انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ذمی رعایا کے حقوق تعصب کی انتہا تو یہ ہے کہ غیر قوموں کے ساتھ سرے سے تعلقات ہی نہ رکھے جائیں؛لیکن تعصب کی اس سے بھی زیادہ بدنما اورتکلیف دہ شکل یہ ہے کہ غیر قوموں کے ساتھ تعلقات تو قائم کئے جائیں؛ لیکن ان تعلقات کو نہایت ذلیل اوربے ہودہ طریقے پر قائم رکھا جائے۔ صحابہ کرام کے عہد تک تاریخ نے صر ف یہی دو قسم کی مثال قائم کی تھی؛ لیکن صحابہ کرام نے غیر قوموں کے ساتھ ہر قسم کے مذہبی تمدنی اورسیاسی تعلقات قائم کئے اور ان کو اس بے تعصبی کے ساتھ نبا ہا کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مذہبی تعلقات مذہبی حیثیت سے قرآن مجید نے اگرچہ صحابہ کرام کو اورمذاہب کی کتابوں سے بے نیاز کردیا تھا، تاہم متعدد صحابہ تھے جنہوں نے قرآن مجید کی طرح تو راۃ اورانجیل کو پڑھا تھا، چنانچہ علامہ ذہبی حضرت عبداللہ بن عمر وبن العاصؓ کے حال میں لکھتے ہیں۔ وکان اصاب جملۃ من کتب اھل الکتاب وادمن النظر فیھا ورای فیھا عجائب وکان فاضلا عالماقرء القرآن والکتب المتفقدمۃ (سد الغابہ تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ) انہوں نے اہل کتاب کی تمام کتابیں حاصل کی تھیں اور بالاتصال ان کا مطالعہ کیا تھا اوران میں ان کو عجائبات نظر آئے تھے وہ عالم فاضل تھے اورقرآن کو اوراگلی کتابوں کو پڑھا تھا۔ مسند دارمی میں ہے کہ حضرت عمرؓ توراۃ کا ایک نسخہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لائے اور کھول کر پڑھنے لگے، (مسند دارمی ،صفحہ ۶۲) اسد الغابہ میں ہے کہ توراۃ کا یہ نسخہ ان کے ایک یہودی دوست نے جو بنو قریظہ کا تھا اپنے ہاتھ سے لکھ کردیا تھا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت عبداللہ بن ثابت انصاریؓ) صحیح بخاری میں ہے کہ اہل کتاب عبرانی میں توراۃ کو پڑھتے تھے اور صحابہ کرام کے سامنے عربی میں اس کی تفسیر کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ کو خبر ہوئی تو فرمایا کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو نہ تکذیب ؛بلکہ یہ کہو کہ ہم خدا پر اوراس کی کتاب پر جو ہم پر اور نیز اس کتاب پر جو تم پر نازل ہوئی ایمان لائے۔ (بخاری باب مایجوز من تفسیر التوراۃ وکتب اللہبالعربیہ کتاب الرو علی الجہمیہ) حضرت زید بن ثابتؓ نے خود رسول اللہ ﷺ کے حکم سے عبرانی زبان سیکھی تھی اوراس میں خط و کتابت کرتے تھے۔ (بخاری کتاب الاحکام باب ترجمہ الحکام) اسلام میں مذہبی حیثیت سے یہ حکم ہے کہ اگر جنازہ سامنے سے گذرے تو کھڑا ہوجانا چاہئے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ یہ حکم صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہے ؛لیکن ایک بار قادسیہ میں ایک ذمی کا جنازہ گذرا تو حضرت سہل بن حنیف ؓ اورقیس بنؓ سعد فورا کھڑے ہوگئے، ایک شخص نے ٹوکا کہ یہ تو ذمی کا جنازہ ہے بولے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی یہی واقعہ پیش آیا تو آپ نے فرمایا آخر وہ بھی تو ایک جان ہے۔ (بخاری کتاب الجنائز باب القیام لجنازہ اہل الشرک و بخاری کتاب الجنائز) ان تمام مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے مذہبی حیثیت سے غیر قوموں کے ساتھ کسی قسم کا تعصب جائز نہیں رکھا۔ تمدنی تعلقات تمدنی حیثیت سے صحابہ کرام کے زمانے میں اگرچہ مسلمانوں اور غیر قوموں میں کوئی فرق و امتیاز موجود نہ تھا، صحابہ کرام یہودیوں سے قرض لیتے تھے ان سے بیع و شراء کرتے تھے اوران سے ہر قسم کے معاملات رکھتے تھے؛ لیکن ان تعلقات سے بالا تر ایک چیز حسن معاشرت ہے جو تمدن کی روح ہے اورصرف اسی سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ تعلقات خلوص پر مبنی تھے یا خود غرضانہ نفاق پر ؛لیکن واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر مذہبی عقائد و اعمال کو الگ کردیا جائے تو صحابہ کرام کے غیر متعصبانہ طرز عمل نے مسلمانوں اورغیر قوموں کو ہر حیثیت سے ایک کردیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا ایک بار انہوں نے ایک بکری ذبح کی گو گھر والوں سے پوچھا کہ تم نے ہمارے یہودی ہمسایہ کے پاس گوشت ہدیۃ بھیجا یا نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھ کو جبرئیل نے ہمسایوں کے ساتھ سلوک کرنے کی اس شدت سے وصیت کی کہ میں نے سمجھا کہ اس کو شریک وراثت بنادیں گے۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی حق جوار) ایک بار ایک یہودیہ عورت حضرت عائشہ کے پاس آئی اور کوئی چیز مانگی انہوں نے بخوشی دی اوراس نے اس کے بدلے ان کودعادی۔ (نسائی کتاب الجنائز باب التعوذ من عذاب القبر) سیاسی تعلقات غیر قوموں کے ساتھ سیاسی تعلقات کی ابتداء خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہوئی، چنانچہ جب خیبر فتح ہوا تو آپ نے ایک معاہدہ صلح کیا جس کے ذریعہ سے زراعت کا معاملہ بٹائی پر طئے ہوگیا، اس معاہدہ کے رو سے جب فصل تیار ہوئی تو آپ نے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو بھیجا کہ پیداوار تقسیم کرالائیں، انہوں نے پیدا وار کے دو حصے لگائے اورکہا کہ اگر تم چاہو تو یہ تمہارا ہے ورنہ میرا، لیکن یہود اس سے زیادہ طالب رعایت تھے، اس لئے انہوں نے عورتوں کے زیور جمع کئے اوران کو بطور رشوت کے دینا چاہا، ایک متدین مذہبی شخص کی یہ سب سے بڑی توہین تھی؛لیکن بایں ہمہ انہوں نے کہا کہ اے گروہ یہود! تم میرے نزدیک مبغوض ترین مخلوق ہو لیکن یہ بغض مجھ کو ظلم اور نا انصافی پر آمادہ نہیں کرسکتا، باقی یہ رشوت تو وہ حرام ہے اورہم حرام مال نہیں کھاسکتے، یہودیوں پر اس کا یہ اثر پڑا کہ بیساختہ چیخ اٹھے کہ آسمان و زمین اسی عدل و انصاف کے بل پر قائم ہیں، (موطا امام مالک کتاب المساقاۃ وابوداؤد کتاب البیوع باب ماجاء فی المساقات) اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے نجران کے عیسائیوں سے ایک معاہدہ صلح کیا جس کے آخری الفاظ یہ تھے۔ علی ان لا یھدم بیعۃ ولا یخرج لھم قس ولا یفتنوا عن دینھم مالم یحدنوا حدثا اویاکلوا الرباء (ابوداؤد کتاب الخروج باب فی اخذالجزیہ) اس شرط پر کہ ان کا کوئی گرجا نہ گرایا جائے گا ان کے پادری کو جلاوطن نہ کیا جائے گا، ان کو ان کے مذہب سے برگشتہ نہ کیا جائے گا جب تک کہ وہ کوئی فتنہ انگیزی نہ کریں یا سود نہ کھائیں۔ کتاب الخراج میں اس کے آخری الفاظ یہ ہیں۔ علیٰ اموالھم وانفسھم وارضھم و ملتھم وغائبھم وشاھدھم وعشیرتھم وبیعھم وکل ماتحت ایدیھم من قلیل اوکثیر لا یغیراسقف من اسقفتہ ولاراھب من رھبانیۃ ولا کاھن من کھانتہ (کتاب الخراج ،صفحہ۴۱) یہ معاہدہ کے مال، جان، زمین، مذہب، حاضر،غائب،قبیلہ،گرجاغرض ہر تھوڑی بہت چیز کی حفاظت پر جوان کے قبضہ میں ہے، شامل ہے، کسی پادری کو کسی راہب کو کسی کاہن کو اس کے عہدے سے الگ نہ کیا جائے گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے عہد خلافت میں اس معاہدہ کی تجدید کی اوراس کے ایک ایک حرف کو قائم رکھا۔ ان کے زمانے میں حیرہ کے عیسائیوں کے ساتھ حضرت خالدؓ نے ایک اورمعاہدہ کیا جس میں سب سے زیادہ قابلِ لحاظ شرط یہ تھی۔ ایما شیخ ضعف عن العمل اواصابہ آفۃ من الافات اوکان غنیا فافتقر وصار اھل دینہ یتصدقون علیہ طرحت جزیتہ وعیل من بیت مال المسلمین وعیالہ (کتاب الخراج ،صفحہ ۸۵) جو بوڑھا شخص بیکار ہوجائے گا یا اس کا جسم ماؤف ہو جائے گا یا کوئی متمول شخص اس قدر محتاج ہوجائے گا کہ اس کے ہم مذہب لوگ اس پر صدقہ کرنے لگیں گے تو اس کا جزیہ معاف کردیا جائے گا اوراس کی اوراس کے اہل و عیال کی کفالت بیت المال سے کی جائے گی۔ حضرت خالدؓ نے اسی سلسلہ میں اوربھی متعدد معاہدے کئے اوران معاہدوں کو حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اورحضرت علیؓ نے قائم رکھا، ان معاہدوں میں اگرچہ باہم اختلاف ہے لیکن سب میں قدر مشترک یہ ہے۔ لایھدم لھم بیعۃ ولاکنیسۃ وعلی ان یضربوانواقیسھم فی اے ساعۃ شاؤا من لیل اونھارالا فی اوقات الصلوٰۃ وعلی ان یخرجواالصلبان فی ایام عیدھم (کتاب الخراج،۸۶) ان لوگوں کے گرجے نہ گرائے جائیں گے اوروہ رات دن میں بجز اوقات نماز کے ہر وقت ناقوس بجا سکیں گے اور اپنے تہوار کے دن صلیب نکالیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ کے زمانے میں بہ کثرت معاہدے ہوئے،ان میں سب سے زیادہ مفصل، سب سے زیادہ جامع اورسب سے زیادہ فیاضانہ وہ معاہدہ ہے جو حضرت ابو عبیدہؓ نے شام کے عیسائیوں کے ساتھ کیا اس معاہدے کے الفاظ یہ ہیں۔ واشترط عليهم حين دخلها عَلَى أن تترك كنائسهم وبيعهم عَلَى أن لا يحدثوا بناء بيعة ولا كنيسة ، وَعَلَى أن عليهم إرشاد الضال وبناء القناطر عَلَى الأنهار من أموالهم ، وأن يضيفوا من مر بهم من المسلمين ثلاثة أيام وَعَلَى أن لا يشتموا مسلما ولا يضربوه ، ولا يرفعوا فِي نادي أهل الإسلام صليبا ولا يخرجوا خنزيرا من منازلهم إِلَى أفنية المسلمين ، وأن يوقدوا النيران للغزاة فِي سبيل الله ، ولا يدلوا للمسلمين عَلَى عورة ، ولا يضربوا نواقيسهم قبل أذان المسلمين ولا فِي أوقات أذانهم ولا يخرجوا الرايات فِي أيام عيدهم ، ولا يلبسوا السلاح يوم عيدهم ولا يتخذوه فِي بيوتهم (الخراج لابی یوسف، باب فصل فی الکنائس والبیع ،جز۱،صفحہ ۱۳۸) جب وہ شام میں داخل ہوئے تو یہ شرط کرلی کہ ان کے گرجوں سے کچھ تعرض نہ کریں گے بشرطیکہ نئے گرجے نہ تعمیر کریں بھولے بھٹکے مسلمانوں کو راستہ دکھائیں اپنے مال سے نہروں پر پل باندھیں، جو مسلمان ان کے پاس سے ہوکر گذریں تین دن تک ان کی مہمانی کریں، کسی مسلمان کو نہ گالی دیں، نہ ماریں، نہ مسلمانوں کی مجلس میں صلیب اورنہ مسلمانوں کے احاطہ میں سور نکالیں، مجاہدین کے لئے راستوں میں آگ جلائیں مسلمانوں کی جاسوسی نہ کریں، اذان سے پہلے اور اذان کے اوقات میں ناقوس نہ بجائیں، اپنے تہواروں کے دن جھنڈے نہ نکالیں،ہتھیار نہ لگائیں اوراس کو اپنے گھروں میں بھی نہ رکھیں۔ ان لوگوں نے تمام شرطیں منظور کرلیں،صرف یہ درخواست کی کہ سال میں ایک بار بغیر جھنڈیوں کے صلیب نکالنے کی اجازت دی جائے، حضرت ابو عبیدہؓ نے ان کی یہ درخواست منظور کی۔ قاضی ابو یوسف نے لکھا ہے کہ حضرت ابو عبیدہؓ نے یہ نرمی اوریہ فیاضی اس لئے اختیار کی تھی کہ اور لوگوں کو صلح کی ترغیب ہو ؛چنانچہ اس معاہدے کے بعد جب رومیوں سے جنگ ہوئی اورفتح کے بعد اطراف وحوالی کے تمام عیسائیوں نے صلح کرلی تو ان لوگوں نے ایک شرط یہ پیش کی کہ جو رومی مسلمانوں کی جنگ کے لئے آئے تھے اوراب وہ عیسائیوں کے پناہ گزین ہیں ان کو امن دیا جائے کہ اپنے اہل و عیال اورمال و اسباب کے ساتھ واپس چلے جائیں اوران سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے حضرت ابو عبیدہؓ نے یہ شرط بھی منظور کرلی۔ (یہ معاہدہ اوریہ پوری تفصیل کتاب الخراج،صفحہ۸۰،۸۲ میں ہے) اب ہم کو صرف یہ دیکھنا ہے کہ ان معاہدوں کی پابندی کی گئی یا نہیں؟ اورکی گئی تو کیونکر؟ اسلام میں معاہد ے کی پابندی فرض ہے اوراس میں کسی مذہب کی تخصیص نہیں بلکہ خود معاہدہ کی اخلاقی عظمت کا یہی اقتضاء ہے اس بنا پر صحابہ کرام نے ذمیوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا ان کا پورا کرنا ان کا مذہبی فرض تھا، چنانچہ شام کی فتح کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت ابو عبیدہؓ کو جو فرمان لکھا اس میں یہ الفاظ تھے۔ وامنع المسلمین من ظلمھم والاضراربھم واکل اموالھم دوف لھم بشرطھم الذی شرطت لھم فی جمیع ما اعطیتھم (کتاب الخراج،صفحہ ۸۲) مسلمانوں کو ان کے ظلم ونقصان سے روکو اوران کے مال کھانے سے منع کرو، اوران کو جو حقوق تم نے جن شرائط پر دیئے ہیں ان کو پورا کرو۔ وفات کے وقت جو وصیت کی اس میں یہ الفاظ فرمائے۔ واوصیہ بذمۃ اللہ وذمۃ رسولہ ان یوفی لھم بعھدھم وان یقاتل من ورائھم وان لا یکلفوافوق طاقتھم (بخاری کتاب المناقب باقضیۃ البیعۃ والا فقاق علی عثمان) اورمیں اپنے جانشین کو خدا اورخدا کے رسول ﷺ کے ذمہ کی وصیت کرتا ہوں کہ ذمیوں کے معاہدے کو پورا کرے اوران کی حمایت میں لڑے اوران کو تکلیف مالایطاق نہ دے۔ ذمیوں کے معاہدے کی پابندی کا جس قدر خیال رکھا جاتا تھا، اس کا اندازہ صرف اس واقعہ سے ہوسکتا ہے کہ ایک بار ایک عیسائی رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دے رہا تھا حضرت ؓغرفہ نے سنا تو اس کے منہ پر ایک طمانچہ مارا، اس نے حضرت عمروبن العاص کی خدمت میں استغاثہ کیا تو انہوں نے غرفہ کو بلا کر کہا کہ ہم نے ان سے معاہدہ کیا ہے حضرت غرفہؓ نے کہا نعوذ باللہ کیا ہم نے ان سے یہ معاہدہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ گالیاں دیں، ہم نے صرف یہ معاہدہ کیا ہے کہ وہ اپنے گرجوں میں جو چاہیں کہیں حضرت عمروبن العاصؓ نے کہا یہ سچ ہے۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت غرفہ بن حارثؓ الکندی) خود ذمیوں کو اس پابندی معاہدہ کا اعتراف تھا، ایک بار حضرت عمرؓ کی خدمت میں ذمیوں کا ایک وفد آیا تو انہوں نے پوچھا کہ غالبا مسلمان تم لوگوں کو ستاتے ہوں گے سب نے ہمزبان ہوکر کہا۔ ما نعلم الا وفاء وحسن ملکۃ (طبری،صفحہ،۲۵۶) ہم پا بندی عہد اور شریفانہ اخلاق کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ لیکن صرف اسی قدر کافی نہیں، یہ جو کچھ ہے قول ہے ہم عملاً دکھانا چاہتے ہیں کہ ذمیوں کو جو جو حقوق دیئے گئے ان کو عملاً پورا کیا گیا۔ جان کی حفاظت رعایا کے تمام حقوق میں سب سے مقدم چیز جان ہے اورصحابہ کرام کے دورِ خلافت میں مسلمانوں اورذمیوں کی جانیں یکساں عزیز تھیں ایک بار حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایک یہودی قتل کردیا گیا تو انہوں نے اس کو نہایت اہم واقعہ خیال کیا اورکہا کہ میرے دورِ خلافت میں انسانوں کا خون ہوگا میں خدا کی قسم دلا تا ہوں کہ جس کو اس کا حال معلوم ہو مجھے بتائے، حضرت بکربن شداخ نے کہا کہ اس کا قاتل میں ہوں، بولے اللہ اکبر تم سے اس کا قصاص لیا جائے گا اپنی برات ثابت کرسکتے ہو تو کرو، انہوں نے کہا فلاں شخص شریک جہاد ہوا اور مجھ کو اپنے گھر کا محافظ بناگیا میں اس غرض سے اس کے دروازے پر ایک روز آیا تو اس یہودی کو اس کے گھر میں یہ اشعار پڑھتے ہوئے سنا۔ واشعث غرہ الا سلام منی ایک پراگندہ موشخص جس کو اسلام نے مجھ سے غافل کر رکھا ہے۔ ابیت علی ترائبھا ویمسی میں اس کی بی بی کے سینے پر شب بسر کرتا ہوں خلوت بعرسہ لیل التمام اس کی بی بی کے ساتھ میں نے شب بھر خلوت میں بسر کی علی قوت الا عنۃ والحزام اوروہ گھوڑے کی باگ کھینچے کھینچے پھر رہا ہے۔ اب حضرت عمرؓ نے ان کو رہا کردیا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت بکر بن شداخؓ) ایک بار قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک عیسائی کو قتل کردیا تو حضرت عمرؓ نے قاتل کو مقتول کے ورثاء کے حوالے کردیا اورانہوں نے اس کو قتل کردیا۔ حضرت عمرؓ کی شہادت کی نسبت شبہ تھا کہ یہ ایرانیوں کی سازش کا نتیجہ ہے اس خیال سے حضرت عبیداللہ بن عمرؓ نے ہرمزان کو قتل کردیا، حضرت عثمانؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اس کے قصاص میں ان کو قتل کرنا چاہا؛ لیکن حضرت عمروبن العاصؓ نے کہا کہ یہ قتل اس وقت ہوا جب کوئی خلیفہ نہیں مقرر ہوا تھا، اس لئے وہ بچ گئے،حضرت علیؓ کا دورخلافت آیا تو انہوں نے بھی ان سے قصاص لینا چاہا لیکن وہ بھاگ گئے۔ ایک بار ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کردیا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں یہ معاملہ پیش ہوا تو انہوں نے اس کے قتل کا حکم دیا ؛لیکن مقتول کے بھائی آئے اورکہا کہ ہم نے معاف کردیا اس پر فرمایا کہ تم کو کسی نے دھمکی دے کر تو معاف کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ (نصب الرایہ مطبوعہ ،دہلی،صفحہ۲۵۹،۲۶۰) ذمیوں کی دیت بھی بالکل مسلمانوں کے برابر مقرر کی گئی تھی دارقطنی میں ہے۔ ان ابابکر وعمر کانا یجعلان دیۃ الیھودی والنصرانی اذا کانا معاھدین دیۃ الحرالمسلم (دار قطنی کتاب الحدود ،صفحہ۳۴۳) حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ ذمی یہودی اور عیسائی کی دیت آزاد مسلمان کے برابر قرار دیتے تھے۔ اب اس سے زیادہ ذمیوں کی جان کا کیا احترام ہوسکتا ہے؟ مال وجائداد کی حفاظت مال وجائداد کی حفاظت اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے کہ ممالک مفتوحہ کی زمینیں غیرقوموں کے ہاتھ میں رہنے دی گئیں اوران کا خرید نا بھی مسلمانوں کے لئے ناجائز قرار دیا گیا؛ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس میں اس قدر مبالغہ کیا کہ اہل عرب کو زراعت سے بالکل روک دیا اور تمام فوجی افسروں کے نام احکام بھیج دیئے کہ ان لوگوں کے روزینے مقرر کردیئے گئے ہیں اس لئے کوئی زراعت نہ کرنے پائے ،مصر میں شریک غطفی نامی ایک شخص نے اس حکم کی خلاف ورزی کی تو حضرت عمرؓ نے اس سے سخت مواخذہ کیا اورکہا کہ میں تجھکو ایسی سزادونگا کہ دوسروں کوعبرت ہو۔ (حسن المحاضرہ،صفحہ۹۳) عدالت میں جائداد وغیرہ کے متعلق جو مقدمات دائر ہوتے تھے ان میں مسلمانوں کے مقابل میں بلا تکلف غیر قوموں کو ڈگری دیجاتی تھی، ایک بار حضرت عمرؓ کی خدمت میں ایک یہودی اورایک مسلمان کا مقدمہ پیش ہوا تو حضرت عمرؓ نے یہودی ہی کے حق میں فیصلہ کیا۔ (موطا کتاب الاقضیہ باب الترغیب فی القضاء بالحق) مذہبی آزادی غیر قوموں کو جو مذہبی آزادی حاصل تھی اس کا اندازہ صرف اس سے ہوسکتا ہے کہ ایک بار حضرت عمرؓ نے اپنے عیسائی غلام ا ستنق کو دعوت اسلام دی اوراس نے انکار کیا توفرمایا: "لااکراہ فی الدین" یعنی مذہب میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ (کنزالعمال،جلد۵،صفحہ ۴۹) حضرت امیر معاویہؓ کے نام سے تمام شام لرزتا تھا ؛لیکن جب انہوں نے دمشق کی مسجد میں کنیسہ یوحنا کو شامل کرنا چاہا اورعیسائیوں نے اس پر نارضامندی ظاہر کی تو ان کو مجبورا ًاس کو چھوڑدینا پڑا۔ (فتوح البلدان،صفحہ۱۳۱) حضرت عمرؓ نے شام کے عیسائیوں کے ساتھ جو یہ شرط کی تھی "لایحد ثوابناء بیعۃ ولا کنیسۃ " اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کی آبادی میں نئے گرجے نہ بنائے جائیں۔ خود عیسائیوں کو اپنی آبادی میں گرجا بنانے کی ممانعت نہ تھی، چنانچہ جب قسطاط مصر میں عیسائیوں نے ایک نیا گرجا بنایا اورفوج نے اس کی مخالفت کی توحضرت سلمہ بن مخلدؓ نے یہ استدلال کیا کہ یہ تمہاری آبادی سے باہر ہے اوراس پر تمام فوج نے سکوت اختیار کیا۔ (حسن المحاضرہ،جلد۲،صفحہ۵) ہارون رشید کے زمانہ خلافت میں مصر کے گورنر عامر بن عمر نے جب عیسائیوں کو گرجوں کے بنانے کی عام اجازت دینا چاہی تو لیث بن سعد اور عبید اللہ بن لہیعہ سے مشورہ لیا، ان بزرگوں نے اس کی رائے سے اتفاق کیا اور یہ استدلال پیش کیا کہ مصر کے تمام گرجے صحابہ اورتابعین ہی کے زمانے کے بنے ہوئے ہیں۔ (ولاۃ مصر،صفحہ ۱۳۲) جزیہ کے وصولی میں رعایت ونرمی ان تمام حقوق کے مقابل میں مسلمانوں کو جزیہ کی ایک خفیف سی رقم ملتی تھی جو فوجی حفاظت کا معاوضہ تھی ؛لیکن صحابہ کرام اس معاوضہ کو بھی نہایت لطف و مراعات کے ساتھ وصول کرتے تھے، چنانچہ جو لوگ نادار اوراپاہج ہوجاتے تھے ان کا جزیہ سرے سے معاف ہوجاتا تھااوران کو بیت المال سے وظیفہ ملتا تھا، حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں حضرت خالدؓ نےحیرہ کے عیسائیوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس میں یہ شرط داخل تھی اورحضرت عمرؓ نے اس کو اپنے زمانے میں عملاًقائم رکھا؛چنانچہ ایک بار ان کو چند جزامی عیسائی نظر آئے تو بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر کردیا۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۱۳۶) ایک روز کسی بوڑھے یہودی کو بھیک مانگتے دیکھا تو بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر کردیا اس کے جزیہ کی رقم معاف کردی اور عام حکم دے دیا کہ اس قسم کے تمام لوگوں کا جزیہ معاف کردیا جائے۔ (کتاب الخراج ،صفحہ ۷۲) جن لوگوں سے جزیہ وصول کیا جا تا تھا ان پر بھی کسی قسم کی سختی روا نہیں رکھی جاتی تھی، ایک بار حضرت ہشام بن حکیمؓ نے حمص میں دیکھا کہ کچھ قیدی دھوپ میں کھڑے کیے گئے ہیں ، بولے یہ کیا ظلم ہے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ ان اللہ یعذب الذین یعذبون الناس فی الدنیا (ابوداؤد کتاب الخراج،باب التشدید فی الجزیہ) خدا ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں۔ حضرت عمرؓ شام کے سفر سے واپس آرہے تھے راستے میں دیکھا کہ کچھ لوگ دھوپ میں کھڑے کئے گئے ہیں اوران کے سرپر زیتون کا تیل ڈالا جاراہا ہے،وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ ناداری کی وجہ سے جزیہ نہیں دیتے، فرمایا چھوڑدو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے: لا تعذ بوالناس فان الذین یعذبون الناس فی الدنیا یعذبھم اللہ یوم القیامۃ (کتاب الخراج،صفحہ۷۱) لوگوں کو تکلیف نہ دو کیونکہ جو لوگ لوگوں کو تکلیف دیتے ہیں، خدا ان کو قیامت میں تکلیف دیتا ہے۔ ملکی حقوق رعایا کو سب سے بڑا حق جو حاصل ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کو ملکی انتظامات میں شریک کیا جائے اورصحابہ کرام کے زمانے میں غیر قوموں کو یہ حق حاصل تھا ،یعنی جن معاملات کا تعلق غیر قوموں کے ساتھ ہوتا تھا ان میں ان کی رائے مقدم خیال کی جاتی تھی، چنانچہ عراق کا بندوبست ہوا تو حضرت عمرؓ نے وہاں سے چودھری طلب کئے اوران سے مال گذاری کے متعلق رائے لی۔ (کتاب الخراج،صفحہ ۲۱) غیر قوموں میں بہت سے لوگوں کو ملکی عہدے دیئے گئے اور ذمہ داری کی خدمتیں ان کے متعلق کی گئیں، ایک بار بہت سے عیسائی قیدی آئے تو حضرت عمرؓ نے بعض کو مکتب میں داخل کردیا اوربعض کے متعلق ایک ملکی کام کیا(فتوح البلدان،صفحہ ۱۴۹) اصابہ میں ہے کہ ابوزید نامی ایک عیسائی کو انہوں نے عامل بھی مقرر فرمایا تھا، حضرت عثمان ؓ نے بھی ایک عیسائی کو تعلیم دے کر اپنا میر منشی بنایا تھا (فتوح البلدان،صفحہ ۳۶۰) حضرت امیر معاویہؓ کے دربار میں سب سے زیادہ بااقتدار اوربااثر شخص ابن آثال نصرانی تھا جوان کا طبیب بھی تھا مترجم بھی تھا، اوحمص کا کلکٹر بھی تھا۔ (یعقوبی، جلد۲،صفحہ ۲۶۵ واستیعاب) آزادی تجارت صحابہ کرام کے فیاضانہ طرز عمل نے کبھی غیر قوموں کی تجارتی آزادی میں خلل نہیں ڈالا؛ بلکہ اس کو اورترقی دی؛چنانچہ شام کے نبطی جو روغن زیتون اورگیہوں کی تجارت کرتے تھے حضرت عمرؓ نے ان کے عشر کو نصف کردیا تاکہ مدینہ میں کثرت سے غلہ آئے، مصر کے قبطی بھی مال تجارت لے کر آتے تھے؛ لیکن ان سے پورا عشرلیا جاتا تھا۔ (موطا امام مالک کتاب الزکوۃ باب عشوراہل الذمہ) سازش اوربغاوت کی حالت میں ذمیوں کے ساتھ سلوک غیر قومیں تو بالکل بیگانہ ہوتی ہیں، سازش اور بغاوت کی حالت میں مہذب سے مہذب سلطنت خود اپنی قوم سے کوئی مراعات نہیں کرسکتی لیکن صحابہ کرام نے اس حالت میں بھی ذمیوں کے ساتھ نہایت نرم برتاؤ کیا، شام کی انتہائی سرحد پر ایک شہر عریسوس تھا جہاں کے عیسائیوں سے معاہدہ صلح ہوگیا تھا؛ لیکن یہ لوگ درپردہ رومیوں سے سازش رکھتے تھے اورمسلمانوں کی خبریں ان تک پہونچایا کرتے تھے، حضرت عمیر بن سعدؓ نے جو وہاں کے والی تھے حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع دی تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ ان کے تمام مال و متاع کا شمار کرکے ہر چیز کا دوگنا معاوضہ دیدیا جائے اوراس کے بعد وہ جلا وطن کردیئے جائیں اگر وہ اس پر راضی نہ ہوں تو ایک سال کی مہلت کے بعد جلا وطن کئے جائیں؛ چنانچہ ایک سال کے بعد وہ لوگ جلا وطن کردیئے گئے۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۱۶۳) ان مراعات کا ذمیوں پر اثر ذمیوں پر ان تمام لطف و مراعات کا یہ اثر ہوا کہ وہ خود مسلمانوں کے دست وبازو بن گئے، قاضی ابویوسف صاحب کتاب الخراج میں لکھتے ہیں۔ فلما رای اھل الذمتہ وفاء المسلمین لھم وحسن السیرۃ فیھم صار وااشداء علی عدوالمسلمین علی اعدائھم جب ذمیوں نے مسلمانوں کی وفاداری اوران کے نیک سلوک کو دیکھا تو مسلمانوں کے دشمنوں کے سب سے بڑے دشمن اوران کے مقابل میں مسلمانوں کے حامی ومددگار بن گئے۔ رومی اگرچہ خود عیسائیوں کے ہم مذہب تھے؛لیکن جب رومیوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں ایک عظیم الشان فیصلہ کن جنگ کی تیاریاں کیں تو ان ہی ذمی عیسائیوں نے ہر جگہ سے جاسوس بھیجے کہ رومیوں کی خبر لائیں، حضرت ابو عبیدہؓ نے ہر شہر پر جو حکام مقرر کئے تھے ان کے پاس ہر شہر کے عیسائی رئیس آئے اوراس جنگی تیاری کی خبر دی،حضرت ابوعبیدہؓ کو تمام حکام نے اس کی اطلاع دی تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ ذمیوں سے جس قدر جزیہ اورخراج وصول کیا گیا ہے سب واپس کردیا جائے؛ کیونکہ معاہدے کے رو سے ہم پر ان کی حفاظت واجب ہوگی اورہم اس وقت اس کی طاقت نہیں رکھتے ،ان حکام نے جب یہ رقمیں واپس دیں تو یہ لوگ سخت متاثر ہوئے اور بے اختیار بولے اٹھے کہ خدا تم کو واپس لائے، اگر خودرومی ہوتے تو اس حالت میں ہم کو واپس نہ دیتے؛ بلکہ ہمارے پاس جو کچھ ہوتا لے لیتے، مسلمانوں کی فتح ہوگئی تو عیسائیوں نے خود واپس شدہ رقم حضرت ابو عبیدہؓ کے پاؤں پر ڈالدی، (کتاب الخراج،صفحہ۸۰) کہ دوبارہ اس ابرکرم کے سائے کے نیچے آجائیں۔ اس موقعہ کے علاوہ ہر موقع پر ذمیوں کا طرز عمل نہایت مخلصانہ اوروفادارانہ رہا، حضرت عمرؓ شام میں آئے تو اذرعات کے عیسائی ہاتھ میں تلوار لئے ہوئے پھول برساتے ہوئے اورباجا بجاتے ہوئے ان کے استقبال کے لئے نکلے، حضرت عمرؓ نے روکنا چاہا، لیکن حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا یہ ان کا دستور ہے اگر روک ٹوک کی گئی تو سمجھیں گے کہ معاہدہ ٹوٹ گیا(فتوح البلدان،صفحہ ۱۴۶) شام کے ایک اور عیسائی رئیس نے ان کی دعوت کرنا چاہی اور کہا کہ اگرحضور چند اکابر صحابہ کے ساتھ غریب خانہ پر تشریف لائیں تو میری عزت افزائی ہوگی، لیکن حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ان گرجوں میں جن میں یہ تصویریں ہیں ہم قدم نہیں رکھ سکتے ۔ (ادب المضرد باب دعوۃ الذمی) عیسائیوں اور یہودیوں کی جلاوطنیاں مخالفین نے ذمیوں کے متعلق صحابہ کرام پر جو اعتراضات کئے ہیں، ان میں یہودیوں اورعیسائیوں کی جلاوطنی کا مسئلہ خاص طورپر قابل بحث ہے۔ یہود خیبر سب سے پہلے حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں یہود خیبر کی جلا وطنی عمل میں آئی؛ لیکن اس کی کیفیت یہ ہے کہ خیبر جب فتح ہوا تو اسی وقت وہاں کے یہودیوں سے کہہ دیا گیا تھا کہ جب مناسب ہوگا تم کو جِلا وطن کردیا جائے گا، ایک حدیث بھی پہلے سے موجود تھی۔ لا یجتمع دینان فی جزیرۃ العرب جزیرہ عرب میں ایک ساتھ دو مذہب نہیں رہ سکتے۔ باایں ہمہ حضرت عمرؓ نے ان کے ساتھ کسی قسم کا تعرض نہیں کیا؛ لیکن یہ لوگ ابتداہی سے مسلمانوں پر مخفی حملہ کرنے کے عادی تھی، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب انصار کی ایک جماعت وہاں گئی تو یہود نے موقع پا کر ایک انصاری کو مخفی طور پر قتل کردیا تھا ؛تاہم چونکہ ان لوگوں کے پاس کوئی شہادت نہ تھی اوران کو یہود کے حلف پر بھی اطمینان نہ تھا اس لئے یہود بالکل بری ہوگئے اور خود آپ نے صدقے کے اونٹوں سے ان کی دیت دلوائی۔ (بخاری کتاب الدیات باب القامہ) حضرت عمرؓ کے زمانے میں انہوں نے اور بھی شرارتیں شروع کیں، ایک انصاری شام سے چند غلاموں کو لارہے تھے،راہ میں خیبر میں قیام کیا تو یہودیوں نے شہ دے کر ان غلاموں سے ان کو قتل کرواڈالا اوران کو زاد راہ دیکر شام کی طرف واپس کردیا ؛چنانچہ حضرت عمرؓ کو خبر ہوئی تو ان کو جِلا وطن کردیا،(اسد الغابہ تذکرہ مظہر بن رافع) یہ روایت اسدالغابہ میں ہے ؛لیکن مسند ابن حنبل میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ حضرت زبیرؓ اور حضرت مقداد بن اسودؓ کی جائدادیں خیبر میں تھیں اس غرض سے یہ لوگ آئے اور اپنی اپنی جائداد کی دیکھ بھال کے لئے منتشر ہوگئے رات کے وقت حضرت عبداللہ بن عمرؓ پر حالت خواب میں حملہ ہوا اوران کا ہاتھ توڑ دیا گیا، حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو فرمایا کہ یہ یہود کا کام ہے، اس کے بعد ایک خطبہ دیا جس میں فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب یہود سے مصالحت کی تھی تو کہہ دیا تھا کہ ہم جب چاہیں گے تم کو نکال دیں گے ،ا ب انہوں نے عبداللہ بن عمرؓ پر حملہ کیا ہے اوران کا ہاتھ توڑ ڈالا ہے، اس کے پہلے بھی انہوں نے انصار پر حملہ کیا تھا تم میں سے خیبرمیں جس جس کا مال ہو لےلے، میں یہود خیبر کو جلا وطن کروں گا،(مسند جلد۱،صفحہ۱۵) فتوح البلدان میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب ان کو جلا وطن کرنا چاہا تو" لایجتمع دینا ن" والی حدیث کی کافی تحقیقات کرلی اوران کو اس کی صحت کا کامل یقین ہوگیا، تب ان کو جِلا وطن کیا۔ (فتوح البلدان،صفحہ۳۴) نصارا ئے نجران رسول اللہ ﷺ نے نجران کے عیسائیوں سے جو معاہدہ کیا تھا اس میں ایک شرط یہ تھی کہ سود نہ کھائیں گے ؛لیکن حضرت عمرؓ کے عہد میں اس شرط کی خلاف ورزی کی گئی،(ابوداؤد کتاب الخراج، باب فی الجزیہ وفتوح البلدان،صفحہ ۱۶۲) اس کے ساتھ انہوں نے درپردہ جنگ کی تیاریاں بھی شروع کیں اوربہت سے گھوڑے اور ہتھیار بھی جمع کئے اس لئے حضرت عمرؓ نے ان کو جلاوطن کردیا ،(کتاب الخراج،صفحہ ۴۲) طبری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اورحضرت ابوبکرؓ دونوں نے ان کو جلاوطنی کی وصیت کی تھی۔ (طبری ،صفحہ ۲۱۶۲) نصارائے عربسوس ان لوگوں نے رومیوں سے درپردہ سازش کی،حضرت عمیر بنؓ سعد نے جو وہاں کے حاکم تھے، حضرت عمرؓ کو اطلاع دی تو انہوں نے ان کو جلاوطن کروادیا۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۱۶۳) ان تمام واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ جو جلا وطنیاں عمل میں آئیں ان کا سبب مذہبی تعصب نہ تھا، بلکہ اس قسم کے پولیٹیکل اسباب جمع ہوگئے تھے کہ کوئی سلطنت اس کے دوسرا طرز عمل اختیار ہی نہیں کرسکتی تھی، البتہ یہ دیکھنا چاہئے کہ اس قسم کے موقعوں پر دوسری سلطنتیں کیا کرتیں اورصحابہ کرام نے کیا کیا؟ حضرت عمرؓ نے نجران کے عیسائیوں کو جلاوطن کیا تو یہ حکم دیا کہ جو لوگ جلا وطن کئے جائیں ان کی زمین کی پیمائش کرلی جائے تاکہ اسی کے مثل ان کو معاوضہ دیا جائے اوران کو اختیار دیا جائے کہ جہاں چاہیں چلے جائیں، (طبری)،صفحہ ۲۱۶۲) وہ لوگ جلا وطن ہوکر عراق عرب کو چلے تو ان کو جو پروانہ لکھا اس میں یہ فیاضانہ الفاظ رکھے۔ (۱)یہ لوگ شام یا عراق کے جس رئیس کے پاس جائیں اس کا فرض ہوگا کہ وہ زراعت کے لئے ان کو زمین دے۔ (۲)ہر مسلمان کو چاہئے کہ اگر کوئی ان پر ظلم کرے تو وہ ان کی مدد کریں۔ (۳)چوبیس مہینے تک ان کا جزیہ معاف کردیا جائے۔ ۴۱) کتاب الخراج،صفحہ فدک کے یہودیوں کو جلاوطن کیا تو ان کی زمین و جائداد کی قیمت کا تخمینہ کروایا اورجب قیمت متعین ہوگئی تو بیت المال سے دلوادی،(فتوح البلدان،صفحہ ۳۶) کیا کوئی دوسری قوم ان پولیٹیکل جرائم کے باوجود غیر قوموں کے ساتھ اس قسم کا فیاضانہ برتاؤ کرسکتی ہے؟