انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** قبرس کی فتح بحرابیض متوسط میں ساحل شام سے تھوڑی مسافت پر قبرس (سائپرس) ہے یہ جزیرہ اپنی سر سبزی ،شادابی اورمصنوعات کے لحاظ سے اپنے قرب وجوار میں بہت مشہور تھا،خصوصا ًروئی کی بڑی پیداوار ہوتی تھی اس لئے عہد فاروقی سے اس پر امیر معاویہؓ کی نظر تھی اوراس پر حملہ کے لئے انہوں نے حضرت عمرؓ سے بحری جنگ کے لئے اجازت بھی مانگی تھی، لیکن حضرت عمرؓ مسلمانوں کو بحری خطرات میں ڈالنا پسند نہ کرتے تھے؛چنانچہ عمروبن العاصؓ سے بحری سفر کے حالات پوچھ بھیجے انہوں نے تمام خطرات سے آگاہ کردیا، اس لئے امیر معاویہؓ کو اجازت نہ ملی؛ لیکن ان کا دل برابر بحری حملہ کرنے کے لئے بیتاب رہا ؛چنانچہ حضرت عثمانؓ کے خلیفہ ہونے کے بعد ان سے بھی اجازت طلب کی پہلے انہوں نے بھی اجازت نہ دی مگر امیر معاویہ کا اصرار برابر قائم رہا اورانہوں نے بحری جنگ کی آسانیاں حضرت عثمانؓ کے ذہن نشین کرکے انہیں خطرات کی جانب سے اطمینان دلادیا اس وقت انہوں نے اس شرط پر اجازت دیدی کہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لیجائیں اور کسی مسلمان کو اس کی شرکت پر مجبور نہ کریں جو شخص بطیب خاطر شریک ہونا چاہے صرف اس کو لیا جائے کسی پر شرکت کے لئے جبر نہ کیا جائے۔ (یہ آخیر شرط طبری:۲۸۲۴ میں ہے) امیر معاویہؓ نے یہ تمام شرطیں منظور کرلیں اور۲۸ھ میں نہایت اہتمام کے ساتھ پہلی مرتبہ اسلامی بیڑا بحر روم میں اترا اورامیر معاویہؓ عبداللہ بن ابی سرح کو ساتھ لیکر قبرس پہنچے قبرس والے نہایت نرم خو تھے، جنگ وجدال سے گھبراتے تھے اس لئے بغیر مقابلہ کے ساتھ ہزار دینار سالانہ پر شرائط ذیل کے ساتھ صلح کرلی: (۱)ہزار دینار سالانہ خراج مسلمانوں کو دیں گے اور اسی قدر رومیوں کو دیاکریں گے مسلمانوں کو اس میں کوئی اعتراض نہ ہوگا (۲)اگر قبرس پر کوئی دشمن حملہ آور ہو تو مسلمان مدافعت کے ذمہ دار نہ ہونگے۔ (۳)اگر مسلمان رومیوں پر حملہ کرنا چاہیں تو قبرس والے ان کو اپنے جزیرہ کے اندر سے گذرنے دیں گے۔ لیکن اس صلح کے چار برس بعد ۳۲ھ میں جزیرہ والوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگی جہازوں سے رومیوں کی مدد کی، اس لئے ۳۳ ھ میں پھر امیر معاویہ پانسو جہازوں کے عظیم الشان بیڑے کے ساتھ بحری حملہ کرکے قبرس کو فتح کرلیا مگر روایات اسلامی کو قائم رکھتے ہوئے اہل قبرس کی وعدہ شکنی کا کوئی انتقام نہیں لیا اورصلح کے سابق نرم شرائط قائم رکھے؛ لیکن چونکہ اہل قبرس ایک مرتبہ غداری کرکے اپنا اعتبار کھوچکے تھے اس لئے اس مرتبہ امیر معاویہؓ نے قبرس میں ۱۲ ہزار مسلمانوں کی ایک آبادی قائم کردی، بعلبک کے بہت سے باشندے بھی نقل مکانی کرکے چلے آئے ان مسلمانوں نے یہاں مساجد تعمیر کیں اورایک شہر بسایا۔ (فتوح البلدان بلاذری:۱۶۰)