انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** انقلاب کی کوشش اور حضرت عثمان کی شہادت حضرت عثمان ؓ کے دوازدہ سالہ خلافت میں ابتدائی چھ سال کامل امن وامان سے گزرے،فتوحات کی وسعت،مال غنیمت کی فراوانی،وظائف کی زیادتی،زراعت کی ترقی اورحکومت کے عمدہ نظم ونسق نے تمام ملک میں تمول، فارغ البالی اورعیش وتنعم کو عام کردیا، یہاں تک کہ بعض متقشف صحابہ ؓ ایام نبوت کی سادگی اور بے تکلفی کو یاد کرکے اس زمانہ کی ثروت اورسامان تعیش کو دیکھ کر حددرجہ غمگین تھے کہ اب مسلمانوں کے اس دنیاوی رشک وحسد کا وقت آگیا جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی؛چنانچہ حضرت ابوذر غفاری ؓ جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح الاسلام کاخطاب دیاتھا، اعلانیہ اس کے خلاف وعظ کہتے تھے اورفرماتے تھے کہ ضرورت سے زیادہ جمع کرنا ایک مسلمان کے لئے ناجائز ہے،شام کا ملک جس کے حاکم امیر معاویہ ؓ تھے اور جو صدیوں تک رومی تعیش وتکلفات کا گہوارہ رہ چکا تھا وہاں کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ برائیاں پیداہورہی تھیں، حضرت ابوذر ؓ برملاان امراء اوردولت مندوں کے خلاف وعظ کہتے تھے جس سے نظام حکومت میں خلل پڑتا تھا،اس لئے امیر معاویہ ؓ کی استدعا پرحضرت عثمان ؓ نے ان کو مدینہ بلوالیا،مگر اب مدینہ بھی وہ اگلا مدینہ نہ رہا تھا، بیرونی لوگوں کے بڑے بڑے محل تیار ہوچکے تھے، اس لئے حضرت ابوذر ؓ نے یہاں سے بھی دل برداشتہ ہوکر ربذہ نام کے ایک گاؤں میں اقامت اختیار کیا۔ حضرت عثمان ؓ کے آخری زمانہ میں جو فتنہ وفساد برپا ہوا اس کی حقیقت یہی ہے کہ دولتمندی اورتمول کی کثرت نے مسلمانوں میں بھی اس کے وہ لوازم پیدا کردئے جو ہر قوم میں ایسی حالت میں پیدا ہوجاتے ہیں اور بالآخر ان کے ضعف اورانحطاط کاسبب بن جاتے ہیں، اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں سے فرمایا کرتے تھے کہ "لااخاف علیکم الفقربل اخاف علیکم الدنیا"،مجھے تمہارے فقروفاقہ سے کوئی خوف نہیں ہے؛بلکہ تمہاری دولت دنیاوی ہی کے خطرات سے ڈرتا ہوں ،تمول اوردولت کی کثرت کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کل قوم کے فوائد کے مقابلہ میں ہرجماعت اورہر فرد اپنے جماعتی اورشخصی فوائد کو ترجیح دینے لگتا ہے ،جس سے بغض وعناد پیدا ہوجاتا ہے،قومی وحدت کا شیرازہ بکھرجاتا ہے اورانحطاط کا دور شروع ہوجاتا ہے؛لیکن اس کےعلاوہ اس فتنہ وفساد کی پیدائش کے بعض اور اسباب بھی تھے۔ (۱)سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کی وہ نسل جو فیض نبوت سے براہ راست مستفیض ہوئی تھی ختم ہوچکی تھی جو لوگ موجود تھے وہ اپنی کبرسنی کے سبب سے گوشہ نشین ہورہے تھے اور ان کی اولاد ان کی جگہ لے رہی تھی، یہ نوجوان زہد واتقاء عدل وانصاف حق پسندی وراستبازی میں اپنے بزرگوں سے کمتر تھے، اس بناء پر رعایا کے لئے ویسے فرشتہ رحمت ثابت نہ ہوئے جیسے ان کے اسلاف تھے۔ (۲)حضرت ابوبکر ؓ کے مشورہ اورمسلمانوں کی پسندیدگی سے امامت وخلافت کے لئے قریش کا خاندان مخصوص ہوگیا تھا اوربڑے بڑے عہدے بھی زیادہ تر ان ہی کو ملتے تھے، نوجوان قریشی اس کو اپنا حق سمجھ کر دوسرے عرب قبیلوں کو اپنا محکموم سمجھنے لگے،عام عرب قبائل کا دعویٰ تھا کہ ملک کی فتوحات میں ہماری تلواروں کی بھی کمائی ہے، اس لئے وظائف ،منصب اورعہدوں میں قریش اورہم میں مساوات چاہئے۔ (۳)اس وقت کابل سے لے کر مراکش تک اسلام کے زیرنگیں تھا جس میں سینکڑوں قومیں آباد تھیں،ان محکوم قوموں کے دلوں میں قدرتاً مسلمانوں کے خلاف انتقام کا جذبہ موجودتھا؛لیکن ان کی قوت کے مقابلہ میں بے بس تھے،اس لئے انہوں نے سازشوں کا جال بچھایا جن میں سب سے آگے مجوسی اوریہودی تھے۔ (۴)حضرت عثمان ؓ فطرتاً نیک ،ذی مروت اورنرم خو تھے،عموما ًلوگوں سے سختی کا برتاؤ نہیں کرتے تھے،اکثر جرائم کو برد باری اورحلم سے ٹال دیا کرتے تھے، اس سے شریروں کے حوصلے بڑھ گئے۔ (۵)حضرت عثمان ؓ اموی تھے، اس لئے فطرتا ًان کے جذبات اپنے اہل خاندان کے ساتھ خیر خواہانہ تھے اور آپ ان کو فائدہ پہنچانا چاہتے تھے اوراپنے ذاتی مال سے ان کی امداد فرمایا کرتے تھے،شریرلوگوں نے اس کو یوں ملک میں پھیلایا کہ حضرت عثمان سرکاری بیت المال سے ان کے ساتھ دادودہش کرتے ہیں۔ (۶)ہرامام کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے کارکن اورعمال اس کے مطیع اور فرمانبردار ہوں، اسلام کی دوسری نسل میں جواب پہلی نسل کی جگہ لے رہی تھی،امام وقت کی اطاعت کا وہ مذہبی جذبہ نہ تھا جو اول الذکر میں موجود تھا،ایسی حالت میں حضرت عثمان ؓ نظام خلافت کے قیام واستحکام کے لئے بنی امیہ میں سے زیادہ افراد لینےپر مجبور ہوئے۔ (۷)مختلف محکوم قوموں کے شورش پسند اشخاص اس لئے انقلاب کے خواہاں تھے کہ شاید اس سے ان کی حالت میں کوئی فرق پیدا ہو۔ (۸)غیرقوموں کے جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے یا مسلمانوں نے غیر قوموں کی عورتوں سے جو شادیاں کرلی تھیں یا وہ باندیاں بنی تھیں ان کی اولاد یں بہت کچھ فتنہ کا باعث بنیں۔ ان مختلف الخیال جماعتوں کے اغراض ومقاصد پر نظر ڈالنے سے یہ بالکل نمایاں ہو جاتا ہے کہ اس فتنہ وانقلاب کے حقیقی اسباب یہی تھے جو اوپر مذکور ہوئے،مثلاً (۱)بنوہاشم بنوامیہ کے عروج وترقی کو پسند نہیں کرتے تھے اور خلافت کے مناسب اورعہدوں کا سب سے زیادہ اپنے کو مستحق جانتے تھے۔ (۲)عام عرب قبائل مناصب اورعہدوں اورجاگیروں کے استحقاق میں اپنے کو قریشیوں سے کم نہیں سمجھتے تھے، اس لئے وہ قریشی افسروں کے غرور تمکنت کو توڑنا اوراپنا جائز استحقاق اورمساوات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ (۳)مجوسی چاہتے تھے کہ ایسا انقلاب پیدا کیا جائے جس میں ان کی مدد سے حکومت ایسے عام خاندان میں منتقل ہو جس سے وہ بہتر سے بہتر حقوق اورمراعات حاصل کرسکیں اور عام عربوں کے مقابلہ میں ان کا استحقاق کم نہ سمجھا جائے۔ (۴)یہودی چاہتے تھے کہ مسلمانوں میں ایسا افتراق پیدا کردیا جائے کہ ان کی قوت پاش پاش ہوجائے۔ یہ اغراض مختلف تھیں اور ہرجماعت اپنی غرض کے لئے کوشش میں مصروف تھی،اس لئے خفیہ ریشہ دوانیاں شروع ہوگئیں ،عمال کے خلاف سازشیں ہونے لگیں اورخود امیر المومنین کو بدنام کرنے کی کوشش شروع ہوئی،حضرت عثمان ؓ نے ان فتنوں کو دبانا چاہا ؛لیکن یہ آگ ایسی لگی تھی کہ جس کا بجھانا آسان نہ تھا، فتنہ پردازوں کا دائرہ عمل روز بروز وسیع ہوتا گیا،یہاں تک کہ تمام ملک میں ایک خفیہ جماعت پیدا ہوگئی تھی جس کا مقصد فتنہ وفساد تھا،کوفہ کی انقلاب پسند جماعتوں میں اشترنخعی ،ابن ذی الحبکہ،جندب، صعصہ،ابن الکوار،کمیل اورعمیر بن ضابی خاص طورپر قابل ذکر ہیں،(ابن اثیر ج ۳ : ۱۰۸)ان لوگوں کا خیال تھا کہ امارت وریاست قریش کے ساتھ مخصوص ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے، عام مسلمانوں نے ممالک فتح کئے ہیں،اس لئے وہ سب اس کے مستحق ہیں، سعید بن عاص والی کوفہ سے اس جماعت کوخاص طورپر عداوت تھی، ان کو بدنام کرنے کے لئے روز ایک نئی تدبیر اختراع کی جاتی تھی اورقریش کے خلاف ملک کو تیار کرنے کے لئے طرح طرح کے وسائل کام میں لائے جاتے تھے، اشراف کوفہ نے ان مفسدہ پردازویوں سے تنگ آکر امیرالمومنین سے التجا کی کہ خدا کیلئے جلد ان فتنہ جُو اشخاص سے کوفہ کو نجات دلائے ،حضرت عثمان ؓ نے تقریباً دس آدمیوں کو جوا اس جماعت کے سرگروہ تھے،شام کی طرف جلاوطن کردیا۔ (ایضاً،:۱۱۳) اسی طرح بصرہ میں بھی ایک فتنہ پرداز جماعت پیدا ہوگئی تھی،حضرت عثمان ؓ نے یہاں سے بھی کچھ آدمیوں کو ملک بدرکرادیا؛لیکن فتنہ کی آگ اس حد تک بھڑک چکی تھی کہ یہ معمولی چھینٹے اس کو بجھانہ سکے ؛بلکہ یہ انتقال مکانی اور بھی ان خیالات کی اشاعت کا سبب بن گئے اور پہلے جو آگ ایک جگہ سلگ رہی تھی وہ سارے ملک میں پھیل گئی۔ مصر سازش کا سب سے بڑا مرکز تھا، مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہودی تھے؛چنانچہ ایک یہودی النسل نو مسلم عبداللہ بن سبانے اپنی حیرت انگیز سازشانہ قوت سے مختلف الخیال مفسدوں کو ایک مرکز پر متحد کردیا اور اس کو زیادہ مؤثر بنانے کے لئے اس نے مذہب میں عجیب وغریب عقائد اختراع کئے اورخفیہ طورپر ہر ملک میں اس کی اشاعت کی موجودہ شیعی فرقہ دراصل انہی عقائد پر قائم ہوا،مفسدین کی جماعت تمام ملک میں پھیلی ہوئی تھی اور ان میں سے ہر ایک کامطمع نظر مختلف تھا اورآئندہ خلیفہ کے انتخاب کے بارے میں بھی ہر ایک کی نظر الگ الگ شخصیتوں پر تھی،اہل مصر حضرت علی ؓ کے عقیدت کیش تھے، اہل بصرہ حضرت طلحہ ؓ کے طرف دار تھے، اہل کوفہ حضرت زبیر ؓ کو پسند کرتے تھے، اہل عراق کی جماعت تمام قریش سے عداوت رکھتی تھی اورایک جماعت سرے سے عربوں ہی کے خلاف تھی ؛لیکن امیر المومنین حضرت عثمان ؓ کی معزولی اوربنوامیہ کی بیخ کنی پر سب باہم متفق تھے،عبداللہ بن سبا کی حکمت عملی سے ان اختلافات سے قطع نظر کرکے سب کو ایک مقصد یعنی حضرت عثمان ؓ کی مخالفت پر متحد کردیا اور تمام ملک میں اپنے داعی اور سفیر پھیلادیئے تاکہ ہرجگہ فتنہ کی آگ بھڑکا کر بدامنی پیدا کردی جائے اور اس مقصد کے حصول کے لئے داعیوں کو حسب ذیل طریقوں پر عمل کی ہدایت کی: (۱)بظاہر متقی وپرہیز گار بننا اورلوگوں کو وعظ وپند سے اپنا معتقد بنانا۔ (۲)عمال کو دق کرنا اورہر ممکن طریقہ سے ان کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا۔ (۳)ہرجگہ امیرالمومنین کی کنبہ پروری اور ناانصافی کی داستان مشتہر کرنا۔ ان طریقوں پر نہایت مستعدی کے ساتھ عمل کیا گیا،ولید بن عقبہ والی کوفہ پر شراب خوری کا الزام قائم کیا گیا اورحد بھی جاری کی گئی جو درحقیقت ایک بڑی سازش کا نتیجہ تھا، اسی طرح حضرت ابوموسی اشعری ؓ والی بصرہ کی معزولی بھی جس کا ذکر آئندہ آئے گا ان ہی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھی۔ ۳۱ ھ میں جبکہ قیصر روم نے پانچ سوجنگی جہازوں کے عظیم الشان بیڑے کے ساتھ اسلامی سواحل پر حملہ کیا اورمسلمان بڑے خوف وہراس میں مبتلا ہوگئے اس وقت بھی یہ انقلاب پسند اپنی فتنہ انگیزی سے باز نہیں آئے اور محمد بن ابی حذیفہ ؓ اور محمد بن ابی بکر ؓ جو مفسدین کے دام تزویر میں پھنس چکے تھے، اسلامی بیڑے کے امیر البحر عبداللہ بن ابی سرح ؓ کو ہرطرح دق کیا،نماز میں بے موقع تکبیریں بلند کرکے برہمی پیداکرتے،عبداللہ بن سعد کی اعلانیہ مذمت کرتے اورمجاہدین سے کہتے کہ تم رومیوں کے مقابلہ میں جہاد کرنے جاتے ہو،حالانکہ اسلام کو خود مدینہ میں مجاہدین کی ضرورت ہے،لوگ تعجب سے کہتے کہ مدینہ میں کیا ضرورت ہے؟تو وہ حضرت عثمان ؓ کا نام لیتے اور کہتے کہ اس ظالم کو معزول کرنا اسلام کی سب سے بڑی خدمت ہے،اس نے سنت شیخین کو چھوڑدیا،کبارصحابہ کو معزول کرکے اپنے اعزہ واقارب کو سیاہ وسپید کا مالک بنادیاہے۔ غرض ہرطرح کی فریب کاریوں سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی، اسلامی بیڑا رومیوں کے مقابلہ کے لئے روانہ ہوا تو محمد بن ابی حذیقہ ؓ، محمد بن ابی بکؓر نے ایک کشتی پر سوار ہو کر بیڑے کا تعاقب کیا اورجہا ں جہاز لنگر انداز ہوتے وہ اپنی کشتی کو قریب لے کر کے اپنے خیالات کی اشاعت کرتے،مجاہدین رومی بیڑے کو شکست دے کر مظفر ومنصور واپس آئے تو چند نے محمد بن ابی بکر ؓ اور محمد بن ابی حذیفہ کو جہادسے پہلو تہی کرنے پر ملامت کی، انہوں نےکہا کہ ہم اس جہاد میں کس طرح حصہ لے سکتے ہیں جس میں انتظام عثمان کے ایماء سے ہوا ہو؟اور جس کا امیر عبداللہ بن سعد ہو،اس کے بعد حسب معمول حضرت عثمان ؓ کے معائب اوربرائیوں کی طویل داستان شروع کردی (ابن اثیر)عبداللہ بن سعد نے جب دیکھا کہ دونوں کسی طرح اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے اور ان کے مسموم خیالات آہستہ آہستہ اپنا اثر کررہے ہیں تو نہایت سختی سے ان کو منع کیا اور کہاکہ خدا کی قسم اگرا میر المومنین کا خیال نہ ہوتاتوتمہیں اس مفسدہ پردازی کا مزہ چکھادیتا ۔ مدینہ بھی مفسدین سے خالی نہ تھا،کبارصحابہ حضرت عثمان کے ساتھ تھے اس لئے علانیہ اس جماعت کا کوئی اثر نہ ہوا،البتہ اخیر عہد یعنی ۳۵ھ میں جس سال حضرت عثمان ؓ شہید ہوئے مفسدین مدینہ اس قدر بے باک ہوگئے کہ بیرونی مفسدوں کی مددسے ان کو خودامیر المومنین پر بھی دست ستم دراز کرنے کی جرأت ہوگئی؛چنانچہ ایک دفعہ جمعہ کے روز حضرت عثمان ؓ منبر پر خطبہ دے رہے تھے،ابھی حمدوثنا ہی شروع کی تھی کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا‘‘عثمان! کتاب اللہ کو اپنا طرز عمل بنا’’لیکن صبر وتحمل کے اس پیکرنے نرمی سے کہابیٹھ جاؤ دوسری مرتبہ کھڑے ہو کر پھر اس نے اسی جملہ کا اعادہ کیا،حضرت عثمان ؓ نے ہر بار نرمی سے بیٹھنے کو فرمایا ؛لیکن اس کی سازش پہلے سے ہوچکی تھی،ہر طرف سے مفسدین نے نرغہ کرلیا اور اس قدر سنگریزے اور پتھروں کی بارش کی کہ نائب رسول زخموں سے چور چورہوکر منبر سے فرش خاک پر گرپڑا، مگر صبر وتحمل کا یہ عالم تھا کہ اس بے ادبی پر بھی جذبہ غیض وغضب کو ہیجان نہ ہوا۔ (ابن اثیر ج ۳ : ۱۲۷) غرض مختلف عناصر نے مل کر افترا پردازیوں اورکذب بیانیوں سے اس طرح حضرت عثمان ؓ کو بدنام کرنے کی کوشش کی اورآپ کی مخالفت کا صورا اس بلند آہنگی سے پھونکا کہ اتنی طویل مدت کے بعد اس زمانہ میں بھی بہت سے تعلیم یافتہ حضرات جو واقعات کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے،ان غلط بیانیوں اورفریب کاریوں سے متاثر نظر آتے ہیں، اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پرتمام اعتراضات کو قلمبند کرکے اصل واقعات کوبے نقاب کردیا جائے۔ اس وقت تک حضرت عثمان ؓ پر جس قدر اعتراضات کئے گئے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے: (۱)کبارصحابہ مثلاً حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ، مغیرہ بن شعبہ ؓ، عمروبن عاص ؓ، عماربن یاسر ؓ عبداللہ بن مسعود ؓ اورعبدالرحمن بن ارقم کو معزول کرکے خاص اپنے کنبہ کے نااہل اورناتجربہ کار افراد کو مامور کیا۔ (۲)بیت المال میں بے جاتصرف کیا اورمسرفانہ طریقہ پر اپنے اعزہ واقارب کے ساتھ سخاوت کا اظہار کیا،مثلاً حکم بن العاص ؓ کو جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں جلاوطن کردیا تھا مدینہ آنے کی اجازت دی اوربیت المال سے ایک لاکھ درہم عطا کئےاور اس کے لڑکے حارث کو اجازت دی کہ بازار میں جو فروخت ہو اس کی قیمت سے اپنے لئے عشر وصول کرے،مروان کو افریقہ کے مال غنیمت کا خمس دیا گیا، اسی طرح عبداللہ ابن خالد ؓ کو تین لاکھ درہم کا گرانقدر عطیہ مرحمت کیا اورخود اپنی صاحبزادیوں کو بیت المال کے قیمتی جواہرات عنایت فرمائے،حالانکہ فاروق اعظم ؓ نہایت شدت کے ساتھ اس قسم کے تصرفات سے احتراز کیا تھا، اس کے علاوہ اپنے لئے ایک عظیم الشان محل تعمیر کرایا اورمصارف کا تمام بار بیت المال پر ڈالا بیت المال کے مہتمم عبداللہ بن ارقم ؓ اورمعیقیب نے اس اسراف پر اعتراض کیا تو ان کو معزول کرکے زید بن ثابت ؓ کو یہ عہدہ تفویض کردیا،ایک دفعہ بیت المال میں وظائف تقسیم ہونے کے بعد ایک لاکھ درہم پس انداز ہوئے،حضرت عثمان ؓ نے بے وجہ زید بن ثابت کو یہ گراں قدر رقم لینے کی اجازت دے دی۔ (۳)عبداللہ بن مسعود ؓ اور ابی ؓ کے روزینے بند کردئے۔ (۴)مدینہ کے اطراف میں بقیع کو سرکاری چراگاہ قراردیا اور عوام کو اس سے مستفید ہونے سے روک دیا۔ (۵)مدینہ کے بازار میں بعض اشیاء کی خرید وفروخت اپنے لئے مخصوص کرلی اورحکم دیا کہ کھجور کی گٹھلیاں امیرالمومنین کے ایجنٹ کے سوا کوئی دوسرا نہیں خرید سکتا۔ (۶)اپنے حاشیہ نشینوں اورقرابت داروں کو اطراف ملک میں نہایت وسیع قطعات زمین مرحمت فرمائے حالانکہ اس سے پہلے کسی نے ایسا نہیں کیا تھا۔ (۷)بعض کبار صحابہ کی تذلیل کی گئی اور ان کو جلاوطن کیا گیا،مثلاً ابوذر غفاری ؓ،عمار بن یاسر ؓ، جندب بن جنادہ ؓ، عبداللہ بن مسعود ؓ، اورعبادہ بن ثابت ؓ کے ساتھ نہایت نامنصفانہ سلوک ہوا۔ (۸)زیدبن ثابت ؓ کے تیار کردہ مصحف کے سوا تمام مصاحف کو جلادیا۔ (۹)حدود کے اجراء میں تغافل سے کام لیا۔ (۱۰)فرائض وغیرہ میں تمام امت کے خلاف روایات شاذہ پر عمل کیا گیا،حالانکہ شیخین جب تک روایات کی اچھی طرح توثیق نہیں کرلیتے تھے ان کو قبول نہیں کرتے تھے۔ (۱۱)مذہب میں بعض نئی بدعتیں پیدا کیں جن کو اکثر صحابہ نے ناپسند کیا،مثلاً حج کے موقع پر منی میں دورکعت نماز کے بجائے چاررکعت نماز اداکی،حالانکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شیخین نے کبھی دورکعت سے زیادہ نہیں پڑھی۔ (۱۲)مصری وفد کے ساتھ بد عہدی کی گئی جس کا نتیجہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ مذکورہ بالا واقعات میں حضرت عثمان ؓ کے فردقرارداد جرم کو رنگ آمیزی کرکے نہایت بدنما اور مکروہ بنایاگیا ہے ؛لیکن اس میں سے ایک الزام بھی تحقیق کی کسوٹی پر صحیح نہیں اترتا،ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اس میں صداقت کا کتنا شائبہ ہے اوراس کو رنگ آمیزی سے کتنا بدنما بنادیا گیا ہے،سب سے پہلا الزام جو بجائے خود متعدد الزامات کا مجموعہ ہے، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: (۱)کبارصحابہ ؓ کو ذمہ داری کے عہدوں سے معزول کردیا۔ (۲)نااہل اورناتجربہ کارافراد کو رعایا کی قسمت کا مالک بنادیا۔ (۳)اپنے خاندان کو فوقیت دی۔ امراول کی نسبت تحقیقی فیصلہ سے قطع نظر کرکے پہلے دیکھنا چاہئے کہ اگر یہ الزام ہے تو اسلام کے سب سے عادل اور مدبر خلیفہ فاروق اعظم ؓ پر جن کا عدل وانصاف اورتدبر دنیائے اسلام کے لئے قیامت تک مایہ نازرہے گا، یہی الزام عائد ہوتا ہے یا نہیں؟ جنہوں نے حضرت خالد سیف اللہ ؓ، مغیرہ بن شعبہ ؓ ،اورسعدوقاص فاتح ایران کو معزول کردیا تھا ،یا حضرت علی ؓ اس اعتراض کے مورد ہوتے ہیں یا نہیں؟ جنہوں نے عنان حکومت ہاتھ میں لینے کے ساتھ ہی تمام عمال عثمانی کو یک قلم موقوف کردیا جن کی قوت بازونے طرابلس، آرمینیہ اورقبرس کو زیرنگیں کیا تھا، حقیقت یہ ہے کہ ایک ہی قسم کے واقعات کسی خاص وقتی سبب کی بنا پر ایک شخص کے لئے موجب مدح اوردوسرے کے لئے موجب ذم بنادئے جاتےہیں اور اس پر ایسی ملمع سازی کی جاتی ہے کہ کسی کو تحقیق وتنقید کا خیال تک نہیں آتا۔ حضرت عثمان ؓ نےکبار صحابہ میں سے جن لوگوں کو معزول کیا تھا ان میں سے عمر وبن العاص ؓ سعد بن ابی وقاص اورابو موسیٰ اشعری ؓ کی معزولی کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے،اس سے معلوم ہوگا کہ عمروبن العاص ؓ والی مصر نے اسکندریہ کی بغاوت فروکرنے میں ذمیوں کے ساتھ نامنصفانہ سلوک کیا تھا اور ان کو لونڈی غلام بنا لیا تھا،نیز نئی نہروں کے جاری ہونے کے باوجود وہ مصر کے مالیات میں کچھ اضافہ نہ کرسکے اورآخر عبداللہ بن ابی سرح کی تقرری کے بعد اس سے کہیں زیادہ ہوگیا۔ اسی طرح سعد بن ابی وقاص ؓ والی کوفہ نے بیت المال سے ایک بیش قرار رقم قرض لی اورپھر اسکے ادا کرنے میں تساہل کرتےرہے، یہاں تک کہ عبداللہ بن مسعود ؓ مہتمم بیت المال سے سخت کلامی کی نوبت پہنچی،(طبرانی ص ۲۸۱۱)ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ والی ٔ بصرہ رعایا کو خوش نہ رکھتے تھے اور تمام اہل بصرہ انکے مخالف ہوگئے تھے؛ چنانچہ ان کے وفد نے درالخلافہ جاکر ان کی معزولی کا مطالبہ کیا،کیا یہ تمام وجوہ ان حضرات کو معزول کردینے کے لئے کافی نہ تھے؟ مغیرہ بن شعبہ پر رشوت ستانی کا الزام قائم کیا گیا،اگرچہ یہ سراسر بہتان تھا ؛لیکن حضرت عثمان ؓ نے ان کو اس لئے معزول کردیاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی جگہ سعدبن ابی وقاص ؓ کی تقرری کی وصیت کی تھی،( ایضاً : ۲۸۰۲)عمار بن یاسر ؓ کو حضرت عثمان ؓ نے معزول نہیں کیا تھا ؛بلکہ وہ عہد فاروقی ہی میں معزول ہوچکے تھے، البتہ عبداللہ بن مسعود ؓ کی معزولی بے وجہ تھی؛لیکن لوگوں نے حضرت عثمان ؓ کو ان کی طرف سے اس قدر بدگمان کردیا تھا کہ ان کو معزول کردینا ناگزیر ہوگیا، رہا بیت المال کے مہتمم عبداللہ بن ارقم ؓ اورمعیقیب کی سبکدوشی تو اس کے متعلق خود حضرت عثمان ؓ کا بیان موجود ہے جو انہو ں نے ان دونوں بزرگوں کی معزولی کے سلسلہ میں ایک جلسۂ عام میں دیا تھا۔ الا ان عبداللہ بن ارقم لم یزل علی حرائتکم زمن ابی بکر وعمر الی الیوم وانہ کبروضعف وقد ولینا علمہ زیدبن ثابت "صاحبو!عبداللہ بن ارقم ابوبکر ؓ اور عمر ؓ کے زمانہ سے اس وقت تک آپ کی تقسیم وظائف کی خدمت انجام دیتے رہے ؛لیکن اب بوڑھے اورضعیف ہوگئے ہیں اس لئے اس خدمت کو زید بن ثابت کے سپرد کردیا ہے۔" ظاہر ہے کہ مال کی نگرانی کا کام جس قدر اہم اورمشکل ہے اس لحاظ سے اگرحضرت عثمان ؓ نے ان دونون کو جو ضعف اورپیری کے باعث اپنی خدمات کو باحسن وجوہ انجام نہیں دے سکتے تھے سبکدوش کردیا اور اس عہدہ پر زید بن ثابت ؓ کو جوپڑھنے لکھنے اورحساب وکتاب میں خاص طورسے ممتاز تھے،مامور کیا تو کون سی خطاکی؟ امر دوم کی نسبت غورکرنا چاہئے کہ نااہل اورناتجربہ کار افراد کی تقرری کا الزام کہاں تک درست ہے؟ اس میں شک نہیں کہ ولید بن عقبہ ؓ، سعید بن العاص ؓ، عبداللہ بن ابی سرح ؓ اور عبداللہ بن عامر اگرچہ صحابہ کرام اورفاروقی عمال کی طرح زہد واتقاء کے مالک نہ تھے، تاہم ان کے انتظامی کارنامے عظیم الشان فتوحات کسی طرح ان کو نااہل اورناتجربہ کار نہیں ثابت کرتے،ولید بن عقبہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جزیرہ کے عامل رہ چکے تھے،(طبری ص ۲۸۱۳) سعید بن العاص نے طبرستان اورآرمینیہ فتح کیا،( ابن اثیر ج ۳ : ۸۴) عبداللہ بن ابی سرح نے طرابلس اورقبرس کو زیر نگیں کیا، (ایضاً ،فتوح البلدان : ۲۳۵)کیا ان کی یہ فتوحات ان کی ناتجربہ کاری کا ثبوت ہیں۔ عبداللہ بن عامر والی بصرہ البتہ ایک کمسن نوجوان تھے ؛لیکن فطری لیاقت کوعمر کی کمی زیادتی سے کوئی تعلق نہیں،فتوحات کے سلسلہ میں اوپر گزرچکا ہے کہ اسی نوجوان نے کابل،ہرات،سبحستان اورنیشاپور کو اسلام کے زیرنگیں کیا تھا،غرض نااہل اورناتجربہ کار عمال کے تقرر کا الزام سراسرخلاف واقعہ ہے۔ البتہ امر سوم یعنی اپنے خاندان کے لوگوں کو ذمہ داری کے عہدوں پر مامور کرنے کا الزام ایک حد تک قابل غورہے، اس میں شک نہیں کہ شیخین ؓ اس بارے میں نہایت محتاط تھے اورہر ایک شک وشبہ کے موقع سے بچتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ وہ خلافت کے معاملات میں اپنے اعزہ واقارب کے لئے ہمیشہ کوتاہ دست رہے؛لیکن حضرت عثمان ؓ ایک سادہ طبع اورنیک نفس بزرگ تھے،مزاج میں اتنی پیش بینی نہ تھی،نیز اپنے اختیارات سے اپنے قرابت مندوں کو فائدہ پہنچانا صلۂ رحم جانتے تھے، ایک دفعہ جب لوگوں نے اس طرزِ عمل کی اعلانیہ شکایتیں کیں تو حضرت عثمان ؓ نے صحابہ ؓ کو جمع کیا اورخدا کا واسطہ دے کرپوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کو تمام عرب پر ترجیح نہیں دیتے تھے اور کیا قریش میں بنو ہاشم کا سب سے زیادہ خیال نہیں رکھتے تھے؟ لوگ خاموش رہے تو ارشاد فرمایا کہ اگر میرے ہاتھ میں جنت کی کنجی ہوتی تو تمام بنی امیہ کو اس میں بھردیتا،(ابن سعد ج ۳ قسم اول تذکرۃ عثمان بن عفان ج اول : ۶۲)بہر کیف یہ امام وقت کی ایک اجتہادی رائے تھی،ممکن ہے کہ عام لوگ اس سے متفق نہ ہوں ؛لیکن اس سے حضرت عثمان ؓ کے فضل وکمال کا دامن داغدار نہیں ہوسکتا۔ دوسرا الزام بیت المال میں مسرفانہ تصرف کا ہے ؛لیکن ثبوت میں جن واقعات کو پیش کیا گیا ہے وہ یا تو سرتا پا غلط ہیں یا رنگ آمیزی کرکے ان کی صورت بدل دی گئی ہے، ہم تفصیل کے ساتھ ہر ایک واقعہ کو اس کی اصلی صورت میں دکھاتے ہیں جس سے اندازہ ہوگا کہ مفسدین نے کس طرح واقعات کی صورت کو مسخ کرکے حضرت عثمان ؓ کو بدنام کرنےکی کوشش کی تھی، اس سلسلہ میں سب سے اول ہم کو یہ دیکھنا چاہئے کہ ذاتی طورپر حضرت عثمان ؓ کی مالی حالت کیسی تھی؟ تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ وہ اپنی ذاتی دولت سے اس قسم کی فیاضی اورجودوکرم پر قادر تھے یا نہیں؟ یہ مسلمہ تاریخی واقعہ ہے جس سےکسی کو انکار نہیں کہ حضرت عثمان صحابہ کرام میں سب سے زیادہ دولت مند اور متمول تھے، ان کی دولت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ہزارہا روپے بیررومہ کی خریداری پر صرف کئے،ایک بیش قراررقم سے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی توسیع کی اورلاکھوں روپے سے ‘‘جیش عسرت’’ کو آراستہ کیا،اب سوال یہ ہے کہ راہ خدا میں جس کے جو دوسخا کا یہ حال ہو وہ اپنی دولت سے ذوالقربی کے ساتھ کچھ صلہ رحم نہیں کرسکتا تھا؟ اس کے متعلق ایک موقع پر خودحضرت عثمان ؓ نے یہ تقریر فرمائی تھی جس سے اس الزام کی حقیقت پورے طور پر واضح ہوجاتی ہے: قالو انی احب اھل بیتی واعطیھم فاما جی فانہ لم یمل معھم علی جوربل احمل الحقوق علیھم واھااعطاؤ ھم فانی مااعطیھم من مالی ولا استحل اھوال المسلمین لنفسی ولالاحدمن الناس ولاکنت اعطی العطیۃ الکبیرۃ الرغیبۃ من صلب مالی فی ازمان رسول اللہ وابی بکر وعمرؓ وانا یومشذ شحیح حریض افحین اتیت علی اسنان اھل بیتی وفنی عمری و ودعت الذی لی فی اھلی قال الملحدون ماقالواوانی واللہ ماحملت علی مصرمن الامصار فضلا فیجوز ذالک لمن قالہ ولقد رددتہ علیھم وماقدم علی الاالاخماس ولا یحل لی منھا شئی فولی المسلمون وصنعھا فی اھلھا دونی ولایتلفت من مال اللہ بقلس مما فوقہ وما ابتلغ منہ مااکل الامن مالی۔ (طبری ص ۱۹۵۳) ‘‘لوگ کہتے ہیں کہ مدینہ میں اپنے خاندان والوں سے محبت رکھتا ہوں اور ان کے ساتھ فیاضی کرتا ہوں ؛لیکن میری محبت نے مجھے ظلم کی طرف مائل نہیں کیا ہے؛ بلکہ میں صرف ان کے واجبی حقوق اداکرتا ہوں اسی طرح فیاضی بھی اپنے ہی مال تک محدود ہے،مسلمانوں کا مال نہ میں اپنے لئے حلال سمجھتا ہوں اورنہ کسی دوسرے کے لئے ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکر وعمر ؓ کے عہد میں بھی اپنے مال سے گراں قدر عطیے دیا کرتا تھا، حالانکہ میں اس زمانہ میں بخیل وحریص تھا اور اب جبکہ میں اپنی خاندانی عمر کو پہنچ چکا ہوں،زندگی ختم ہوچکی ہے اور اپنا تمام سرمایہ اپنے اہل وعیال کے سپرد کردیا ہے تو ملحد ین ایسی باتیں مشہور کرتے ہیں،خدا کی قسم ! میں نے کسی شہر پرخراج کا کوئی بار ایسا نہیں ڈالا ہے کہ اس قسم کا الزام دینا جائز ہو اور جو کچھ وصول ہوا،میرے پاس صرف خمس آتا ہے اور اس میں سے بھی میرے لئے کچھ لینا جائز نہیں ،مسلمانوں نے اس کو میرے مشورہ کے بغیر مستحقین میں صرف کیا، خدا کے مال میں ایک پیسہ کا تصرف نہیں کیا جاتا میں اس سے کچھ نہیں لیتا ہوں،یہاں تک کہ کھاتا بھی ہوں تو اپنے ہی مال سے۔’’ مذکورہ بالاتصریحات کے بعد اب ہم کو ان واقعات کی طرف رجوع کرنا چاہئے جن کی بنا پر ذوالنورین ؓ کی تابش ضیا کو غبار آلودکہاجاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حکم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کو جلاوطن کردیا تھا ؛لیکن اخیر عہدمیں حضرت عثمان ؓ کی سفارش سے مدینہ آنے کی اجازت دیدی تھی چونکہ شیخین کو ذاتی طورپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منظوری کا علم نہیں تھا اس لئے انہوں نے مدینہ آنے کی اجازت نہیں دی، جب حضرت عثمان ؓ نے عنان خلافت ہاتھ میں لی تو اپنے ذاتی علم کی بنا پرا ن کو مدینہ بلالیا(صاحب اصابہ اور اسد الغابہ دونوں نے حکم کے حالات میں اس کا تذکرہ کیا ہے)اوران کے لڑکے مروان سے اپنی ایک صاحبزادی کا نکاح کردیا، اورصلہ رحم کے طورپر جیب خاص سے حکم کو ایک لاکھ درہم عطا فرمائے، نیز مروان کو جہیز میں ایک لاکھ درہم کا عطیہ مرحمت کیا،یہ ہے اصل واقعہ جس کو مفسدین نے رنگ آمیزی کرکے کچھ سے کچھ کردیا،طرابلس کے مال غنیمت سے مروان کو خمس دلانے کا واقعہ سراسر بہتان ہے،اس کی صحیح کیفیت یہ ہے کہ مروان نے اس کو خرید لیا تھا۔ چنانچہ مورخ ابن خلدون لکھتا ہے: وارسل ابن زبیر بالفتح والخمس فاشتراہ مروان بن حکم مخمس مائۃ الف دینار وبعض الناس یقول اعطاہ ایاہ ولایصح وانما اعطیٰ ابن ابی سرح خمس الخمس من الغزوۃ الاولیٰ ( ابن خلدون ج ۲ : ۱۲۹) "ابن زبیر نے فتح کا مژدہ اورپانچواں حصہ دارالخلافہ روانہ کیا جس کو پانچ لاکھ دینار پر مروان نے خرید لیا اوربعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ مروان کودے دیا گیا صحیح نہیں ہے ؛بلکہ پہلے معرکہ کے مال غنیمت کے خمس کا خمس ابن ابی سرح کو دیدیا تھا۔" اب یہ اعتراض رہ جاتا ہے کہ کسی غزوہ کے مال غنیمت کا کوئی حصہ ابن ابی سرح کو دینے کا کیا واقعہ تھا ؛لیکن واقعہ یہ ہے کہ طرابلس کی جنگ کے قبل حضرت عثمان ؓ نے ابن ابی سرح سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم اس معرکہ میں کامیاب ہوئے تو مال غنیمت کے پانچویں حصہ کا پانچواں حصہ تم کو دیا جائے گا؛چنانچہ فتح کے بعد حسب وعدہ ان کو دیدیا،اس سے عام مسلمانوں کوشکایت پیدا ہوئی اور انہوں نے حضرت عثمان ؓ سے اس کا اظہار کیا تو انہوں نے اس کو واپس لے لیا،طبری کے یہ الفاظ ہیں: فان رضیتم فقد جازوان سخطتم فھوروقالوا انانسخطہ قال فھورد وکتب الی عبداللہ برذالک (طبری : ۲۸۱۵) "حضرت عثمان ؓ نے کہا کہ اگر تم لوگ اس پرراضی ہو تو ان کا ہوچکا اورتمہاری مرضی کے خلاف ہے تو واپس ہے،لوگوں نے کہا ہم راضی نہیں ہیں،فرمایا واپس ہے اورعبداللہ کو واپس کرنے کاحکم نامہ لکھ دیا۔" عبداللہ بن خالد کو تین لاکھ کا عطیہ مرحمت فرمایا گیا؛لیکن اس کی نسبت خود حضرت عثمان نے مصری معترضین سے فرمایا تھا کہ میں نے بیت المال سے یہ رقم بطور قرض لی ہے،حارث بن حکم کو مدینہ کے بازار سے عشر وصول کرنے کا اخیتار دینا بالکل بے بنیاد ہے،اسی طرح اپنی صاحبزادیوں کو ہیرے جواہرات دینے کا جو قصہ صرف ابن اسحاق نے ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کیا ہے اور چونکہ درمیانی راوی مجہول ہے، اس لئے قابل استناد نہیں۔ بیت المال کے صرف سے اپنے لئے محل تعمیر کرنے کا قصہ محض کذاب صریح ہے جو فیاض طبع اپنے ابر کرم سے دوسروں کو سیراب کرتا ہو اورجو اپنا مقررہ وظیفہ بیت المال سے لینا پسند نہ کرتا ہو وہ اپنے لئے عام مسلمانوں کا شرمندہ احسان ہونا کسی طرح گوارہ کرتا ۔ زید بن ثابت ؓ مہتمم بیت المال کو ایک لاکھ درہم دینے کی روایت بالکل بے بنیاد ہے اصل واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ بیت المال میں اخراجات کے بعد ایک معقول رقم پس انداز ہوئی،حضرت عثمان ؓ نے زید بن ثابت ؓ کو حکم دیا کہ اس کو کسی رفاہ عام کے کام پر صرف کردیں؛چنانچہ انہوں نے اس کو مسجد کی توسیع اورتعمیر میں صرف کردیا،انشاء اللہ اس کا تفصیلی بیان تعمیرات کے سلسلہ میں آئے گا۔ (۳)حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اورحضرت ابی ؓ کے وظائف کا بند کرنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں،امام وقت کو سیاسی وجوہ کی بنا پر اس قسم کے اختیارات حاصل ہیں،حضرت عثمان ؓ کو ان دونوں بزرگوں کی طرف سے کچھ غلط فہمی پیدا ہوگئی تھی، اس لئے انہوں نے کچھ دنوں کے لئے وظیفہ روک دیا تھا؛چنانچہ جب حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے وفات پائی تو غایت انصاف سے کام لے کر جس قدر وظیفہ بیت المال کے ذمہ باقی تھا جس کی مقدار تخمینا ًبیس پچیس ہزار تھی ان کے ورثاء کے حوالہ کردیا۔ (ابن سعد جزو۳ قسم اول تذکرۂ عبداللہ بن مسعود ؓ) (۴)چوتھا اعتراض بالکل بے معنی ہے،فوجی گھوڑوں اورزکوٰۃ کے اونٹوں کے لئے چراگاہیں بنوانا خلیفہ وقت کا منصبی فرض ہے،خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام بقیع کو چراگاہ قراردیا تھا،حضرت عمرؓ نے تمام ملک میں وسیع چراگاہیں تیارکرائی تھیں ،عہد عثمانی میں قدرتاً گھوڑوں اوراونٹوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا، یہاں تک کہ صرف ایک چراگاہ میں چالیس ہزار اونٹ پرورش پاتے تھے،(الوفاء باخبار دارالمصطفی ص ۱۵۶) اس لئے سرکاری چراگاہوں کا وسیع پیمانہ پر انتظام کرنا ضروری تھا اورچونکہ یہ تمام چراگاہیں سرکاری خرچ سے تیار ہوئی تھیں، اس لئے عوام کو اس سے مستفید ہونے کا کوئی حق نہ تھا،البتہ اگر الزام کی یہ صورت ہوکہ حضرت عثمان ؓ نے اپنے ذاتی گھوڑوں اوراونٹوں کے لئے مقام بقیع کی چراگاہ کو مخصوص کرلیا تھا تو اس کے متعلق انہوں نے خود جن الفاظ میں اپنی برأت ظاہر کی ہے وہ اس بحث کے لئے کافی ہے۔ قالوا حمیت حمی وانی واللہ ماحمیت حمی قبلی واللہ ماحمواشیا لاحد الاما غلبہ علیہ اھل المدینۃ ثم لم یمنعوامن رعیۃ احدا وافتروا المصدقات المسلمین یجمعونھا لئلا یکون بین من یلیھا وبین احد الامن ساقہ ھما ومالی من بغیر غیروااحلتین ومالی ثاغیۃ ولا راعیۃ وانی قدولیت وانی اکثرالعرب بعیر اوشاء فمالی الیوم شاۃ ولا بغیر غیر بعیرین الحجی (طبری : ۲۹۵۲) ‘‘لوگ کہتے ہیں کہ تونے مخصوص چراگاہیں بنائی ہیں حالانکہ خدا کی قسم میں نے اسی کو مخصوص چراگاہ قراردیا ہے جو مجھ سے پہلےمخصوص ہوچکی تھی اورخدا کی قسم ان لوگوں سے وہی مخصوص چراگاہیں تیار کرائیں جن پر تمام اہل مدینہ غالب آئے،اس کے بعد چرانے سے کسی کو نہیں روکا اوراس کو مسلمانوں کے صدقہ پر محدودو کردیا،اس لئے ان کو چراگاہ بنایا تاکہ والی صدقہ اورکسی کے درمیان نزاع نہ واقع ہو، پھر کسی کو نہ منع کیا نہ اس کو ہٹایا، بجز اس کے جس نے بطور ثبوت کے کوئی درہم دیا میرے پاس اس وقت دو اونٹوں کے سوا اورکوئی مویشی نہیں ہے حالانکہ جس وقت میں نے خلافت کا بارگراں اپنے سرلیا ہے تو میں عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اوربکریوں کا مالک تھا اورآج ایک اونٹ اورایک بکری تک نہیں ہے صرف حج کے لئے دو اونٹ رہ گئے ہیں۔’’ (۵)بازار میں بعض اشیاء کی خریدوفروخت کو اپنے لئے مخصوص کرلینے کا قصہ بالکل غلط ہے،اگر اس کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک جفاکار بادشاہ میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا ،البتہ کھجور کی گھٹلیوں کو زکوٰۃ کے اونٹوں کی خوراک کے لئے خرید نے کا انتظام کیا گیا ہوگا؛لیکن اس سے کوئی الزام عائد نہیں ہوسکتا۔ (۶)اپنے حاشیہ نشینوں اوراہل قرابت کو اطراف ملک میں وسیع قطعات زمین مرحمت فرمانے کا جو الزام عائد کیا گیا ہے اس کی صحیح کیفیت یہ ہے: عہد عثمانی میں بہت سے اہل یمن گھر اورجائداد چھوڑ کر مدینہ چلے گئے تھے، حضرت عثمان ؓ نے ان لوگوں کی راحت اورسہولت کےخیال سے نزول کی اراضی کا ان کی یمن کی جائدادسے تبادلہ کرلیاتھا، مثلاً حضرت طلحہ ؓ کو ایک قطعہ زمین دیا تو اس کے معاوضہ میں کندہ میں ان کی مملوکہ جائداد پر قبضہ کرلیا، انتظامی حیثیت سے اس قسم کا رد وبدل ناگزیر تھا۔ عراق میں بہت سی زمین غیر آباد پڑی ہوئی تھی جن لوگوں نے اس کو قابل زراعت بنایاحضرت عثمان نے من احبی ارضا میتۃ فھی لہ پر عمل کرکے ان کو اس کا مالک قراردیا اورملک کو آباد اورقوم کو مرفہ الحال کرنے کے لئے اس قسم کی ترغیب وتحریص نہ صرف جائز ؛بلکہ ضروری ہے۔ (۷)اگرحضرت عثمان ؓ نے اخلاقی یا سیاسی مصالح کی بناپر کسی صحابی کی تادیب کی تو اس سے اس کی تذلیل نہیں ہوئی، حضرت عمرؓ نے ابی بن کعب ؓ پر کوڑا اٹھایا،عیاض بن غنم کا کرتہ اترواکر بکریاں چرانے کودیں اور سعدوقاص ؓ کو درے مارے تو کسی نے اس کو تذلیل پر محمول نہیں کیا۔ حضرت ابوذر ؓ کو حضرت عثمان ؓ نے جلاوطن نہیں کیا تھا ؛بلکہ وہ خود تارک دنیا ہو گئے تھے؛چنانچہ جب حضرت عثمان ؓ نے تحقیقات کے لئے ان کو طلب کیا اور وہ دربار خلافت میں حاضر ہوئے تو حضرت عثمان ؓ نے پہلے فرمایا کہ آُ پ میرے پاس رہئے، آپ کے اخراجات کا میں کفیل ہوں ؛لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ تمہاری دنیا کی مجھ کو ضرورت نہیں۔ (ابن سعد تذکرہ ابوذر ؓ) اسی طرح عبادہ بن صامت ؓ کے ساتھ بھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا ؛بلکہ ان کی جلاوطنی کی روایت کے برخلاف ایک مستند روایت موجود ہے کہ وہ حضرت عثمان ؓ کے آخری عہد تک شام میں تقسیم غنیمت کےعہد ہ پر مامور تھے،البتہ عمار بن یاسر ؓ،جندب بن جنادہ ؓ اور عبداللہ بن مسعود ؓ کےساتھ کچھ سختیاں ہوئیں ؛لیکن اس کی ان سے تذلیل نہیں ہوئی۔ ایک مصحف کے سوا تمام مصاحف کے جلادینے کا الزام صرف ان لوگوں کے نزدیک قابل وقعت قرارپاسکتا ہے، جن کے دل بصیرت سے اورآنکھیں بصارت سے محروم ہیں، حضرت عثمان ؓ نے خود کوئی صحیفہ ترتیب دے کر پیش نہیں کیا ؛بلکہ فتنہ کے ظہور سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہی حضرت ابوبکر ؓ نے جو مصحف تیار کرایا تھا اسی کی نقلیں حضرت عثمان ؓ نے مختلف امصارودیارمیں بھجوادیں اوراسی کی تسلیم پر تمام امت کو متفق کر دیا ،یہ آپ کا وہ کارنامہ ہے جس کے باراحسان سے امت محمدیہ کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتی۔ (۹)اس میں شک نہیں ہے کہ حضرت عثمان ؓ نہایت رحم دل اوررقیق القلب تھے ؛لیکن شرعی حدود کے اجراء میں انہوں نے کبھی تساہل سے کام نہیں لیا،جن واقعات کی بنا پر ان کو اجرائے حدود میں تغافل شعار بتایا جاتا ہے،ان کی تفصیل یہ ہے: (۱)عبیداللہ بن عمر ؓ سے ہر مزان کا قصاص نہیں لیا گیا۔ (۲)ولید بن عقبہ پر شراب خوری کی حد جاری کرنے میں غیر معمولی تاخیر ہوئی۔ ہرمزان کا واقعہ یہ ہے کہ جب فاروق اعظم ؓ کو ابولولو مجوسی نے شہید کیا توعبید اللہ بن عمر ؓ غضب ناک ہوکر قاتل کی لڑکی اورہرمزان کو جو ایک نومسلم ایرانی تھا قتل کردیا ؛کیونکہ ان کے خیال میں یہ سب سازش میں شریک تھے؛چنانچہ حضرت عثمان ؓ نے جب عنان خلافت ہاتھ میں لی تو سب سے پہلے یہی مقدمہ پیش ہوا،آپ ؓنے صحابہ ؓ سے اس کے متعلق رائے طلب کی ،حضرت علی ؓ نے عبید اللہ بن عمر کو ہرمزان کے قصاص میں قتل کردینے کا مشورہ دیا،بعض مہاجرین نے کہا عمر ؓ کل قتل ہوئے اوران کا لڑکا آج ماراجائےگا؟عمروبن العاص نے کہا، امیر المومنین اگر آپ عبیداللہ کو معاف کردیں گے تو امید ہے کہ خدا ٓپ سے باز پرس نہ کرے گا ،غرض اکثر صحابہ ؓ عبید اللہ کے قتل کردینے کے خلاف تھے ،حضرت عثمان ؓ نے فرمایا چونکہ ہرمزان کا کوئی وارث نہیں ہے ،اس لئے بحیثیت امیر المومنین میں اس کا والی ہوں اور قتل کے بجائے دیت پر راضی ہوں، اس کے بعد خود اپنے ذاتی مال سے دیت کی رقم دے دی،( ابن اثیر ج ۳ : ۸۷،۸۹) حضرت عثمان ؓ نے جس عمدگی کے ساتھ اس مقدمہ کا فیصلہ کیا ہے اس سے بہتر نہیں ہوسکتا تھا؛ کیونکہ قبیلہ عدی کبھی ہرمزان کے قصاص میں عبید اللہ بن عمر ؓ کے قتل کو پسندید گی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا اوردرحقیقت اسی وقت فتنہ وفساد کی آگ مشتعل ہوجاتی۔ ولید بن عقبہ والی کوفہ نے بادہ نوشی کی توحضرت عثمان ؓ نے فوراً معزول کردیا ؛لیکن حد کے اجراء میں اس وجہ سے تاخیر ہوئی کہ گواہوں پر کامل اطمینان نہیں تھا،جب کافی ثبوت بہم پہنچ گیا تو پھر حد کے اجراء میں پس وپیش نہیں کیا گیا۔ (فتح الباری ج ۷ : ۴۵ وطبری ص ۲۸۴۹) (۱۰)یہ خیال کہ حضرت عثمان ؓ نے موثق روایات کو چھوڑ کر روایات شاذہ پر عمل کیا قطعی غلط ہے البتہ اجتہادی مسائل میں اختلاف آراء ہوااوریہ حضرت عثمان ؓ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ؛بلکہ تمام صحابہ ؓ میں اس قسم کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ (۱۱)مذہب میں اختراع بدعات کا الزام نہایت لغو اورسراسر کذب ہے،اتباع سنت حضرت عثمان ؓ کا مقصد حیات تھا،منی میں دو کے بجائے چار رکعت نماز اداکرنا بھی دراصل ایک نص شرعی پر مبنی تھا؛چنانچہ جب صحابہ نے اس کو بدعت پر محمول کرکے اس پر ناپسندید گی کا اظہار کیا توخود حضرت عثمان ؓ نے ایک مجمع میں چار رکعت نماز پڑھنے کی حسب ذیل وجہ بیان کی: یایھا الناس انی تاھلت بمکۃ منذ قدمت وانی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول من تاھل فی بلد فلیصل صلوٰۃ المقیر (مسند ابن حنبل ج۱ : ۶۲) ‘‘صاحبو!جب میں مکہ پہنچا تویہاں اقامت کی نیت کرلی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جو کسی شہر میں اقامت کی نیت کرے اس کو مقیم کی طرح نماز پڑھنی چاہئے۔ (۱۲)بارہواں الزام ‘‘مصر ی وفد’’کے ساتھ بدعہدی کا ہے ،اس پر تفصیلی بحث حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے موقع پر آئے گی۔ شورش کے انسداد اوراصلاح کی آخری کوشش غرض یہ حقیقت ہے ان تمام الزامات کی جن کی بنیاد پر سازش ،فتنہ پردازی اورانقلاب کی عمارت قائم کی گئی تھی اور اس حد تک مکمل ہوچکی تھی کہ اس کا انہدام تقریباً ناممکن ہوگیا تھا،تاہم حضرت عثمان ؓ نے شورش رفع کرنے کے لئے اصلاح اورشکایتوں کے ازالہ کی ایک آخری کوشش کی اورتمام عمال کو دارالخلافہ میں طلب کرکے اس کے متعلق ایک مجلس شوریٰ منعقد کی جس میں امیر معاویہ ؓ، عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ،سعید بن العاص ؓ اورعمروبن العاص ؓ خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ حضرت عثمان ؓ نے ایک مختصر تقریر کے بعد موجودہ شورش کو رفع کرنے کے متعلق ہر ایک سے رائے طلب کی،عبداللہ بن عامرؓ نے کہا امیرالمومنین! میراخیال ہے کہ اس وقت کسی ملک پر فوج کشی کردی جائے،لوگ جہاد میں مشغول ہوجائیں گے تو فتنہ وفساد کی آگ خود بخود سرد ہوجائے گی۔ سعید بن العاص ؓ نے کہا، موجودہ شورش صرف ایک جماعت کی وجہ سے ہے، اس کے سرگروہ اگر قتل کردیئے جائیں تو مفسدین کا شیرازہ بکھرجائے گا اورملک میں کامل امن وامان پیدا ہوجائے گا۔ امیر معاویہ ؓ نے کہا،ہر ایک عامل اپنے صوبہ میں امن وامان قائم رکھنے کا ذمہ لے میں ملک شام کا ضامن ہوں۔ عبداللہ بن سعد ؓ نے کہا شورش پسند گروہ حریص وطمع ہے اس لئے مال وزر سے اس کا منہ بند کیا جاسکتا ہے۔ عمروبن العاص ؓ نے کہا امیر المومنین! آپ کی بے اعتدالیوں نے لوگوں کو احتجاج حق پر آمادہ کیا ہے،اس کے تدارک کی صرف دوہی صورتیں ہیں،یاعدل وانصاف سے کام لیجئے یا خلافت سے کنارہ کشی اختیار کیجئے، اگر یہ دونوں ناپسند ہوں تو پھر جو چاہے کیجئے، حضرت عثمان ؓ نے تعجب سے عمروبن العاص ؓ کی طرف دیکھا اور فرمایا،افسوس!کیا تم میری نسبت ایسی رائے رکھتے ہو؟ عمروبن العاص ؓ خاموش رہے؛لیکن جب مجمع منتشر ہوگیا اور تنہا حضرت عثمان رہ گئے تو کہا امیر المومنین !آپ مجھے بہت زیادہ محبوب ہیں،مجمع عام میں میں نے جو رائے دی وہ صرف نمائشی تھی تاکہ مفسدین مجھے ہم خیال سمجھ کر اپنا راز دار بنائیں اور اس طرح آپ کو ان کے خیروشر سے مطلع کرتا رہوں،اگرچہ یہ عذر معقول اوردل نشین نہ تھا تاہم حضرت عثمان ؓ خاموش ہوگئے۔ ( ابن اثیر ج۳ : ۱۱۷،۱۱۸) مجلس شوریٰ کے ارکان نے اگرچہ اپنے اپنے خیال کے مطابق مفید آرائیں دیں ؛لیکن ان میں سے کسی رائے سے بھی اصل مرض کا ازالہ نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے اصلاح ملک کا کوئی مکمل دستور العمل تیار نہ ہوسکا اورحضرت عثمان ؓ نے تمام عمال کو واپس کردیا(ایضاً) اورخود ایک مکمل اسکیم سوچنے میں مصروف ہوگئے۔ مفسدین کوفہ کی رضا جوئی پہلے گزرچکا ہے کہ مفسدین کوفہ سعید بن العاص ؓ سے خاص بغض وعناد رکھتے تھے؛چنانچہ جب وہ مجلس شوریٰ میں شریک ہوگئے تو انہوں نے باہم عہد کیا کہ اب وہ ان کے کوفہ آنے میں بزورمزاحم ہوں گے؛چنانچہ جب سعید بن العاص مدینہ سے کوفہ گئے تو مفسدین نے شہر سے باہر نکل کر مقام جرعہ میں مزاحمت کی اورسعید ؓ کو مدینہ جانے پر مجبور کردیا۔ حضرت عثمان ؓ نے ان لوگوں کی خواہش کے مطابق سعید ؓ کو معزول کرکے ابو موسیٰ اشعری ؓ کا تقرر کیا اور باغیوں کے پاس لکھ بھیجا کہ میں نے تمہاری خواہش کے مطابق تقرر کردیا اورآخر وقت تک تمہاری اصلاح میں جدوجہد کروں گا اورکسی وقت صبر کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑوں گا۔ (طبری ص ۲۹۳۶) تحقیقات وفود حضرت عثمان ؓ برابر اصلاح ملک کی فکر میں تھے کہ کوئی مناسب تدبیر سمجھ میں نہیں آتی تھی،حضرت طلحہ ؓ نے مشورہ دیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں حالات کی تحقیق کے لئے وفود روانہ کئے جائیں، حضرت عثمان ؓ کو یہ رائے پسند آئی ؛چنانچہ ۳۵ھ میں حضرت محمد بن مسلمہؓ کوفہ،اسامہ بن زیدؓ بصرہ،عمار بن یاسر ؓصر ،عبداللہ بن عمر ؓ شام اوربعض دوسرے صحابہ ؓ دیگر صوبہ جات کی طرف تفتیش حال کےلئے روانہ کئے(ایضاً : ۲۹۴۳)نیز تمام ملک میں گشتی اعلان جاری کردیا کہ میں عموما ًحج کے موقع پرتمام عمال کو جمع کرتا ہوں اور جس عامل کے خلاف کوئی شکایت پیش کی جاتی ہے،فوراً تحقیقات کرکے تدارک کرتا ہوں ؛لیکن باوجود اس کے معلوم ہوا ہے کہ بعض عمال بے وجہ لوگوں کو مارتے ہیں،گالی دیتے ہیں اور دوسرے طریقہ سے ظلم وتعدی کرتے ہیں، اس لئے یہ اعلان عام ہے کہ جس کو مجھ سے یا میرے کسی عامل سے کوئی شکایت ہو وہ حج کے موقع پر بیان کرے میں کامل تدارک کرکے ظالم سے مظلوم کا حق دلاؤں گا۔ (ابن اثیر ج ۳ : ۱۲۲) انقلاب کی کوشش ادھر دربارخلافت میں یہ اصلاحات کی تجویزیں پیش ہورہی تھیں،دوسری طرف ملک میں ایک عظیم الشان انقلاب کی سازش مکمل ہوچکی تھی،چنانہ بصرہ ،کوفہ اورمصر کے فتنہ پردازوں نے آپس میں طے کرکے اپنے اپنے شہر سے حاجیوں کی وضع میں مدینہ کا رخ کیا(ایضاً : ۱۲۵) تاکہ حضرت عثمان ؓ سے بزوراپنے مطالبات تسلیم کرائیں۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر شہر سے دو تین میل کے فاصلہ پر قیام کیا اورچند آدمی جو اس جماعت کے سرگروہ تھے باری باری حضرت طلحہ ؓ، حضرت زبیر ؓ ،حضرت سعدوقاص ؓ اورحضرت علی ؓ کے پاس گئے کہ وہ اپنی وساطت سے معاملہ کا تصفیہ کرادیں؛لیکن سب نے اس جھگڑے میں پڑنے سے انکار کردیا۔ حضرت عثمان ؓ کو فتنہ وفساد کا دبانا اورلوگوں کی صحیح شکایات کا رفع کرنا،بہرحال منظورتھا اس لئے انہوں نے مفسدین کے اجتماع کی خبر سنی توحضرت علی ؓ کو بلاکر کہا کہ آپ اس جماعت کو راضی کرکے واپس کردیجئے،میں جائز مطالبات کے تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوں؛چنانچہ حضرت علی ؓ کی وساطت سے مفسدین واپس گئے،( ایضاً : ۱۲۹ طبع یورپ) اس کے بعد حضرت عثمان ؓ نے جمعہ کے روز مسجد میں خطبہ دیااورتفصیل کے ساتھ اصلاحی اسکیم اوراپنے آئندہ طرز عمل کی توضیح کی،لوگ خوش ہوئے کہ اب منازعات کا خاتمہ ہوگیا اور جدید اصلاحات کے اجراء سے ایک طرف تو بنو امیہ کا زور ٹوٹ جائے گا،دوسری طرف باغِ اسلام میں جس کو مسلسل پانچ سال کے فتنہ وفساد اورسازش فتنہ پردازی کی بادخزاں نے بے رونق کردیا ہے پھر تازہ بہار آجائے گی؛لیکن یہ غنچہ سرورا بھی اچھی طرح کھلا بھی نہ تھاکہ مرجھا گیا اورایک دن دفعۃً مدینہ کی گلیوں میں تکبیر کے نعروں اورگھوڑوں کی ٹاپوں سے شور قیامت برپا ہوگیا،کبارصحابہ گھبراکر گھروں سے نکل آئے، دیکھا کہ مفسدین کی جماعت پھر واپس آگئی ہے اور ‘‘انتقام !انتقام’’ کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ حضرت علی ؓ نے بڑھ کر واپس آنے کا سبب دریافت کیا،مصریوں نے کہا کہ راہ میں دربارخلاف کا ایک قاصد ملاکہ جو نہایت تیزی وعجلت کے ساتھ مصر جارہا تھا،اس کی مشتبہ حالت سے بدگمانی ہوئی اورخیال ہوا کہ ضرور ہم لوگوں کے متعلق والی مصر کے پاس احکام جارہے ہیں،تلاشی لی گئی تو درحقیقت ایک ایسا فرمان برآمد ہوا جس میں ہدایت کی گئی تھی کہ ہم لوگوں کی گردن ماردی جائے،اس لئے اب ہم اس بدعہدی اورفریب کاری کا انتقام لینے آئے ہیں۔ خلافت سے کنارہ کشی کا مطالبہ حضرت عثمان ؓ کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو آپ نے حیرت کے ساتھ اپنی لاعلمی ظاہر کی،اورقسم کھا کر کہا کہ مجھے مطلقاً اس خط کی اطلاع نہیں ہے،حضرت عثمان ؓ کے حلفیہ انکار پر لوگوں نے قیاس کیا کہ یہ یقیناً مروان کی شرارت ہے،مصریوں نے کہا بہرحال کچھ بھی ہو جو خلیفہ اس قدر غافل ہوکہ اس کی لا علمی میں ایسے اہم امور پیش آجائیں اوراسے خبر نہ ہو وہ کسی طرح خلافت کے لئے موزوں نہیں ہو سکتا اورحضرت عثمان ؓ سے مسند خلافت سے کنارہ کش ہوجانے کا مطالبہ کیا،آپ نےفرمایا جب تک مجھ میں رمق جان باقی ہے میں اس خلافت کو جو خدانے مجھے پہنایا ہے خود اپنے ہاتھوں سے نہیں اتاروں گا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق میں اپنی زندگی کے آخر لمحہ تک صبر کروں گا۔ (ابن سعد تذکرہ عثمان ؓ) محاصرہ حضرت عثمان ؓ کے انکار پر مفسدین نے کاشانۂ خلافت کا نہایت سخت محاصرہ کرلیا جو چالیس دن تک مسلسل قائم رہا،اس عرصہ میں اندر پانی تک پہنچانا جرم تھا، ایک دفعہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ ؓ نے اپنے ساتھ کھانے پینے کی کچھ چیزیں لے کر حضرت عثمان ؓ تک پہنچنے کی کوشش کی مگر مفسدین کے قلوب نورایمان سے خالی ہوچکے تھے،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم محترم کا بھی پاس ولحاظ نہ کیا اور بے ادبی کے ساتھ مزاحمت کرکے ان کواپس کردیا،ہمسایہ گھروں سے کبھی کبھی رسد اورپانی کی امداد پہنچ جاتی تھی،مفسدین کی خیرہ سری سے صحابہ کرام ؓ کی بے احترامی اتنی بڑھ گئی تھی کہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ ،ابوہریرہ ؓ، سعد وقاص ؓ،اورزید بن ثابت ؓ جیسے اکابر صحابہ تک کی کسی نے نہ سنی اوران کی توہین کی،حضرت علی ؓ نے حضرت عثمان ؓ کے بلانے پر ان کے گھر کے اندر جانا چاہا تو لوگوں نے ان کو روک دیا،آپ نے مجبور ہوکر اپنا سیاہ عمامہ اتار کر قاصد کو دے دیا اورکہا جو حالت ہے اس کو دیکھ لو اورجاکر کہہ دو(ابن سعد ج ۳ قسم اول) بہت سے صحابہ مدینہ چھوڑ کر چلے گئے تھے، حضرت عائشہؓ نے سفر حج کا ارادہ کرلیا، اکابر صحابہ نے ان پر آشوب حالات میں گوشہ نشینی مناسب سمجھی، ذمہ دار صحابہ میں اس وقت تین بزرگ حضرت علی ؓ، حضرت طلحہ ؓ، حضرت زبیر ؓ موجود تھے جو نہ تو بے تعلق رہ سکتے تھے اور نہ ان حالات پر ان کو قابو تھا،تینوں صاحبوں نے کچھ کوششیں بھی کیں مگر اس ہنگامہ میں کوئی کسی کی نہیں سنتا تھا اس لئے یہ تینوں اصحاب بھی عملاً علیحدہ رہے،مگر اپنے اپنے جگر گوشوں کو خلیفہ وقت کی حفاظت کے لئے بھیج دیا،حضرت امام حسن ؓ دروازہ پر پہرہ دے رہے تھے،حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو حضرت عثمان ؓ کے گھر میں جو جان نثار موجود تھے ان کی افسری پر متعین کیا۔ باغیوں کو حضرت عثمان ؓ کی فہمائش کاشانۂ خلافت کا محاصرہ کرنے والے باغیوں کو متعدد دفعہ حضرت عثمان ؓ نے سمجھانے کی کوشش کی،ان کے سامنے مؤثر تقریریں کیں،حضرت ابی بن کعب ؓ نے تقریر کی،مگر ان لوگوں پر کسی چیز کا اثر نہ ہوا، حضرت عثمان ؓ نے چھت کے اوپر سے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ آئے تو یہ مسجد تنگ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون اس زمین کو خریدکر وقف کرےگا؟ اس کے صلہ میں اس کو اس سے بہتر جگہ جنت میں ملے گی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی،توکیا اسی مسجد میں تم مجھے نماز پڑھنے نہیں دیتے،تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں،بتاؤ کیا تم جانتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو اس میں رومہ کے سوا میٹھے پانی کا کنواں نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو کون خریدکر عام مسلمانوں پر وقف کرتا ہے؟ اوراس سے بہتر اس کو جنت میں ملے گا تو میں نے ہی اس کی تعمیل کی،تو کیا اسی کے پانی پینے سے مجھے محروم کررہے ہو؟ کیا تم جانتے ہو کہ عسرت کے لشکر کو میں ہی نے سازوسامان سے آراستہ کیاتھا؟ سب نے جواب دیا خداوندا!یہ سب باتیں سچ ہیں(ابن حنبل ج اول : ۷۴،۷۵،۷۰) مگر سنگدلوں پر اس کا اثر بھی نہ ہوا، پھر مجمع کو خطاب کرکے فرمایا، تم کو قسم دیتا ہوں،تم میں کسی کو یاد ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ پر چڑھے تو پہاڑ ہلنے لگا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کو پاؤں سے ٹھوکر مارکر فرمایا، اے حرا ٹھہر جا کہ تیری پیٹھ پر اس وقت ایک نبی اورایک صدیق اورایک شہید ہے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، لوگوں نے کہایاد ہے،پھرفرمایا خدا کا واسطہ دیتا ہوں ،بتاؤ کہ حدیبیہ میں مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں سفیر بناکر بھیجا تھا تو کیا خود اپنے ایک دست مبارک کو میرا ہاتھ قرار نہیں دیا؟اور میری طرف سے خود ہی بیعت نہیں کی؟ سب نے کہا سچ ہے۔ (ایضاً : ۵۹) آخر میں باغی یہ دیکھ کر کہ حج کا موسم چند روز میں ختم ہوجاتا ہے اور اس کے ختم ہوتے ہی لوگ مدینہ کا رخ کریں گے اور موقع نکل جائے گا، آپ کے قتل کے مشورے کرنے لگے جس کو خود حضرت عثمان ؓ نے اپنے کانوں سے سنا اور مجمع کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا،لوگو! آخر کس جرم پر تم میرے خون کے پیاسے ہو؟ اسلام کی شریعت میں کسی کے قتل کی صرف تین ہی صورتیں ہیں یا تو اس نے بدکاری کی ہو تو اس کو سنگسار کیا جائے یا اس نے بالارادہ کسی کو قتل کیا ہو تو وہ قصاص میں مارا جائے گا یا وہ مرتد ہوگیا ہو تو وہ قتل کیا جائے گا، میں نے نہ تو جاہلیت میں اور نہ اسلام میں بدکاری کی ،نہ کسی کو قتل کیا اور نہ اسلام کے بعد مرتد ہوا،اب بھی گواہی دیتا ہوں کہ خدا ایک ہے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندہ اور رسول ہیں ،(ایضاً : ۶۲)لیکن باغیوں پر ان میں سے کوئی تقریر کارگرنہ ہوئی۔ جان نثاروں کے مشورے اوراجازت طلبی بعض جان نثاروں نے مختلف مشورے دیئے مغیرہ بن شعبہ ؓ نے آکر عرض کیا ‘‘امیر المومنین!تین باتیں ہیں،ان میں سے ایک قبول کیجئے،آپ کے طرفداروں اورجان نثاروں کی ایک طاقتور جماعت یہاں موجود ہے اس کو لے کر نکلیے اوران باغیوں کا مقابلہ کرکے ان کو نکال دیجئے آپ حق پر ہیں وہ باطل پر،لوگ حق کا ساتھ دیں گے، اگر یہ منظور نہیں تو پھر صدر دروازہ چھوڑکر دوسری طرف سے دیوار توڑکر اس محاصرہ سے نکلئے اور سواریوں پر بیٹھ کر مکہ معظمہ چلے جائیے وہ حرم ہے وہاں یہ لوگ لڑنہ سکیں گے، یا پھر یہ کہ شام چلے جائیے وہاں کے لوگ وفادار ہیں اور معاویہ ؓ موجود ہیں، حضرت عثمان ؓ نے فرمایا کہ میں باہر نکل کر ان سے جنگ کروں تو میں وہ پہلا خلیفہ بننا نہیں چاہتا جوا مت محمدیہ کی خونریزی کرے،اگر مکہ معظمہ چلاجاؤں تو بھی اس کی امیدنہیں کہ یہ لوگ حرم الہی کی توہین نہ کریں گے اورجنگ سے باز آجائیں گے،اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق وہ شخص نہیں بننا چاہتا جو مکہ جاکر اس کی بے حرمتی کا باعث ہوگا اورشام بھی نہیں جاسکتا کہ اپنے ہجرت کے گھر اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار کو نہیں چھوڑ سکتا۔ (ابن حنبل ج۱ : ۲۷) حضرت عثمان ؓ کا گھر بہت بڑا اور سیع تھا، دروازہ اورگھر میں صحابہ اور عام مسلمانوں کی خاصی جمعیت موجود تھی جس کی تعداد ساتھ سو تھی(ابن سعد ج ۳ ق ۱ : ۴۹)اورجس کے سردار حضرت زبیر ؓ کے بہادر صاحبزادہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ تھے،(ایضاً)وہ حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ امیر المومنین! اس وقت گھر کے اندر ہماری خاصی تعداد ہے،اجازت ہو تو میں ان باغیوں سے لڑوں،فرمایا اگر ایک شخص کا بھی ارادہ ہو تو میں اس کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ وہ میرے لئے اپنا خون نہ بہائے۔ (ایضاً) گھر میں اس وقت بیس غلام تھے ان کو بھی بلا کر آزاد کردیا،(اب حنبل ج ۱ : ۷۲) حضرت زید بن ثابت نے آکر عرض کیا کہ امیرالمومنین!انصار دروازہ پر کھڑے اجازت کے منتظر ہیں کہ وہ دوبارہ اپنے کارنامے دکھائیں،فرمایا اگر لڑائی مقصود ہے تو اجازت نہ دوں گا،(ابن سعد ج ۳ : ۴۸) اس وقت میرا سب سے بڑا مددگار وہ ہے جو میری مدافعت میں تلوار نہ اٹھائے،(ایضاً) حضرت ابوہریرہ ؓ نے اجازت مانگی تو فرمایا،اے ابو ہریرہ ؓ ! کیا تمہیں پسند آئے گا کہ تم تمام دنیا کو اورساتھ ہی مجھ کو بھی قتل کردو، عرض کیا نہیں، فرمایا کہ اگر تم نے ایک شخص کو بھی قتل کیا تو گویا سب قتل ہوگئے،(یہ سورۂ مائدہ ع ۵ کی آیت ۶ کی طرف اشارہ ہے) ابوہریرہ ؓ یہ سن کر لوٹ آئے۔ (ایضاً) شہادت کی تیاری حضرت عثمان ؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق یہ یقین تھا کہ ان کی شہادت مقدر ہوچکی ہے۔(ابن حنبل ج اول : ۶۶)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مرتبہ ان کو اس سانحہ سے خبردارکیا تھا اور صبر واستقامت کی تاکید فرمائی تھی،حضرت عثمان ؓ اس وصیت پر پوری طرح قائم تھےاورہر لمحہ ہونے والے واقعہ کے منتظر تھے، جس دن شہادت ہونے والی تھی، آپ روزہ سے تھے جمعہ کا دن تھا خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت ابوبکر ؓ وعمرؓ تشریف فرما ہیں اور ان سے کہہ رہے ہیں کہ عثمان جلدی کرو، تمہارے افطار کے ہم منتظر ہیں،بیدار ہوئے تو حاضرین سے اس خواب کا تذکرہ کیا، اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ میری شہادت کا وقت آگیا،باغی مجھے قتل کرڈالیں گے،انہوں نے کہا امیر المومنین! ایسا نہیں ہوسکتا!فرمایا میں یہ خواب دیکھ چکا ہوں اور ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ‘‘ عثمانؓ آج جمعہ میرے ساتھ پڑھنا،(ابن سعد ج ۳ : ۵۳ اورحاکم ج ۳ : ۹۹ و: ۱۰۳ میں یہ دونوں خواب مذکور ہیں اور ابن حنبل میں صرف پہلے خواب کا ذکر ہے)پھر پائجامہ جس کو کبھی نہیں پہنا تھا،منگا کر پہنا،(ابن حنبل ج اول : ۱۷۱) اپنے بیس غلاموں کو بلاکر آزاد کیا اورقرآن کھول کر تلاوت میں مصروف ہو گئے۔ شہادت باغیوں نے مکان پر حملہ کردیا،حضرت امام حسن ؓ جو دروازہ پر متعین تھے مدافعت میں زخمی ہوئے،چار باغی دیوارپھاند کر چھت پر چڑھ گئے،آگے آگے حضرت ابوبکر ؓ کے چھوٹے صاحبزادے محمد بن ابی بکر تھے، جو حضرت علی ؓ کی آغوشںِ تربیت میں پلے تھے، یہ کسی بڑے عہدے کے طلب گار تھے جس کے نہ ملنے سے حضرت عثمان ؓ کے دشمن بن گئےتھے، انہوں نے آگے بڑھ کر حضرت عثمان ؓ کی ریش مبارک پکڑلی اور زور سے کھینچی،حضرت عثمان ؓ نے فرمایا،بھتیجے! اگر تمہارے باپ زندہ ہوتے تو ان کو یہ پسند نہ آتا،یہ سن کر محمد بن ابی بکر شرما کر پیچھے ہٹ گئے اور ایک دوسرے شخص کنانہ بن بشر نے آگے بڑھ کر پیشانی مبارک پر لوہے کی لاٹ اس زور سے ماری کہ پہلو کے بل گرپڑے، اس وقت بھی زبان سے ‘‘بسم اللہ توکلت علی اللہ’’ نکلا سودان ابن حمران مراوی نے دوسری جانب ضرب لگائی جس سے خون کا فوارہ جاری ہوگیا، ایک اورسنگدل عمر وبن الحمق سینہ پر چڑھ بیٹھا اور جسم کے مختلف حصوں پر پے درپے نیزوں کے نوزخم لگائے،کسی شقی نے بڑھ کر تلوار کا وارکیا،وفادار بیوی حضرت نائلہ نے جو پاس ہی بیٹھی تھیں ہاتھ پر روکا،تین انگلیاں کٹ کر الگ ہوگئیں،وارنے ذوالنورین ؓ کی شمع حیات بجھادی،اس بے کسی کی موت پر عالمِ امکان نے ماتم کیا، کائنات ارضی وسماوی نے خون ناحق پر آنسو بہائے ،کارکنانِ قضا وقدرنے کہا جو خون آشام تلوار آج بے نیام ہوئی ہے وہ قیامت تک بے نیام رہے گی اورفتنہ وفساد کا جو درازہ کھلا ہے وہ حشر تک کھلا رہے گا۔ ( صحیح بخاری کتاب الفتن میں اس کا اشارہ ہے) شہادت کے وقت حضرت عثمان ؓ تلاوت فرما رہے تھے،قرآن مجید سامنے کھلا تھا، اس خون ناحق نے جس آیت کو خون ناب کیا وہ یہ ہے: "فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللہُo وَھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ" "خدا تم کو کافی ہے اوروہ سننے اورجاننے والا ہے۔" جمعہ کے دن عصر کے وقت شہادت کا واقعہ پیش آیا، دودن تک لاش بے گوروکفن پڑی رہی،حرم رسول میں قیامت برپا تھی،باغیوں کی حکومت تھی، ان کے خوف سے کسی کو اعلانیہ دفن کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی،سنیچر کا دن گزرکررات کوچند آدمیوں نے ہتھیلی پر جان رکھ کر تجہیز وتکفین کی ہمت کی اورغسل دیئے بغیر اسی طرح خون آلود پیراہن میں شہید مظلوم کا جنازہ اٹھایا اور کل سترہ افراد نے کابل سے مراکش تک کے فرماں روا کے جنازہ کی نماز پڑھی،مسند ابن جنبل میں ہے کہ حضرت زبیرؓ نے اورابن سعد میں ہے کہ حضرت جبیر بن معطم ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع کے پیچھے حش کو کب میں اس حلیم و برد باری کے مجسمہ اوربیکسی ومظلومی کے پیکر کو سپرد خاک کیا (مسند ابن حنبل ج ۱ : ۷۳) بعد کو یہ دیوار توڑکر جنت البقیع میں داخل کرلیا گیا، آج بھی جنت البقیع کے سب سے آخر میں مزار مبارک موجود ہے۔ حضرت عثمان ؓ کا ماتم صحابہ کرام اور عام مسلمانوں میں سے کوئی اس سانحہ عظمیٰ کے سننے کے لئے تیار نہ تھا اورکسی کو یہ وہم وگمان بھی نہ تھا کہ باغی اس حد تک جرأت کریں گے کہ امام وقت کے قتل کے مرتکب ہوں گے اورحرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کریں گے، اس لئے جس نے اس کو سنا انگشت بدنداں رہ گیا،جو لوگ حضرت عثمان ؓ کی طرز حکومت کے کسی قدر شاکی تھے انہوں نے بھی اس بیکسی اورمظلومی کی موت پر آنسو بہائے ،تمام لوگوں میں سناٹا چھاگیا، خودباغی بھی جن کی پیاس اس خون سے بجھ چکی تھی،اب مآل کارکو سوچ کر اپنی حرکت پر نادم تھے؛لیکن دشمنوں نے اسلام کے لئے سازش کا جو جال بچھایا تھا اس میں وہ کامیاب ہوچکے تھے، متحد اسلام سنی ،شیعہ ،خارجی اورعثمانی مختلف حصوں میں بٹ گیا اور ایسا تفرقہ پڑا جو قیامت تک کے لئے قائم رہ گیا۔ حضرت علی ؓ مسجد سے نکل کر حضرت عثمان ؓ کے گھر کی طرف آرہے تھے کہ راہ میں شہادت کی اطلاع ملی، یہ خبر سنتے ہی دونوں ہاتھ اٹھا کر فرمایا،خداوندا!میں عثمان کے خون سے بری ہوں،حضرت عمر ؓ کے بہنوئی سعید بن زید بن عمروبن نفیل ؓ نے کہا لوگو! اگر کوہ احد تمہاری اس بداعمالی کے سبب پھٹ کر تم پر گرپڑے تو بھی بجا ہے، حضرت حذیفہ ؓ نے جو صحابہ میں فتنہ وفساد کی پیشین گوئی کے سب سے بڑے حافظ اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محرم اسرار تھے، فرمایا، آہ! عثمان کے قتل سے اسلام میں وہ رخنہ پڑگیا جواب قیامت تک بند نہ ہوگا، حضرت ابن عباس ؓ نے کہا اگر تمام خلقت عثمان کے قتل میں شریک ہوتی تو قوم لوط کی طرح آسمان سے اس پر پتھر برستے ،ثمامہ بن عدی ؓ صحابی کو جو صنعائے یمن کے والی تھے،اس کی خبر پہنچی تووہ روپڑے اورفرمایا کہ افسو س !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی جاتی رہی،ابوحمید ساعدہ ؓ نے قسم کھائی کہ جب تک جیوں گا،ہنسی کا منہ نہ دیکھوں گا،عبداللہ بن سلام ؓ صحابی نے کہا، آہ!آج عرب کی قوت کا خاتمہ ہوگیا،حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا،عثمان ؓ مظلوم مارے گئے،خدا کی قسم !ان کانامۂ اعمال دھلے کپڑے کی طرح پاک ہوگیا، حضرت زید بن ثابت ؓ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا تارجاری تھا،حضرت ابوہریرہ ؓ کا یہ حال تھا کہ جب اس سانحہ کا ذکر آجاتا تو دھاڑیں مارمار کر روتے۔ (یہ تمام الفاظ ابن سعد ج ۳ قسم اول ص ۵۵، ۵۶ میں مذکور ہیں، حضرت سعید بن زید بن عمروبن نفیل کا فقرہ صحیح بخاری باب اسلام سعید بن زید ؓ بھی مذکور ہے،حضرت علی ؓ کا فقرہ حاکم مستدرک میں بسند صحیح نقل کیا ہے)