انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عراق میں ابنِ زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت اہلِ کوفہ کی حالت یہ تھی کہ حادثہ کربلا کے بعد ان لوگوں کے دلوں میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے اندر ہی اندر ایک اثر پیدا کیا، جنھوں نے امام حسین علیہ السلام کوخطوط بھیج کربلایا اور ان کے قتل میں پھرشریک ہوئے، اپنی اس حرکت سے ان کے دلوں میں پشیمانی پیدا ہوئی، ادھر ابنِ زیاد کوبھی کوئی انعام وصلہ نہ ملا؛ بلکہ خراسان کا علاقہ اس کی ماتحتی سے جدا کردیا گیا؛ لہٰذا وہ بھی قتلِ حسین رضی اللہ عنہ سے پشیمان ہوا اور اہلِ کوفہ کواظہارِ پشیمانی سے نہ روکا، کوفہ کے ان لوگوں نے جوشیعانِ حسین کہلائے جاتے تھے، سلیمان بن صروخزاعی کے مکان میں جمع ہوکر ایک خفیہ جلسہ کیا اور اپنی خطاؤں کا اقرار کرنے کے بعد ان کی تلافی کے لیے اس تجویز پراتفاق کیا کہ اب ہم کوخونِ حسین رضی اللہ عنہ کا معاوضہ ضرور لینا چاہیے؛ چنانچہ سب نے سلیمان بن صرو کے ہاتھ پربیعت کی، سلیمان نے لوگوں کوسمجھایا کہ تم اپنے اس اقرار اور ارادے پرقائم رہو؛ لیکن اس کے اظہار سے ابھی پرہیز کرو اور لوگوں کورفتہ رفتہ اپنا ہم خیال بناتے رہو، جب موقع آئے گا ہم خروج کریں گے اور خونِ حسین علیہ السلام کا قصاص لے کرچھوڑیں گے۔ جب عبیداللہ بن زیاد نے اہلِ کوفہ کواپنی بیعت کی طرف متوجہ کرنا چاہا تولوگوں نے اسی لیے انکار کیا کہ وہ سلیمان بن صرو کی ہدایت وتجویز کے ماتحت ابن زیاد سے انتقام لینے کی تیاریاں کررہے تھے، اس کے ہاتھ پرکیوں بیعت کرنے لگے تھے، یزید کی وفات کا حال سن کرشیعانِ علی نے سلیمان بن صرو سے کہا کہ اب مناسب موقع ہے آپ خروج کیجئے؛ لیکن سلیمان نے ان کواس ارادے سے باز رکھا اور کہا کہ ابھی تک اہلِ کوفہ کی ایک بڑی تعداد ایسی باقی ہے جوہماری ہم خیال اور شریک کار نہیں ہے، مناسب یہ ہے کہ ابھی چند روز تک اور اندر اندر اپنی کوششوں کوجاری رکھو اور اپنی جمعیت اور طاقت کوبڑھاؤ۔ ابنِ زیاد کوصاف جواب دینے کے بعد اہلِ کوفہ نے عمروبن حرث کوجوابنِ زیاد کی طرف سے کوفہ کا حاکم تھا نکال دیا اور عبداللہ بن زبیر کی خلافت کوتسلیم کرلیا، عبداللہ بن زبیر کی طرف سے عبداللہ بن یزید انصاری کوفہ کے گورنر اور ابراہیم محمد بن طلحہ محصل خراج مقرر ہوکر آگئے، عبداللہ بن زبیر کے گورنر کی آمد سے ایک ہفتہ پیشتر مختار بن ابوعبیدہ بھی جومحمد بن الحنفیہ کے پاس گیا ہوا تھا واپس کوفہ میں آیا، یہ رمضان سنہ۶۴ھ کا واقعہ ہے، بصرہ والوں نے بھی ابن زیاد کے چلے جانے پرعبداللہ بن حارث کواپنا سردار بنالیا اور پھراہل کوفہ کی تقلید میں اپنا ایک وفد بھیج کرحضرت عبداللہ بن زبیر کی خلافت کوتسلیم کرلیا، اس طرح تمام ملکِ عراق پربھی عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کی حکومت قائم اور مسلط ہوگئی۔