انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عمیرؓ بن ابی وقاصؓ نام ونسب عمیر نام،والد کا نام ابووقاص اور والدہ کا نام حمنہ بنت سفیان تھا، یہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فاتح ایران کے حقیقی بھائی تھے، پورا سلسلہ نسب یہ ہے: عمیر بن ابی وقاص بن وہیب ابن سفیان بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی القرشی۔ (اسد الغابہ تذکرہ عمیر بن ابی وقاصؓ) اسلام حضرت عمیرؓ کے برادرِاکبر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ان روشن ضمیر بزرگوں میں تھے جنہوں نے ابتداہی میں داعیِ اسلام ﷺ کو لبیک کہا تھا، اس زمانہ میں حضرت عمیر ؓ گونہایت کمسن تھے تاہم فطری سلامتِ طبع وخردِ حق شناس عمر کی قیدوبند سے آزاد ہوتی ہے، انہوں نے اس عہدِ طفولیت میں بھائی کا ساتھ دیا اور ساقیِ اسلامﷺ کے ایک ہی جام نے ان کو نشہ توحید سے مخمور کردیا۔ (اسد الغابہ تذکرہ عمیر بن ابی وقاصؓ) ہجرت ۱۴ برس کاسن تھا کہ عام بلاکشانِ اسلام کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے، آنحضرت ﷺ نے ان کی دل بستگی کے لیے حضرت سعد بن معاذ ؓ رئیسِ قبیلہ عبدالاشہل کے چھوٹے بھائی حضرت عمروبن معاذؓ سے بھائی چارہ کرادیا،یہ دونوں تقریباً ہم سن تھے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ۳ :۲۶) ۲ھ میں مجاہدین اسلام غزوۂ بدر کے خیال سے علم نبوی کے نیچے جمع ہوئے تو یہ بھی اس مجمع میں پہنچ گئے ان کے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے یہ دیکھ کرکہ وہ مضطر وبیقرار ادھر ادھر چھپتے پھرتے ہیں، پوچھا جان برادر یہ کیا ہے؟ بولے بھائی جان میں بھی اس جنگ میں شریک ہونا چاہتا ہوں ،شاید خدا شہادت نصیب کرے، لیکن خوف ہے کہ رسولِ خدا ﷺ مجھے چھوٹا سمجھ کر واپس فرمادیں گے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۱۰۶) آنحضرت ﷺ کے سامنے جب تمام جانثار یکے بعد یگرے معائنہ کے لیے پیش ہوئے تو حضرت عمیرؓ کا خوف درحقیقت نہایت صحیح ثابت ہوا،کیونکہ آپ نے ان کی صغیر سنی کا خیال کرکے فرمایا "تم واپس جاؤ" حضرت عمیرؓ یہ سن کر بے اختیار رونے لگے، اس طفلانہ گریہ وبکا کے ساتھ ان کے وفورجوش اورشوقِ شہادت نے حضور انور ﷺ کے دل پر خاص اثر کیا اورجنگ میں شریک ہونے کی اجازت مل گئی اورآنحضرت ﷺ نے خود اپنے دستِ مبارک سے ان کے تلوار باندھی۔ (مستدرک:۳/۱۸۸) شہادت حضرت عمیرؓ کی عمر اس وقت صرف ۱۶ سال کی تھی، اچھی طرح اسلحہ سے آراستہ ہونا بھی نہ جانتے تھے ،بھائی نے میان میں تلوار باندھ دی، اوروفورِ جوش نے کفار کے نرغہ میں گھسا دیا دیر تک شجاعانہ لڑتے رہے،بالآخر اسی حالت میں خورشید تمنا جلوہ گر ہوا، یعنی عمروبن عبدود کی تلوار نے شہادت کی آرزور پوری کردی۔ انا للہ ونا الیہ راجعون (مستدرک :۳/۱۸۸)