انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** رومیوں سے اسیرانِ جنگ کا تبادلہ رومیوں کے ساتھ جنگ کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری چلاآتا تھا، مسلمانوں نے ہمیشہ رومیوں کوشکست دی اور کبھی کبھی قسطنطنیہ تک بھی پہنچ گئے؛ مگررومیوں کی حکومت وسلطنت کا مکمل استیصال نہیں ہوسکا، اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ خلافتِ راشدہ کے عہد میں ایرانی بادشاہی برباد ہوچکی تھی مگررومی بادشاہی ابھی باقی رہ گئی تھی؛ اگرچہ شام وفلسطین ومصروغیرہ رومیوں سے چھین لیے گئے تھے، مسلمانوں کے قسطنطنیہ پرقابض ہوکر یورپ کے اندر داخل ہونے میں کوئی کسر باقی نہ تھی کہ اسی حالت میں اندرونی فسادات کھڑے ہوگئے اور قسطنطنیہ ویورپ مسلمانوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال ہوتے ہوتے بچ گیا، ان اندرونی جھگڑوں کا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ کبھی بند ہی ہونے میں نہ آیا اور کسی خلیفہ کوبھی ایسا موقع اور کامل اطمینان میسر نہ ہوا کہ وہ اپنی تمام طاقت وسیع مدت کے لیے یورپ کی طرف متوجہ کردے اور اسے اپنے مقبوضہ ممالک میں بغاوت کا اندیشہ اور خروج کا خطرہ نہ ہو۔ غرض مسلمانوں کی آپس کی مخالفتوں نے قسطنطنیہ کے قیصر اور یورپ کے ملکوں کی حفاظت کی اور سرحدات پرعیسائیوں اور مسلمانوں کی لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا، کبھی کوئی خلیفہ فوج لے کررومیوں پرحملہ آور ہوا تواُن کوڈرادھمکا کراور سزادے کرفوراً دارالخلافہ کی طرف واپس چلا آیا، یہ کبھی ممکن نہ ہوا کہ زیادت مدت اور کئی برس کے لیے وہ مستقر خلافت سے جدا رہ سکے، وثاق باللہ کے زمانے میں بھی رومیوں سے چھیڑ چھاڑ جاری رہی، خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں دومرتبہ عیسائی اور مسلمان قیدیوں کا تبادلہ ہوچکا تھا، یعنی مسلمانوں نے عیسائیوں کوجوان کی قید میں تھے، چھوڑ دیا اور اس کے معاوضہ می عیسائیوں نے ان مسلمان قیدیوں کوجوان کی قید میں تھے، آزاد کردیا، یہ تبادلہ پہلے بھی دریائے لامس کے کنارے ہوا تھا اور اب ۱۰/محرم سنہ۲۳۱ھ کوتیسری مرتبہ واثق باللہ کے عہد میں اسی دریا کے کنارے ہوا، جس کی صورت یہ تھی کہ دریائے لامس پردوپل ایک دوسرے کے متوازی بنائے گئے، ایک پل سے عیسائی قیدی اس طرف جاتا اور دوسرے پل سے مسلمان قیدی اس طرف سے آتا تھا، اس تبادلہ کے لیے واثق باللہ نے خاقان کواپنی طرف سے عیسائی قیدیوں کے ساتھ دریائے لامس کے کنارے بھیج دیا تھا، برابر تعداد کے قیدیوں کا تبادلہ ہوچکا اور سب مسلمان قیدی جن کی تعداد چار ہزار چھ سوتھی، اس طرف آچکے تورومی قیدی پھربھی بہت سے مسلمانوں کے پاس بچ گئے، خاقان نے ان بچے ہوئے قیدیوں کوبلامعاوضہ رومیوں کے پاس یہ کہہ کر بھیج دیا کہ اس تبادلہ میں بھی ہمارا درجہ بڑھا ہوا رہنا چاہیے، یہ ہماری طرف سے رومیوں پراحسان ہے۔