انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مکہ کی طرف روانگی ۱۱ رمضان المبارک ۸ ھ کو آپ دس ہزار صحابہ کرامؓ کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے،قریش ابوسفیان کے ناکام واپس آنے سے بہت پریشان تھے،اُن کو مسلمانوں کے ارادے کی کوئی اطلاع نہ تھی نہ ان کے جاسوسوں اور حلیف قبائل نے اُن کو کوئی اطلاع دی تھی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے روانہ ہوکر نہایت تیز رفتاری سے مکہ کی طرف چلے جاتے تھے،مقام حجفہ میں پہنچے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب معہ اہل وعیال مسلمان اورمہاجر ہوکر مدینے کی طرف آتے ہوئے ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے اہل وعیال کو تو مدینے کی طرف بھجوادیا اور حضرت عباسؓ کو اپنے ہمراہ لیا، اسلامی لشکر بڑھتا ہوا مکہ کے قریب وادی مر الظہران میں (جو مکہ سے چار کوس کے فاصلہ پر ہے پہنچ گیا)ابھی تک مکہ والے بے خبر تھے، ان کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ مسلمان اس عہد شکنی کی ہم کو کیا سزادیں گے اورکیا طرز عمل اختیار کریں گے،مرالظہران میں شام کے وقت لشکرِ اسلام پہنچ کر خیمہ زن ہوا،رات ہونے پر چرواہوں کے ذریعہ مکہ میں خبر پہنچی کہ وادی مرالظہران میں ایک لشکر عظیم خیمہ زن ہے، یہ خبر سُن کر ابو سفیان تفتیش کی غرض سے نکلا، بُدیل بن ورقاء اورحکیم بن خزام بھی اس کے ہمراہ تھے ،ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروقؓ کو ایک دستہ فوج دے کر طلایہ گردی پر مامور فرمادیا تھا کہ دشمن شب خون نہ مارسکے،حضرت عباس کا دل اپنی قوم کے لئے بے چین تھا،وہ جانتے تھے کہ صبح جب اسلامی لشکرمکہ پر حملہ آور ہوگا تو قریش اورمکہ کا نشان باقی نہ رہے گا، وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح اہل مکہ مسلمان ہوجائیں؛چنانچہ وہ رات کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر دُلدل نامی پر سوار ہوکر لشکر گاہ سے نکلے اورمکہ کی جانب چلے، اسلامی لشکر گاہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے موافق ہزار ہزار کے دستوں نے الگ الگ پڑاؤ ڈالے تھے اور سب نے آگ روشن کر رکھی تھی۔ ابو سفیان نے جب دُور سے آگ روشن دیکھی تو وہ حیران رہ گیا کہ اتنا بڑا لشکر کہاں سے آگیا، بدیل بن ورقہ خزاعی نے کہا کہ یہ خزاعہ کا لشکر ہے،ابو سفیان نے سُن کر حقارت آمیز لہجہ میں جواب دیا کہ خزاعہ کی کیا مجال ہے کہ اتنا بڑا لشکر لاسکے، وہ ایک ذلیل وقلیل قوم ہے۔ رات کی تاریکی میں حضرت عباسؓ نے ابو سفیان کی آواز پہچان لی اور وہ اسی خیال سے نکلے تھے کہ کوئی مکہ کا بااثر آدمی ملے تو اُس کو خطرے سے آگاہ کرکے ترغیب دوں کہ اب مسلمان ہوجانا ہی تمہارے لئے مناسب ہے،انہوں نے فورا ابو سفیان کو آوازدی اورکہا کہ یہ لشکر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لشکر ہے اورصبح مکہ پر حملہ آور ہوگا،ابو سفیان کے ہوش وحواس اُڑ گئے اورحضرت عباسؓ کے قریب آکر کہا کہ پھر اب کیا تدبیر کریں، حضرت عباسؓ نے کہا کہ تم میرے پیچھے خچر پر سوار ہوجاؤ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لئے چلتا ہوں وہیں تم کو امان مل سکے گی، ابو سفیان بلا تامل خچر پر سوار ہوگیا اوراُس کے دونوں ہمراہی مکہ کی جانب چلے گئے،حضرت عباسؓ ابو سفیان کو اپنے پیچھے سوار کئے ہوئے جب اسلامی لشکر گاہ کی طرف لوٹے تو حضرت عمر فاروقؓ راستے میں ملے،انہوں نے ابو سفیان کو پہچان لیا اورقتل کرنا چاہا،لیکن حضرت عباسؓ خچر کو مہمیز کرکے تیز رفتاری سے نکل گئے، حضرت عمرؓ پیدل تھے،وہ بھی پیچھے پیچھے تلوار لئے ہوئے آئے، حضرت عباسؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہلے پہنچے، اُن کے بعد ہی حضرت عمرؓ بھی پہنچ گئے اورعرض کیا کہ یا رسول اللہ !یہ کافر بلا شرط قابو میں آگیا ہے حکم دیجئے کہ اس کی گردن اُڑادوں،حضرت عباسؓ نے کہا میں ابو سفیان کو امان دے چکا ہوں،حضرت عمرؓ نے پھر اجازت چاہی تو حضرت عباسؓ نے کہا کہ عمرؓ!اگر تمہارے خاندان کا کوئی شخص ہوتا تو تم کو اس کے قتل میں اتنا اصرار نہ ہوتا اوراتنی بے صبری نہ کرتے،حضرت عمر فاروقؓ نے عباسؓ کو جواب دیا کہ عباسؓ!مجھ کو تمہارے مسلمان ہونے کی اس قدر خوشی حاصل ہے کہ اپنے باپ کے مسلمان ہونے کی اس قدر خوشی نہ ہوتی،کیونکہ جانتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مسلمان ہونے کے خواہاں تھے،ان دونوں حضرات میں اس قسم کی باتیں ہوئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اچھا ابو سفیان کو ایک رات کی مہلت دی جاتی ہے اور پھر حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ ابو سفیان کو تم ہی اپنے خیمہ میں رکھو،حضرت عباسؓ نے ابو سفیان کو رات بھر اپنے پاس رکھا،صبح کو ابوسفیان نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کرلیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔