انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنتیوں کواللہ کا سلام جنت کی تمام نعمتوں میں سب سے زیادہ مزہ اللہ تعالیٰ کی زیارت میں آئیگا: حدیث: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بَيْنَا أَهْلُ الْجَنَّةِ فِي نَعِيمِهِمْ إِذْسَطَعَ لَهُمْ نُورٌ فَرَفَعُوا رُءُوسَهُمْ فَإِذَا الرَّبُّ قَدْ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ مِنْ فَوْقِهِمْ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَاأَهْلَ الْجَنَّةِ قَالَ وَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ ﴿ سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ﴾ قَالَ فَيَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ فَلَايَلْتَفِتُونَ إِلَى شَيْءٍ مِنْ النَّعِيمِ مَادَامُوا يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ حَتَّى يَحْتَجِبَ عَنْهُمْ وَيَبْقَى نُورُهُ وَبَرَكَتُهُ عَلَيْهِمْ فِي دِيَارِهِمْ۔ (ابن ماجہ، كِتَاب الْمُقَدِّمَةِ،بَاب فِيمَا أَنْكَرَتْ الْجَهْمِيَّةُ،حدیث نمبر:۱۸۰، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جنتی حضرات اپنی اپنی نعمتوں میں مزے لے رہے ہوں گے کہ اچانک ان پرایک نور چمکے گا اور وہ اپنے سراٹھائیں گے تواللہ تبارک وتعالیٰ کودیکھیں گے کہ اس نے اوپر سے ان پرجھانکا ہوگا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَاأَهْلَ الْجَنَّةِ (اے جنت والو! السلام علیکم) اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ عزوجل کا یہ ارشاد ہے سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ ان کوپروردگار مہربان کی طرف سے سلام فرمایا جائے گا، حضور صلی اللہ عیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف دیکھیں گے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھیں گے اور جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھتے رہیں گے جنت کی کسی بھی نعمت کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے؛ حتی کہ اللہ تعالیٰ ان سے پردہ میں چلے جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کا نور اور برکت (کا اثر) ان پران کے محلات میں باقی رہے گا (اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ظاہر ہونا اور جھانک کردیکھنا مکان اور حلول سے پاک ہے)۔ اللہ کی زیارت میں کوئی شبہ نہیں: حدیث: حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودھویں کے چاند کی طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا: أَمَاإِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا الْقَمَرَ لَاتُضَامُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ فَإِنْ اسْتَطَعْتُمْ عَلَی أَنْ لَاتُغْلَبُوا عَلَى صَلَاةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا فَافْعَلُوْا ثُمَّ قَرَأَ جَرِیْر وَسبح بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وََقَبْلَ غُرُوْبِہَا يَعْنِي الْعَصْرَ وَالْفَجْرَ۔ (بخاری:۲/۵۲، فتح الباری) ترجمہ: سن لو! تم عنقریب (قیامت اور جنت میں) اپنے رب کی زیارت اسی طرح سے کروگے جیسے اس چودہویں کے چاند کودیکھ رہے ہو اور اس کے نظر آنے میں تم کوئی دقت اور تکلیف محسوس نہیں کرتے پس اگرتم ہمت کرو کہ تم نماز فجر اور نمازِ عصر کونہ چھوٹنے دوتو اس کی پابندی کرلو۔ پھرحضرت جریر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا (اور تم سورج طلوع ہونے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے اپے رب کی حمد بیان کرو) یعنی فجر اور عصر کی نماز ادا کرو۔ دعائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم برائے لذت زیارتِ خداوندی: حدیث: حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: اللهمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بَرْدَ الْعَيْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَلَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ وَالشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ في غَيْرِ ضَرَّاءَ مُضِرَّةٍ وَلاَفِتْنَةٍ مُضِلةٍ۔ (البدورالسافرہ:۲۲۳۴۔ مسنداحمد:۵/۱۹۱) ترجمہ: اے اللہ! میں آپ سے وفات کے بعد سکون کی زندگی کی دعا کرتا ہوں اور آپ کے چہرہ اقدس کی طرف نگاہ کرنے کی لذت کا سوال کرتا ہوں اور آپ سے ملاقات کے شوق کی دعا کرتا ہوں بغیر کسی دکھ تکلیف کے اور بے راہ کرنے والے فتنہ کے۔ زیارت خداوندی مرنے کے بعد ہی ہوگی: حدیث: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے دجال کا ذکر کیا پھرفرمایا: وَاعْلَمُوْا إنَّكُمْ لَنْ تَرَوْا رَبَّكُمْ حَتَّى تَمُوتُوا تم جان لو، تم اس وقت تک اپنے پروردگار کی زیارت نہیں کرسکتے جب تک کہ تم وفات نہ پالو۔ (ابونعیم، لالکائی، البدورالسافرہ:۲۲۳۶۳) قریب سے کون زیارت کریں گے: حدیث: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَرَوْنَ رَبَّهُمْ تَعَالَى فِي كُلِّ جُمُعَةٍ فِي رِمَالِ الْكَافُورِ وَأَقْرَبُهُمْ مِنْهُ مَجْلِسًا أَسْرَعُهُمْ إلَيْهِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَأَبْكَرُهُمْ غُدُوًّا۔ (الآجری، البدورالسافرہ:۲۲۳۸، مرفوعاً) ترجمہ:جنت والے کافور کے ٹیلوں پر بیٹھ کرہرجمعہ اپنے رب کی زیارت کریں گے، ان میں سب سے زیادہ قریب سے (زیارت کرنے) والا وہ شخص ہوگا جوجمعہ کے دن جلدی جائے گا اور صبح کوجلدی اُٹھتا ہوگا۔ اعلیٰ درجہ کا جنتی اللہ تعالیٰ کی صبح وشام زیارت کریگا: حدیث: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً لَمَنْ يَنْظُرُ إِلَى جِنَانِهِ وَأَزْوَاجِهِ وَنَعِيمِهِ وَخَدَمِهِ وَسُرُرِهِ مَسِيرَةَ أَلْفِ سَنَةٍ وَأَكْرَمَهُمْ عَلَى اللَّهِ مَنْ يَنْظُرُ إِلَى وَجْهِهِ غَدْوَةً وَعَشِيَّةً ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ﴿ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾ ۔ (ترمذی، كِتَاب صِفَةِ الْجَنَّةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مِنْهُ ،حدیث نمبر:۲۴۷۶، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:سب سے کم درجہ کا جنتی وہ ہوگا جواپنی جنتوں، بیویوں، نعمتوں، خدمتگاروں اور تختوں کوایک ہزار سال کی مسافت تک دیکھتا ہوگا اور ان میں سے زیادہ مرتب کا شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہوگا جواللہ تعالیٰ کے چہرہ اقدس کی صبح شام زیارت کریگا؛ پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾ اس دن (قیامت) میں اور جنت میں بہت سے چہرے تروتازہ ہشاش بشاش ہوں گے اپنے پروردگار کی طرف دیکھتے ہوں گے۔ ادنی جنتی کا اللہ تعالیٰ کی زیارت کرنے کا حال: أسفل أهل الجنة درجة، رجل يدخل من باب الجنة، فيتلقاه غلمانه، فيقولون: مرحباً بسيدنا، قد اذن لك أن تزورنا، فتُمد له الزرابي أربعين سنة، ثم ينظر عن يمينه وشماله، فيقول: لمن ماهنا؟ فيقال: لك، حتى إذاانتهى رُفعت له ياقوتة حمراء، وَزبرجدة خضراء، لَهَاسَبْعُوْنَ شِعباً، فِيْ كُلِّ شِعْبٍ سَبْعُوْنَ غُرفة، فِيْ كُلِّ غرفة سبعون باباً، فيُقال: اقرأ وارق، فيرقى حتى إذاانتهى إلى سرير ملكه اتكأ عليه، وسعته ميلُ في ميل، فيُسعى إليه صحف من ذهب، ليس فيها صحفة فيها لَوْن مِنْ لون أختها، يجد لذة آخرها كما يجد لذة أولها، ثم يُسعى إليه ألوان الأشربة، فيشرب منهامااشتهى، ثم يقول الغلمان: اتركوه وأزواجه، فينطلق الغلمان، ثم ينظر، فإذا حوراء من الحور العين جالسة على سرير ملكها، وَعليها سبعون حلة، ليس منها حلة من لون صاحبتها، فيرى مخ ساقها من وراء اللحم والعظم، والكسوة فوق ذلك سنة، لايصرف بصره عنها، ثم يرفع بصره إلى الغرفة، فإذا أخرى أجمل منها، فتقول: أماآن لك أن يكون لنا منك نصيب؟ فيرقى إليها أربعين سنة، لايصرف بصره عنها. ثم إذابلغ النعيم منهم كل مبلغ، وظنوا أنہ لانعيم أفضل منه، تجلى لهم الرب تبارك وَتَعَالی فينظرون إلى وجهه الرحمن، فيقول ياأهل الجنة، هللوني، فيتجاوبون بتهليل الرحمن عزوجل، ثم يقول: ياداود، قم فمجدني كماكنت تمجدني في الدنيا، فيمجد داود ربه عزوجل۔ (ابن ابی الدنیا، دارقطنی، البدورالسافرہ:۲۲۴۲) ترجمہ: ادنی درجہ کا جنتی وہ شخص ہوگا جب وہ جنت کے دروازے سے داخل ہوگا تواس کے غلمان (خدام) اس کا استقبال کریں گے اور کہیں گے ہمارے آقا کوخوش آمدید! آپ کواجازت عطاء ہوگئی توآپ ہم سے ملاقات فرمائیں؛ پھراس کے لیے چالیس سال کے سفر کے برابر قالین بچھائے جائیں گے؛ پھروہ اپنے دائیں بائیں دیکھے گا اور پوچھے گا یہ سب کس کے لیے ہے؟ توکہا جائے گا: یہ سب آپ کے لیے ہے؛ حتی کہ یہ جب اپنی منزل تک پہنچے گا تواس کے سامنے یاقوت احمر اور زبرجد، اخضر کوپیش کیا جائے گا جس کے سترحصے ہوں گے اور ہرحصہ میں ستربالاخانے ہوں گے اور ہربالاخانہ کے ستردروازے ہوں گے، کہا جائے گا تلاوت کرتے جاؤ اور بالاخانوں میں چڑھتے جاؤ؛ چنانچہ وہ چڑھے گا حتی کہ اپنی سلطنت کے تخت پربراجمان ہوگا اور اس کو ٹیک لگائے گا اس تخت کی لمبائی چوڑائی ایک ایک میل ہوگی؛ پھراس کے سامنے فوراً سونے کے برتن پیش ہوں گے ان میں سے کوئی برتن اپنے دوسرے برتن کی طرح کا کھانا نہیں رکھتا ہوگا ان میں سے اخیروالے کی لذت بھی اس کوویسی ہی معلوم ہوگی جیسی کہ پہلے والے کی معلوم ہوگی۔ پھراس کے سامنے فوراً سونے کے برتن پیش ہوں گے ان میں سے کوئی برتن اپنے دوسرے برتن کی طرح کا کھانا نہیں رکھتا ہوگا ان میں سے اخیرواے کی لذت بھی اس کوویسی ہی معلوم ہوگی جیسی کہ پہلے والے کی معلوم ہوگی؛ پھراس کے سامنے پینے کی مختلف چیزیں پیش کی جائیں گے اور ان سے اپنے حسب خواہش جتنا چاہے گا نوش کریگا؛ پھرخدام کہیں گے کہ اس کواس کی بیویوں کے لیے چھوڑدو؛ چنانچہ خدام توچلے جائیں گے اور فوراً حوروں میں سے ایک حور اپنے تخت شاہی پربیٹھی نظر آئے گی، اس پرسترپوشاکیں ہوں گی ہرپوشک کارنگ دوسری سے جدا ہوگا، جنتی اس کی پنڈلی کے گودا کوبھی گوشت، ہڈی اور ملبوسات کے اندر سے ایک سال کے عرصہ تک (حسن ولذت اور نفاست کی وجہ سے) دیکھتا رہے گا؛ پھراس حور کی طرف نظر کریگا تووہ کہے گی میں ان حوروں میں سے ہوں جوآپ کے لیے تیار کی گئی ہیں؛ پھروہ جنتی اس حور کی طرف چالیس (سال) کے عرصہ تک دیکھتا رہے گا اس سے نظر نہیں ہٹائے گا؛ پھراپنی نگاہ دوسرے بالاخاہ کی طرف اٹھائے گا تواس میں پہلی سے بھی زیادہ خوبصورت حوبر نظر آئے گی وہ کہے گی آپ کے نزدیک ہمارے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم آپ سے کچھ نصیب پائیں؟ تووہ اس کے پاس چالیس سال تک اس حالت میں پہنچے گا کہ اس سے اپنی نگاہ کونہیں پھیرتا ہوگا؛ پھرجب اس تک ہرطرح کی نعمتوں کی فراوانی ہوگی اور وہ جنتی سمجھیں گے کہ اب ان سے افضل نعمت کوئی نہیں رہی تواس وقت رب تعالیٰ تجلی فرمائیں گے اور وہ اللہ رحمن کے چہرہ اقدس کی طرف نگاہ کریں گے تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے جنت کے مکینو! میرا کلمہ طیبہ پڑھو تووہ رحمن عزوجل کو لَاإِلَہَ إِلَّااللہ کےساتھ جواب دیں گے؛ پھراللہ تعالیٰ فرمائیں گے: اے داؤد! (علیہ السلام) آپ میری ویسی ہی بزرگی بیان کریں جس طرح سے دنیا میں کیا کرتے تھے توحضرت داؤد علیہ السلام اپنے رب عزوجل کی بزرگی بیان فرمائیں گے۔ زیارت کے وقت انبیاء صدیقین اور شہداء کا اعزاز: حدیث: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاءني جبريل عليه السلام، وقال: إن في الجنة واديا أفيح من مسك أبيض، فإذا كان الجمعة، نزل الرب تعالى من عليين على كرسيه، ثم حف الكرسي منابر من نور، فجاء النبيون حتى يجلسوا عليها، ثم حف تلك المنابر مكللة من جوهر فجاء الصديقون، والشهداء فجلسوا عليها، وجاء أهل الغرف حتى يجلسوا على الكثيب، ثم يتجلى لهم، فيقول: أناالذي صدقتكم وعدي، وأتممت عليكم نعمتي، وهذا محل كرامتي، فاسألوني فيسألونه حتى تنتهي بهم رغبتهم، ثم يفتح لهم عما لم ترعين، ولم يخطر على قلب بشر، إلى قدر منصرفهم من الجمعة، فهي ياقوتة حمراء، وزبرجدة خضراء مطردة، فيها أنهارها، وفيها ثمارها، وأزواجها، وخدمها، فليسوا أشوق منهم إلى يوم الجمعة ليزدادوا نظرا إلى ربهم عزوجل۔ ترجمہ: میرے پاس جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا: جنت میں ایک وادی ہے جوسفید کستوری کوپھیلاتی ہے، جب جمعہ کا دن ہوگا تواللہ تعالیٰ مقام علیین سے اپنی کرسی پرنازلہوں گے؛ پھراس کرسی کے گردنور کے ممبر نصب ہوں گے اور انبیاء کرام تشریف لاکران پربیٹھیں گے؛ پھران مبروں کو (سونے کی کرسیاں) گھیرے میں لیں گی جن پرجوہر کے تاج سجائے گئے ہوں گے حضرات صدیقین اور شہداء تشریف لاکر ان کوزینت بخشیں گے؛ پھربالاخانوں والے حضرات تشریف لائیں گے اور (کستوری کے) ٹیلوں پرتشریف رکھیں گے، اب ان کے سامنے (اللہ تعالیٰ) رونق افروز ہوں گے اور ارشاد فرمائیں گے میں ہوں وہ ذات جس نے تمہارے ساتھ اپنا وعدہ پورا کیا اور تم پراپنی نعمت کوپورا فرمایا؛ یہ میری بزرگی کا مقام ہے تم مجھ سے مانگو، چنانچہ (یہ تمام حضرات) اللہ تعالیٰ سے اتنا طلب کریں گے کہ ان کی رغبت اور شوق پورا ہوجائے گا، اس کے بعد ان حضرات کے لیے (انعامات کے ایسے دروازے کھلیں گے) جن کونہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال گذرا ان کویہ نعمتیں آئندہ کے جمعہ تک کے لیے عنایت ہوں گی (پھراللہ تبارک وتعالیٰ) اپنی کرسی پرصعود فرمائیں گے اس کے ساتھ شہداء اور صدیق بھی تشریف لے جائیں گے، میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ پھربالاخانوں والے اپنے بالاخانوں میں (جوایک سفید موتی سے بنے ہوں گے نہ ان میں کوئی جوڑ ہوگا نہ پھٹن ہوگی، لوٹ جائیں گے یا) یہ یاقوت احمر سے بنے ہوں گے اور زبرجد اخضر سے بنے ہوں گے (انہیں میں بالاخانے بھی ہوں گے اور ان کے دروازے بھی ہوں گے) ان میں نہریں چلتی ہوں گی اور ان کے (درختوں کے) پھل لٹکتے ہوں گے، ان میں ان کی بیویاں ہوں گی خدمتگار ہوں گے؛ مگرسب سے زیادہ ان کوجمعہ کے دن کے آنے کی طلب ہوگی (تاکہ ان کی عزت اور مرتبہ میں اور اضافہ ہو) اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی زیارت کا (بھی) اضافہ ہو (اسی لیے اس جمعہ کے دن کویوم مزید کہا گیا ہے)۔ اللہ تعالیٰ کی جنتیوں سے گفتگو: حدیث: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ لِأَهْلِ الْجَنَّةِ يَاأَهْلَ الْجَنَّةِ فَيَقُولُونَ لَبَّيْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ فَيَقُولُ هَلْ رَضِيتُمْ فَيَقُولُونَ وَمَالَنَا لَانَرْضَى يَارَبِّ وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَالَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ فَيَقُولُ أَلَاأُعْطِيكُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ فَيَقُولُونَ يَارَبِّ وَأَيُّ شَيْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ فَيَقُولُ أُحِلُّ عَلَيْكُمْ رِضْوَانِي فَلَاأَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا۔ (بخاری، كِتَاب التَّوْحِيدِ،بَاب كَلَامِ الرَّبِّ مَعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ،حدیث نمبر:۶۹۶۴، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اللہ تبارک وتعالیٰ (جنت والوں کوپکار کر) فرمائیں گے، اے جنت والو! تووہ عرض کریں گے ہم حاضر ہیں ہمارے پروردگار اور سعادت آپ کی طرف سے ہے اور خیر آپ کے قبضہ میں ہے، وہ فرمائے گا: کیا تم راضی ہوگئے؟ تووہ عرض کریں گے ہمیں کیا ہوگیا ہم کیوں راضی نہ ہوں گے؟ جب کہ آپ نے ہمیں اتنا نوازا ہے کہ اپنی مخلوق میں سے اتنا کسی کونہیں نوازا تووہ فرمائے گا: میں تمھیں اس سے افضل نعمت عطاء نہ کروں؟ تووہ عرض کریں گے: اے رب! اس سے افضل کونسی نعمت ہے؟ تووہ فرمائے گا میں آپ سب حضرات کواپنی رضا اور خوشنودی عطاء کرتا ہوں اب کے بعد (تم پر) کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔ جنتیوں پرتجلی فرماکر اللہ تعالیٰ کا مسکرانا: حدیث: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ اللهَ يَتَجلَّى لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَضْحَكَ۔ (صحیح ابن حبان:۷۳۹۷) ترجمہ:اللہ تعالیٰ (جنت میں) مؤمنین کی طرف مسکراتے ہوئے تجلی فرمائیں گے۔ فائدہ: اللہ تعالیٰ کا مسکرانے کا معنی علم عقائد کے مطابق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ جنت پراپنے فضل، نعمت اظہار شرافت کا نزول فرمائیں گے۔ (مشکل الحدیث لابن فورک:۴۰) کامل نعمت کیا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں (اللہ تعالیٰ کی) کامل نعمت جنت میں داخل ہونا اور جنت میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کرنا ہے۔ (لالکائی، البدورالسافرہ:۲۲۴۶۔ حادی الارواح:۴۰۹) اللہ تعالیٰ کی زیارت کس طرح کی جنت میں ہوگی: حدیث: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ إِذَاأَسْکَنَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ، بَعْثَ الروح الامین الی أَہْلُ الْجَنَّۃِ، فَقَالَ: یَاأہْلُ الْجَنَّۃِ، ان ربکم یَقْرَئکم السَّلَام وَیَأمُرکُمْ أن تَزَوّروہ إِلٰی فَناء الْجَنَّۃِ، وَھُوَابطح الْجَنَّۃِ ترابہ المسک، وحصاہ الدر وَالْیَاقُوْت، وَشَجَرہ الذہب الرطب، وَوَرَقَہ الزبرجد، فَیَخْرج أہْل الجَنَّہ مستبشرین مسرورین غانمین سالمین، ثم یحل بِہِمْ کَرَامۃ اللہ تَعَالٰی وَالنَّظَر إِلَی وَجھْہِ، وَھُوَمَوْعذ اللہ انجزلَہُمْ، فَعِنْدَ ذٰلِکَ یَنْظُرُوْنل إِلَی وَجْہِ رب العالمین، فَیَقُوْلُوْنَ: سُبْحَانَکَ مَاعَبْدَنَاکَ حق عبَادتکَ، فَیَقُوْلُ: کَرَامَتِیْ امکنتکم جَوَارِیْ وَاسکنتکم دَارِی۔ (ترغیب والترہیب، امام اصبہانی، البدورالسافرہ:۲۲۴۷۔ مسنداحمد:۴/۱۱،۱۲۔ ابن ماجہ:۱۸۰) ترجمہ: بلاشبہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ جنت والوں کوجنت میں اور دوزخ والوں کودوزخ میں داخل کرچکیں گے توحضرت جبریل علیہ السلام کو جنتی حضرات کے پاس بھیجیں گے توحضرت حبریل (پکار کر) فرمائیں گے، اے جنت والو! آپ کا رب آپ کوسلام فرماتا ہے اور آپ کوحکم دیتا ہے کہ تم جنت کے میدان میں اس کی زیارت کونکلو، یہ میدان جنت کا ہموار حصہ ہوگا اس کی مٹی مشک کی ہوگی اور کنکر درویاقوت کے ہوں گے اور درخت سرسبز سونے کے ہوں گے جس کے پتے زبرجد کے ہں گے؛ چنانچہ جنت والے حضرات خوشی اور سرور کے ساتھ سلامتی اور غنیمت میں نکلیں گے، ان کواللہ تعالیٰ کی شان وشوکت اور زیارت چہرہ اقدس کے ساتھ سرخروکیا جائے گا؛ یہی اللہ تعالیٰ کے وعدہ کا مقام ہوگا جس کواللہ تعالیٰ پورا فرمائیں گے، اس وقت یہ رب العالمین کے چہرہ اقدس کی زیارت سے لطف اندوز ہوں گے اور کہیں گے آپ کی ذات پاک ہے ہم نے آپ کی عبادت اس طرح سے نہیں کی جس طرح سے آپ کی عبادت کا حق تھا تواللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے میری شان اور عظمت کے لائق یہ ہے کہ میں نے تمھیں اپنے قریب جگہ دی اور اپنے گھر میں رہائش عطاء کی۔ حضرت داؤد کی خوبصورت آواز، زیارت خداوندی اور مائدۃ الخلد حدیث: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں (کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا): إِذَاسَكَنَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّۃ، أَتَاهُمْ مَلَكٌ فَيَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَی يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَزُورُوهُ فَيَجْتَمِعُوْنَ، فَيَأْمُرُ اللَّهُ تَعَالَى دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ لِيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّسْبِيحِ، وَالتَّهْلِيلِ، ثُمَّ یُوضَعُ مَائِدَةُ الْخُلْدِ، قَالَ: زَاوِيَةٌ مِنْ زَوَايَاهَا أَوْسَعُ مِمَّابَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، فَيَطْعَمُونَ، ثُمَّ يُسْقَوْنَ، ثُمَّ يُكْسَوْنَ، فَيَقُولُونَ: لَمْ يَبْقَ إِلَّاالنَّظَرُ فِي وَجْهِ رَبِّنَا عَزَّوَجَلَّ، فَیَتَجَلَّی لَهُمْ فَيَخِرُّونَ سُجَّدًا فَيُقَالُ لَهُمْ: لَسْتُمْ فِي دَارِعَمَلٍ، إِنَّمَاأَنْتُمْ فِي دَارِ جَزَاءٍ۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم اصبہانی:۳۹۷۔ البدورالسافرہ:۲۲۴۷) ترجمہ:جب جنتی جنت میں سکونت اختیار کرلیں گے توان کے پاس ایک فرشتہ آکر کہے گا اللہ تعالیٰ آپ حضرات کوحکم دے رہے ہیں کہ تم لوگ اس کی زیارت کرو جب سب حضرات زیارت کے لیے جمع ہوجائیں گے تواللہ تعالیٰ حضرت داؤد علیہ السلام کو حکم فرمائیں گے کہ وہ بلند آواز سے تسبیح وتہلیل ادا کریں؛ پھرمائدۃ الخلد کوبچھایا جائے گا، صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ! مائدۃ الخلد کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: اس کے زاویوں میں سے ایک زاویہ (کنارہ) مشرق ومغرب کے درمیانی حصہ سے بھی زیادہ وسیع ہوگا یہ جنتی اس سے کھائیں گے پھرپئیں گے پھرلباس پہنیں گے پھرکہیں گے اب کوئی بات باقی نہیں صرف اللہ عزوجل کے رُخ زیبا کی زیارت ہی رہ گئی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے سامنے تجلی فرمائیں گے توجنتی سجدہ میں گرپڑیں گے؛ مگران سے کہا جائے گا تم عمل کرنے کی جگہ نہیں رہتے ہو؛ بلکہ انعام واکرام کی جگہ میں رہ رہے ہو (اس لیے سجدہ سے سراٹھالو اور جنت کی نعمتو ں میں مسرور ہو)۔ فائدہ: تسبیح اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کرنے کوکہتے ہیں جب کہ تہلیل لَاإِلَہَ إِلَّااللہ کہنے کوکہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کوسب مسلمان دیکھیں گے: حدیث: حضرت ابورزین (لقیط رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا یارسول اللہ کیا ہم سب اپنے رب تعالیٰ کوقیامت کے دن انفرادی طور پردیکھیں گے؟ توآپ نے ارشاد فرمایا: ہاں! میں نے عرض کیا: اس کی کیا علامت ہوگی؟ آپ نے ارشاد فرمایا: کیا تم میں سے ہرایک انفرادی طور پرچاند کونہیں دیکھتا؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ توآپ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ (تواس چاند سے) بہت زیادہ عظمت والے ہیں۔ (البدورالسافرہ:۲۲۴۸۔ مسنداحمد:۴/۱۱) زیارت میں ایک انعام یہ ہوگا: حدیث: حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ لَيَنْظُرُونَ إلَى رَبِّهِمْ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ عَلَى كَثِيبٍ مِنْ كَافُورٍ وَلَایری طَرْفَاہ، وَفِیْہِ نَہْرجَارٌ حَافَتَاہ الْمسک، عَلَیْہِ جَوَارِ یَقْرأن الْقُرْآن بأَحْسَنِ أَصْوَات، مَاسَمِعَہَا الاولون وَالْآخِرُوْنَ، فَإِذَا أَنْصَرَفُوْا إِلَی مَنَازِلَہُمْ اخذ کُل رجل بید مَنْ یَشَاء مِنْہُنَّ، ثُمَّ یمر عَلَی قَنَاطِیْرِ مِنْ لُؤْلُؤ الی مَنَازِلَہُمْ، فَلَوْلَا أَن اللہَ تَعَالٰی یَھْدِیْہِمْ إِلَی مَنَازِلَہُمْ مَااھتَدُوْا إِلَیْہَا، لمایحدث اللہ لَہُمْ فِیْ کُلِّ جُمُعَۃٍ۔ (یحیی بن سلام، البدورالسافرہ:۲۲۵۱) ترجمہ: جنتی حضرات کافور کے ٹیلوں پر جس کے دونوں کنارے نظر نہ آئیں گے بیٹھ کرہرجمعہ اللہ تعالیٰ کی زیارت کیا کریں گے کافور کے اس ٹیلہ پرایک نہر جاری ہوگی جس کے دونوں کنارے مشک کے ہوں گے اس پرلڑکیاں ہوں گی جونہایت خوبصورت آواز میں تلاوت قرآن کریں گی جس کونہ اگلے لوگوں نے سنا ہے نہ پچھلے لوگ سنیں گے، جب یہ حضرات اپنے محلات کی طرف واپس جانے لگیں گے توان میں سے ہرشخص ان لڑکیوں میں سے جس کوچاہے گا اس کے ہاتھ سے پکڑ لے جائے گا؛ پھریہ اپنے گھروں میں جانے کے لیے موتیوں کے انباروں سے گذریں گے؛ اگراللہ تعالیٰ ان کوان کے گھروں تک پہنچنے کی ہدایت نہ کرے تووہ ان تک کبھی نہ پہنچ سکیں یہ ان نعمتوں کی وجہ سے ہوگا جوان کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہرجمعہ کوتیار کی ہوں گی۔ زیارت کی شان وشوکت اور انعامات کی بھرمار: امام محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ یُقَالُ لَہَا طُوْبَیٰ، يَسِيرُ الرَّاكِبُ الْجَوَادُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عام، ورقہا برود خضر، وزھرھا رباط صفر، وافنانہا سندس واستبرق، وثمرہا حلل وصمغہا زنجبیل وعسل، وبطحاؤہا یاقوت احمر وزمرد اخضر، وترابہا مسک وعنبر وکافور اصفر، وحشیشہا زعفران مولع، والألنجوج یتأججان من غیر وقود، یتفجر من اصلہا السلسبیل والمعین والرحیق، واصلہا مجلس من مجالس اہل الجنۃ، یألفون ومتحدث لجمعہم، فبینماہم فی ظلہا یتحدثون اذ جاءتہم الملائکۃ یقودون بنجائب جبلت من الیاقوت، ثم ینفخ فیہا الروح مزمومۃ بسلاسل من ذہب کأن وجوہہا المصابیح نضارۃ وحسنا، وبرہاخز احمر، ومرعزی ابیض، مختلطان لم ینظر الناظرون الی مثلہا حسناً وبہاء، ذلل من غیرمہانۃ، یخبأ من غیر ریاضۃ علیہا رحال ألواحہا من الدر والیاقوت، معصفۃ باللؤلؤ والمرجان، صفائحہا من الذہب الأحمر، ملبسۃ بالعبقری والأرجوان، فأنا خوالہم تلک النجائب، ثم قالوا لہم: ان ربکم یقرئکم السلام، ویتزیدکم لتنظروا الیہ وینظر الیکم، وتکلموہ ویکلمکم، ویزیدکم من فضلہ ومن سعتہ فیتحول کل رجل منہم علی راحلتہ، ثم ینطلقون صفاً معتدلا، لایفوت منہم شئی شیئاً ولایفوت أذن ناقۃ أذن صاحبتہا، ولایمرون بشجرۃ من اشجار الجنۃ الاأتحفتہم بثمرہا، وزحلت لہم من طریقہم، کراہۃ ان تثلم صفہم وتفرق بین الرجل ورفیقہ، فلما رفعوا الی الجبار، تبارک وتعالیٰ اسفرلہم عن وجہہ الکریم، وتجلی لہم، عن عظمتہ العظیمۃ تحیتہم فیہا سلام، قالوا: ربنا انت السلام، ولک حق الجلال والاکرام، مرحباً بعبادی الذین حفظوا وصیتی، وراعوا عہدی، وخافونی بالغیب وکانوا منی مشفقین، قالوا: اماوعزتک، ماقدرناک حق قدرک، ولاادینا الیک حقک، فاذن لنا بالسجود، فقال لہم تبارک وتعالیٰ انی قد وضعت عنکم مؤنۃ العبادۃ، وارحت لکم ابدانکم، فطال ماأنصبتم الابدان واعنتم الوجوہ، فالآن افضتم الی روحی ورحمتی وکرامتی فاسألونی ماشئتم، فتمنوا علی اعطکم امانیکم، فانی لااجیزکم الیوم بقدر اعمالکم، ولکن بقدر رحمتی وکرامتی وطولی وجلالی فمایزالون فی الأمانی والمواہب والعطایا حتی ان المقصر منہم لیتمنی مثل جمیع الدنیا منذخلق اللہ تعالیٰ الی یوم افنائہا قال لہم ربہم لقد قصرتم فی امانیکم، فقد اوجبت لکم ماسالتم وتمنیتم وزدتکم، علی ماقصرت عنہ امانیکم، فانظروا الی مواہب ربکم الذی اعطاکم، فاذا بقباب من الرفیع الاعلی، وغرف مبنیۃ من الدر والمرجان، ابوابھا من ذہب وسررہا من یاقوت، وفرشہا من سندس واستبرق، ومنابرہا من نورینور من ابوابہا واعراضہا نور کشعاع الشمس واذا قصور شامخۃ فی اعلی علیین، من الیاقوت یزہر نورہا فلولاان سخر لالتمع الابصار، فماکان من تلک القصور من الیاقوت الابیض فہومفروش بالحریر الابیض، وماکان من الیاقوت الاحمر، فھومفروش بالعبقری الاحمر، ومافہا من الیاقوت الاخضر، فہومفروش بالسندس الأخضر، وماکان من الیاقوت الاصفر، فہومفروش بالارجوان الاصفر مموہ بالزمرد الاخضر والذہب الاحمر والفضۃ البیضاء وقواعدہا وارکانہا من الیاقوت وشرفہا قباب اللؤلؤ، وبروجہا غرف المرجان، فلما انصرفوا الی مااعطاہم ربہم، قربت لہم براذین من الیاقوت الابیض، منفوخ فیہ الروح، بجنبہا الولدان المخلدون، وبید کل منہم حکمۃ برذون ، واعنتہا من فضۃ بیضاء منظومۃ بالدر والیاقوت سرجہا سرد موضونۃ بالسندس والاستبرق، فانطلقت بہم البراذین وتزف بہم وتنظر فی ریاض الجنۃ، فلما انتہوا الی منازلہم وجدوا فیہا جمع ماتطول بہ ربہم علیہم، مماسألوہ، وتمنوا واذا علی باب کل قصر من تلک اگقصور اربعۃ جنان، جنتان ذواتا افنان، وجنتان مدہامتان، فلما تبوأوا منازلہم واستقروا قرارہم، قال لہم ربہم: ہل وجدتم ماوعدربکم حقاً؟ قالوا: نعم! رضینا فارض عنا، قال: برضائی عنکم حللتم داری، ونظرتم الی وجہی، وصافحتم ملائکتی، فہنیئا ہنیئا، عطاء غیرمجذوذ، لیس فیہ تنغیص ولاتصرید، فعند ذلک قالوا: الحمد للہ الذی اذہب عناالحزن ان ربنا لغفور شکور، الذی احلنا دارالمقامۃ من فضلۃ لایسمنا فیہا نصب ولایمسنا فیہا لغوب۔ (البدورالسافرہ:۲۲۵۲، واللفظ منہ۔ ابن ابی الدنیا:۵۳۔ صفۃ الجنۃ ابونعیم:۴۱۱۔ ترغیب وترہیب منذری:۴/۵۴۶) ترجمہ:جنت میں ایک درخت ہے جس کا نام طوبیٰ ہے اس کے سایہ میں تیز رفتار سوار سوسال تک چل سکتا ہےاس کے پتے سبز چادروں کے ہیں، اس کے پھول ملائم نفیس ہیں، اس کی ٹہنیاں باریک اور موٹے ریشم کی ہیں، ا س کے پھل پوشاکیں ہیں، اس کی گوند زنجبیل اور شہد ہے، اس کی وادی یاقوت احمر اور زمرد واخضر کی ہے، اس کی مٹی مشک، عنبر اور کافور اصفر کی ہے، اس کی گھاس چمکدار زعفران کی ہے، اس کی خوشبو کی لکڑی بغیر جلانے کے خوشبودیتی ہے، اس کی جڑ سے چشمہ سلسبیل، چشمہ معین اور چشمہ رحقی پھوٹتے ہیں، اس کی جڑ جنتیوں کی مجالس کی جگہ ہے جہاں وہ ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کریں گے اور ان کے جمع ہوکر گفتگو کرن کی جگہ ہے؛ چنانچہ وہ حضرات اسی طرح سے اس کے سایہ میں گفتگو میں مصروف ہوں گے کہ ان کے پاس فرشتے حاضر ہوں گے اور یاقوت سے پیدا شدہ (اونٹ کی) عمدہ سواریوں کوکھینچ کرلائیں گے؛ پھران (اونٹوں) میں روح پھونک دی جائے گی (اور وہ زندہ ہوجائیں گے) ا ن کی باگیں سونے کی کڑیوں کی ہوں گی چمک دمک اور حسن کی وجہ سے ان کے چہرے گویا کہ چمکنے والے ستارے ہوں گے، ان کی اون سرخ ریشم کی ہوگی اور حسن کی وجہ سے ان کے چہرے گویا کہ چمکنے والے ستارے ہوں گے، ان کی اون سرخ ریشم کی ہوگی اور حسن کی وجہ سے ان کے چہرے گویا کہ چمکنے والے ستارے ہوں گے، ان کی اون سرخ ریشم کی ہوگی اور چمکدار سفید پتھر کی طرح لتی جلتی ہوگی، دیکھنے والوں نے حسن ورعنائی میں ویسی (سواریاں) نہیں دیکھی ہوں گی ازخود تابعدار ہوں گی بغیر مشقت کے اطاعت کریں گی، ان پرکجاوے ہوں گے دراور یاقوت کے ان کولؤلؤ اور مرجان کے نگینے جڑے ہوں گے اس کے سرکی ہڈیاں سرخ سونے کی ہوں گی ان کوتعجب انگیز سرخ لباس پہنایا گیا ہوگا ایسی خوبصورت سواریاں (یہ فرشتے) ان کے لیے بٹھائیں گے اور ان سے کہیں گے آپ کا رب آپ کوسلام کہتا ہے اور تمہاری نعمتوں میں اضافہ کرنا چاہتا ہے؛ تاکہ تم اس کی زیارت کرسکو اور وہ تمہاری زیارت کرے تم اس سے گفت وشنید کرے اور وہ اپنے فضل کے ساتھ اور وسعت کے ساتھ تمہارے انعامات میں ترقی بخشے توان حضرات میں سے ہرشخص اپنی اپنی سواری پرسوار ہوجائے گا اور ایک سیدھی صف کی شکل میں چلیں گے۔ اونٹنی کا کان دوسری اونٹنی کے کان سے آگے نہ بڑھے گا، یہ جنت کے درختوں میں سے جس درخت کے پاس سے گذریں گے وہ ان کواپنے پھل کا تحفہ پیش کرے گا اور ان کے راستہ سے ہٹ جائیگا اس بات کوناپسند کرتے ہوئے کہ ان کی صف نہ ٹوٹ جائے اور کوئی دوست دوسرے دوست سے جدا نہ وجاے؛ پھرجب یہ اللہ جبار تبارک وتعالیٰ کے روبروپیش ہوں گے تووہ ان کے لیے رُخ زیبا کوظاہر کردیں گے اور ان کے سامنے تجلی فرمائیں گے اپنی عظیم عظمت کے ساتھ، ان کا تحفہ جنت میں سلام ہوگا چنانچہ یہ عرض کریں گے، اے ہمارے رب! آپ ہی سلام ہیں اور آپ ہی کے لیے جلال اور اکرام کا حق ہے، توان کا رب ان سے رمائے گا میں ہی سلام ہوں اور میری ہی طرف سے سلامتی ہے اور اجلال واکرام میرا ہی حق ہے خوش آمدید میرے بندو جنہوں نے میری وصیت کی حفاظت کی اور میرے عہد کی پاسداری کی اور پشت مجھ سے خوف کھایا اور مجھ سے ڈرتے رہے، وہ عرض کریں گے ہمیں آپ کی عزت کی قسم! جس طرح سے آپ کی قدر کا حق ہے ہم نے ویسی قدر نہیں کی اور نہ آپ کا حق ادا کیا آپ ہمیں سجدہ کرنے کی اجازت عطاء فرمائیں تواللہ تبارک وتعالیٰ ان سے فرمائیں گے میں نے تم سے عبادت کرنے کی مشقت ختم کردی ہے اور تمہارے بدنوں کوراحت میں کردیا ہے وہ زمانہ طویل ہوگیا ہے جوتم نے اپنے بدنوں کو (نماز وعبادت وغیرہ میں) کھڑے رکھا اور چہروں کوجھکایا اب تم میرے عیش میری رحمت اور شان وشوکت کی منزل تک پہنچ چکے ہو اب تم جوچاہو مجھ سے مانگو میرے آگے تمنا کرو میں تمہاری تمنائیں پوری کرونگا آج میں تمہارے نیک اعمال کے مطابق انعام واکرام سے نہیں نوازوں گا؛ بلکہ اپنی رحمت اور شان وشوکت اور وسعت وجلال کے مطابق عطاء کرونگا؛ چنانچہ جنتی حضرات خواہشات کرنے اور تحفہ جات اورعطیات کی وصولی میں مصروف رہیں گے حتی کہ ان میں سب سے کم درجہ کا جنتی جب سے اللہ تعالیٰ نے دنیا بنائی ہے قیامت تک کی تمام دنیا کے برابر تمنا کرےگا تواللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے کہ تم نے اپنی خواہشات میں ابھی کافی کسرچھوڑی ہے جوکچھ تم نے مانگا اور تمنا کی ہے وہ سب تمھیں عطاء کرتا ہوں اور جوتم نے اپنی خواہشات میں کمی چھوڑی ہے اس کا (مزید) اضافہ کرتا ہوں اب تم ان عنایات اور عطیات کی طرف دیکھو جوتمہارے رب نے تمھیں عطاء فرمائے ہیں، توبڑے اونچے اونچے اور بلند وبالا قبے ہوں گے اور موتیوں اور مرجان کے بالاخانے بنے ہوں گے، ان کے دروازے سونے کے ہوں گے، ان کے پلنگ یاقوت کے ہوں گے، ان کے بچھونے باریک اور موٹے ریشم کے ہوں گے، ان کے منبر ایسے نور کے ہوں گے جوبالاخانوں کے دروازوں اور صحن کوروشن کررہے ہوں گے سورج کی شعاع کی طرح اور کچھ اور محلات ہوں گے جواعلیٰ علیین میں جڑے ہوں گے یاقوت سے بنے ہوں گے ان کا نور خوب چمکتا ہوگا اگراللہ تعالیٰ ان کے نور کوتابع نہ کرتے تووہ نگاہ کی روشنی چھین لیتے، ان محلات میں سے جویاقوت سے بنے ہوں گے ان میں سفید ریشم بچھا ہوگا اور جویاقوت احمر سے بنا ہوگا اس میں سرخ ریشم بچھا ہوگا اور جویاقوت اخضر سے بناہوگا اس میں باریک سبز ریشم بچھا ہوگا اور جویاقوت اصفر سے بنا ہوگا اس میں پیلا ریشم بچھا ہوگا اس کا لیپ زمرد اخضر اور سرخ سونے اور سفید چاندی کا ہوگا، اس کی دیواریں اور ستون یاقوت کے ہوں گے، اس کی گنبدی لؤلؤ کے گنبد کی ہوگی، اس کے برج مرجان کے بالاخانے ہوں گے، جب وہ اللہ تعالیٰ کے عطیات کی وصولی کرکے واپس ہوں گے توترکی گھوڑوں (کی طرح کے ٹٹو) یاقوت ابیض کے بنے ہوئے پیش کئے جائیں گے جن میں روح پھونک دی گئی ہوگی، ان گھوڑوں کے ایک طرف ہمیشہ رہنے والے لڑکے ہوں گے ان میں سے ایک ہاتھ میں اس گھوڑے کی لگام ہوگی ان کی باگیں سفید چاندی کی ہوں گی جن پردرویاقوت جڑے ہوں گے، ان کی زینیں تہہ بہ تہہ باریک اور موٹے ریشم کی ہوں گی چنانچہ یہ گھوڑے (ٹٹو) ان کولے کرکے چلیں گے اور تیز رفتاری دکھائیں گے اور جنت کے باغات کی سیر کریں گے، جب یہ اپنے گھروں میں پہنچیں گے تووہاں سب کچھ موجود پائیں گے جوان کوان کے رب نے عطاء فرمایا تھا اور انہوں نے اس کا سوال اور تمنا کی تھی؛ پھراچانک ان محلات میںسے ہرمحل کے دروازہ پرچار قسم کی جنتیں ہوں گی دوباغ بہت سی شاخوں والے ہوں گے اور دوباغ گہرے سبز جیسے سیاہ؛ پھرجب یہ اپنے منازل میں پہنچیں گے اور آرام سے بیٹھیں گے توان سے ان کا رب پوچھے گا جس کا تمہارے رب نے تم سے وعدہ فرمایا تھا کیا تم نے اس کوسچ پایا؟ وہ عرض کریں گے جی ہاں! ہم راضی ہوگئے آپ بھی ہم سے راضی ہوجائیں، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تم میری رضا ہی سے میرے گھر میں پہنچے ہو اور میرے چہرہ کودیکھا ہے اور میرے فرشتوں سے مصافحہ کیا ہے؛ پس مبارک ہومبارک ہو یہ کبھی ختم نہ ہونے والی عطاء ہے، اس میں کوئی بدمزگی اور بخشش میں کوئی کمی نہی ہوگی؛ پھراس وقت جنتی کہیں گے: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌo الَّذِي أَحَلَّنَا دَارَالْمُقَامَةِ مِن فَضْلِهِ لايَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلايَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ۔ (فاطر:۳۴،۳۵) سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم سے غم کدودور کیا بے شک ہمارا رب بخشش کرنے والا اور قدردان ہے جس نے ہمیں اپنے فضل سے دائمی جنت میں ٹھکانہ دیا نہ توہمیں اس میں کوئی مشقت پہنچے گی اور نہ اس میں ہمیں کوئی تھکاوٹ پہنچے گی۔ اللہ تعالیٰ کو سب سے پہلے اندھے دیکھیں گے: حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جوشخص اللہ تبارک وتعالیٰ کے چہرہ اقدس کی زیارت کرے گا وہ اندھا ہوگا۔ (ابن ابی حاتم کتاب السنہ، لالکائی کتاب السنہ، البدورالسافرہ:۲۲۵۸) زیارت کے وقت جنت کی سب نعمتیں بھول جائیں گے: حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ جنت والوں کے سامنے تجلی فرمائیں گے اور جنتی اللہ کی زیارت سے مشرف ہوں گے توجنت کی تمام نعمتیں بھول جائیں گے۔ (الآجری، البدورالسافرہ:۲۲۵۹) عجب تیری ہے اے محبوب صورت نظ رسے گرگئے سب خوبصورت تیری نگاہ نے مخمور کردیا کیا میکدے کوجاؤں تجھے دیکھنے کے بعد سترگنا حسن وجمال میں اضافہ: حضرت کعب احبار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب بھی اللہ تعالیٰ جنت کی طرف دیکھتے ہیں توفرماتے ہیں کہ تواپنےہ لوگوں کے لیے اور بہتر ہوجا تووہ پہلے سے کئی گنا حسین وجمیل ہوجاتی ہے؛ حتی کہ اس کے اندر رہنے والے اس میں داخل ہوں اور دنیا میں جودن لوگوں کی عید کا ہوتا ہے اس میں وہ جنتی بھی جنت کے باغات میں اسی میعاد کے مطابق نکلا کریں گے اور ان پرجنت کی پاکیزہ خوشبو جلاکرے گی یہ اپنے پروردگار سے جس چیز کا سوال کریں گے اللہ تعالیٰ وہ کچھ ان کوان کے حسن وجمال وغیرہ میں سترگناہ زیادہ عطاء کرے گا؛ پھرجب یہ اپنی بیویوں کے پاس لوٹ کرواپس آئیں گے تووہ بھی اسی طرح سے حسن وجمال میں بڑھ چکی ہوں گی۔ (آجری، البدورالسافرہ:۲۲۶۰۔ حادی الارواح:۴۱۳) زیارت نہ ہونے سے بے ہوش ہونے والے حضرات: حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کچھ اس کے ایسے خواص بندے ہیں ان کے سامنے جنت میں اللہ تعالیٰ کے دیدار میں رکاوٹ پڑجائے تووہ اسی طرح سے فریاد کرنے لگیں جس طرح دوزخی فریاد کریں گے۔ (ابونعیم، البدورالسافرہ:۲۲۶۳) روزانہ دودفعہ دیکھنے والے کون ہوں گے؟ امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنت میں سب سے اعلیٰ درجہ پروہ لوگ فائز ہوں گے جواللہ تعالیٰ کوصبح وشام دیکھا کریں گے۔ (بیہقی، البدورالسافرہ:۲۲۶۴) کونسا مسلمان زیارت سے محروم ہوگا؟ حضرت یزدی بن مالک دمشقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کوئی بندہ ایسا نہیں جواللہ تعالیٰ پراور قیامت پرایمان رکھتا ہومگروہ قیامت کے دن اپنی آنکھوں سے اللہ کی زیارت کریگا وہاں وہ عالم زیارت نہیں کرسکے گا جوظلم کا حکم کرتا ہو؛ کیونکہ اس کے لیے حلال نہیں ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی زیارت کرسکے بلکہ وہ اندھا ہوگا۔ (البدورالسافرہ:۲۲۶۵) ریاکار بھی زیارت سے محروم: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَايُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا۔ (الکہف:۱۱۰) ترجمہ: جوشخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات (اور زیارت) کی امید رکھتا ہے، اس کوچاہیے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کوشریک نہ کرے اس آیت کے متعلق حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا توآپ نے ارشاد فرمایا کہ جوشخص اپنے خالق کے رُخ انور کی زیارت کرنا چاہتا ہے اس کوچاہئے کہ وہ نیک عمل کرے اور اس کی کسی کوخبر نہ کرے (یعنی ریا کاری نہ کرے)۔ (عبداللہ ابن المبارک، البدورالسافرہ:۲۲۶۸۔ حادی الارواح:۴۱۴) میں ہی اپنا حجاب ہوں ورنہ تیرے منہ پرکوئی نقاب نہیں حضرت ابوبکر کے لیے خصوصی زیارت: حدیث: حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إن الله عزوجل يتجلى للناس عامة ويتجلى لأبي بكر خاصة۔ (البعث والنشور:۴۹۳) ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمام امتیوں کے لیے عام تجلی فرمائیں گے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے خاص تجلی فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی زیارت کے مزید تفصیلی حالات: جوحضرات اللہ تعالیٰ کی زیارت اور تجلی کے مزید تفصیلی حالات ملاحظہ کرنا چاہیں تووہ حافظ ابن قیم کی کتاب حادی الارواح کا باب نمبر پینسٹھ ملاحظہ فرمائیں انہوں نے اس میں ساٹھ صفحات پرمشتمل تفصیل سے دلائل اور احادیث بیان کی ہیں اردو میں استاذیم حضرت اقدس مولانا ابوالزاہد محمدسرفراز خان صفدر دامت برکاتہم العالیہ شیخ الحدیث جامعہ نصرت العلوم گوجرنوالہ کے صاحب زادہ محب گرامی قدر جناب مولانا عبدالقدوس قارن نے حادی الارواح کا ترجمہ نام جنت کے نظارے، کیا ہے اس کوملاحظہ فرمائیں، ہم نے اس کتاب میں زیارت خداوندی کے متعلق صرف چیدہ چیدہ دلچسپ اور جامع احادیث کوذکر کردیا ہے۔ (امداداللہ انور) اللہ تعالیٰ قرآن سنائیں گے: حضرت عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں کہ (اعلیٰ درجہ کے) جنتی جنت میں روزانہ دومرتبہ اللہ جبار کے حضور زیارت کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے سامنے قرآن پاک پڑھ کرسنائیں گے اور قرآن سننے والوں میں سے ہرجنتی اس مجلس پررونق افروز ہوگا جہاں وہ بیٹھا کرتا ہوگا گوہر، یاقوت، زبرجد، سونے اور زمرد کے منبروں پراپنے اپنے اعمال کے درجات کے مطابق بیٹھیں گے اور اس قرأت سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اور اس سے بڑھ کرکوئی عظمت والی حسین چیز نہیں سنیں گے، اس کے بعد وہ اپنی سواریاوں پربیٹھ کر اپنی مسرور آنکھوں کے ساتھ ایسی ہی کل تک کے لیے واپس لوٹ آیا کریں گے۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم اصبہانی:۲۷۰۔ حادی الارواح:۳۲۸) اللہ تعالیٰ کی اور جنتیوں کی باہمی گفتگو: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ لَاخَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَايُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَايَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَايُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (آل عمران:۷۷) ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے ایسے باغات کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے سے نہریں چلتی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور نفیس مکانوں کا جوکہ ان ہمیشگی کے باغات میں ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے، یہ بڑی کامیابی ہے۔ رضائے خداوندی سب سے بڑی نعمت ہوگی: حدیث: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ لِأَهْلِ الْجَنَّةِ يَاأَهْلَ الْجَنَّةِ فَيَقُولُونَ لَبَّيْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْكَ فَيَقُولُ هَلْ رَضِيتُمْ فَيَقُولُونَ وَمَالَنَا لَانَرْضَى وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَالَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ فَيَقُولُ أَنَاأُعْطِيكُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ قَالُوا يَارَبِّ وَأَيُّ شَيْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ فَيَقُولُ أُحِلُّ عَلَيْكُمْ رِضْوَانِي فَلَاأَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا۔ (بخاری، كِتَاب الرِّقَاقِ،بَاب صِفَةِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ،حدیث نمبر:۶۰۶۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اللہ تبارک وتعالیٰ جنت والوں سے فرمائیں گے اے جنت والو! تووہ عرض کریں گے لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ (ہم حاضر ہیں اور سعادت آپ ہی طرف سے ہے) اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کیا تم راضی ہوگئے؟ وہ عرض کریں گے ہمیں کیا ہے ہم کس وجہ سے راضی نہ ہوں، جب کہ آپ نے ہمیں اتنا عطاء فرمایا ہے کہ اپنی مخلوق میں سے اتنا کسی کوعطاء نہیں کیا؟ تو(اللہ تعالیٰ) فرمائیں گے کیا میں آپ حضرات کواس سے بھی افضل نعمت عطاء نہ کروں؟ وہ عرض کریں گے اے ہمارے رب! کون سی نعمت اس سے افضل باقی رہ گئی ہے؟ تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے تمہارے لیے اپنی رضا نچھاور کی اب اس کے بعد میں کبھی بھی آپ حضرات پرناراض نہیں ہوں گا۔ حدیث:حضرت جابر رضی اللہ سنہ عے روایت ہے کہ جناب روسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إذادخل أهل الجنة الجنة قال الله، یَاعِبَادِیْ: هل تَسَأَلُوْنِیْ شيئا فأزيدكم؟ قالوا: ياربنا، ماخير مماأعطيتنا؟ قال: رضواني أكبر (تفسیر ابن کثیر:۲/۳۸۵) ترجمہ: جب جنتی جنت میں داخل ہوچکیں گے تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے میرے بندو! تم مجھ سے کچھ مانگتے نہیں کہ میں تمہاری (نعمتوں میں) اضافہ کروں؟ وہ عرض کریں گے اے ہمارے رب! جوکچھ آپ نے ہمیں نوازا ہے اس سے بہتر کیا کنعمت ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میری رضا اور خوشنودی سب سے بڑی نعمت ہے۔ زیارت خداوندی کسی نیک عمل کے بدلہ میں نہیں ہوگی: اللہ تعالیٰ جنت تواہل جنت کو ان کے عمل صالح (ایمان وعبادات) کے بدلہ میں عنایت فرمائیں گے مگراپنے چہرہ اقدس کی زیارت کواضافی طور پرعطاء فرمائیں گے اس کوکسی عمل کے ثواب کا بدلہ قرار نہیں دیں گے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ (یونس:۲۶) سے مراد توجنت ہے اور زِيَادَةٌ سے مراد اللہ کا دیدار ہے اس دیدار کو زِيَادَةٌ اس لیے کہا کیونکہ یہ زِيَادَةٌ بہت عظیم ہے اعمال میں سے کوئی چیز اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی اس لیے کہ یہ جنت سے بھی افضل ہے۔ (کنزالمدفون:۱۴۱) اللہ تعالیٰ کی زیارت دنیا میں کیوں نہیں کرائی گئی؟ اللہ تعالیٰ دنیا میں ہم سے پردہ میں کیوں ہیں جب کہ قرآن وحدیث میں وارد ہوا ہے کہ ہم آخرت میں اس کے دیدار سے مشرف ہوں گے دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوتی توکیا ہی اچھا ہوتا؟۔ اس کی علماء کرام نے بہت سی وجوہات تحریر کی ہیں: (۱)دنیا میں اس لیے زیارت نہیں کرائی تاکہ بندہ کے شوق اور محبت میں مزید اضافہ ہو جیسا کہ کہا گیا ہے کہ وطن میں واپسی کا لطف طویل عرصہ تک سفر میں رہنے کے بعد ہی آتا ہے (۲)ایک وجہ خوف وخشیت میں اضافہ کرانا مطلوب ہے (۳)تاکہ طلبگاروں کوغیرطلبگاروں پرفضیلت حاصل ہو (۴)اگران سے حجاب اٹھادیا جاتا اور وہ دنیا میں ہی اس کی زیارت سے مشرف ہوجاتے تووہ ذات باری کے جمال بے بہا میں ہی مستغرق ہوجاتے اور اپنے آپ سے اور دنیا میں نیک اعمال کی ترقی کے حصول سے بے پرواہ ہوجاتے آپ نے عزیز مصرف کی بیوی کا واقعہ توقرآن شریف میں پڑھا ہی ہے کہ اس نے مصر کی ان عورتوں کو (جنہوں نے اس کوحضرت یوسف علیہ السلام پرفریفتہ ہونے پرانگشت نمائی کی تھی) ہرایک کوایک ایک چھری دی اور دوسری طرف حضرت یوسف علیہ السلام کوحکم دیا کہ ان کے سامنے نکلو اور عورتوں کوکہا کہ لیموں کاٹو اس وقت میں جب انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کودیکھا تواپنے آپ کوبھول گئیں حتی کہ اپنے ہاتھوں کوچھریوں سے کاٹ بیٹھیں اور تکلیف کا ذرہ برابر احساس نہ ہوا، توجب ان کی یہ حالت مخلوق کودیکھنے سے ہوئی تمہارا کیا گمان ہے جب تم خالق کے جمال کودیکھو گے توتمہارا کیا حال ہوگا (۵)فانی ہونے والا باقی رہنے والی ذات کوکب دیکھ سکتا ہے۔ اور یہ بات ذہن نشین رکھ لو کہ اللہ تعالیٰ پردہ میں نہیں ہے؛ اگروہ پردہ میں ہوتواس کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز نے اس کوچھپائے رکھا ہے (اور چھپانے والی چیز کے لیے خدا کی عظیم ذات کوچھپانے کی فوقیت حاصل ہوگئی اور یہ بات بالکل غلط ہے اور) حالانکہ اللہ تعالیٰ کے لیے نہ توکوئی جہت ہے اور نہ کوئی مکان؛ بلکہ اے دیکھنے والے توہی حجاب میں ہے (کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے اندر دنیا میں ایسی قوت نہیں رکھی کہ تواس کودیکھ سکے)۔ (کنزالمدفون:۱۴۲) فرشتے اللہ تعالیٰ کی زیارت کریں گے؟ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ بعض ائمہ کے کلام میں اس بات کا ذکر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی زیارت فقط مؤمن انسانوں کے ساتھ مخصوص ہے، فرشتے اللہ تعالیٰ کی زیارت نہیں کرسکیں گے ان حضرات نے ارشادِ خداوندی لَاتُدْرِکُہُ الْأَبْصَارَ سے استدلال کیا ہے کہ اس کوآنکھیں نہیں دیکھ سکتیں، یہ آیت عام ہے جس کو مؤمنین کے حق میں دوسری آیت کی وجہ سے مخصوص کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ فرشتے نہ دیکھنے والی آیت کے عموم میں داخل ہیں جب کہ امام بیہقی نے اس کے خلاف لکھا ہے؛ چنانچہ آپ کتاب الرؤیۃ میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کواپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا، ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کواللہ تعالیٰ نے جب سے پیدا کیا ہے صف بستہ کپڑے ہیں اور اللہ سبحانہ کے چہرہ اقدس کودیکھ دیکھ کر سُبْحَانَکَ کہہ رہے ہیں (یعنی اے اللہ! آپ کی ذات تمام عیبوس اور نقائص سے پاک ہے)۔ (کنزالمدفون:۱۴۲) فرشتے قیامت کے دن زیارت کریں گے: حدیث: حضرت عدی بن ارطاط رحمۃ اللہ علیہ ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان اللہ تَعَالَی مَلَائِکَۃُ قِیَام ترعد فرائصہُمْ مِنْ مخافتہُ مَامِنْہُمْ ملک تنحدردمعۃ مِنْ عَیْنِہِ الاوقعتْ ملکا یسبح، وَمَلَائِکَۃ سجودا منذ خلق اللہ السَّمٰوٰت وَالْأَرْض لم یَرْفَعُوْا رُؤوْسَہُمْ وَلَایَرْفَعُوْنَہَا إِلیٰ یَوْم الْقِیَامَۃِ وصفوفا لم یَنْصَرِفُوْا عَنْ مَصَافَہُمْ وَلَایَنْصَرِفُوْنَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَإِذَاکَانَ یَوْم الْقِیَامَۃِ یَتَجَلّی لَہُمْ رَبَّہُمْ، فَیَنْظُرُوْنَ إِلَیْہِ، قَالُوْا: سُبْحَانَکَ مَاعَبَدْنَاکَ حَق عِبَادَتِک، کَمَایَنْبَغِیْ لَکَ (البدورالسافرہ:۲۲۷۰۔ الحبائک:۲۴) ترجمہ:اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جن کے کندھے کے گوشت خوف کے مارے کانپتے ہیں ان میں سے کوئی فرشتہ ایسا نہیں کہ اس کی آنکھوں سے کوئی آنسو نکلے مگر (فرشتوں کی کثرت کی وجہ سے) وہ حالت قیام میں تسبیح پڑھنے والے کسی نہ کسی فرشتے پرجاگرتا ہے اور کچھ فرشتے ایسے ہیں جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے تب سے سجدہ میں ہیں، انہوں نے کبھی سرنہیں اُٹھایا اور نہ قیامت تک سراُٹھائیں گے اور کچھ فرشتے رکوع میں ہیں انہوں نے بھی کبھی سرنہیں اٹھایا اور نہ کبھی قیامت تک سراٹھائیں گے اور کچھ فرشتے صف بستہ ہیں جواپنی صفوں سے کبھی نہیں ہٹے اور نہ قیامت تک ہٹیں گے، جب قیامت کا دن ہوگا تواللہ تعالیٰ ان کے سامنے تجلی فرمائیں گے تویہ اللہ تعالیٰ کی زیارت کریں گے اور عرض کریں گے کہ آپ کی ذات پاک ہے جس طرح سے لائق تھا ہم نے اس طرح سے آپ کی عبادت نہیں کی۔ حضرات انبیاء کرام اور اولیاء عظام کی زیارت: حدیث: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اورعرض کیا یارسول اللہ! میں آپ سے اپنی جان اور بیوی بچوں سے زیادہ محبت کرتا ہوں اور جب میں گھر میں ہوتا ہوں اور آپ کویاد کرتا ہوں تومجھ سے صبر نہیں ہوسکتا؛ حتی کہ میں حاضر ہوکر آپ کی زیارت کرلیتا ہوں کہ لیکن جب میں اپنی موت اور آپ کے انتقال کویاد کرتا ہوں اور اس کوجانتا ہوں کہ جب آپ جنت میں داخل ہوں گے توآپ کا درجہ انبیاء کرام کے ساتھ ہوگا اس لیے مجھے ڈر ہے کہ میں جنت میں داخل ہوا توآپ کونہیں دیکھ سکوں گا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کواس بات کا کوئی جواب عنایت نہ فرمایا حتی کہ حضرت جبریل علیہ السلام یہ آیت لیکر نازل ہوئے: وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا۔ (النساء:۶۹) ترجمہ: اور جوشخص اللہ اور رسول کا کہنا مانے گا (گوزیادہ عبادت کرنے سے درجہ کمال حاصل نہ کرسکے) توایسے اشخاص بھی (جنت میں) ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پراللہ نے (کامل) انعام (دین وقرب وقبول کا) فرمایا ہے، یعنی انبیاء (علیہم السلام) اور صدیقین (جوکہ انبیاء کی امت میں سب سے زیادہ رتبہ کے ہوتے ہیں جن میں کمال باطنی بھی ہوتا ہے جن کوعرف میں اولیاء کہا جاتا ہے) اور شہداء (جنہوں نے دین کی محبت میں اپنی جان دیدی) اور صلحاء (جوشریعت کے پورے متبع ہوتے ہیں واجبات میں بھی اور مستحبات میں بھی جن کونیک بخت دیندار کہا جاتا ہے) اور یہ حضرات (جس کے رفیق ہوں) بہت اچھے رفیق ہیں۔ (تفسیر بیان القرآن، حضرت تھانوی رحمہ اللہ)