انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** کیا احادیث کے اخذ وقبول میں سخت شرائط موجبِ طعن ہیں؟ امام الائمہ، سیدالفقہاء، رأس الاتقیاء، مجاہدکبیر، حضرت نعمان بن ثابت کوفی رحمۃ اللہ علیہ میں جہاں خالقِ کائنات نے اور بہت ساری خوبیاں اور بھلائیاں ودیعت کررکھی تھیں، وہیں ان کوعلم حدیث میں بھی کافی مہارت اور علم حدیث سے خاصا شغف بھی مرحمت فرمایا تھا، حدیث سے محبت ہی کاتقاضہ تھا کہ انھوں نے حدیث کی قبولیت کے لیے انتہائی کڑی اور سخت شرائط لگائیں؛ حتی کہ اکابر علماء نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کی شرائط امام بخاری ومسلم کے شرائط سے بھی زیادہ سخت ہیں؛ اگرچہ جمہور محدثین ان شرائط میں امام صاحبؒ کا ساتھ نہیں دیتے؛ لیکن چونکہ امام صاحب بھی فن حدیث میں کبار مجتہدین میں سے تھے، اس لیے دیانتاً انھوں نے اپنے زمانہ کے حالات اور کوفہ میں رونما ہونے والے فتن سے حدیث کومحفوظ رکھنے کے لیے کئی شرائط بیان کیں؛ تاکہ فتن کا سدباب ہو اور وضاعین حدیث کا منہ بڑی حد تک بند ہوسکے؛ لیکن فی نفسہٖ امام اعظمؒ کی وہ شرائط سخت تھیں اور بہت ہی کم روایات اُس معیار پر اُترتی تھیں؛ حتی کہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگرامام اعظمؒ کی شرائط کے مطابق رواۃ صحیحین کی جانچ کی جائے توصحت کے درجہ کوشاید آدھے رواۃ ہی پہونچیں۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی:۲/۱۶۰، علامہ جلال الدین سیوطیؒ، دارنشرالکتب الاسلامیہ، لاہور) علامہ عبدالرحمان مبارکپوریؒ، امام اعظمؒ کے اصول حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "وَھُوَ الَّذِیْ شدد امر الروایۃ مالم یشددہ غیرہٗ"۔ (تحفۃ الاحوذی شرح سنن الترمذی:۲/۱۵، علامہ عبدالرحمان مبارکپوریؒ، دارالکتاب العربی، بیروت) امام ابوحنیفہؒ کی شخصیت ایسی ہے جس نے روایت کے معاملہ میں سختی برتی جیسی سختی کسی نے نہیں برتی۔ اسی طرح علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "والإمام ابوحنیفۃؒ انماقلت روایتہ لماشدد فی شروط الروایۃ والتحمل، الخ"۔ (مقدمہ اوجزالمسالک شرح مؤطاامام مالکؒ:۱/۶۰، شیخ الحدیث مولانازکریا کاندھلویؒ، المکتبۃ الیحیویۃ، سہارنپور۔ والترغیب والترہیب من الحدیث الشریف:۱/۱۳، للامام الحافظ زکی الدین منذری، داراحیاء التراث العربی، بیروت) امام ابوحنیفہؒ سے روایات کے کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے روایت اور تحمل کی شرائط ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "وھذا مذھب شدید قداستقر العمل علی خلافہ فلعل الرواۃ فی الصحیحین ممن یوصف بالحفظ بالحفظ لایبلغون النصف"۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی:۱/۱۶۰، علامہ جلال الدین السیوطیؒ، دارنشرالکتب الاسلامیہ، لاہور) اور یہ سخت مذہب ہے، اس لیے محدثین کا عمل اس کے خلاف ہے، غالباً صحیحین کے رواۃ جوحافظین حدیث ہیں ان کے نصف راوی بھی ان شرائط پر اترنہ سکیں۔ مندرجہ بالا عبارات اور علماء کے اقوال سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یقیناً امام اعظم ابوحنیفہؒ نے احادیث کے قبول کرنے کے معاملہ میں سختی برتی ہے اور قبولیت روایت کے لیے بعض ایسی شرائط لگائی ہیں، جن کی وجہ سے احادیث کا ایک وافر حصہ عمل سے رہ جاتا ہے؛ لیکن اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا سخت شرائط کی وضع فی نفسہ موجب طعن ہے؟۔ بات دراصل یہ ہے کہ محدث اپنی خداداد صلاحیت اور وہبی ملکہ کے تحت جوشرائط قبولیت روایت کے تعلق سے مناسب سمجھتا ہے وہ اسے وضع کرتا ہے اور اس کی دیانت کا تقاضہ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ اُن شرائط کوبیان کرے اور اس کے مطابق عمل کرے، ہم دیکھتے ہیں کہ فی نفسہ قبولیت روایت میں شدت برتنے کا معاملہ صرف امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے؛ بلکہ دیگر اجلۂ محدثین نے بھی حفاظتِ حدیث کی خاطر ایسے شرائط واصول اپنے وہبی ملکہ کے تحت بیان کی ہیں کہ انھیں بھی تشدید ہی کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے، ذیل میں ہم چند محدثین عظام کے وہ سخت ترین شرائط جن کی وجہ سے احادیث کا ایک وافر حصہ عمل سے رہ جاتا ہے اُن کے چند نمونے پیش کرتے ہیں، علامہ سیوطیؒ نے مختلف محدثین عظام کی مختلف شرائط کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: "وفی اشتراط ثبوت اللقاء وطول الصحبۃ ومعرفتہ بالروایۃ عنہ خلاف منہم من لم یشترط شیئاً من ذالک وھومذھب مسلم بن الحجاج وادّعی الاجماع فیہ ومنھم شرط اللقاء وحدہ وھوقول البخاری وابن المدینی والمحققین ومنھم من شرط طوال الصحبۃ ومنھم من شرط معرفتہ بالروایۃ عنہ"۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی:۱/۲۱۵، علامہ جلال الدین السیوطیؒ، دارنشرالکتب الاسلامیہ، لاہور) اور ثبوت لقاء اور طول صحبت اور معرفت بالروایہ کی شرائط لگانے میں اختلاف ہے، بعض لوگ مثلاً: مسلم بن الحجاج ان میں سے کوئی شرط نہیں لگاتے اور وہ اپنے مذہب پر اجماع کے دعویدار ہیں اور بعض لوگ مثلاً: امام بخاریؒ وابن المدینیؒ صرف لقاء کی شرط لگاتے ہیں اور بعض لوگ طولِ صحبت کی بھی قید لگاتے ہیں اور بعض لوگوں نے روایت کی معرفت کی شرط لگائی ہے۔ آپ نے علامہ سیوطیؒ کی عبارت ملاحظہ فرمائی کہ ہرمحدث نے اپنی صوابدید کے مطابق شرائط لگائی ہیں، مثلاً: امام مسلم امکان لقاء کوکافی سمجھتے ہیں؛ اگرچہ واقع کے لحاظ سے لقاء پایا جائے یانہیں؛ جب کہ امام بخاریؒ وغیرہ ثبوتِ لقاء کی شرط لگاتے ہیں؛ حالانکہ ثبوتِ لقاء کی شرط اتنی سخت ہے کہ احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ اس معیار پر نہیں اُترسکے گا؛ کیونکہ بہت سے راویوں کے متعلق تاریخی طور پریہ ثابت نہیں ہے کہ ان کی لقاء اپنے شیخ سے ثابت ہے، اس صورت میں توصرف عدمِ ثبوت کی وجہ سے روایت کی ایک مقدار معتبر ماننے سے رہ جائے گی؛ ظاہر ہے کہ یہ ایک سخت شرط ہوگی؛ یہی وجہ ہے کہ امام مسلمؒ نے اپنے مقدمہ میں اس شرط کے معتبر قرار دینے والوں پر زبردست تنقید کی ہے۔ اسی طرح آپ نے علامہ سیوطیؒ کی عبارت کوپڑھتے ہوئے یہ بھی پڑھا ہے کہ راوی کواپنے شیخ سے طول صحبت حاصل ہو؛ حالانکہ سبھی حضرات جانتے ہیں کہ پہلے زمانہ میں آج کی طرح ہرقسم کی آسانی فراہم نہ تھی، لوگ بڑی بڑی مشقتیں جھیل کر علم حدیث کے حصول کے لیے اسفار کیا کرتے تھے اور بعض لوگ توتجارت کی غرض سے کہیں جاتے اور معلوم ہوتا کہ وہاں کوئی محدث ہے تواُن کی خدمت میں حاضر ہوکر روایات حاصل کرتے اور لوٹ جاتے، تاریخ کے تتبع سے اس طرح کے رواۃ کی بھی ایک کثیرتعداد ہے۔ ظاہر بات ہے کہ طول صحبت کی قیدلگانے سے اس قسم کی ساری احادیث عمل اور قبولیت سے رہ جائیں گی، کیا امام بخاری ودیگر محدثین کے یہ شرائط فی نفسہ سخت نہیں ہیں؟ واقعی سخت ہیں؛ لیکن آج تک ان پر کسی نے یہ نقد نہیں کیا کہ انھوں نے محض اپنے ذہن سے ایسی شرط بیان کی ہے، جس سے حدیث کی ایک غیرمعمولی تعداد عمل سے رہ جاتی ہے اور ایسی تنقید کا ہم اُسے اختیار بھی نہ دیں گے؛ کیونکہ امام بخاری ودیگرمحدثین فن حدیث کے ماہر تھے؛ انھیں مجتہد ہونے کے ناطے اس بات کاپورا اختیار تھا کہ وہ حدیث کے اخذوقبول کے متعلق شرائط وضع کریں؛ اسی طرح علامہ بنوریؒ محدثین کے اُصول کاتذکرہ کرتے ہوئے ایک جگہ رقمطراز ہیں: "شرط البخاری الاتقان وکثرۃ ملازمۃ الراوی للشیخ..... واشترط ابوداؤد والنسائی کثرۃ الملازمۃ فقط ولم یشترط ابوعیسیٰ الترمذی شیئا منھما"۔ (مقدمہ معارف السنن شرح سنن الترمذی:۱/۲۰، علامہ یوسف بنوریؒ، دارالکتاب دیوبند) امام بخاریؒ نے اتقان اور راوی کے زیادہ مدت تک اپنے شیخ کے ساتھ رہنے کی شرط لگائی ہے اور امام ابوداؤد اور نسائی نے کثرت ملازمت ہی کی شرط لگائی ہے، جب کہ امام ترمذیؒ نے ان دونوں میں سے کسی کی شرط نہیں لگائی ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ فن حدیث کے امام محدث ابن الجوزیؒ نے بھی قبولیت روایت کے لیے سخت ترین شرائط لگائی ہیں؛ حتی کہ ان کی انہی سخت شرائط کی وجہ سے اُن کے نزدیک بخاری ومسلم کی بعض صحیح وحسن روایات موضوعات میں داخل ہوگئی ہیں؛ چنانچہ "امام اعظم ابوحنیفہؒ" نامی کتاب میں ہے: "محدث ابن جوزی نے توحسن اور صحیح تک کوجوبخاری ومسلم میں موجود ہیں، موضوعات میں شمار کرلیا ہے، دوسروں کا توذکر ہی کیا ہے"۔ (امام اعظم ابوحنیفہؒ:۱۵۶) اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جمہور محدثین اہلِ بدع اور اصحاب ہوی کی روایات کو قبول کرتے ہیں، جب کہ اُن کی صداقت کا گمانِ غالب ہوتا ہے؛ لیکن اس کے برخلاف جمہور سے اختلاف کرتے ہوئے امام مالکؒ فرماتے ہیں اصحاب ہوی جوداعی ہوں اپنے ہوی کی طرف، اُن کی روایات تومطلقاً ناقابل قبول ہیں؛ البتہ جوداعی نہ ہوں، اُن کی روایت قابل قبول ہے؛ چنانچہ علامہ ابن الأثیرؒ فرماتے ہیں: "روایات المبتدعۃ واصحاب الاھواء وھی عنداکثر اھل الحدیث مقبولۃ اذکانوا فیھا صادقین..... وأمامالک بن انسؓ فانہ یقول لایؤخذ حدیث رسول اللہﷺ من صاحب ھویٰ یدعوالناس الی ھواہ"۔ (جامع الاصول من احادیث الرسول:۱/۹۹،۱۰۰، علامہ ابن الأثیرؒ، داراحیاء التراث العربی، بیروت) اہلِ بدع اور اصحاب ھویٰ کی روایات جب کہ وہ اُن روایات میں صدق بیانی سے کام لیں؛ اکثرمحدثین کے نزدیک مقبول ہیں؛ لیکن حضرت مالک بن انسؓ فرماتے ہیں کہ اگر اصحاب ہوی اپنے ہوی کی جانب داعی ہوں تواُن سے احادیث رسول اللہﷺ نہیں قبول کی جائیں گی۔ آپ نے مندرجہ بالا عبارت میں ملاحظہ فرمایا کہ جن رواۃ کی روایات کومحدثین مقبول مانتے ہیں، اُن کی روایات کی قبولیت سے بھی امام مالکؒ نے انکار کیا ہے؛ لہٰذا امام مالکؒ کے قول کے مطابق بھی احادیث کا ایک وافر ذخیرہ عمل سے رہ جائے گا؛ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے جمہور محدثین سے اختلاف کرتے ہوئے حدیثِ حسن کوبھی غیرمعتبر قرار دیا ہے؛ چنانچہ علامہ شوکانی رحمۃاللہ علیہ "نیل الاوطار" میں فرماتے ہیں: "یجوز الاحتجاج بما صرح احد الائمۃ المعتبرین بحسنہ لان الحسن یجوز بہ العمل عندالجمھور ولم یخالف فی الجواز الاالبخاری والحق ماقالہ الجمہور"۔ (مقدمہ ابن ماجہ:۱۶، محمدعبدالرشید النعمانی، یاسرندیم اینڈ کمپنی، دیوبند۔ مقام ابوحنیفہؒ:۲۱۶، شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر، دارالاشاعت، دیوبند) معتبرائمہ نے جن احادیث کوحسن کہا ہے، وہ لائقِ احتجاج ہیں؛ اسی لیے روایت حسن پر جمہور کے نزدیک عمل کرنا جائز ہے اور یہی حق ہے اور اس جواز میں سوائے بخاری کے کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے۔ مندرجہ بالاعبارت میں آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ رئیس المحدثین امام بخاریؒ نے سارے محدثین سے اختلاف کرتے ہوئے حدیثِ حسن کوغیرمعتبر قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ احادیث حسن کی ایک وافرمقدار ذخیرۂ حدیث میں موجود ہے، خود ترمذی شریف کی روایتوں کی ایک کثیر تعداد احادیث حسن پر مشتمل ہے اور تنہا امام حماد بن سلمہؒ سے ایک ہزار حسن احادیث مروی ہیں (مقام ابوحنیفہؒ:۲۱۷، شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر، دارالاشاعت، دیوبند) امام بخاریؒ کی اس شرط کی بنیاد پر حسن احادیث کا اتنا بڑا ذخیرہ عمل سے رہ جاتا ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ امام شافعیؒ نے حدیثِ مرسل کولائقِ احتجاج سمجھتے ہیں؛ حتی کہ ابن عبدالبر نے اسی پسِ منظر میں فرمایا کہ امام شافعیؒ حدیثِ مرسل کے انکار میں پہلے شخص ہیں (تدریب الراوی مع تقریب النووی:۱/۱۹۸، علامہ جلال الدین السیوطیؒ، دارنشرالکتب الاسلامیہ، لاہور) امام شافعیؒ کے مذہب کونقل کرتے ہوئے علامہ نوویؒ فرماتے ہیں: "الحدیث المرسل لایحتج بہ عندنا"۔ (شرح المھذب:۱/۶۰، للامام ابی زکریا محی الدین بن شرف النووی، دارالفکر، بیروت) ہمارے نزدیک حدیث مرسل لائقِ احتجاج نہیں ہے۔ اس عبارت میں آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ امام شافعیؒ حدیث مرسل کوقبول نہیں کرتے؛ جب کہ احادیث مرسلہ کی ایک کثیر تعداد موجود ہے؛ حتی کہ صرف امام ابوداؤد فرماتے ہیں: "میں نے اپنی کتاب میں تقریباً چھ سومرسل روایات بیان کی ہیں"۔ (مقدمہ بذل المجہود شرح ابوداؤد:۱/۸۱، محدث کبیر مولانا خلیل احمد سہارنپوری، المکتبۃ الخلیلیۃ، سہارنپور۔ مقدمہ ابوداؤد:۵، للعلامۃ الکبیر محمدحیاۃ السنبھلی، یاسرندیم اینڈ کمپنی، دیوبند) اب اندازہ لگائیے کہ صرف ایک شخصیت سے چھ سوروایات مرسلہ مروی ہیں تواگر کل رواۃ کی روایات مرسلہ جمع کرلی جاویں تواحادیث کا کتنا بڑا ذخیرہ عمل سے رہ جائے گا توکیا اب احادیث حسن اور روایات مرسلہ کے ذخیرہ کوجمع کرکے یہ پروپگنڈہ کیا جائے کہ امام بخاریؒ اور امام شافعیؒ (معاذ اللہ) اتنے بڑے ذخیرۂ حدیث کے منکر ہیں؟ ہرگز نہیں؛ توپھراگر یہی معاملہ امام اعظمؒ کے ساتھ پیش آتا ہے؛ جب کہ وہ مجتہد برحق ہیں تواس پہلو کواُن کے حق میں ناقابل تلافی نقصان اور ناقابل معافی جرم کیوں قرار دیا جاتا ہے اور اُن کے خلاف انتہائی غلط قسم کی نعرے بازیاں کیوں کی جاتی ہیں؟ یہ انصاف سے بالکل دور کی بات ہے؛ اگرروایت کے اخذ وقبول کی شرائط بیان کرنا اور اُس کے مطابق روایت کوپرکھنا موجب طعن ہوتوامام شافعیؒ بھی اس زد میں آئیں گے؛ اسی طرح امام مالکؒ نے جواصحاب ہویٰ کی روایت کی قبولیت سے انکار کیا تواُن پربھی اس بنیاد پر طعن ہونا چاہئے؛ اسی طرح جب امام بخاریؒ نے روایات حسن کا انکار کیا، جس سے ہزاروں احادیث عمل سے رہ گئیں تواس بنیاد پر امام بخاریؒ بھی موجب طعن ہوں گے؛ بلکہ وہ بہت سارے محدثین جن پر ساری اُمت اعتماد کرتی ہے وہ بھی نعوذ باللہ اسی زمرہ میں داخل ہوجائیں گے، جویقیناً ایک نامناسب بات ہوگی؛بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ ہرمحدث نے روایت کے اخذ وقبول کے لیے جوشرائط لگائی ہیں، اُن میں نہ صرف وہ معذور بلکہ مأجور بھی ہیں؛ اسی طرح اگرامام ابوحنیفہؒ نے بھی اپنے اجتہاد کے پیشِ نظرقبولیت روایت کے لی کچھ شرطیں عائد کی ہیں اور جواحادیث ان شرائط کے مطابق نہیں پائی گئیں، انھیں قبول نہ کیا توکیا وہ اس ترک کی وجہ سے تارکِ حدیث یامخالف حدیث قرار دیئے جائیں گے؟ کون عقلمند اسے تسلیم کرنے پر آمادہ ہے، ان کا حدیث سے والہانہ تعلق اس سےعیاں ہوتا ہے کہ انھوں نے حدیث ضعیف کوبھی رائے سے مقدم تسلیم کیا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح:۱/۷۷، علی بن سلطان محمدالقاری الحنفیؒ، المکتبۃ الاشرفیہ، دیوبند۔ والاحکام لإبن حزم:۷/۴۵، للعلامہ ابن حزم، دارالأفاق الجدیدہ، بیروت۔ علوم الحدیث:۱۲۷، مولانا عبیداللہ الاسعدی، مجلس نشریات اسلام، کراچی) یہ صحیح ہے کہ جمہور ان کی عائد کردہ شرائط میں ان کے ساتھ مناقشہ کرسکتے ہیں، ان کی بات کودلائل کے ساتھ رد کرسکتے ہیں، جیسا کہ امام بخاری کی شرط ثبوت لقاء اور حدیث حسن پرعمل کے جائز نہ ہونے کی رائے کوجمہور نے رد کیا ہے؛ مگران کودشمن اسلام یامخالف حدیث جیسے القاب سے توکسی بھلے انسان نے موسوم نہ کیا؛ لیکن کیا وجہ ہے کہ جب باری آتی ہے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی اور اُن کے اصحاب کی توحسنِ ظن کے سارے دروازے بند کرلیے جاتے ہیں؟ بس! آخر میں امام خریبی کی بات ہی دہرائی جاسکتی ہے: "مایقع فی أبی حنیفۃ الاحاسد اوجاھل"۔ (سیراعلام النبلاء:۶/۴۰۲، للعلامۃ الذھبی رحمۃ اللہ علیہ، موسسۃ الرسالۃ، بیروت) ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں زبان درازی حاسدیاجاہل ہی کرتا ہے۔ اعاذنا اللہ عن غمط الناس وبطرالحق وسائر مکائدالنفس واٰخر دعوانا ان الحمد اللہ رب العالمین۔