے کہ اگر کچھ کمی بیشی رہ گئی ہو تو آپ اس سے بری ہوجائیں، ایک دفعہ اصفہان سے مال آیا،اس میں ایک روٹی بھی تھی، حضرت علی ؓ نے تمام مال کے ساتھ اس روٹی کے بھی سات ٹکڑے کیے اورقرعہ ڈال کر تقسیم فرمایا، ایک دفعہ بیت المال کا تمام اندوختہ تقسیم کرکے اس میں جھاڑودی اوردورکعت نماز ادا فرمائی کہ وہ قیامت میں ان کی امانت ودیانت کی شاہد رہے۔ ( ایضاً ابوعمر : ۲۶۶) زہد آپ کی ذات گرامی زہد فی الدنیا کا نمونہ تھی ؛بلکہ حق یہ ہے کہ آپ کی ذات پر زہد کا خاتمہ ہوگیا، آپ کےکا شانۂ فقر میں دنیاوی شان وشکوہ کا درگزرنہ تھا،کوفہ تشریف لائے تو دارالامارت کے بجائے ایک میدان میں فروکش ہوئے اور فرمایا کہ عمر بن الخطاب ؓ نے ہمیشہ ہی ان عالی شان محلات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا، مجھے بھی اس کی حاجت نہیں، میدان ہی میرے لیے بس ہے۔ بچپن سے پچیس چھبیس برس کی عمر تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور شہنشاہ اقلیم زہد وقناعت کے یہاں دنیاوی عیش کا کیا ذکرتھا،حضرت فاطمہ ؓ کے ساتھ شادی ہوئی تو علیحدہ مکان میں رہنے لگے، اسی نئی زندگی کے سازو سامان کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ سیدہ جنت جو سازوسامان اپنے میکہ سے لائی تھیں اس میں ایک چیز کا بھی اضافہ نہ ہوسکا،چکی پیستے پیستے حضرت فاطمہ ؓ کے ہاتھوں میں گھٹے پڑگئے تھے، گھر میں اوڑھنے کی صرف ایک چادر تھی،وہ بھی اس قدر مختصر کہ پاؤں چھپاتے تو سربرہنہ ہوجاتا اور سرچھپاتے تو پاؤں کھل جاتا،معاش کی یہ حالت تھی کہ ہفتوں گھر سے دہواں نہیں اٹھتا تھا،بھوک کی شدت ہوتی تو پیٹ سے پتھر باندھ لیتے، ایک دفعہ شدت گرسنگی میں کاشانۂ اقدس سے باہر نکلے کہ مزدوری کرکے کچھ کمالائیں،عوالی (مدینہ کے قرب وجوار کی آبادی کا نام عوالی تھا)مدینہ میں دیکھا کہ ایک ضعیفہ کچھ اینٹ پتھر جمع کررہی ہے، خیال ہوا کہ شاید اپنا باغ سیراب کرنا چاہتی ہے،اس کے پاس پہنچ کر اجرت طے کی اورپانی سینچنے لگے، یہاں تک کہ ہاتھوں میں آبلے پڑگئے، غرض اس محنت ومشقت کے بعد ایک مٹھی کھجوریں اجرت میں ملیں؛لیکن تنہا خوری کی عادت نہ تھی بجنسہٖ لیے ہوئے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کیفیت سن کر نہایت شوق کے ساتھ کھانے میں ساتھ دیا۔ (مسند ابن حنبل ص ۱۳۵ ) ایامِ خلافت میں بھی زہد کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا اورآپ کی زندگی میں کوئی فرق نہ آیا، موٹا چھوٹا لباس اورروکھا پھیکا کھانا ان کے لیے دنیا کی سب سے بڑی نعمت تھی، ایک دفعہ عبداللہ بن زریرنامی ایک صاحب شریک طعام تھے،دسترخوان پر کھانا نہایت معمولی اورسادہ تھا، انہوں نے کہا، امیر المومنین! آپ کو پرند کے گوشت سے شوق نہیں ہے،فرمایا ابن زریر!خلیفہ وقت کو مسلمانوں کے مال میں سے صرف دوپیالوں کا حق ہے، ایک خود کھائے اور اہل کو کھلائے اوردوسرا خلق خدا کے سامنے پیش کرے ( مسند احمد ج۱ : ۷۸) دردولت پر کوئی حاجب نہ تھا نہ دربان،نہ امیرنہ کروفرنہ شاہانہ تزک واحتشام اورعین اس وقت جب قیصر وکسریٰ کی شہنشاہی مسلمانوں کے لیے زروجواہر اگل رہی تھی، اسلام کاخلیفہ ایک معمولی غریب کی طرح زندگی بسر کرتا تھا اوراس پر فیاضی کا یہ حال تھا کہ دادودہش کی بدولت کبھی فقروفاقہ کی نوبت بھی آجاتی تھی،ایک دفعہ منبر پرخطبہ دیتے ہوئے فرمایاکہ:میری تلوار کا کون خریدار ہے؟خدا کی قسم! اگر میرے پاس ایک تہہ بند کی قیمت ہوتی تواس کو فروخت نہ کرتا،ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا ‘‘امیر المومنین! میں تہہ بند کی قیمت قرض دیتا ہوں۔ گھر میں کوئی خادمہ نہ تھی، شہنشاہ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی گھر کا سارا کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھی، ایک مرتبہ شفیق باپ کےپاس اپنی مصیبت بیان کرنے گئیں، حضرت سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہ تھے اس لیے واپس آکر سورہی،تھوڑی دیرکے بعد حضرت عائشہؓ کی اطلاع پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے اور فرمایا کیا تم کو ایک ایسی بات نہ بتادوں جو ایک خادم سے کہیں زیادہ تمہارے لیے مفید ہو، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسبیح کی تعلیم دی۔ (بخاری،بَاب التَّكْبِيرِ وَالتَّسْبِيحِ عِنْدَ الْمَنَامِ،حدیث نبمر:۵۸۴۳) عبادات حضرت علی کرم اللہ وجہہ خدا کے نہایت عبادت گزار بندے تھے، عبادات ان کا مشغلہ حیات تھا جس کا شاہد خود قرآن ہے، کلام پاک کی اس آیت : "مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِo وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ تَرٰئہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًاْ" (الفتح:۲۹) ‘‘محمد رسول اللہ اوروہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں باہم رحمدل ہیں،تم ان کو دیکھتے ہو کہ بہت رکوع اوربہت سجدہ کرکے خدا کا فضل اوراس کی رضا مندی کی جستجو کرتے ہیں۔’’ کی تفسیر میں مفسرین نے نکتہ لکھا ہےکہ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ سے ابوبکر صدیق ؓ، اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ سے عمر بن الخطاب ؓ، رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْسے عثمان بن عفان ؓ،رُکَّعًا سُجَّدًسے حضرت علی ابن ابی طالب ؓ اور یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًاْسے بقیہ صحابہ ؓ مراد ہیں،(تفسیر فتح البیان ج۹ :)اس سے عبادت میں تمام صحابہ پر حضرت علی ؓ کی فضیلت ثابت ہوئی ہے کیونکہ رکوع وسجودجو تمام صحابہ ؓ کا مشترک وصف تھا، پھر اس اشتراک میں تخصیص سے معلوم ہوا کہ اس اشتراک کے باوجود ان کو اس باب میں کچھ مزید امتیاز بھی حاصل تھا۔ قرآن مجید کے اس اشارہ کے علاوہ خود صحابہ ؓ کی زبان سے ان کے اس امتیازی وصف کی شہادت مذکور ہے ،حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: کان ماعلمت صواما قواما، (ترمذی کتاب المناقب فضل فاطمہ) جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ بڑے روزہ دار اور عبادت گزار تھے۔’’ زبیر بن سعید قریشی کہتے ہیں: لم ارھا شمیا قط کان اعبد اللہ منہ (مستدرک حاکم ج۳ : ۱۰۸) "میں نے کسی ہاشم کو نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ خداکا عبادت گزار ہو۔" ان حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عبادات میں جس چیز کا التزام کرلیتے تھے اس پر ہمیشہ قائم رہتے تھے، ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اورحضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا کہ تم دنوں ہر نماز کے بعد دس بار تسبیح، دس بار تحمید اوردس بار تکبیر پڑھ لیا کرو اورجب سوؤ تو ۳۳ بار تسبیح ،۳۳ بار تحمید اور۳۴ بار تکبیر پڑھ لیا کرو، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو اس کی تلقین کی میں نے اس کو چھوڑا نہیں،ابن کواء نے کہاکہ"صفین کی شب میں بھی نہیں؟فرمایا‘صفین کی شب میں بھی نہیں۔" (مسند ابن حنبل ج۱ : ۱۰۷) انفاق فی سبیل اللہ حضرت علی ؓ گودنیاوی دولت سے تہی دامن تھے؛لیکن دل غنی تھا کبھی کوئی سائل آپ کے درسے ناکام واپس نہیں ہوا حتی کہ قوت لایموت تک دے دیتے،ایک دفعہ رات بھر باغ سینچ کر تھوڑے سے جو مزدوری میں حاصل کیے صبح کے وقت گھر تشریف لائے تو ایک ایک ثلث پسواکر حریرہ پکوانے کا انتظام کیا،اب پک کر تیار ہی ہوا تھا کہ ایک مسکین نے صدادی،حضرت علی ؓ نے سب اٹھاکر اس کو دے دیا اورپھر بقیہ میں دوسرے ثلث کے پکنے کا انتظار کیا؛لیکن تیارہوا کہ ایک مسکین یتیم نے دست سوال بڑھایا،اسے بھی اٹھا کر اس کی نذر کیا،غرض اسی طرح تیسرا حصہ بھی جو بچ رہا تھا پکنے کے بعد ایک مشرک قیدی کی نذر ہوگیا اوریہ مردخدارات بھر کی مشقت کے باوجود دن کوفاقہ مست رہا، خدائے پاک کو یہ ایثار کچھ ایسا بھایا کہ بطور ستائش اس کے صلہ میں، وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَـتِـیْمًا وَّاَسِیْرًا(دھر:۸)کی آیت نازل ہوئی۔ (بخاری کتاب المناقب،مناقب علی ؓ) تواضع سادگی اورتواضع حضرت علی ؓ کی دستارِ فضیلت کا سب سے خوشنما طرہ ہے،اپنے ہاتھ سے محنت ومزدوری کرنے میں کوئی عارنہ تھا،لوگ مسائل پوچھنے آتے تو آپ کبھی جوتا ٹانکتے ،کبھی اونٹ چراتے اورکبھی زمین کھودتے ہوئے پائے جاتے،مزاج میں بے تکلفی اتنی تھی کہ فرش خاک پر بے تکلف سوجاتے،ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ڈھونڈتے ہوئے مسجد میں تشریف لائے،دیکھا کہ بے تکلفی کے ساتھ زمین پر سورہے ہیں،چادرپیٹھ کے نیچے سے سرک گئی ہے اورجسم ِانور گردوغبار کے اندر کندن کی طرح دمک رہا ہے، سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سادگی نہایت پسند آئی، خوددست مبارک سے ان کا بدن صاف کرکے محبت آمیز لہجہ میں فرمایا: اجلس یاابا تراب(بخاری کتاب المناقب باب مناقب علی ؓ)مٹی والے اب اٹھ بیٹھ ،زبان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کی ہوئی یہ کنیت حضرت علی ؓ کو اس قدر محبوب تھی کہ جب کوئی اس سے مخاطب کرتا تو خوشی سے ہونٹوں پر تبسم کی لہر دوڑجاتی۔ ایام خلافت میں بھی یہ سادگی قائم رہی ،عموماً چھوٹی آستین اوراونچے دامن کا کرتہ پہنتے اورمعمولی کپڑے کی تہہ بند باندھتے،بازار میں گشت کرتے پھرتے،اگر کوئی تعظیماً پیچھے ہولیتا تو منع فرماتے کہ اس میں ولی کے لیے فتنہ اورمومن کے لیے ذلت ہے۔ شجاعت وبسالت حضرت علی ؓ کا مخصوص وصف تھا جس میں کوئی معاصر آپ کا حریف نہ تھا، آپ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور سب میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے، اسلام میں سب سے پہلا غزوہ ٔبدر پیش آیا،اس وقت حضرت علی ؓ کاعنفوان شباب تھا؛لیکن اس عمر میں آپ نے جنگ آزما بہادروں کے دوش بدوش ایسی دادِ شجاعت دی کہ آپ اس کے ہیرو قرارپائے۔ آغازِ جنگ میں آپ کا مقابلہ ولید سے ہوا، ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا، پھر شیبہ کے مقابلہ میں حضرت عبیدہ بن حارث ؓ آئے اوراس نے ان کو زخمی کیا تو حضرت حمزہ اورحضرت علی ؓ نے حملہ کرکے اس کا کام بھی تمام کردیا،غزوہ ٔاحد میں کفار کا جھنڈا طلحہ بن ابی طلحہ کے ہاتھ میں تھا، اس نے مبازرت طلب کی تو حضرت علی مرتضیٰ ؓ ہی اس کے مقابلہ میں آئے اورسرپر ایسی تلوار ماری کہ سر کے دوٹکڑے ہوگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو فرطِ مسرت میں تکبیر کا نعرہ بلند کیا اور مسلمانوں نے بھی تکبیر کے نعرے لگائے۔ غزوۂ خندق میں بھی پیش پیش رہے؛چنانچہ عرب کے مشہور پہلوان عمروبن عبدونے جب مبازرت طلب کی توحضرت علی مرتضی ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میدان میں جانے کی اجازت چاہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی تلوار عنایت فرمائی،خود اپنے دستِ مبارک سے ان کے سرپر عمامہ باندھا اوردعا کی خداوندا!تو اس کے مقابلہ مین ان کا مددگار ہو، اس اہتمام سے آپ ابن عبدودکے مقابلہ میں تشریف لے گئے اور اس کو زیر کرکے تکبیر کا نعرہ مارا جس سے مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے حریف پر کامیابی حاصل کرلی۔ غزوہ ٔخیبر کا معرکہ حضرت علی ؓ ہی کی شجاعت سے سرہوا، جب خیبر کا قلعہ کئی دن تک فتح نہ ہوسکا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو خدا اورخدا کے رسول کو محبوب رکھتا ہے اورخدا اورخدا کے رسول اس کو محبوب رکھتے ہیں؛چنانچہ دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کو جھنڈا عنایت فرمایا اورخیبر کا رئیس مرحب تلوار ہلاتاہوااوررجز پڑھتا ہوامقابلے میں آیا، اس کے جواب میں حضرت علی مرتضی رجز خواں آگے بڑھے اورمرحب کے سرپر ایسی تلوار ماری کہ سرپھٹ گیا اورخیبر فتح ہوگیا،خیبر کی فتح کو آپ کے جنگی کارناموں میں خاص امتیاز حاصل ہے۔ غزوات میں غزوہ ہوازن خاص اہمیت رکھتا ہے اس میں تمام قبائلِ عرب کی متحدہ طاقت مسلمانوں کے خلاف امنڈ آئی تھی؛لیکن اس غزوہ میں بھی حضرت علی ؓ ہر موقع پر ممتاز رہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اکابر کو جھنڈے عنایت فرمائے، ان میں حضرت علی مرتضیٰ بھی شامل تھے،آغاز جنگ میں جب کفارنے دفعۃتیروں کا مینہ برسانا شروع کیا تو مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور صر ف چند ممتاز صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثبات قدم رہے، ان میں ایک حضرت علی مرتضیٰ ؓ بھی تھے، عہد نبوت کے بعد خود ان کے زمانہ میں جو معرکے پیش آئے ان میں کبھی ان کے پائے ثبات کو لغزش نہیں ہوئی۔ دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک حدیث میں آیا ہے کہ‘‘بہادروہ نہیں ہے جو دشمن کو پچھاڑدے ؛بلکہ وہ ہے جو اپنے نفس کو زیر کرے، حضرت علی مرتضی ؓ اس میدان کے مرد تھے، ان کی زندگی کا اکثر حصہ مخالفین کی معرکہ آرائی میں گزرا؛لیکن بایں ہمہ انہوں نے ہمیشہ دشمنوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا، ایک دفعہ ایک لڑائی میں جب ان کا حریف گرکر برہنہ ہوگیا تو اس کو چھوڑکر الگ کھڑے ہوگئے کہ اس کو شرمندگی نہ اٹھانی پڑے، جنگ جمل میں حضرت عائشہ ؓ ان کی حریف تھیں؛لیکن جب ایک ضبی نے ان کے اونٹ کو زخمی کرکے گرایا تو خود حضرت علی ؓ نے آگے بڑھ کر ان کی خیرت دریافت کی اوران کو ان کے طرفدار بصرہ کے رئیس کے گھر میں اتارا،حضرت عائشہ ؓ کی فوج کے تمام زخمیوں نے بھی اسی گھر کے ایک گوشے میں پناہ لی تھی، حضرت علی ؓ حضرت عائشہ ؓ سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے؛ لیکن ان پناہ گزین دشمنوں سے کچھ تعرض نہیں کیا۔ جنگ جمل میں جو لوگ شریک جنگ تھے، ان کی نسبت بھی عام منادی کرادی کہ بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے، زخمیوں کے اوپر گھوڑے نہ دوڑائے جائیں، مالِ غنیمت نہ لوٹا جائے،جوہتیارڈال دے اس کو امان ہے۔ حضرت زبیر ؓ نے ایک حریف کی حیثیت سے ان کا مقابلہ کیا تھا اورجنگ جمل کے سپہ سالاروں میں تھے، مگر جب ان کا قاتل ابن جرموز ان کا مقتول سراورتلوار لے کر حضرت علی ؓ کے پاس آیا تو وہ آبدیدہ ہوگئے اورفرمایا‘‘فرزند صفیہ ؓ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو،پھر حضرت زبیر ؓ کی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا، یہ وہی تلوار ہے جس نے کئی دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ سے مشکلات کا بادل ہٹایا ہے۔ مستدرک میں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس ان کا سرآیا تو فرمایا کہ ‘فرزندِ صفیہ ؓ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر نبی کے حواری ہوتےہیں اور میرا حواری زبیر ہے۔ (مستدرک ج۳ : ۳۶۷) جنگ جمل کے میدان میں جب آپ فریق مخالف کی لاشوں کا معائنہ کررہے تھے،تو ایک ایک لاش کو دیکھ کر افسوس کرتے تھے،جب حضرت طلحہ ؓ کے صاحبزادے محمد کی لاش پر نظر پڑی تو آہ سرد بھر کر فرمایا:اے قریش کا شکرہ! ان کا سب سے بڑا دشمن ان کا قاتل ابن ملجم ہوسکتا تھا؛لیکن انہوں نے اس کے متعلق جو آخری وصیت کی تھی وہ یہ تھی کہ اس سےمعمولی طورپر قصاص لینا، مثلہ نہ کرنا،یعنی اس کے ہاتھ پاؤں اورناک نہ کاٹنا، ابن سعد میں ہے کہ جب وہ آپ کے سامنے لایا گیا تو فرمایا کہ اس کواچھا کھانا کھلاؤ اور اس کو نرم بستر پر سلاؤ اگرمیں زندہ بچ گیا تو اس کے معاف کرنے یا قصاص لینے کا مجھے اختیار حاصل ہوگا اوراگر میں مرگیا تو اس کو مجھ سے ملادینا،میں خدا کے سامنے اس سے جھگڑوں گا، دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک کی اس سے اعلیٰ مثال کیا ہوسکتی ہے؟ اصابت رائے حضرت علی کرم اللہ وجہہ صائب الرائے بھی تھے اورآپ کی ا صابت رائے پر عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے اعتماد کیا جاتا تھا؛چنانچہ آپ تمام مہماتِ امور میں شریک مشورہ کیے جاتے تھے،واقعہ افک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے راز داروں میں جن لوگوں سے مشورہ کیا،ان میں سے ایک حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی تھے،غزوہ طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اتنی دیر تک سرگوشی فرمائی کہ لوگوں کو اس پر رشک ہونے لگا۔ خلافت راشدہ کے زمانہ میں وہ حضرت ابوبکر وعمرؓ دونوں کے مشیر تھے؛چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مہاجرین وانصار کی جو مجلس شوریٰ قائم کی تھی،اس کے رکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی تھے، حضرت عمر فاروق ؓ نے اس مجلس کے ساتھ مہاجرین کی جو مخصوص مجلس شوریٰ قائم کی تھی اس کے اراکین کے نام اگرچہ ہم کو معلوم نہیں ہیں؛لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ لازمی طورپر اس کے ایک رکن رہے ہوں گے،کیونکہ حضرت عمرؓ کو ان کی رائے پر اتنا اعتماد تھا کہ جب کوئی مشکل معاملہ پیش آجاتا توحضرت علی ؓ سے مشورہ کرتے تھے، ایک موقع پر انہوں نےفرمایا تھا۔ لولا علی لھلک عمر اگر علی نہ ہوتے عمر ہلاک ہوجاتا۔ اس اعتماد کی بنا پر بعض امور میں حضرت عمر ؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی رائے کو اپنی رائے پر ترجیح دی ہے،معرکہ نہادند میں جب ایرانیوں کی کثرت نے حضرت عمرؓ کو بے حد مشوش کردیا،تو انہوں نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام صحابہ کو جمع کرکے رائے طلب کی،حضرت طلحہ ؓ نے کہا امیرالمومنین آپ خود ہم سے زیادہ سمجھ سکتے ہیں، البتہ ہم لوگ تعمیل حکم کے لیے تیار ہیں،حضرت عثمان ؓ نے مشورہ دیا کہ شام ویمن وغیرہ سے فوجیں جمع کرکے آپ خود سپہ سالار ہوکر میدانِ جنگ تشریف لے جائیں ،حضرت علی کرم اللہ وجہہ خاموش تھے،حضرت عمؓ نے ان کی طرف دیکھا تو بولے کہ شام سے اگر فوجیں ہٹیں تو مفتوحہ مقامات پر دشمنوں کا تسلط ہوجائے گا اور آپ نے مدینہ چھوڑا تو عرب میں ہر طرف قیامت برپا ہوجائے گی، اس لیے میری رائے یہ ہے کہ آپ یہاں سے نہ ہلیں اورشام ویمن وغیرہ میں فرمان بھیج دیئے جائیں کہ جہاں جہاں جس قدر فوجیں ہوں ایک ایک ثلث ادھر روانہ کردی جائیں،حضرت عمر ؓ نے اس رائے کو پسند کیا اورکہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے بھی ان سے اہم معاملات میں مشورے لیے اور اگر ان کے مشورہ پر عمل کیا جاتا تو ان کا عہد نہ صرف فتنہ وفساد سے محفوظ رہتا ؛بلکہ قبائل عرب میں ایک ایسا توازن قائم ہوجاتا کہ آئندہ جھگڑے کی کوئی صورت ہی نہ پیدا ہوتی۔ آپ کی اصابت رائے کا سب سے بڑا ثبوت آپ کے فیصلوں میں ملتا ہےاحادیث کی کتابوں میں بہت سے ایسے پیچیدہ مقامات مذکورہیں جن کا فیصلہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کیا اورجب وہ فیصلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے گئے تو آپ نے فرمایا: مااجد فیھا الاماقال علی میرے نزدیک بھی اس کا فیصلہ وہی ہے جو علی نے کیا۔ ان کے ایک اورفیصلہ کا ذکر کیا گیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور فرمایا: الحمدللہ الذی جعل فینا الحکمۃ اھل البیت (ازالۃ الخفاء : ۲۶۹) اس خدا کا شکر ہے جس نے ہم اہل بیت کو حکمت سکھائی۔" شاہ ولی اللہ صاحب نے ازالۃ الخفاء میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے محاسن اخلاق پر ایک نہایت جامع بحث کی ہے،جس کا خلاصہ یہاں مناسب ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں: ‘‘بڑے بڑے لوگوں کی سرشت میں جو عظیم الشان اخلاق داخل ہوتے ہیں، مثلاً شجاعت،قوت،حمیت اوروفاوہ سب ان میں موجود تھے اور فیض ربانی نے ان سب کو اپنی مرضی میں صرف کیا اوران کے ایک ایک خلق کے ساتھ اس فیضِ ربانی کی آمیزش سے ایک ایک مقام پیدا ہوا، ریاض النضرہ میں ہے کہ جب وہ راہ چلتے تھے تو ادھر ادھر جھکے ہوئے چلتے تھے، اورجب کسی کا ہاتھ پکڑ لیتے تھے تو وہ سانس تک نہیں لےسکتا تھا، وہ تقریباً فربہ اندام تھے، ان کی کلائیاں اور ان کے ہاتھ مضبوط تھے اور دل کے مضبوط تھے،جس شخص سے کشتی لڑتے اس کو پچھاڑ دیتے تھے، بہادر تھے اور جس سے جنگ میں مقابلہ کرتے اس پر غالب آتے تھے۔ ان کے تمام محاسن اخلاق میں ایک وفا تھی اورجب فیض ربانی نے اس کو موہبت کیا تو مقام محبت ان کے لیے ایک مسلمہ چیز بن گیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کہ متواتر طورپر ثابت ہے،فرمایاکہ میں کل ایسے شخص کو جھنڈادوں گا جو اللہ اوراس کے رسول سے محبت کرتا ہے اوراللہ اوراس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں، بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دیا۔ ان کے محاسن اخلاق میں ایک خلق، دشمنوں کی مدافعت ومبارزت تھی جسے فیض ربانی نے ان کے سوابق اسلامیہ میں صرف کیا اورآخرت میں اس سےعجیب نتیجہ پیداہوا اوریہ آیت: ھذان خمصان اختصموا ان دونوں فریق نے باہم مخاصمت کی۔ ان کی اوران کے رفقاء کی شان میں نازل ہوئی،امام بخاری نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں پہلا شخص ہوں گا جو قیامت کے دن خدا کے سامنے خصوصیت کے لیے دوزانوبیٹھے گا،قیس کہتے ہیں کہ یہ آیت: ھذان خصمان اختصموا فی ربھم ان دونوں فریق نے اپنے رب کے بارے میں باہم مخاصمت کی۔ ان ہی لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی اوریہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بدر کے دن باہم مبارزت کی،یعنی حمزہ ؓ،علی ؓ اورعبیدہ بن الحارث ؓ،شیبہ بن ربیعہ ؓ، عتبہ اورولید بن عتبہ۔ ان کے محاسن اخلاق میں ایک خلق ان کی غیر معمولی دلیری تھی،وہ کسی کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے،لوگوں کی خاطر مدارت میں اپنی خواہش سے باز نہیں آتے تھے، فیض ربانی نے ان کے ان اخلاق سے نہی المنکر اوربیت المال کی حفاظت کا کام لیا،حاکم نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت کی ہے،لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شکایت کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اورفرمایا‘‘لوگو! علی کی شکایت نہ کرو،خداکی قسم!خداکی ذات اور اس کی راہ کے معاملہ میں وہ کسی قدرسخت ہے"حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کی ذات کے معاملہ میں علی ؓ سخت ہیں۔" ان کے محاسن اخلاق میں ایک خلق اپنی قوم اوراپنے چچازاد بھائی (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کی حمیت تھی،وہ ان کے کام کی تکمیل میں نہایت اہتمام کرتے تھے اوران کی مدد میں نہایت ہمت سے کام لیتے تھے،یہ وہ وصف ہے جو اکثر شریفوں میں پیدا ہوتا ہے،جب فیض ربانی نے اعلائے کلمۃ اللہ کا جذبہ ان کے دل میں پیدا کیا تو اس خلق سے کام لیا اوراس عقلی معنی کی شرح و تفسیر جس سے ایک ایسا عجیب مقام پیدا ہوا جس کی تعبیر اخوت رسول ،وصی اوروارث وغیرہ متعدد الفاظ سے کی جاتی ہے ،حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچیرے بھائیوں میں سے ہر ایک سے فرمایا کہ دنیا وآخرت میں تم میں سے کون میرا ولی ہوگا؛لیکن ان سب نے اس بار کے تحمل سے انکار کیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ تم دنیاوآخرت میں میرے ولی ہوئے،حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں فرماتے تھے کہ خداوند تعالی فرماتا ہے: افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم اگروہ مرگیے یا مارے گیے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔ خداکی قسم!جب ہم کو خدانے ہدایت دے دی تو اس کے بعد ہم پیٹھ نہ پھیریں گے خداکی قسم اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے تو جس چیز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کرتے تھے،ہم بھی اس کے لیے لڑیں گے،یہاں تک کہ مرجائیں،خداکی قسم ! میں آپ کا بھائی ہوں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کا لڑکا ہوں،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کا وارث ہوں،ایسی صورت میں مجھ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق دار کون ہے۔ (مستدرک کی روایت اور ازالۃ الخفاکی روایت میں تھوڑا سافرق ہے،اس ترجمہ میں اصل مستدرک کی روایت کا لحاظ رکھا گیا ہے) اسی سے ان دونوں فریق کی جوافراط وتفریط کرتے ہیں غلطی بھی ظاہر ہوگئی، ایک کہتا ہے کہ قوم کی حمایت کے لیے غلبہ کا خواستگار ہونا خلوص نہیں،دوسراکہتا ہے کہ استحقاق خلافت کے لیے اخوت نسبتی شرط ہے۔ ان کے محاسنِ اخلاق میں ایک زہداورشہوت نفسانی سے اجتناب ہے،حضرت امیر معاویہ ؓ نے ضراراسدی سے کہا کہ مجھ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اوصاف بیان کرو، انہوں نے کہا کہ امیرالمومنین اس سے مجھے معاف فرمائیے،معاویہ ؓ نے اصرار کیا ضراربولے،اگر اصرار ہے تو سنیے وہ بلند حوصلہ اورنہایت قوی تھے،فیصلہ کن بات کہتے تھے،عادلانہ فیصلہ کرتے تھے،ان کے ہرجانب سے علم کا سرچشمہ پھوٹتا تھا، ان کے تمام اطراف سے حکمت ٹپکتی تھی،دنیا کی دلفریبی اورشادابی سے وحشت کرتے اوررات کی وحشت ناکی سے انس رکھتے تھے،بڑے رونے والے اوربہت زیادہ غوروفکر کرنے والے تھے،چھوٹالباس اورموٹاجھوٹاکھانا پسندتھا،ہم میں بالکل ہماری طرح رہتے تھے،جب ہم ان سے سوال کرتے تھے تو وہ ہمارا جواب دیتے تھے اورجب ہم ان سے انتظار کی درخواست کرتے تھے تو وہ ہمارا انتظار کرتے تھے،باوجود یکہ اپنی خوش خلقی سے ہم کو اپنے قریب کرلیتے تھے اور وہ خود ہم سے قریب ہوجاتے تھے؛لیکن اس کے باوجود خدا کی قسم ان کی ہیبت سے ہم ان سے گفتگو نہیں کرسکتے تھے، وہ اہل دین کی عزت کرتے تھے،غریبوں کو مقرب بناتے تھے ،قوی کو اس کے باطل میں حرص وطمع کا موقع نہیں دیتے تھے،ان کے انصاف سے ضعیف ناامید نہیں ہوتا تھا،میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے ان کو بعض معرکوں میں دیکھا کہ رات گزرچکی ہے،ستارے ڈوب چکے ہیں اور وہ اپنی داڑھی پکڑے ہوئے ایسے مضطرب ہیں جیسے مارگزیدہ مضطرب ہوتا ہے اوراس حالت میں وہ غمزدہ آدمی کی طرح رورہے ہیں اورکہتے ہیں کہ اے دنیا مجھ کو فریب نہ دے تو مجھ سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہے،یا میری مشتاق ہوتی ہے، افسوس افسوس! میں نے تجھ کو تین طلاقیں دے دی ہیں جس سے رجعت نہیں ہوسکتی ،تیری عمر کم اورتیرا مقصدحقیر ہے،آہ!زادراہ کم اورسفر دوردرازکا ہے،راستہ وحشت خیز ہے’’ یہ سن کر امیر معاویہ ؓ روپڑے اورفرمایا خدا ابوالحسن پر رحم کرے،خدا کی قسم!وہ ایسے ہی تھے۔ ان کے محاسن اخلاق میں ایک چیز شبہات سے اجتناب ہے،ان کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم ؓ سے روایت ہے کہ اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس لیموں آجاتے تھے اورحسن ؓ وحسین ؓ ان میں سے کوئی لیموں لے کر کھانے لگتا تو وہ اس کو ان کے ہاتھ سے چھین لیتے اوراس کو تقسیم کرنے کا حکم دیتے تھے،ابوعمروسے روایت ہے کہ وہ فے کی تقسیم میں حضرت ابوبکر ؓ کا طریقہ اختیار کرتے تھے، یعنی جب ان کے پاس آتا تھا تو سب تقسیم کردیتے تھے اور فرماتے اے دنیا میرے سوا کسی اورکو دھوکہ دے اورخود اس سے اپنے لیے کوئی چیز انتخاب نہ کرتے تھے اور نہ تقسیم میں اپنے کسی رشتہ دار یا اورعزیز کی تخصیص کرتے تھے،حکومت اورامانت صرف متدین لوگوں کے سپرد کرتے تھے، اورجب یہ معلوم ہوتا کہ کسی نے اس میں خیانت کی ہے تو اس کو لکھتے: قدجاءتکم موعظۃ من ربکم فاو فواالکیل والمیزان بالقسط ولاتدخسوا الناس اشیاء ھم ولا تعثوافی الارض مفسدین بقیۃ اللہ خیر لکم ان کنتم مومنین وماانا علیکم بحفیظ "تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نصیحت آچکی ہے تو ناپ جو کھ کر انصاف کے ساتھ پورا کرو اورلوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو اورزمین میں فساد نہ پھیلاؤ،خداکا ثواب تمہارے لیے بہتر ہے،اگر تم ایماندار ہو اورمیں تمہارا نگران نہیں ہوں۔" جب تمہارے پاس میراخط پہنچے تو تمہارے ہاتھ میں جو کام ہے اس وقت تک تم اس کی پوری حفاظت کرو جب تک کہ ہم تمہارے پاس دوسرے شخص کو نہ بھیجیں جو تمہارے ہاتھوں سے لے لے،پھر اپنی نگاہ کو آسمان کی طرف اٹھاتے اورکہتے کہ خداوندتوجانتا ہے کہ میں نے ان کو تیری مخلوق پر ظلم کرنے اورتیرے حق کو چھوڑنے کا حکم نہیں دیاہے۔ مجع التمیمی سے روایت ہے کہ بیت المال میں جو کچھ تھا اس کو حضرت علی ؓ نے مسلمانوں میں تقسیم کردیا، پھر حکم دیا کہ اس میں جھاڑودے دی جائے اوراس میں نماز پڑھی تاکہ قیامت کے دن ان کی گواہ رہے۔ حضرت کلیب ؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس اصفہان سے مال آیا تو انہوں نے اس کے ساتھ حصے کیے، اس میں ایک روٹی بھی تھی اس کے بھی سات ٹکڑے کیے اورہر حصے پر ایک ایک ٹکڑاتقسیم کیا،پھر قرعہ ڈالاکہ ان میں کس کوکون ساحصہ دیا جائے۔ ان کے محاسنِ اخلاق میں ایک چیز یہ ہے کہ وہ معاش کی تنگی پر صبر کرتے تھے اوراس کو اپنے لیے گوارہ کرلیتے تھے،خود ان سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ ہمارے گھر میں آئیں تو ہمارے بچھانے کے لیے صرف مینڈھے کی ایک کھال تھی، ضمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کا کام اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ کے متعلق کیا تھا اوربیرونی انتظامات حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کیے تھے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے حضرت فاطمہ ؓ کا نکاح کیا تو جہیز میں ایک چادر،چمڑے کا ایک گدا جس میں کھجور کی پتیاں بھری ہوئی تھیں، ایک چکی، ایک مشک اوردو گھڑے دیے، ایک دن حضرت علی ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ سے کہا کہ پانی بھرتے بھرتے میرا سینہ درد کرنے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لونڈی غلام آتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خادم کی درخواست کرو،انہوں نے کہا کہ آٹا پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں بھی آبلے پڑگئے؛چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا،بیٹی کس غرض سے آئی ہو؟ بولیں سلام کرنے؛لیکن سوال کرنے سے ان کو شرم آئی اور واپس چلی گئیں، حضرت علی ؓ نے پوچھا، تم نے کیا کیا؟ بولیں سوال کرنے میں مجھے شرم آئی، دوبارہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے،حضرت علی ؓ نے عرض کیا کہ پانی بھرتے بھرتے میرا سینہ درد کرنے لگا اورحضرت فاطمہ ؓ نے کہا کہ آٹا پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے، خدانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لونڈی غلام اورمال بھیجا ہے، ہم کو بھی ایک خادم عنایت ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ میں تم کو دوں اوراہل صفہ کو فاقہ مستی کی حالت میں چھوڑدوں میں ان لونڈی غلاموں کو فروخت کرکے ان کی قیمت ان پر صرف کروں گا،یہ جواب پاکر دونوں لوٹ آئے،ان کی واپسی کے بعدخود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اورحضرت فاطمہ ؓ چادر اوڑھ کر سوچکی تھیں، یہ چادر اتنی چھوٹی تھی کہ جب سرڈھکتے تھے تو پاؤں اورجب پاؤں ڈھکتے تھے تو سرکھل جاتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے پر دونوں اُٹھ گئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم کو میں ایسی چیز نہ بتلادوں جو اس چیز سے بہتر ہے جس چیز کو تم مجھ سے مانگ سکتے ہو،دونوں نے کہا،ہاں!فرمایا،مجھ کو جبرئیل نے چند کلمے سکھائے اورکہا کہ دونوں ہر نماز کےبعد دس بار تسبیح اور دس بار تحمید اوردس بار تکبیر کہہ لیا کرو، اس طرح تم دونوں سوتے وقت ۳۳ بار تحمید اور۳۴ بار تکبیر کہہ لیا کرو،حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بیان ہے کہ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو یہ کلمے سکھائے ،اس وقت سے میں نے ان کو نہیں چھوڑا، ابن کواء نے کہا کہ صفین کی رات میں بھی نہیں؟فرمایا، نہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بیان ہے کہ مدینہ میں ایک مرتبہ مجھے سخت بھوک لگی، کھانے کو کچھ نہ تھا اس لیے عوالی میں مزدوری کی تلاش میں نکلا، ایک عورت ملی، جس نے ڈھیلے اکھٹے کیے تھے، میں نے خیال کیا کہ غالبا ان کو وہ بھگوانا چاہتی ہے؛چنانچہ میں نے ہر ڈول پر ایک کھجور اجرت طے کی اور ۱۶ ڈول پانی بھرے جس سے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے، اس نے مجھے سولہ کھجوریں گن کردیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ ہوسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کھجوروں کو میرے ساتھ کھایا۔ (ازالۃ الخفاء کا خلاصہ ختم ہوا)