انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ینگ چری فوج اب جبکہ شمالی و مغربی حصہ بھی عیسائی حکومت سے پاک ہوگیا تو تمام ایشیائے کوچک میں ترکانِ عثمانی کے ہوا خواہ اوران کے ہمرا ہی مذکورہ جاگیرداریوں کے ذریعہ پھیل گئے اور عثمانی ترکوں نے ایسے وقت میں ایشیائے کوچک پر کامل تسلط پایا،جب کہ اس ملک میں ان کے لئے بے حد موزونیت اور صلاحیت پیدا ہوچکی تھی،لڑائیوں میں بہت سے عیسائی قید ہوکر آئے تھے اوربہت سے عیسائی رعایا بن کر ذمیوں کی حیثیت سے ایشائے کوچک میں زندگی بسر کرنے لگے تھے،وزیر اعظم علاؤ الدین نے بھائی کو سمجھایا کہ بڑے بڑے جاگیردار جو بڑی بڑی فوج کے مالک ہوتے ہیں،سلطنت کے لئے موجب خطر بھی بن جایا کرتے ہیں اور ہماری مملکت کے جاگیردار عیسائی رعایا عیسائی ہمسایہ سلطنت کی ریشہ دوانیوں کے شکار بن کر ہماری مخالفت پر آمادہ ہوجانے کی استعداد اوربھی زیادہ رکھتے ہیں، اس لئے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی قیدیوں قیدیوں اورعیسائی رعایا میں سے نوجوان اورنو عمر لڑکوں کو لیکر سلطنت خود ان کی پرورش اورترابیت کی ذمہ دار بنے اوراس طرح ان کو اسلامی تعلیم دے کر اور مسلمان بنا کر ان کی ایک فوج بنائی جائے،یہ فوج خاص شاہی فوج سمجھی جائے،ان لوگوں سے بغاوت کی مطلق توقع نہ ہوگی اوران نو مسلم نوجوانوں کے عزیز واقارب بھی یقیناً سلطنت کی مخالفت پرہرگز نہ آمادہ ہوں گے؛بلکہ ان کو مسلمان ہونے کی بہترین ترغیب ہوسکے گی ؛چنانچہ جب اس پر عمل درآماد شروع ہوا اور کئی ہزار عیسائی لڑکے لے کر ان کی تعلیم شروع کی گئی تو ان لڑکوں کی عزت و عظمت اورشان وشوکت دیکھ کر کیونکہ وہ سلطان عثمانی کے بیٹے سمجھے جاتے تھے،عیسائیوں نے خود کوششیں کرکے اپنے نو عمر لڑکوں کو داخل کرنا شروع کردیا،ابتداء جب قریبا دو ہزار نوجوان تعلیم و تربیت پاکر فوجی تعلیم سے فارغ ہوکر سلطان کے باڈی گارڈ قرار دیئیے گئے، تو سلطنت ان کو لیکر ایک بزرگ صوفی کی خدمت میں ھاضر ہوا اوراس سے دعا چاہی، اہل باخدا بزرگ نے ایک جوان کے شانہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس فوج کے لئے دعائیہ کلمات کہے جو کامیابی کے لئے ایک نیک فال سمجھی گئی،یہ سب کے سب نہایت سچے پکے مسلمان اورسب سے زیادہ اسلحہ جنگ سے آراستہ اورشاہی فرزند قرار دیئے گئے تھے،اسی فوج کا نام نیگ چری فوج مشہور ہے،ان لوگوں کو اپنے عزیزوں ،رشتہ داروں سے کوئی تعلق نہیں رہتا تھا اوروہ سب کے سب اسلام کے سچے پکے خادم ہوتے تھے اس طرح ہر سال ایک ہزار عیسائی بچے قیدیوں اور ذمیوں میں سے انتخاب کرکے داخل کیئے جاتے اور تعلیم و تربیت کے بعد شاہی باڈی گارڈ میں شامل ہوجاتے تھے،اس عجیب وغریب قسم کی فوج نے سرداروں اور جاگیر داروں کی بغاوت کے خطرے کو سلاطین ترکی کے لیے مٹادیا تھا، دوسری طرف وزیر اعظم علاؤ الدین نے ملک میں جا بجا مدارس جاری کئے،عیسائیوں کو قریبا وہی حقوق عطا کئے جو مسلمانوں کو حاصل تھے،تجارت کے لئے سہولتیں بہم پہنچائیں،گرجوں کے لیے معافیاں اورجاگیریں عطا کیں،رعایا کے آرام اورسہولت کو ہرحال میں مقدم رکھا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی لوگ بخوشی خاطر اسلام میں داخل ہونے لگے،؛کیونکہ ان کو اطمینان کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرنے اور سمجھنے کا موقع ملا، آج کل لوگ نیگچری فوج کی نستب یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ عیسائیوں پر ایک ظالمانہ ٹیکس تھا کہ ان کے بچوں کو ان سے زبردستی چھین کر مسلمان بنایا اورپھر عیسائیوں ہی کے مقابلہ پر استعمال کیا جاتا تھا،لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے نیگ چری فوج جس شان وشوکت کے ساتھ رہتی اورجس طرح سلطان منظورِ نظر تھی،اس کو دیکھ دیکھ کر عیسائیوں کو خود خواہش پیدا ہوتی تھی کہ ہم اپنے بیٹوں کو سلطانی تربیت گاہ میں داخل کردیں کیونکہ ان کو داخل ہونے کے بعد راحت و عزت کے سوا کسی خطرے کا کوئی اندیشہ نہ تھا،وہ جانتے تھے کہ نیگ چری فوج میں داخل ہونے کے بعد ہمارے بچوں کو کسی قسم کا کوئی آزار نہیں پہنچایا جاسکتا اوران کی طرف کوئی آنکھ بھرکر نہیں دیکھ سکتا،یہی وجہ تھی کہ سالانہ بھرتی کے موقع پر بلا جبر وکراہ یہ تعداد پوری ہوجاتی تھی اوربعض امیدواروں کو واپس کرنا پڑتا تھا۔ یہ ینگ چری فوج ایک جدید فوج تھی، اس کے علاوہ وہ قدیمی دستور بدرستور موجود تھا، اس فوج میں بھی علاؤ الدین وزیر نے بہت اصلاحیں کیں،فوج کی وردیاں مقرر کیں،ان کو تعداد کے اعتبار سے مختلف حصّوں میں تقسیم کرکے پابند آئین بنایا،صدی پانصدی،ہزار وغیرہ سردار مقرر کئے،پیادہ اورسواروں کی الگ الگ فوجیں بنائیں،ان کے علاوہ رضاکاروں کے لئے بھی قانون بنایا،اسی طرح مال محکمے میں اصلاحیں گیں،فوج داری اورفصلِ خصومات کی کچہریاں شہروں اورقصبوں میں قائم کیں، پولیس اور میونسپلٹی کے محکموں کی طرف بھی اس کی خصوصی توجہ مبذول تھی،ملک کے ایسے قبیلوں کو جو آوارہ گردی قزاقی کے شوقین تھے،وزیر علاؤالدین نے ایسے کام پر لگادیا جو ان کے لئے بہت ہی دل کو پسند کام تھا، یعنی اس نے ان میں بھی ایک نظام پیدا کرکے ان کی فوجیں اور پلٹنیں بنادی جن کا کام یہ تھا کہ جس ملک پر سلطنتِ عثمانی کی فوجیں حملہ آور ہوں،یہ پلٹنیں میں میدانِ جنگ کے اطراف اور دشمن کے ملک میں پھیل کرغارت گری کا سلسلہ جاری کرکے حریف کو مرعوب وخوف زدہ بنائیں۔ وزیر اعظم علاؤ الدین نے محکمۂ تعمیرات کی طرف خاص طور پر توجہ مبذول فرمائی ،جابجا شہروں قصبوں اورقریوں میں مسجدیں،سرائیں،مدرسے اورشفاخانے تیار کرائے،بڑے بڑے شہروں میں عالی شان شاہی محلات،دریاؤں پر پل اورسڑکوں پر حفاظتی چوکیاں بنوائیں،نئی سڑکیں نکلوائیں تاکہ تجارت اورفوجوں کی نقل وحرکت میں آسانی ہو،غرض کہ ایشیائے کوچک کی آبادی وسرسبزی اورسلطنتِ عثمانیہ کے قیام واستحکام کے لئے ہر ایک ممکن تدبیر کو کام میں لایا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تک یہ ملک ترکوں کا جائے پناہ بنا ہوا ہے اورچھو سو سال گذرنے کے بعد بھی اس ملک کی حالت یہ ہے کہ وہاں سے اسلام اور ترکوں کو نکال دینے کی جرأت کسی قوم اورکسی سلطنت میں نظر نہیں آتی۔ ارخان کی سلطنت کے تذکرے میں اس وزیر باتدبیر کے کارناموں کا خصوصی تذکرہ کرنا ایک ظلم تھا اورچونکہ وہ ارخان کا بڑا بھائی تھا،اس لیے پہلے اسی کے کارناموں کی طرف اشارہ کرنا ضروری تھا،اب ارخان کی سلطنت کے واقعات سنو کہ اس کی تخت نشینی کے وقت اینڈرو نیکوس نامی قیصر قسطنطنیہ تھا،وہ اپنے تمام ایشیائی مقبوضات چھنوا کر ایشیائے کوچک سے بالکل مایوس ہوگیا اوراس کو اس بات کا خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں ترک سمندر کو عبور کرکے یورپی ساحل پر نہ اتر آئین،مگر ارخان نے یورپ کی سرزمین پر قدم رکھنے سے زیادہ اس کام کو زیادہ ضروری سمجھا کہ اپنے بھائی علاؤ الدین کی اصلاحوں اور ایجادوں کو ایشائے کوچک میں اچھی طرح جاری اوررائج کرکے فائدہ اٹھائے اوراپنے مقبوضہ ملک میں خوب مضبوط ہوجائے؛چنانچہ اس نے قریباً بیس سال تک اپنی تمام تر ہمت اصلاحِ ملک اورملک داری کے کاموں میں صرف کی، اگر باقی ترک سلاطین بھی ارخان اوراس کے بھائی علاؤ الدین کے نو مفتوحہ ملکوں کو اسی طرح درست بنانا ضروری سمجھتے ،تو جس طرح ایشیائے کوچک آج تک ترکوں کا مامن وامیدگاہ بنا ہوا ہے،مصر،بلقان،حجاز طرابلس وغیرہ بھی ان کے ما من وامید گاہ ہوتے۔ قیصر قسطنطنیہ کے پوتے اورشہزادہ کنٹا کو زینس نے قیصر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا،یہ ۷۳۹ھ کا واقعہ ہے، عیسائیوں کی اس خانہ جنگی میں قدرتی طور پر عثمانیوں کے لئے ایک کامیابی کی صورت پیدا ہوئی،صوبہ ایدین کے ترکی گورنر شزادہ عمر بے سے باغیوں نے امداد طلب کی،اس نے ۳۸۰ جہازوں کا بیڑہ اور ۲۸ ہزار فوج لیکر سمندر کو عبور کیا، اوریورپ میں داخل ہوکر شہر ڈیموٹیکا پر ے محاسرہ اٹھادیا،اس کے بعد دو ہزار چیدہ سوار لے کر سردیا میں یلغار کرتا ہوا داخل ہوا،قیصر نے عمر بے یاعمر پاشا کو زر کثیر دے کر باغیوں کی امداد سے باز رکھا اورترکی گورنر عمر پاشایورپ سے واپس ہوکر اپنے صوبہ میں چلا آیا ،مگر اس کی اس یلغار کا نتیجہ یہ ہوا کہ قیصر اینڈ رونیکس کا پوتا اس قدر بے قابو ہوگیا کہ اس نے قیصر کو تخت سلطنت سے اتار کر خود تخت قیصری حاصل کرلیا، ۷۴۲ ھ میں اس کے فوت ہونے پر جان پلا لوگس قسطنطنیہ کے تخت پر متمکن ہوا،مگر ۷۴۸ ھ میں کنٹا لونیس نے جان پلا لوگس کو معزول کرکے تختِ حکومت حاصل کرلیا اور ۷۹۴ ھ تک حکومت کرتا رہا اس کے بعد دو اور قیصروں نے ۷۵۷ھ تک حکومت کی جس کے بعد قسطنطنیہ ترکوں کے قبضہ میں آگیا،قیصر کنٹا کو زمیس(کنٹکوزینی) نے تختِ قیصری پر قدم رکھتے ہی سلطان ارخان کو ایشائے کوچک کا سلطان اعظم تسلیم کرلیا اور ترکوں کی ترک وتاز سے یورپی علاقے کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری سمجھا کہ سلطان سے خصوصی تعلقات پیدا کئے جائیں؛چنانچہ قیصر نے سلطان ارخان کی خدمتمیں یہ پیغام بھیجا کہ میں اپنی نہایت خوبصورت وحسین بیٹی تھیوڈورا کی شادی آپ کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں،قیصر کو معلوم تھا کہ سلطان کی عمر ساٹھ سال کی اور اس کی بیٹی نوجوان ہے،نیز وہ مذہب کے اختلاف سے بھی بے خبر نہ تھا،سلطان نے قیصر کی اس درخواست کو رد نہیں کیا اور بڑی دھوم دھام کے ساتھ ملک تھیوڈورا کی شادی سلطان ارخان کے ساتھ ہوئی،سلطان خود قسطنطنیہ گیا اورملکہ کو بیاہ کر لایا، اس شادی کے بعد قیصر کو اطمینان ہوگیا کہ اب ترک میرے ملک پر حملہ آورنہ ہوسکیں گے، اور میں اپنے آپ کو طاقتور بنانے کا بخوبی موقع پاسکوں گا،مگر اس کے آٹھ سال بعد ایک عجیب صورت ترکوں کے لئے یورپ میں داخل ہونے کے بعد پیدا ہوئی،یعنی۷۵۶ھ میں وینس اورجینوا دونوں زبردست بحر ی طاقتیں ساحل علاقوں اوربندرگاہوں کی نسبت زبردست جھگڑا ہوگیا، وینس اورجینو دونوں زبردست بحری طاقتیں تھیں اوران نے تمام بحر روم پر اپنا قبضہ واقتدار قائم رکھا تھا، جینوا والوں کا علاقہ قیصر قسطنطنیہ کے مقبوضات سے متصل تھا،اس لیے قیصر قسطنطنیہ کو چینوا والوں سے سخت نفرت وعداوت تھی اوروہ وینس والوں کی کامیابی کا خواہاں تھا، وینس والے بھی قیصر قسطنطنیہ کے ہواخواہ و ہمدرد تھے،ا دھر ارخان کو وینس والوں سے اس لیے نفرت تھی کہ وہ ایشیائے کوچک کے جنوبی ساؒ پر اکثر باعثِ تکلیف ہوتے رہتے اورسلطان ارخان کی حکومت وسلطنت کو بہ نظر حقارت دیکھتے تھے۔ اس نفرت کا لازمی نتیجہ تھا کہ سلطان ارخان جنیوا والوں کا ہمدرد ہوا؛چنانچہ جینوا والے بھی سلطان ارخانکے ساتھ دوستانہ مراسم رکھتے تھے،اتفاقاً آبنائے با با سفورس کے قریب وینس اور جینوا والوں میں معرکہ کا بازار گرم ہوا،اس طرف کے ساحلی صوبہ کا عامل و گورنر سلطان ارخان کا بیٹا سلمیان خان تھا۔ ایک روز سلیمان خان جینوا والوں کی ایک کشتی میں صرف چالیس آدمیوں کے ہمراہ سوا ر ہوکر رات کے وقت درد انیال کو عبور کرکے یورپی ساحل پر اترا اورساحل کے اس قلعہ کو جو وینس والوح ککے لیے موجب تقویت تھا فتح کرلیا،اس کے بعد فوراً کئی ہزار ترک اس قلعہ میں اپنے شہزادے کے پاس پہنچ گئے جس سے جینوا والوں کو بڑی مدد پہنچی، یہ حال معلوم ہوکر قیصر قسطنطنیہ کو سخت ملال ہوا، وہ ارادہ ہی کرتا تھا کہ سلطان ارخان کو لکھے کہ سلیمان کو قلعہ چھوڑ دینے کا حکم دیں کہ اتنے میں خود قیصر کے دار س السلطنت میں اس کے دوسرے داماد نے علم بغاوت بلند کیا اور قیصر کو اپنا دارلسلطنت بچانا دشوار ہوگیا، اس نے فوراً سلطان ارخان سے امداد طلب کی،سلطان ارخان نے اپنے بیٹے سلیمان خان کو لکھا کہ روپیہ لے لے اور یہ قلعہ چھوڑ کر واپس چلے جاؤ، سلیمان خان اس پر آمادہتھا کہ اتنے میں سخت زلزلہ آیا، اور شہر گیلی پولی کی فصیل گر گئی اورشہر والے زلزلہ سے کو تائید غیبی سمجھ کر عضدی بیگ اور غازی فاضل دوسرداروں نے جو سلیمان خان کے ہمراہ تھے گری ہوئی فصیل کو بے کرکے اورشہر میں داخل ہوکر گیلی پولی پر قبضہ کرلیا، گیلی پولی پر قبضہ کرنے کے بعد سلمان خان نے فوراً فصیل کی مرمت کرائی اور ایک مضبوط ترکی فوج وہاں قائم کردی، قیصر کو جب یہ خبر پہنچی تو اس نے ار اس نے ارخان کو شکایت لکھی ارخان نے جواب میں لکھا کہ میرے بیٹے نے گیلی پولی کو بزورشمشیر فتح نہیں کیا ؛بلکہ زلزلہ کے اتفاقی حادثہ نے اس کے لئے شہر پر قبضہ کرنے کا موقع پیدا کردیا ہے اورمیں اس کو وہاں سے واپس بلانے کے لئے لکھوں گا اوراصل واقعات کو بھی تحقیق کروں گا، قیصر کو چونکہ بار بار سلطان ارخان سے مدد طلب کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی اورخانگی جھگڑے ان ایام میں اس کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کئے ہوئے تھے لہذا قیصر نے گیلی پولی کے تخلیہ پر پھر اصرار نہیں کیا اورسلیمان خان نے اس کو نہیں چھوڑا، گیلی پولی کا قبضہ سلیمان خان کے لئے اس لئے بھی بے حد ضروری تھا کہ وہ وینس والوں کی دست بُرد سے ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل کو محفوظ رکھنے میں وہ بہت معاون تھا،یہ واقعہ ۷۵۷ ھ کا ہے، اس کے دو سال بعد ۷۵۹ھ میں ارحان کا بیٹا سلیمان خان باز کے شکار میں گھوڑے سے گر کر فوت ہوا، سلیمان خان بڑا ہونہار بہادر اورعقلمند شہزادہ تھا،اس کے فوت ہونے کا ارخان کو سخت صدمہ ہوا،اگروہ زندہ رہتا تو ارخان کے بعد تخت نشین سلطنت ہوتا ،اس صمہ جان کاہ نے ارخان کو بہت مضمحل کیا اوروہ ۷۶۱ھ میں ۳۸ سال سلطنت کرنے کے بعد ۷۵ سال کی عمر میں فوت ہوا۔ ارخان نے اپنے باپ کی وصیت اور حکمتِ عملی پر خوب احتیاط کے ساتھ عمل کیا، اس نے اپنےباپ کی قائم کی ہوئی سلطنت کو وسعت دیکر یورپ کے ساحل تک پہنچادیا،ارخان کی تمام ترتوجہ یورپ کی جانب مائل تھی،اس کا ایک ثبوت یہ واقعہ بھی ہے کہ جب اس کے بیٹے سلیمان خان کا بروصہ کے قریب باز کے شکار میں گھوڑے سے گر کر انتقال ہوا تو اس نے سلیمان خان کو بروصہ میں دفن نہیں کیا؛بلکہ اس کی لاش کو دردانیا کے اس طرف ساحک یورپ میں جو سلیمان خان کا فتح کیا ہوا عثمانیہ سلطنت کا مقبوضہ تھا،لے کر دفن کیا، تاکہ ترکوں کو ساحل یورپ کے چھوڑنے اوروہاں سے پیچھے ہٹنے کا خیال پیدا نہ ہو۔