انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مصارفِ زکوٰۃ warning: preg_match() [function.preg-match]: Compilation failed: regular expression is too large at offset 34224 in E:\wamp\www\Anwar-e-Islam\ast-anwar\includes\path.inc on line 251. اللہ تعالی نے قرآن کریم میں آٹھ قسم کے لوگوں کو زکوٰۃ کا مصرف قراردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:صدقات تو دراصل حق ہے فقیروں کا ،مسکینوں کا اور اُن اہلکاروں کا جو صدقات کی وصولی پر مقرر ہوتے ہیں اور اُن کا جن کی دلداری مقصود ہے، نیز انہیں غلاموں کو آزاد کرنے میں اور قرض داروں کے قرضے اداکرنے میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافروں کی مدد میں خرچ کیا جائے، یہ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے!اور اللہ علم کا بھی مالک ہے،حکمت کا بھی مالک ہے۔ حوالہ إِنَّمَاالصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ(التوبہ:۶۰) بند لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مؤلفۃ قلوبھم کو زکوۃ دینے سے منع کیا ہے اس لئے کہ اسلام طاقتور ہوچکا ہے اور صحابہ میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا، اس قسم کا ساقط ہونا اجماع صحابہ سے ثابت ہوا۔ حوالہ روي أن عيينة والأقرع جاءا يطلبان أرضاً من أبي بكر فكتب بذلك خطاً فمزقه عمر رضي الله تعالى عنه وقال :هذا شيء يعطيكموه رسول الله صلى الله عليه وسلم تأليفاً لكم فأما اليوم فقد أغز الله تعالى الإسلام وأغني عنكم فإن ثبتم على الإسلام وإلا فبيننا وبينكم السيف . فرجعوا إلى أبي بكر فقالوا :أنت الخليفة أم عمر؟ بذلت لنا الخط ومزقه عمر ، فقال رضي الله تعالى عنه :هو إن شاء ووافقه ، ولم ينكر عليه أحد من الصحابة رضي الله تعالى عنهم مع احتمال أن فيه مفسدة كارتداد بعض منهم وإثارة ثائرة(روح المعاني التوبة:۷۶۰/۲۶۸) عن حبان بن أبي جبلة قال:قال عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه:وأتاه عيينة بن حصن:( الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ )، [سورة الكهف:29]، أي:ليس اليوم مؤلفة.(جامع البيان للطبري ۳۱۵/۱۴) بند سات قسم کے لوگ زکوۃ کے مصارف میں باقی رہ گئے ، ہم ہر قسم کی تعریف اور اس کے متعلق احکام نیچے ذکر کریں گے۔ (۱)فقیر:وہ شخص ہوتا ہے جو نصاب سے کم كا مالک ہوتا ہے۔ جو شخص نصاب سے کم کا مالک ہو، اگرچہ صحت مند ہو اور ذریعہ معاش بھی اس کے پاس ہو اس پر زکوۃ کے مال کو صرف کرنا جائز ہے۔ حوالہ والفقير على ما روي عن الإمام أبي حنيفة رضي الله تعالى عنه من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة (روح المعاني التوبة:۶۰ ۲۶۶/۷) بند (۲)مسکین:جو بالکل کسی چیز کا مالک نہ ہو۔ حوالہ والمسكين من لا شيء له (روح المعاني التوبة:۶۰ ۲۶۶/۷) بند (۳)عامل:وہ شخص ہوتا ہے جو زکوۃ اور عشر کو اکھٹا کرتا ہے ، اس لئے اس زکوۃ کے مال سے اس کی کاركردگی کے بقدر دیا جاتا ہے۔ حوالہ وَالْعَامِلُ يَدْفَعُ إلَيْهِ الْإِمَامُ إنْ عَمِلَ بِقَدْرِ عَمَلِهِ فَيُعْطِيهِ مَا يَسَعُهُ وَأَعْوَانُهُ غَيْرَ مُقَدَّرٍ بِالثَّمَنِ (الهداية:۱۱۰/۱) قال أبو جعفر:وأولى الأقوال في ذلك بالصواب، قولُ من قال:يعطى العامل عليها على قدر عُمالته وأجر مثله (جامع البيان للطبري ۳۱۲/۱۴) بند (۴)غلام آزاد کرنے میں:وہ مکاتب غلام ہوتا ہے۔یہ قسم اس زمانہ میں نہیں پائی جاتی ، لیکن جب یہ قسم پائی جائے گی تو ان پر زکوۃ صرف کی جائے گی۔ حوالہ وفي الرقاب يعان المكاتبون منها في فك رقابهم (الهداية:۱۱۰/۱) عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِّمْنِي عَمَلًا يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ فَقَالَ لَئِنْ كُنْتَ أَقْصَرْتَ الْخُطْبَةَ لَقَدْ أَعْرَضْتَ الْمَسْأَلَةَ أَعْتِقْ النَّسَمَةَ وَفُكَّ الرَّقَبَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَلَيْسَتَا بِوَاحِدَةٍ قَالَ لَا إِنَّ عِتْقَ النَّسَمَةِ أَنْ تَفَرَّدَ بِعِتْقِهَا وَفَكَّ الرَّقَبَةِ أَنْ تُعِينَ فِي عِتْقِهَا (مسند احمد حديث البراء بن عازب رضي الله عنه ۱۸۶۷۰) بند (۵)مقروض:یہ وہ شخص ہے جس کے ذمہ قرض ہو، اپنے قرض کی ادائیگی کے بعد نصاب کامل کا مالک نہ رہ جاتا ہو، مقروض پر قرض کی ادائیگی کے لئے زکوۃ کا صرف کرنا فقیر کو زکوۃ دینے سے بہتر ہے۔ حوالہ الْغَارِمُ الَّذِي عَلَيْهِ الدَّيْنُ أَكْثَرُ مِنْ الْمَالِ الَّذِي فِي يَدِهِ أَوْ مِثْلُهُ أَوْ أَقَلُّ مِنْهُ لَكِنْ مَا وَرَاءَهُ لَيْسَ بِنِصَابٍ . (بدائع الصنائع فَصْلٌ الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمُؤَدَّى إلَيْه۲۶/۴) بند (۶)اللہ کے راستے میں:یہ وہ محتاج ہوتے ہیں جو اللہ کے راستے میں لگے ہوئے ہیں یا حجاج ہوتے ہیں جو حج کیلئے نکلتے ہیں اور اپنی نقدی رقم کے ختم ہونے کی وجہ سے بیت اللہ کو پہنچ نہیں پاتے ۔ حوالہ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلَّا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ ابْنِ السَّبِيلِ أَوْ جَارٍ فَقِيرٍ يُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ فَيُهْدِي لَكَ أَوْ يَدْعُوكَ (ابوداود بَاب مَنْ يَجُوزُ لَهُ أَخْذُ الصَّدَقَةِ وَهُوَ غَنِيٌّ ۱۳۹۴) عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنِي رَسُولُ مَرْوَانَ الَّذِي أُرْسِلَ إِلَى أُمِّ مَعْقَلٍ قَالَتْ كَانَ أَبُو مَعْقَلٍ حَاجًّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَدِمَ قَالَتْ أُمُّ مَعْقَلٍ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ عَلَيَّ حَجَّةً فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ حَتَّى دَخَلَا عَلَيْهِ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عَلَيَّ حَجَّةً وَإِنَّ لِأَبِي مَعْقَلٍ بَكْرًا قَالَ أَبُو مَعْقَلٍ صَدَقَتْ جَعَلْتُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطِهَا فَلْتَحُجَّ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَأَعْطَاهَا الْبَكْرَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي امْرَأَةٌ قَدْ كَبِرْتُ وَسَقِمْتُ فَهَلْ مِنْ عَمَلٍ يُجْزِئُ عَنِّي مِنْ حَجَّتِي قَالَ عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تُجْزِئُ حَجَّةً (ابوداود بَاب الْعُمْرَةِ ۱۶۹۷)عِبَارَةً عَنْ جَمِيعِ الْقُرَبِ فَيَدْخُلُ فِيهِ كُلُّ مَنْ سَعَى فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَسَبِيلِ الْخَيْرَاتِ إذَا كَانَ مُحْتَاجًا وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ الْمُرَادُ مِنْهُ فُقَرَاءُ الْغُزَاةِ ؛ لِأَنَّ سَبِيلَ اللَّهِ إذَا أُطْلِقَ فِي عُرْفِ الشَّرْعِ يُرَادُ بِهِ ذَلِكَ ، وَقَالَ مُحَمَّدٌ :الْمُرَادُ مِنْهُ الْحَاجُّ الْمُنْقَطِعُ (بدائع الصنائع فَصْلٌ الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمُؤَدَّى إلَيْه۲۶/۴) بند (۷) وہ مسافر جس کا اپنے وطن میں مال ہو، لیکن اس کا مال سفر میں ختم ہوچکا ہو ، تو اس پر زکوٰۃ کی اتنی مقدار صر ف کی جائے گی کہ وہ اپنے وطن پہنچ سکے۔جن پر زکوۃ واجب ہے ان کو ان تمام قسموں پر زکوۃ صرف کرنا جائز ہے۔اسی طرح ان کا تمام قسموں کے ہوتے ہوئے صرف ایک قسم پر صرف کرنا بھی جائز ہے ۔ حوالہ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلَّا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ ابْنِ السَّبِيلِ أَوْ جَارٍ فَقِيرٍ يُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ فَيُهْدِي لَكَ أَوْ يَدْعُوكَ (ابوداود بَاب مَنْ يَجُوزُ لَهُ أَخْذُ الصَّدَقَةِ وَهُوَ غَنِيٌّ ۱۳۹۴) فَهُوَ الْغَرِيبُ الْمُنْقَطِعُ عَنْ مَالِهِ وَإِنْ كَانَ غَنِيًّا فِي وَطَنِهِ ؛ لِأَنَّهُ فَقِيرٌ فِي الْحَالِ (بدائع الصنائع فَصْلٌ الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمُؤَدَّى إلَيْه۲۸/۴) بند