انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** طوافِ کعبہ،مسلمانوں کو رمل کا حکم حضور ﷺنے قصویٰ پر سوار ہو کر کعبہ کا طواف شروع کیا، اپنی چادر داہنی بغل سے نکا ل کر بائیں شانے پر ڈال لی جسے اصطلاع میں " اصطباغ" کہتے ہیں ، سواری ہی پر سے اپنی لکڑی سے حجر اسود کا استلام ( بوسہ ) فرمایا۔ مسلمانوں کو رمل کا حکم: ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور آپﷺ کے صحابہؓ عمرۂ قضاء کے لئے مکہ آئے تو قریش نے کہا کہ تم لوگوں کے پاس ایک ایسی قوم آرہی ہے جنھیں یثرب کے بخار نے کمزور کردیاہے، مشرکین حجر اسود کے قریب بیٹھ گئے ، حضور ﷺ نے صحابہؓ کو حکم دیاوہ تین پھیروں میں (یعنی طواف کے) رمل کریں( یعنی دونوں شانے اور بازو ہلاتے ہوئے آہستہ آہستہ دوڑیں) تاکہ مشرکین ان کی قوت دیکھ لیں اور یہ کہ دونوں رکنوں( رکن یمانی و رکن حجر اسود) کے درمیان چلیں، آپﷺ کو صرف مسلمانوں کی شفقت میں اس امر سے باز رکھا کہ آپﷺ انھیں تمام پھیروں میں رمل کا حکم دیں، جب انھوں نے رمل کیا تو قریش نے کہا کہ وہ کمزور نہیں ہوئے(ابن سعد) ، جب آپﷺ طواف سے فارغ ہوئے تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا: کاش کہ آپﷺ مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنالیتے، اسی وقت وحی نازل ہوئی: ( ترجمہ ) " ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لئے ثواب اورامن کی جگہ بنائی ، تم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ ، ہم نے ابراہیم ؑ اور اسمعٰیل ؑ سے وعدہ لیاکہ تم میرے گھر کاطواف کرنے والو ں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو" ( سورہ ٔ بقرہ : ۱۲۵) نزول وحی کے بعد حضور ﷺ نے اس مقام پر دو رکعت نماز ادا فرمائی ، پھر آپﷺ صفاو مروہ کے درمیان دوڑنے کے لئے تشریف لے گئے ، ارکان عمرہ سے فراغت کے بعد آپﷺ نے مروہ پر اونٹ ذبح فرمائے اور سرِ مبارک منڈوایا ، محمد حسین ہیکل نے " حیات محمد میں لکھا ہے کہ عمرہ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد آپﷺ دوسرے روز بیت اﷲ شریف میں تشریف لائے، کعبہ میں بدستور بت موجود تھے، بایں ہمہ حضرت بلالؓ نے کعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر اذان کہی اور رسول اﷲ ﷺ نے اپنے دو ہزار صحابہؓ سمیت ظہر کی نماز ادا کی، یہی کعبہ ہے جس میں انھیں سات برس تک عبادت کرنے سے روک دیا گیا تھا (حیات محمد - محمد حسین ہیکل) ابن سعد کی روایت ہے کہ آپﷺ بیت اﷲ میں داخل ہوئے اور ظہر تک اندر رہے ، حضرت بلال ؓ نے کعبہ کی پشت پر اذان کہی، دوسری روایت یہ بھی ہے کہ آپﷺ نے اجازت کے لئے ایک آدمی کو قریش کے پاس بھیجا، انھوں نے جواب دیا کہ بیت اﷲ میں داخلہ صلح کی شرائط میں نہیں ہے، آپﷺ نے مکہ میں کسی کے مکان میں قیام نہیں فرمایا ؛بلکہ آپﷺ کے لئے ریتیلی زمین پر چمڑے کا خیمہ نصب کیا گیا تھا، اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے ان میں سے کچھ آدمیوں کو حکم دیا کہ وہ بطن یا جج میں اپنے ساتھیوں کے پاس جائیں اور ہتھیاروں کی نگرانی کریں تاکہ دوسرے لوگ آکر اپنا فرض ادا کریں، ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، تین دن کے قیام کے بعد سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدا لعزیٰ نے آکر کہا کہ تین دن گذر جانے کے باوجود آپﷺ ابھی تک رخصت نہیں ہوئے ، اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے یہاں ایک خاتون سے نکاح کیا ہے…کیا ولیمہ تک نہ ٹھہروں ؟ تب کافروں نے درشتی سے آپﷺ کو نکل جانے کے لئے کہا، اس پر آپﷺ نے حضرت ابو رافعؓ کو کوچ کی مناوی کا حکم دیا، اور اعلان کروایا کہ کوئی مسلمان وہاں شام نہ کرے