انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حسن بن صباح حسن بن صباح ملک شاہ بن الپ ارسلان سلجوقی کے وزیر اعظم نظام الملک طوسی کا ہم سبق رہ چکا تھا ،اُس نے نظام الملک کے ذریعہ دربارِ سلطانی میں رسوخ حاصل کرنےکی کوشش کی مگر پھر وہاں اپنا رہنا مناسب نہ سمجھ کر نظام الملک کے ایک رشتہ دار ابو مسلم قلعہ دار رے کی خدمت میں چلا آیا اوراُس کی مصاحبت میں داخل ہوکر اپنی سازشوں کا جال پھیلانا شروع کیا، اتفاقا ابو مسلم کو معلوم ہوگیا کہ حسن بن صبح کے پاس دولت عبیدیہ مصر کے جاسوس آتے جاتے ہیں، اُس نے حسن بن صباح سے اس کے متعلق استفسار کیا حسن بن صباح کو جب یہ معلوم ہوگیا کہ میری سازش کا راز افشاہوچکا ہے تو وہ وہاں سے چھپ کر فرار ہوگیا اور مستنصر عبیدی کے پاس مصر پہنچا مستنصر عبیدی نے حسن بن صباح کی خوب خاطر مدارات کی،حسن نے مستنصر کے ہاتھ پر بیعت کی،مستنصر نے حسن کو داعی الکبیر کا عہدہ عطا کرکے فارس وعراق کی طرف روانہ کیا کہ وہاں جاکر لوگوں کو میری امامت وخلافت کی دعوت دومستنصر سے دریافت کیا کہ آپ کے بعد میرا امام کون ہوگا؟مستنصر نے جواب دیا کہ میرا بیٹا نزار تمہارا امام ہوگا؛چنانچہ مستنصر نے نزار ہی کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا، مستنصر کی وفات کے بعد وزیر السلطنت اور مستنصر نے نزار ہی کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا، مستنصر کی وفات کے بعد وزیر السلطنت اورمستنصر کی بہن نے سازش کرکے ابوالقاسم کو تختِ سلطنت پر بٹھا دیا اوروہی مصر کا فرماں روا ہوا مگر حسن بن صباح نے اُس کی امامت کو تسلیم نہ کیا اور ترارہی کو مستحق امامت مانتا رہا،اسی لئے حسن بن صباح کی جماعت کو نزاریہ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے،حسن بن صباح مصر سے رخصت ہوکر ایشیائے کوچک اورموصل ہوتا ہوا خراسان پہنچا،یہاں علاقہ طالقان وقہستان کی حکومت پر جو گورنر مامور تھا،اُس نے اپنی طرف سے قلعہ الموت کی حکومت ایک علوی کو سپرد کررکھی تھی حسن بن صباح اُس علوی کے پاس پہنچا اُس نے حسن بن صباح کی بے حد تعظیم وتکریم کی اور اپنے پاس ٹھہرایا حسن بن صباح ایک عزیز ومکرم مہمان کی حیثیت اورایک عابد وزاہد باخدا انسان کی حالت میں عرصہ دراز تک قلعہ الموت(الموت میں الف اورلام دونوں مفتوح ہیں) میں مقیم رہ کر در پردہ اس قلعہ پر قبضہ کرنے کی تدبیروں میں مصروف رہا، اور جب اس کی تدبیریں مکمل ہوگئیں تو علوی کو قلعہ سے نکال کر خود قلعہ پر قابض ومتصرف ہوگیا، یہ زمانہ ملک شاہ سلجوقی کی حکومت کا تھا،ملک شاہ کے وزیر نظام الملک طوسی نے اس خبر کو سُن کر ایک فوج حسن بن صباح کی سرکوبی اورقلعہ الموت کے محاصرہ پر روانہ کی،حسن بن صباح نے اپنے گروہ کے بہت سے آدمیوں کو فراہم کرکے کافی مضبوطی کرلی تھی،لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا،ابھی یہ سلسلۂ جنگ جاری ہی تھا کہ حسن بن صباح نے باطنیہ کے ایک گروہ کو نظام الملک کے قتل پر مامور کیا؛چنانچہ اس گروہ نے موقعہ پاکر نظام الملک کو قتل کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ فوج جو نظام الملک نے بھیجی تھی واپس چلی گئی اس کامیابی کے بعد حسن بن صباح اوراُس کے دوستوں کے حوصلے بہت بڑھ گئے اوربلا تامل ارد گرد کے علاقے پر قبضہ جماناشروع کردیا، انہیں ایام میں ایک شخص منور نامی جو سامانی خاندان سے تھا، قہستان کا گورنر یا ناظم تھا،اُس کی ایک سلجوتی وائسرائے سے مخالفت ہوگئی، دونوں کی نزاع نے یہاں تک طول کھینچا کہ منور نے حسن بن صباح سے امداد طلب کی حسن بن صباح نے بلا تامل اپنی فوج بھیج کر قہستان پر قبضہ کرلیا،اسی طرح رفتہ رفتہ حسن بن صباح کی طاقت و شوکت نے ترقی اختیار کی،اُدھر ملک شاہ کی وفات کے بعد سلجوقی سرداروں میں خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوگیا،بجائے اس کے کہ وہ حسن بن صباح کا استیصال کرتے اپنی خانہ جنگیوں میں اُس سے مدد طلب کرنے لگے،اس طرح حسن بن صباح کی حکومت وسلطنت کا سکہ جم گیا،سلطان برکیاروق نے اپنے بھائی محمد کے مقابلہ میں ان باطینوں سے امداد طلب کرکے اور بھی زیادہ ان کی عظمت کو بڑھادیا،مگر چند ہی روز کے بعد سلطان برکیارق کو ان باطینوں کے قتل عام کا حکم دینا پڑا۔ اُدھر احمد بن عطاش نے قلعہ شاہ پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کرلی تھی،آخر سلجوقیوں نے احمد بن عطاش اوراُس کے ساتھیوں کو ہر طرف سے محاصرہ کرکے مجبور کردیا، بہت سے باطینوں نےسلطان سلجوقی سے اس شرط پر امان کی درخواست کی کہ ہم سب حسن بن صباح کے پاس قلعہ الموت میں چلے جائیں گے اور نواح اصفہان کو بالکل خالی کردیں گے ؛چنانچہ اُن کو اس شرط پر حسن بن صباح کے پاس جانے کی اجازت دی گئی،احمد بن عطاش کو گرفتار کرکے قتل کیا گیا اوراُس کی کھال میں بُھس بھرا گیا اُس کی بیوی نے خود کشی کرلی،اس طرح باطینہ اصفہان کا تو خاتمہ ہوگیا مگر حسن بن صباح کی طاقت وجمعیت میں خوب اضافہ ہوگیا،کیونکہ اب وہی تمام باطینیوں کا مرکز اورقبلۂ توجہ رہ گیا تھا،باطنیوں کے ہزار ہا افراد بحیثیت داعی شام و عراق و فارس میں پھیلے ہوئے تھے ،کہیں کہیں علانیہ بھی انہوں نے اپنی دعوت کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا، بعض قلعوں پر بھی وہ قابض ومتصرف ہوگئے تھے،مگر رفتہ رفتہ مسلمانوں نے ہر طرف سے اُن پر حملہ آور ہوکر تمام قلعے اُن سے چھین لئے اور حکومت وقوت اُن سے جُدا کرلی لیکن الموت اوراس کے نواح پر حسن بن صباح کا قبضہ برابر جاری رہا حسن بن صباح کا صحیح نام ونسب اس طرح ہے حسن بن علی بن احمد بن جعفر بن حسن بن صباح الحمیری سلجوقیوں کی خانہ جنگی اورضعف واختلال نے باطنیوں کی حکومت کو مستقل وپائدار ہونے کا موقعہ دیا،جس کو بعد میں فدائیوں کی سلطنت ،سلطنتِ اسمعیلیہ،سلطنت حشاشین وغیرہ ناموں سے یاد کیا گیا،حسن بن صباح جس طرح اس سلطنت وحکومت کا بانی تھا، اسی طرح وہ اپنے فرقہ اورمذہب کا بھی بانی سمجھا گیا، اُس نے عام باطنیوں کے خلاف بعض نئے نئے طریقے اعمال وعبادات میں ایجاد کئے،اُس کے تمام مریدین اُس کو سیدنا کہتے تھے، عام طور پر وہ شیخ الجبل کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، وہ ۳۵سال قلعہ الموت پر قابض و حکمراں رہا، اس عرصہ میں ایک دن کے لئے بھی اس قلعہ سے باہر نہیں نکلا۔