انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تفہیم القرآن یہ مشہور زمانہ تفسیر تحریک اسلامی کے قائد وموسس مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ہے جو پہلی بار ۱۹۴۹ءمیں اشاعت پذیر ہوئی، یہ تفسیر چھ ضخیم جلدوں میں ہے اور ہندوپاک میں اس کے درجنوں ایڈیشن نکل چکے ہیں، اس تفسیر کے لکھنے کے محرکات کیا ہوئے؟ ان کو خود مصنف نے اس طرح لکھا ہے: "اس کام میں میرے پیش نظر علماء اور محققین کی ضروریات نہیں ہیں اور نہ ان لوگوں کی ضروریات ہیں جو عربی زبان اور علوم دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لیے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے ،میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں، جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علوم قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا جن کے لیے ممکن نہیں ہے انہی کی ضروریات کو پیش نظر رکھا ہے "۔ مصنف کو انشاء پردازی پر بڑی قدرت اور مشکل مضامین کو بھی آسان زبان اور جچے تلے انداز میں لکھنے کا ملکہ ہے؛ چنانچہ اس تفسیر میں بھی یہ وصف نمایاں ہے، قرآن کی جو آیات کائناتی حقائق سے متعلق ہیں ان پر بڑی عمدہ گفتگو کی گئی ہے، اسی طرح قصص وواقعات جن کی تحقیق کے لیے علم الآثار اور تاریخی حقائق سے واقفیت مطلوب ہے، بہت اچھی بحثیں ہیں، مستشرقین کے اعتراضات وشبہات کے رد پر بھی شافی وکافی کلام ہے اور اس کو اس تفسیر کا نقطۂ امتیاز قرار دیا جاسکتا ہے، اسی طرح قرآن کا بائبل اور مذہبی صحائف سے تقابلی مطالعہ کی جہاں کہیں ضرورت ہے، وہاں بھی نہایت محققانہ اور فاضلانہ مباحث ہیں، یہ بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ مصنف نے پہلی دوجلدوں میں اختصار کی راہ اختیار کی ہے اور تفسیر وحدیث کے مراجع کی طرف کم التفات کیا ہے، تیسری سے چھٹی جلد تک احادیث وآثار بکثرت نقل کئے گئے ہیں۔ بہت سی خوبیوں کے باوجود اس تفسیر میں بعض ایسی خامیاں بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے اہل تحقیق علماء کو مصنف سے اختلاف ہے، ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرات انبیاء کے تذکرہ میں بعض مواقع پر ایسی تعبیرات اختیار کی گئی ہیں جو حدِ ادب سے متجاوز محسوس ہوتی ہیں، مثلاً حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں رقمطراز ہیں: "جو فعل ان سے صادر ہوا تھا اس کے اندر خواہش نفس کا کچھ دخل تھا اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور وہ کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا"۔ ( تفہیم القرآن: ۴/۳۲۷) اس طرح کی بعض اور تعبیرات بھی اس تفسیر اور مصنف کی بعض دیگر کتب میں بھی موجود ہیں اگر یہ تفسیر اس طرح کی باتوں سے خالی ہوتی اور مصنف نے علماء کے توجہ دلانے کے بعد اہل حق کی شان کے مطابق ایسی باتوں سے علی الاعلان رجوع کرلیا ہوتا تو یقینا یہ بہت بہتر بات ہوتی، زبان سہل اور عام فہم ہے اور قدیم مآخذ کے ساتھ جدید تحقیقات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔