انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قطع موالات حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسلمان ہونے سے قریش کو بڑا صدمہ پہنچا،ادھرمسلمان علانیہ خانہ کعبہ میں نمازیں پڑھنے لگے،بہت سے مسلمان نجاشی کے ملک میں جاچکے تھے جن پر قریش کا کوئی زور نہیں چلتا تھا،حضرت حمزہؓ اورحضرت عمرؓ کی وجہ سے مکہ کے مسلمانوں پر بھی وہ بلا خطرہ ہاتھ نہیں ڈال سکتے تھے،ان حالات کو دیکھ کر نبوت کے ساتویں سال کی ابتداء یعنی ماہ محرم میں قریش نے ایک مجلس مشورت منعقد کی،مسلمانوں کی روز افزوں جماعت کے خطرات سے قوم کو آگاہ کیا اور اس خطرہ واندیشہ سے محفوظ رہنے کی تدابیر پر غور کیا گیا،بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ بنی ہاشم اوربنی عبدالمطلب اگرچہ سب کے سب مسلمان نہیں ہوئے؛ لیکن وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت اوررعایت سے باز نہیں آتے،لہذا اول ابو طالب سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ محمد (اپنے بھتیجے) کو ہمارے حوالے کردیں،اگر وہ انکار کریں تو بنو ہاشم اوربنی عبدالمطلب سے شادی بیاہ،میل ملاقات،سلام پیام سب ترک کردیا جائے،کوئی چیز ان کے ہاتھ فروخت نہ کی جائے،اورکھانے پینے کی کوئی چیز ان کے پاس نہ پہنچنے دی جائے اوراس سخت اذیت رساں مقاطعے کو اُس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے سپرد نہ کردیں۔ چنانچہ اس مقاطعے کے متعلق ایک عہد نامہ لکھا گیا،تمام رؤساءِ قریش نے اس پر قسمیں کھائیں اورعہد نامہ پر دستخط کئے یہ دستخط شدہ عہد نامہ خانہ کعبہ میں لٹکادیا گیا اورمقاطعہ شروع ہوگیا، ابو طالب تمام بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کو لے کر مکہ کے قریب ایک پہاڑی درے میں جاکر محصور ہوگئے، جس قدر مسلمان تھے وہ بھی ان کے ساتھ اُسی درے میں جو شعبِ ابو طالب کے نام سے مشہور ہے چلے گئے،بنو ہاشم سے صرف ایک شخص ابو لہب اس قید و نظر بندی سے آزاد رہا،وہ کفارِ قریش کے ساتھ تھا،غلہ وغیرہ جو کچھ بنو ہاشم اپنے ساتھ لے گئے تھے وہ جلد ختم ہوگیا اور اُن لوگوں کو کھانے پینے کی بڑی تکلیف ہونے لگی،درے میں جانے کا صرف ایک تنگ راستہ تھا،کوئی شخص باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ تین برس تک بنو ہاشم اورمکہ کے ان مسلمانوں نے بڑی بڑی تکلیفیں اوراذیتیں شعب ابو طالب میں برداشت کیں،جن کے تصور سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں،صرف ایام حج میں یہ محصور لوگ باہر نکلتے تھے اور عرب کے دستور کے موافق اُن ایام میں جو اذن عام ہوتا تھا اس سے فادہ اُٹھاتے اوراپنے کھانے پینے کا سامان خرید کر ذخیرہ کرلیتےتھے،انہیں ایام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی باہر نکلتے اورباہر سے آئے ہوئے لوگوں میں تبلیغ اسلام کرتے تھے،لیکن قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ لگے رہتے اورجہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاتے لوگوں کو آپ کی باتیں سننے سے منع کرتے اورآپﷺ کو دیوانہ اورجادوگر بناکر آپ کی طرف کسی کو متوجہ نہ ہونے دیتےتھے،شعبِ ابو طالب کی سہ سالہ سختیوں کا تصور کرنے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ قبیلوں کی حمیت اورخاندان و نسل کا پاس و لحاظ بھی ایک بڑی چیز ہے اور اسی نے بنو ہاشم کے اُن لوگوں کو جو مسلمان نہیں ہوئے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے اورآپ کی مدد کرنے پر مجبور کردیا تھا،ایک طرف بنی ہاشم کی حمیت خاندانی نے اُن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت پر مجبور کیا دوسری طرف شعب ابو طالب کی قید و نظر بندی نے اُن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا زیادہ مطالعہ کرنے زیادہ متاثر ہونے اور اسلام سے زیادہ واقف ہونے کا موقع دیا اوراس نسلی امتیاز نے ان کو (بنی ہاشم کو) بجا طور پر مستحقِ تکریم بنادیا،تین سال کی اس ظالمانہ قید اور بنی ہاشم کے مصائب نے بالآخر قریش کے بعض افراد کو متاثر کیا۔ بنی ہاشم کے چھوٹی چھوٹے بچوں کا بھوک کے مارے تڑپنا اورفاقہ زدہ والدین کے سامنے ان کی اولاد کا بلکنا،ایسی چیزیں تھیں کہ قریش مکہ ان کا صحیح اندازہ کرسکتے تھے،زہیر بن امیہ بن مغیرہ نے بنی ہاشم کی مصیبت کو اس لئے سب سے پہلے محسوس کیا کہ ابو طالب اس کے ماموں تھے،زہیر نے اول مطعم بن عدی بن نوفل بن عبد مناف کو رشتہ داری کی طرف توجہ دلا کر عہد نامہ کے توڑنے پر آمادہ کیا،پھر ابو البختری بن ہشام اورزمعہ بن الاسود کو اپنا ہم خیال بنالیا،غرض مکہ میں کئی شخص جو بنو ہاشم سے قرابت داری رکھتے تھے،بنو ہاشم کو مظلوم سمجھ کر اس ظالمانہ عہد نامہ کی تنسیخ کے متعلق چرچا کرنے لگے،انہیں ایام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابو طالب سے کہا کہ مجھ کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے خبردی گئی ہے کہ اُس عہد نامہ کی تمام تحریروں کو کیڑوں نے کھالیا ہے اس میں جہاں جہاں اللہ کا نام ہے وہ بدستور لکھا ہوا ہے،لفظ اللہ کے سوا باقی تمام حروف غائب ہوچکے ہیں،یہ سن کر ابوطالب اپنی گھاٹی سےباہر نکلے اور انہوں نے قریش سے کہا کہ مجھ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی خبر دی ہے ،تم عہد نامہ کو دیکھو،اگر یہ خبر صحیح ہے اورعہد نامہ کی تحریر معدوم ہوچکی ہے تو مقاطعہ ختم ہوجانا چاہئے؛چنانچہ اسی وقت قریش خانہ کعبہ میں دوڑے ہوئے آئے،دیکھا تو دیمک نے تمام حروف چاٹ لئے تھے،جہاں جہاں لفظ اللہ لکھا ہوا تھا وہ البتہ بدستور موجود تھا،یہ دیکھ کر سب حیرات وششد رہ گئے اور اُسی وقت مقاطعے کے ختم ہونے کا اعلان کردیا،بنو ہاشم اورتمام مسلمان شعب ابو طالب سے تین سال کے بعد نکلے اورمکہ میں آکر اپنے گھروں میں رہنے سہنے لگے،شعب ابو طالب میں مسلمانوں کو بھوک سے بیتا ب ہوکر اکثر درختوں کے پتے کھانے پڑتے تھے،بعض بعض شخصوں کی حالت یہاں تک پہنچی کہ اگر کہیں سوکھا ہوا چمڑا مل گیا تو اُسی کو معاف اورنرم کرکے آگ پر رکھا اوربھون کر چبایا ،حکیم بن حزام کبھی کبھی اپنے غلام کے ہاتھ اپنی پھوپھی حضرت خدیجہؓ کے لئے کچھ کھانا چھپا کر بھجوادیا کرتے تھے،اس کا حال جب ایک مرتبہ ابو جہل کو معلوم ہوا تو اُس نے غلام سے کھانا چھین لیا اورزیادہ سختی سے نگرانی شروع کردی۔