انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کوئی بات نقل میں رہ جائے توموجبِ قدح نہیں صحابہ کرامؓ حضورﷺ سے جب کوئی حدیث نقل کرتے توبعض اوقات یوں بھی ہوتا کہ بعض مضامین حدیث روایت کردیتے اور کچھ باتیں رہ بھی جاتیں جودوسرے صحابہؓ کے ہاں یاانہی صحابہ کی کے کسی دوسری روایت میں مل جاتیں، یہ بعض مضامین کا رہ جانا اس پہلو سے کبھی نہ ہوا تھا کہ وہ بعض اجزاء باقی حدیث کے معنی پر اثرانداز ہوں؛ بلکہ ہرحصہ مضمون اپنی جگہ مستقل حیثیت سے روایت ہوتا تھا؛ سوائمہ حدیث اس پر متفق رہے ہیں کہ روایت حدیث میں کسی بات کا نقل سے رہ جانا باقی روایت میں موجب قدح نہیں ہے، امام زہریؒ (۱۲۴ھ) حدیث افک کے واحد راوی ہیں، جومختلف تابعین کرامؒ سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی حدیث نقل کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: "کلہم حدثنی طائفۃ من حدیثھا"۔ (صحیح مسلم:۲/۳۶۴) کہ ان راویوں نے حدیث افک کے کسی حصہ کومیرے سامنے بیان کیا ہے۔ امام زہری تصریح نہیں کرتے کہ کون ساحصہ کن راویوں نے بیان کیا ہے لیکن یہ راوی چونکہ سب کے سب ثقہ ہیں، اس لیے یہ جانے بغیر کہ کس کس راوی نے کیا کیا کہا ہے، پوری حدیث بالاتفاق قبول کرلی گئی ہے اور ساری حدیث صحیح تسلیم کرلی گئی ہے، امام نوویؒ (۶۷۶ھ) اس کی شرح میں لکھتے ہیں: یہ طریقہ جوزہری نے جمع حدیث میں اختیار کیا ہے جائز ہے ممنوع نہیں اور اس میں کوئی ناپسندیدگی نہیں یہ بیان ہوچکا ہے کہ حدیث کا کچھ حصہ ان میں سے کسی سے ہے اور کچھ حصہ دوسروں سے ہے اور یہ چاروں تابعین حفاظ حدیث اور اپنے فن کے امام ہیں؛ اگراس میں کچھ تردد رہا ہے کہ یہ لفظ اس راوی کی روایت سے ہے یااس راوی کی روایت سے، تواس میں کوئی حرج نہیں اس سے احتجاج جائز ہے؛ کیونکہ وہ دونوں ثقہ ہیں اور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگرایک شخص کہے مجھے یہ حدیث زید نے بتائی یاعمرو نے اور وہ دونوں ثقہ ہیں، مخاطب کے ہاں معروف ہیں تواس سے حجت پکڑنا اور احتجاج کرنا جائز ہے۔ (شرح مسلم للنووی:۲/۳۶۴)