انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام حضرت عبداللہ ؓ بن عمرو بن حرام : حضرت عبداللہؓ کی کنیت ابو جابر تھی، قبیلہ خزرج کی شاخ بنو سلمہ کے رئیس تھے، ان کی ملکیت میں کئی قلعے اور ایک چشمہ تھا، کثیر العیال اور فیاض تھے اسی لئے اکثر مقروض رہا کرتے تھے۔ بیعت عقبہ ثانیہ میں آپ نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا ، اسی موقع پر آپ کو نقیب بھی بنایا گیا۔ حضرت عبداللہؓ نے غزوۂ بدر میں شرکت کر کے بڑی بہادری سے کافروں کا مقابلہ کیا ، اس کے بعد غزوۂ اُحد میں بھی شریک ہوئے ، اس غزوہ میں شرکت سے پہلے اپنے بیٹے سے فرمایا :بیٹے! میرا دل کہہ رہا ہے کہ اس غزوہ میں سب سے پہلے مجھے شہادت نصیب ہوگی، مجھے اپنی جان ، مال اور اولاد ہر شئے سے بڑھ کر اللہ کے رسول ﷺ محبوب ہیں، ان کے بعد تم سب سے زیادہ عزیز ہو تم کو میری وصیت ہے کہ اپنی بہنوں سے اچھا برتاؤ کرنا اور مجھ پر جو قرض ہے اس کو ادا کرنا۔ چنانچہ غزوۂ اُحد میں آپ نے شہادت پائی، کفّار نے آپ لاش کا مثلہ کیا یعنی کان، ناک اور ہونٹ کاٹے، پیٹ پھاڑا، حضورﷺ کے سامنے جب آپ کی لاش رکھی گئی تو فرمایا کہ اس پر چادر ڈال دو، جب ان کے فرزند حضرت جابر ؓ آئے اور کپڑا ہٹا کر باپ کی صورت دیکھی تو بے اختیار رونے لگے ، حضرت عبداللہؓ کی بہن پاس ہی کھڑی تھیں ، انھوں نے دیکھتے ہی چیخ ماری ، حضرت عبداللہؓ کے خاندان والوں نے درخواست کی کہ انہیں آبائی قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت دی جائے ، حضورﷺ نے ارشاد فرمایاکہ یہ اُحد کے گنج شہیداں ہی میں دفن ہوگا ، دفن کے وقت عزیز و اقارب صورت دیکھ کر رونے لگے تو حضورﷺ نے فرمایا :رو یا نہ رو جب تک جنازہ رکھا رہے گا فرشتے پروں سے سایہ کئے رہیں گے۔ آپ کو دفن کرنے کے ۶ ماہ بعد دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے قبر کھودی گئی تو لوگوں نے دیکھا کہ سوائے کان کے تمام جسم سالم تھا جیسے ابھی ابھی دفن ہوئے ہوں ، اس واقعہ کے ۴۶ سال بعد ایک سیلاب کی وجہ ان کی قبر دوبارہ کھل گئی تو لوگوں نے دیکھا کہ لاش اصلی شکل میں موجود تھی۔ غزوۂ اُحد کے چند دنوں بعد اتفاق سے حضور ﷺ نے حضرت عبداللہؓ کے فرزند حضرت جابرؓ کو بہت خستہ حالت میں دیکھا تو ان کا حال دریافت کیا ، عرض کیا ’’ آپ جانتے ہیں کہ میرے باپ نے اپنے پیچھے بہت سے بچے اور قرض چھوڑا ہے اسی وجہ سے پریشان حال ہوں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تمہیں ایک خوشخبری سناتا ہوں ، سنو ! اللہ تعالیٰ کسی سے بے پردہ کلام نہیں فرماتا؛ لیکن اس نے تمہارے باپ سے بالمشافہ گفتگو کی اور پوچھا کوئی تمنا ہو تو بیان کرو ، اس نے کہا ائے مالک: مجھے ایک بار پھر دنیا میں بھیج تاکہ راہ حق میں لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جو ایک بار دنیا سے آتا ہے وہ پھر واپس نہیں جا سکتا ، عرض کیا ، تو مالک میری نسبت کوئی وحی بھیج دے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی : (ترجمہ ) جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے انھیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور ان کا رزق مقرر ہے۔ ( سیرت احمد مجتبیٰ)