انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت فضل بن عباسؓ نام ونسب فضل نام،ابو محمد کنیت،ہمرکاب رسول لقب،سلسلہ نسب یہ ہے فضل ابن عباس بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی، ماں کانام لبابہ تھا، آنحضرت ﷺ کے چچازاد بھائی تھے۔ اسلام بدر کے قبل مشرف باسلام ہوئے،(ابن سعد ،جزو۴،ق۱:۳۷) اس زمانہ میں ان کا پورا گھراسلام سے منور ہوچکا تھا؛لیکن مشرکین کے خوف سے اعلان نہیں کیا تھا۔ (مسند احمد بن حنبل بروایت ابورافع) ہجرت فتح مکہ کے کچھ دنوں پہلے اپنے والد بزرگوار حضرت عباس کے ساتھ ہجرت کی۔ غزوات ہجرت کے بعد غزوۂ فتح ہوا، یہ سب سے پہلے اسی غزوہ میں شریک ہوئے،اس کے بعد حنین کا معرکہ پیش آیا، اس میں غیر معمولی جان فروشی دکھائی،اورمسلمانوں کی ابتدائی شکست میں جب فوج کا بڑا حصہ منتشر ہوگیا،ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی اوربدستور پیکر اقدس کے ساتھ جمے رہے۔ (ابن سعد جزو۴،ق۱:۳۷) پھر حجۃ الوداع میں آنحضرتﷺ کے ساتھ اس شان سے نکلے کہ آپ کی سواری پر سوار تھے،اسی دن سے "ردف رسول" یعنی ہمرکاب رسول لقب ہوگیا ،اسی درمیان میں قبیلہ خثعم کی ایک نوجوان اورخوبصورت عورت حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے آئی، حج میں منہ چھپانا عورتوں کے لیے درست نہیں، اس لیے اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا، فضل بھی نہایت خوش رو تھے، وہ ان کی طرف گھورنے لگی اور یہ بھی اس کو دیکھنے لگے، آنحضرتﷺ باربار ان کا چہرہ دوسری طرف پھیردیتے تھے،مگر یہ پھر اس کی طرف رخ کردیتے ،آخر میں آپ نے فرمایا "برادر عزیز!آج کے دن جو شخص آنکھ، کان اورزبان پر قابو رکھے گا اس کے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے، (ابن سعد،جزو۴،ق۱:۳۷،تھوڑے تغیر کے ساتھ یہ واقعہ بخاری کتاب العمرہ باب حج المراۃ میں بھی مذکور ہے) رمی جمار کے وقت آنحضرتﷺ کی پشت پر چادر آڑ کیے ہوئے سایہ کیے کھڑے تھے۔ (ابوداؤد:۱/۹۶) آخری سعادت فضلؓ نے آنحضرتﷺ کی آخری خدمت کی سعادت بھی حاصل کی، آپ ﷺ نے مرض الموت میں جو آخری خطبہ دیا تھا، اس کے لیے جن دوسعادت مندوں کے سہارے گھر سے باہر تشریف لائے تھے، ان میں سے ایک حضرت فضل تھے اوران ہی کے ذریعہ سے مسلمانوں میں خطبہ دینے کا اعلان کرایا تھا، (اصابہ:۵/۲۱۲) سب سے آخری سعادت جسم اطہر کے غسل کی حاصل ہوئی ؛چنانچہ جن لوگوں نے آپ کو غسل دیا تھا، ان میں ایک فضل بھی تھے، وہ پانی ڈالتے تھے اور حضرت علی ؓ نہلاتے تھے۔ (استیعاب:۲/۵۳۵) وفات آپ کی وفات کے بارہ میں مختلف روایتیں ہیں، بعض کہتے ہیں کہ شام میں طاعون عمواس میں وفات پائی، بعض کا خیال ہے کہ اجنادین کے معرکہ میں شہید ہوئے،دوسری روایت زیادہ مستند ہے،امام بخاری نے بھی اسی پر اعتماد کیا ہے۔ (اصابہ:۵/۲۱۲) حلیہ نہایت حسین و جمیل تھے۔ (اصابہ:۵/۲۱۲) اہل وعیال اولاد میں صرف ام مکتوم تھیں، جن کے ساتھ بعد میں حضرت حسنؓ نے شادی کی اوران کے طلاق کے بعد ابوموسیٰ اشعریؓ کے عقد میں آئیں۔ (استیعاب:۲/۵۳۵) فضل و کمال فضل بن عباسؓ سے ۲۴ حدیثیں مروی ہیں،ان میں ۳ متفق علیہ ہیں، (تہذیب الکمال:۳۰۹) اکابر صحابہ میں ابن عباسؓ اورابوہریرہؓ اورعام لوگوں میں کریب ،قثم بن عباس بن عبیداللہ ربیعہ بن حارث، عمیر، ابوسعید، سلیمان بن یسار، شعبی،عطاء بن ابی رباح وغیرہ نے روایتیں کی ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۴/۲۸۰)