انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سیف اللہ خالدؓ حضرت خالد بن ولیدؓ کی جنگی قابلیت کا سب نے اعتراف کیا،لیکن سب سے بڑا اعتراف یہ تھا کہ خود خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اُن کو سیف اللہ کا خطاب ملا،جس کی تفصیل یہ ہے کہ جس روز میدانِ موتہ میں غازیانِ اسلام مدینے سے سینکڑوں کوس کے فاصلے پر مصروفِ جنگ تھے اسی روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں الہام الہیٰ کے ذریعے تمام حالاتِ جنگ کی اطلاع ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی وقت تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور منبر پر چڑھ کر فرمایا کہ ‘‘تمہارے لشکر کی خبر یہ ہے کہ انہوں نے دشمنوں کا مقابلہ کیا،زیدؓ شہید ہوا،اللہ نے اس کو بخش دیا، بعد اس کے جعفرؓ نے اسلامی علم اپنے ہاتھ میں لیا،دشمنوں نے اس کو ہر چہار طرف سے گھر لیا یہاں تک کہ وہ شہید ہوا،اللہ نے اس کو بھی بخش دیا،پھر عبداللہ بن رواحہؓ نے اسلامی جھنڈا اپنے ہاتھ میں لیا وہ بھی دشمنوں سے لڑ کر شہید ہوا، یہ سب کے سب جنت میں اُٹھا لئے گئے اور تختِ زریں پر متمکن ہیں، ان تینوں کے بعد اسلامی جھنڈے کو سیف من سیوف اللہ یعنی خالد بن ولیدؓ نے لیا اورلڑائی کی بگڑی ہوئی حالت کو سنبھالا۔ اُسی روز سے حضرت خالد بن ولیدؓ سیف اللہ کے نام سے پکارے جانے لگے،حضرت جعفرؓ کے گھر اُسی وقت ماتم شروع ہوگیا، یعنی ان کے گھر والے فرطِ غم سے رونے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر سے کھانا پکواکر جعفرؓ کے گھر بھجوایا،جب حضرت خالد بن ولیدؓ اپنا فتح مند لشکر لئے ہوئے مدینے کے قریب پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے نکل کر کچھ دُور تک بطریقِ استقبال تشریف لے گئے حضرت خالد بن ولیدؓ کو سیف اللہ کے خطاب کی خوش خبری سنائی ،ایک صحابی نے خواب میں دیکھا کہ حضرت جعفرؓ جنت میں دوبازوؤں سے اُڑتے پھررہے ہیں،اُسی روز سے اُن کا نام حضرت جعفر طیار مشہور ہوا، ایک روایت میں ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت جعفرؓ کو خدا ئے تعالیٰ نے دوبازو مرحمت فرمائے ہیں جن سے وہ جنت میں اُڑتے پھرتے ہیں، اُسی روزے سے وہ ذوالجناحین اورطیارکے لقب سے موسوم ہوئے،جنگ موتہ ماہ جمادی الاول ۸ ھ میں ہوئی۔