انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت مسلم بن خالد زنجیؒ نام ونسب نام مسلم کنیت عبداللہ وابوخالد اورزنجی لقب تھا،شجرۂ نسب یہ ہے: مسلم بن خالد بن فروہ بن مسلم بن سعید بن جرجہ،قبیلہ مخزوم قریش کے ایک خاندان آل سفیان بن عبدالاسد سے نسبتِ ولاء رکھنے کے باعث مخزومی اورخرشی کہلاتے تھے۔ (اللباب فی تہذیب الانساب:۱/۵۰۹) لقب کی وجہ تسمیہ زنجی کا لقب صغر سنی ہی میں پڑگیا تھا اورپھر اس کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ وہ نام کا جز ولاینفک بن گیا،اس کی وجہ تسمیہ کے متعلق مختلف ومتضاد بیانات ملتے ہیں دراصل عام طور پر سوڈان کی حبشی اقوام کو زنجی کہاجاتا ہے،اس لیے بعض علماء کا خیال ہے کہ مسلم بن خالد بھی سیاہ فام تھے،جیسا کہ امام احمدؒ کے صاحبزادے عبداللہ نے سوید بن سعید سے ابن خالد کے زنجی کہلائے جانے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے فرمایا کہ ان کا رنگ نہایت سیاہ تھا (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۲۹)لیکن ابن سعید اپنے اس قول میں منفرد ہیں،اکثر علماء کی تحقیق اس کے خلاف ہے،جس کے مطابق مسلم ابن خالد نہایت سُرخ وسفید رنگ کے مالک تھے اوراس کی ضِد میں ان کا لقب زنجی پڑگیا تھا؛چنانچہ علامہ ابن اثیر الجزری رقمطراز ہیں "لقب بالزنجی علی الضد لبیاضہ"علاوہ ازیں حافظ ابن حجرؒ نے اس لقب کی وجہ تسمیہ کے متعلق لکھا ہے کہ مسلم بن خالد کو زنجیون کی مانند کھجور بہت پسند تھی،ان کی باندی نے ایک دن ان سے کہا آپ کھجور کھانے میں بالکل زنجی ہیں،بس اس وقت یہ لقب پڑگیا۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۲۹) ولادت اوروطن مسلم بن خالد ۱۰۰ ھ میں پیدا ہوئے اصل وطن شام تھا (معارف ابن قتیبہ:۲۲۳) لیکن تاحیات مکہ مکرمہ ہی کی خاکِ پاک کو سرمہ بصیرت بنائے رہے یہاں تک کہ وطن اصلی کے بجائے مکی ہی کی نسبت شہرت حاصل ہوئی۔ فضل وکمال علم وفضل ،زہد وعبادت اورورع وتقویٰ میں ان کا پایہ نہایت بلند تھا،گوحدیث میں انہیں کوئی لائق ذکر مقام حاصل نہ تھا،لیکن فقہ میں اپنے وقت کے امام اور مجتہد تسلیم کیے جاتے تھے،مکہ میں ان کی ذات افتاء کا مرکز تھی،ان کے علوئے مرتبت اورجلالتِ شان کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ امام شافعیؒ کے استاذ تھے،امام شافعیؒ نے ان ہی کے فیضان صحبت سے فقہ کی تحصیل کی تھی اورصرف پندرہ سال کی کم سنی میں ان سے افتاء کی اجازت حاصل کرلی تھی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۳۱) علامہ ابن قتیبہؒ رقمطراز ہیں: کان عابداً مجتھداً (معارف ابن قتیبہ :۲۲۳) شیوخ وتلامذۃ ان کے حلقہ اساتذہ میں متعدد کبار تابعین کے نام شامل ہیں جن میں سے کچھ لائق ذکر یہ ہیں،ہشام بن عروہ،ابن شہاب الزہری،محمد بن دینار،زید بن اسلم،عبداللہ بن عمر، عتبہ بن مسلم،داؤد بن ابی ہند ابن جریج۔ اسی طرح خود ان کی بارگاہِ علم ودانش میں زانوئے تلمذ تہ کرنے والے علماء میں عبداللہ بن وہب،امام شافعی،عبدالملک بن الماجشون،مروان بن محمد، ابراہیم بن شماس ،احمیدی،ابو نعیم،علی بن الجعد،ہشام بن عمار اورسوید بن سعید کے نام ممتاز ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۲۸) جرح وتعدیل مذکور ہواکہ مسلم بن خالد کے تبحر وکمال کی تمام تر جولانگاہ فقہ تھی،حدیث میں انہیں کوئی لائق ذکر حیثیت حاصل نہ تھی،ابن معین اور بعض دوسرے علماء نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے (معارف ابن قتیبہ:۲۳۳)لیکن اکثر علمائے فن کے نزدیک ان کی عدالت وتثبت مشتبہ ہے،امام ابو داؤد اورنسائی نے ضعیف اوربخاری نے منکر الحدیث کہا ہے،ابو حاتم کا خیال ہے کہ وہ صرف فقہ کے امام تھے اورحدیث میں لائق حجت نہیں۔ (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۳۷۵) علامہ ابن سعد رقمطراز ہیں: کان کثیر الحدیث کثیر الغلط والخطاء فی حدیثہ (طبقات ابن سعد:۵/۲۶۶) وہ کثیر الحدیث ضرور تھے لیکن اسی کے ساتھ ان کی روایت غلط سلط بھی بہت ہوتی تھیں۔ ساجی آپ کے صدق کا اعتراف کرنے کے باوصف "کثیر الغلط" قرار دیتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۲۹) عبادت علم وفضل میں بلند مرتبہ ہونے کے ساتھ عبادت وریاضت کا پیکر مجسم تھے برابر روزہ رکھتے اورکثرت سے نمازیں پڑھتے تھے،احمد الازرقی کا یہ بیان تمام ارباب تراجم نے نقل کیا ہے: کان فقیھاً مفتیاً عابداً یصوم الدھر (طبقات ابن سعد:۵/۳۶۶وشذرات الذہب:۱/۲۹۴) (وہ فقیہ،مفتی،عبادت گزار تھے،ہمیشہ روزہ رہتے تھے) حلیہ ملاحت لیے ہوئے گورا نگ تھا،چہرہ پر سرخی جھلکتی تھی جس کی وجہ سے خوبروئی میں بہت اضافہ ہوگیا تھا۔ (معارف ابن قتیبہ:۲۲۳ واللباب فی تہذیب الانساب:۱/۵۰۹) وفات ۱۸۰ھ میں بمقام مکہ ہارون الرشید کے ایامِ خلافت میں رحلت فرمائی ۸۰ سال کی عمر پائی۔ (طبقات ابن سعد:۵/۳۶۶،وشذرات الذہب:۱/۲۹۴)