انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** روایت حدیث پر اجرت لینا جومحدث حدیث روایت کررہا ہو وہ دراصل ادائے امانت کررہا ہے، علم دین کی جوامانت اس کے پاس تھی اُسے آگے پہنچارہا ہے، آنحضرتﷺ کا حکم کہ میری جوبات تمھیں ملے اسے آگے پہنچادو "بلّغوا عنّی ولوآیۃ" اور "فلیبلغ الشاھد الغائب" اس پر شاہد ناطق ہے، ادائے امانت پر اُجرت لینا یہ کاروبار سمجھ میں نہیں آتا، امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا "أیکتب عمن یبیع الحدیث" کیا اس شخص سے روایت لکھی جائے جوحدیث کوبیچتا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں "لا.... ولاکرامۃ’"۔ (الکفایۃ فی علوم الروایۃ:۵۴) روایت حدیث اور تعلیم حدیث میں فرق ہے، راوی کی حیثیت سے روایت کرنے پر اُجرت نہیں لی جاسکتی، ہاں معلم تعلیم حدیث پر اجرت لے سکتا ہے؛ جیسا کہ تعلیم قرآن پر بھی اجرت لی جاسکتی ہے۔ اب سوال یہ رہتا ہے کہ اس صورت حال میں حدیث لائقِ استدلال رہتی ہے یانہیں؟ سواس سلسلہ میں حنفیہ کا مذہب یہ ہے "خالفہم الکرخی من اصحاب ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہما فقال لایحتج بہ" ترجمہ:امام ابوحنیفہؒ کے اصحاب میں سے کرخیؒ نے اس قسم کی حدیث قبول کرنیوالوں کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ اس صورتحال میں متعلقہ حدیث سے استدلال نہ کیا جائے۔ (شرح مسلم:۱/۲۱۷) بلکہ علامہ عینیؒ نے خود حضرت امام ابوحنیفہؒ سے یہی نقل کیا ہے: "فذھب ابوحنیفۃ وابویوسف واحمد فی روایۃ الی انہ یسقط العمل بہ کالوجہ الاول وھومختار الکرخی والقاضی ابی زید وفخرالاسلام"۔ (عینی علی البخاری:۶/۱۲۷) ترجمہ: امام ابوحنیفہ اور امام یوسف، امام احمد اس طرف گئے ہیں کہ اس روایت پر عمل ساقط ٹھہرتا ہے جیسا کہ پہلی صورت میں تھا اور یہی امام کرخی اور فخرالاسلام اورقاضی ابوزید کا مختار ہے۔ امام مالک کھڑے کھڑے حدیث پڑھنے والے پر پچاس کوڑوں کا حکم لگاتے تھے (مدارج النبوۃ:) ضعیف حدیث بیان کرے تواس کا ضعف بیان کردینا چاہئے، عقائد میں اس سے استدلال جائز نہیں اور موضوع حدیث توبالکل بیان نہ کرے اسے موضوع جانتے ہوئے بیان کرنا حرام ہے۔