انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت شرجیلؓ بن حسنہ نام ونسب شرجیل نام، ابوعبداللہ کنیت،والد کانام عبداللہ تھا؛لیکن یہ شرجیل کے بچپن میں فوت ہوگئے تھے اوران کی ماں حسنہ نے سفیان انصاری سے شادی کرلی تھی، اس لیے شرجیل باپ کے بجائے ماں کی نسبت سے شرجیل بن حسنہ مشہور ہوئے، (اسد الغابہ:۲/۱۹۳) نسب نامہ یہ ہے،شرجیل بن عبداللہ بن مطاع بن عبداللہ بن غطریف بن عبدالعزیٰ بن جثامہ ابن مالک بن ملازم بن مالک بن رہم بن سعد بن یشکر بن مبشربن غوث بن مرفیلہ،ان کے انتساب میں اختلاف ہے، بعض کندی بتاتے ہیں اور بعض تمیمی۔ اسلام وہجرت شرجیلؓ دعوت اسلام کے آغاز میں اسلام کے شرف سے مشرف ہوئے اور پہلے حبشہ کی ہجرت کی،وہاں سے مدینہ آئے اور ماں کے تعلق سے بنی زریق میں قیام پذیر ہوئے، (ابن سعدتذکرہ شرجیل بن حسنہ) ہجرت سے لے کر آنحضرت ﷺ کی وفات تک کوئی واقعہ قابل ذکر نہیں ہے؛کیونکہ بڑا زمانہ حبشہ کے قیام میں صرف ہوچکا تھا،ان کے کارناموں کا آغاز عہد صدیقی سے ہوتا ہے،شام کی فوج کشی میں صوبہ اردن پر مامور تھے۔ بصریٰ کا معرکہ چنانچہ اس سلسلہ کے سب سے پہلے معرکہ بصریٰ میں افسر تھے،آغاز جنگ کے قبل ان میں اور بصریٰ کے حاکم رومانس میں گفت وشنید بھی ہوئی؛لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا اور یہ فوج مرتب کرکے آگے بڑھ رہے تھےکہ خالدؓ پہنچ گئے،ان کے آنے کے بعد یہ سپہ سالار اعظم ہوئے اوران ہی کی سپہ سالاری میں اہل بصری نے جزیہ قبول کیا۔ (فتوح البلدان:۱۱۹) اجنادین بصریٰ کے بعد رومی اجنادین میں جمع ہوئے،خالدؓ مقابلہ کو بڑھے ،شرجیلؓ بھی کچھ دور جاکر ان سے مل گئے اوردونوں مل کر رومیوں سے معرکہ آرا ہوئے اورایک خونریز جنگ کے بعد مسلمان کامیاب ہوئے۔ دمشق دمشق کی پیدل فوج کے کمان دار تھے (طبری:۲۱۵۱) اوراس کے محاصرہ میں یہ باب قرادیش پرمتعین تھے (فتوح البلدان:۱۲۷) اور فتح تک اپنے فرائض ادا کرتے رہے۔ فحل دمشق کے بعد جب مسلمان فحل ہوتے ہوئے بیسان کی طرف بڑھنے والے تھے؛لیکن درمیان میں پانی کی وجہ سے فحل میں رک گئے تھے، اس وقت بھی شرجیلؓ ساتھ تھے، اوران کی احتیاط کی بنا پر مسلمان ایک خطرناک صورت حال سے بچ گئے،رومیوں نے دریا کا بند توڑدیا تھا،اس لیے فحل اور بیسان کے درمیان پانی پانی ہوگیا تھا، مسلمان فحل سے آگے نہ بڑھ سکے اوروہیں مقیم ہوگئے،شرجیلؓ اس نازک موقع پر رات بھر جاگتے رہے، کہ مبادارومی عقب سے حملہ آور نہ ہوجائیں،ان کی یہ پیش مبنی اوراحتیاط بہت کام آئی، رومی واقعی ایک دن اچانک پشت سے آگئے؛لیکن شرجیلؓ ہوشیار تھے، اس لئے رومیوں کو شکست ہوئی۔ (اس واقعہ میں روایات مختلف ہیں) بیسان فحل کے بعد شرجیلؓ اور عمروبن العاصؓ بیسان کی طرف بڑھے،بیسان والے فحل کا انجام دیکھ چکے تھے، اس لیے پہلے سے قلعہ بند تھے، شرجیلؓ نے پہنچتے ہی محاصرہ کرلیا، عرصہ تک محاصرہ قائم رہا، ایک دن دوچار آدمی نکلے وہ مارے گئے آخری میں مجبور ہوکر دمشق کے شرائط پر صلح کرلی،طبریہ والوں نے بیسان کا حال دیکھ کر ابوالاعور سے خواہش ظاہر کی کہ اس کو شرجیلؓ سے ملنے کی اجازت دی جائے،انہوں نے اجازت دیدی چنانچہ اس نے ان سے مل کر بیسان کے شرائط پر صلح کرلی۔ (طبری:۲۱۵۸) صوبہ اردن اوراس کی آبادیاں اس کے بعد شرجیلؓ بن حسنہ نے صوبہ اردن کے تمام شہر نہایت آسانی سے فتح کرلیے اوران کو لینے میں کوئی زیادہ خونریزی نہیں ہوئی،تقریبا تمام مفتوحہ علاقہ میں دمشق کے شرائط پر صلح ہوئی،اردن کے شہروں میں سویبیہ،افیق ،جرش بیت راس ،قدس،جولان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ (فتوح البلدان بلاذری:۱۲۳) یرموک یرموک کی مہم میں جب مسلمان شام کے مختلف حصوں سے سمٹ کر یرموک میں جمع ہوئے تو شرجیلؓ بھی آئے اور یہ اور یزید بن ابی سفیان ایک جگہ ٹھہرے،خالدؓ سپہ سالار تھے،انہوں نے جدید طریقہ پر فوج کو چھتیس حصوں پر تقسیم کرکے ہر حصہ پر الگ الگ افسر مقرر کیے،چنانچہ میمنہ اورمیسرہ کے حصہ پر عمروبن العاصؓ اورشرجیلؓ متعین تھے،(طبری:۴/۲۰۱۹) میدان جنگ میں رومیوں کے ابتدائی حملہ میں جب مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے اوربہت سے مسلمان میدان جنگ سے باہر نکل آئے،ا س وقت بھی شرجیلؓ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی اورنہایت جانفروشی سے لڑے اوراخیر تک دادِ شجاعت دیتے رہے۔ وفات ۱۸ھ میں بھی اسلامی فوجیں شام میں برسرپیکار تھیں کہ عراق ،شام اورمصر میں طاعون کی وبا پھیلی ،عمروبن العاصؓ نے مشورہ دیا کہ فوجیں وبائی مقامات سے ہٹا کر محفوظ علاقوں میں بھیج دی جائیں؛لیکن شرجیلؓ بڑے متوکل شخص تھے،انہوں نے کہا کہ عمروبن العاصؓ نادان ہیں میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کہ طاعون اللہ کی رحمت اورانبیا کی دعا ہے،اس کے قبل صالحین نے اسی میں وفات پائی ہے اس لیے ہر گز نہ ہٹنا چاہئے،(مسند احمد بن حنبل:۴/۱۹۶) ؛چنانچہ یہ کسی طرح نہ ہٹے اوراسی نامراد وبا میں ۶۷سال کی عمر میں وفات پائی اور گذشتہ صلحائے امت سے جاملے۔ (استیعاب:۲/۶۰۵) فضل وکمال گوان کی ساری زندگی جہاد کے میدان میں گذری،تاہم احادیث نبوی سے تہی دامن نہ تھے،جعفر بن ربیعہ اورعبدالرحمن الاشعری نے ان سے روایت کی ہے۔ (تہذیب المال:۱۶۵)