انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مطیع اللہ معزالدولہ بن بویہ، دیلمی بویہ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا، یہ لوگ چونکہ اطروش کے ہاتھ پرمسلمان ہوئے تھے، اس لیے تمام دیلمی شیعہ تھے، خاندان بویہ شیعیت اور عصبیت میں سب سے بڑھا ہوا تھا، مستکفی کوذلیل ومعزول ومقید اور اندھا کردینے کے بعد معزالدولہ نے چاہا کہ کسی علوی کوتختِ خلافت پربٹھائے؛ مگراس کے کسی مشیر نے اس کواس ارادے سے باز رکھا اور سمجھایا کہ اگرآپ نے کسی علوی کوخلیفہ بنادیا توچونکہ آپ کی تمام قوم اس کومستحق خلافت سمجھے گی، اس لیے وہ بجائے آپ کے اس علوی خلیفہ کی خدمت واطاعت کومقدم سمجھے گی اور دیلمیوں پرجوآپ کا اثر ہے، یہ ہرگز باقی نہیں رہے گا اور نہ آپ کی یہ حکومت وشوکت برقرار رہے گی؛ لہٰذا مناسب یہ ہے کہ اسی عباسی خاندان سے کسی شخص کوتحتِ خلافت پربٹھاؤ؛ تاکہ تمام شیعہ اس کوغیرمستحق خلیفہ سمجھ کرآپ کی اطاعت وفرمانبرداری کے لیے مستعد رہیں اور اس طرح شیعیت بغداد میں قائم رہے؛ چنانچہ معزالدولہ نے ابوالقاسم فضل بن مقتدر کوطلب کیا اور مطیع اللہ کے لقب سے تخت پربٹھا کررسم بیعت ادا کی اور سودینار روزانہ اس کی تنخواہ مقرر کردی، مطیع اللہ ایک اُم ولد موسومہ مشغلہ کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا اورجمادی الثانی سنہ۳۳۴ھ میں جب کہ اس کی عمر ۳۴/سال کی تھی، تخت نشین کیا گیا۔ معزالدولہ نے خلیفہ کی وزارت پرابومحمد حسن بن محمدمہبلی کومامور کیا، وزیر درحقیقت ملک ہی کا وزیر ہوتا تھا؛ کیونکہ خلیفہ توبرائے نام خلیفہ تھا، اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ موصل پرناصرالدولہ بن حمدان اور شام پرسیف الدولہ بن حمدان قابض تھے، مصر پراخشید محمد بن طفج فرغانی فرماں روا تھا، ناصرالدولہ نے جب معزالدولہ کے اس طرح بغداد پرمستولی ہونے کا حال سنا توموصل سے فوج لے کرچلا اور ماہِ شعبان سنہ۳۳۴ھ میں سامرا پہنچا، معزالدولہ یہ خبر سن کرمطیع اللہ کوہمراہ لے کرآگے بڑھا، بغداد شرقی میں ناصرالدولہ نے آکر قیام کردیا، طرفین سے لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا، آخردونوں میں صلح ہوگئی، معزالدولہ نے اپنی پوتی کی شادی ناصرالدولہ کے بیٹے ابوتغلب سے کردی، ناصرالدولہ موصل کوروانہ ہوا، سنہ۳۳۵ھ میں ابوالقاسم بریدی نے بصرہ میں معزالدولہ کی مخالفت کا عَلم بلند کرکے تیاری شروع کی، سنہ۳۳۶ھ میں معزالدولہ نے خلیفہ مطیع کوہمراہ لے کربصرہ پرچڑھائی کی، ابوالقاسم کی فوج کوشکست ہوئی، ابوالقاسم بھاگ کربحرین میں قرامطہ کے پاس چلا گیا اور معزالدولہ نے بصرہ پرقبضہ کرلیا، ابوجعفر صہیری کوبصرہ میں چھوڑ کرمعزالدولہ مع خلیفہ مطیع اللہ بغداد چلا آیا، سنہ۳۳۷ھ میں معزالدولہ نے ناصرالدولہ بن حمدان والی موصل پر چڑھائی کی، ناصرالدولہ تاب مقابلہ نہ لاکر نصیبین چلاگیا؛ اسی اثناء میں معزالدولہ کے بھائی رکن الدولہ نے خبر بھیجی کہ لشکر خراسان نے جرجان ورےپرچڑھائی کی ہے، جس قدر جلد ممکن ہو فوجیں مدشد کے لیے بھجو، معزالدولہ نے ناصرالدولہ سے صلح کرکے موصل سے بغداد کی جانب کوچ کیا اور ناصرالدولہ موصل میں واپس آگیا۔ ناصرالدولہ سے یہ صلح اس شرط پرکی گئی تھی کہ ناصرالدولہ خراج برابر بھیجتا رہے اور خطبہ میں معزوالدولہ، رکن الدولہ اور عمادالدولہ تینوں بھائیوں کا نام لیا کرے، سنہ۳۳۸ھ میں معزالدولہ نے خلیفہ مطیع سے اس مضمون کا ایک فرمان لکھوایا کہ علی بن بویہ المخاطب بہ عمادالدولہ اپنے بھائی معزالدولہ کے ساتھ بطورِ مددگار کام کرے اور عہدہ سلطانی میں شریک رہے؛ مگرعمادالدولہ اسی سال فوت ہوگیا، اس کی جگہ رکن الدولہ کومعزالدولہ کا مددگار بنایا گیا، سنہ۳۳۹ھ میں حجراسود پھراپنی جگہ خانہ کعبہ میں لاکر نصب کیا گیا، اس کے گرد سونے کا ایک حلقہ جس کا وزن تین ہزار سات سوستتر (۳۷۷۷) درہم تھا، لگایا گیا تھا۔ سنہ۳۴۱ھ میں ایک نئے گروہ کا ظہور ہوا جوتناسخ کا قائل تھا، ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ مجھ میں علی رضی اللہ عنہ کی روح حلول کرآئی ہے، اس کی بیوی کا دعویٰ تھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی روح مجھ میں منتقل ہوئی ہے، ایک دوسرا شخص کہتا تھا کہ مجھ میں جبرئیل کی روح ہے، ان دعوؤں کوسن کرلوگوں نے ان کومارا پیٹا؛ لیکن معزالدولہ نے بہ وجہ شیعہ ہونے کے لوگوں کوایذا رسانی سے باز رکھ کران کا ادب کرنے اور تعظیم سے پیش آنے کا حکم دیا؛ کیونکہ وہ اپنے آپ کواہلِ بیت سے نسبت کرتے تھے۔ سنہ۳۴۶ھ میں رَے اور نواح رَے میں زلزلہ عظیم آیا، طالقان خسف ہوگیا، کل تیس آدمی بچ سکے، باقی سب ہلاک ہوگئے، رَے کے نواح میں ڈیڑھ سوگاؤں زمین میں دھنس گئے، شہر حلوان کا اکثر حصہ زمین میں غرق ہوگیا، سنہ۳۴۷ھ میں دوبارہ اسی شدت کا زلزلہ آیا، اسی سال معزالدولہ نے موصل پرچڑھائی کی کیونکہ ناصرالدولہ سے خراج بھیجنے میں تاخیر ہوئی تھی، ماہِ جمادی الاوّل سنہ۳۴۰ھ میں موصل پرقبضہ کرلیا۔ ناصرالدولہ نصیبین چلا گیا، معزالدولہ نے موصل میں سبکتگین اپنے حاجب کبیر کوچھوڑ کرخود نصیبین کا قصد کیا، ناصرالدولہ وہاں سے اپنے بھائی سیف الدولہ کے پاس حلب چلا گیا، سیف الدولہ نے معزالدولہ سے خط وکتابت کرکے صلح کی کوشش کی اور ماہِ محرم سنہ۳۴۸ھ میں صلح نامہ لکھا گیا اور معزالدولہ عراق کی جانب واپس آیا، سنہ۳۵۰ھ میں معزالدولہ نے بغداد میں اپنے لیے ایک بہت بڑا قصر تعمیر کرایا، جس کی بنیادیں چھتیس گزرکھی گئی تھیں؛ اسی سال رومیوں نے جزیرہ افریطش وکریٹ کومسلمانں کے قبضے سے چھین لیا، یہ جزیرہ سنہ۲۳۰ھ سے مسلمانوں کے قبضے میں چلا آتا تھا۔