انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابو بکر صدیقؓ تعارف نام ونسب ،خاندان عبداللہ نام، ابوبکرکنیت،صدیق اور عتیق لقب،والدکانام عثمان اورکنیت ابوقحافہ،والدہ کانام سلمیٰ اور ام الخیر کنیت،والد کی طرف سے پورا سلسلۂ نسب یہ ہے :عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمر وبن کعب بن سعدبن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی القرشی التمیمی اور والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب یہ ہے : ام الخیر بنت صخربن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ(طبقات ابن سعد قسم اول جزثالث : ۱۱۹)، اس طرح حضرت ابوبکر ؓ کا سلسلہ نسب چھٹی پشت میں مرہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سےمل جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ کے والد ابوقحافہ عثمان بن عامر شرفائے مکہ میں سے تھے اور نہایت معمر تھے، ابتداءً جیسا کہ بوڑھوں کا قاعدہ ہے ، وہ اسلام کی تحریک کو بازیچۂ اطفال سمجھتے تھے ؛چنانچہ حضرت عبداللہ کا بیان ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی ہے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں حضرت ابو بکر ؓ کے گھر آیا، وہاں ابو قحافہ موجود تھے ، انہوں نے حضرت علی ؓ کو اس طرف سے گزرتے ہوئے دیکھ کر نہایت برہمی سے کہا کہ ان بچوں نے میرے لڑکے کو بھی خراب کردیا۔ (الاصابہ جلد۴:۲۲۱) ابوقحافہ فتح مکہ تک نہایت استقلال کے ساتھ اپنے اٰبائی مذہب پر قائم رہے ، فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے وہ اپنے فرزند سعید حضرت ابوبکر ؓ صدیق کے ساتھ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ضعف پیری کو دیکھ کر فرمایا کہ انہیں کیوں تکلیف دی ، میں خود ان کے پاس پہنچ جاتا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت شفقت سے ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور کلمات طیبات تلقین کرکے مشرف باسلام فرمایا، حضرت ابو قحافہ ؓ نےبڑی عمر پائی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنے فرزند ارجمند حضرت ابو بکر ؓ کے بعد بھی کچھ دنوں تک زندہ رہے، آخر عمر میں بہت ضعیف ہوگئے تھے ، آنکھوں کی بصارت جاتی رہی تھی ، ۱۴ھ میں ۹۷ برس کی عمر میں وفات پائی ۔ (اصابہ جلد۴ :۲۲۲) حضرت ابوبکر ؓ کی والدہ حضرت ام الخیر سلمیٰ بنت صخر کو ابتداہی میں حلقہ بگوشان اسلام میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا، ان سے پہلے صرف انتالیس اصحاب مسلمان ہوئے تھے، یہ قلیل جماعت باعلان اپنے اسلام کا اظہار نہیں کرسکتی تھی اور نہ مشرکین وکفار کو ببانگ دہل دین مبین کی دعوت دے سکتی تھی؛ لیکن حضرت ابوبکر ؓ کامذہبی جوش اس بے بسی پر نہایت مضطرب تھا،آپؓ نے ایک روز نہایت اصرار کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر مجمع عام میں شریعت حقہ کے فضائل ومحامد پر تقریر کی اور کفار ومشرکین کو شرک و بت پرستی چھوڑ کر اسلام قبول کرلینے کی دعوت دی، کفار ومشرکین جن کے کان کبھی ان الفاظ سے مانوس نہ تھے نہایت برہم ہوئےاورحضرت ابوبکرصدیق ؓ کونہایت بے رحمی اورخداناترسی کے ساتھ اس قدر مارا کہ بالآخربنی تیم کو باوجودمشرک ہونیکے اپنے قبیلہ کے ایک فرد کو اس حال میں دیکھ کر ترس آگیا اورانہوں نے عام مشرکین کے پنجۂ ظلم سے چھڑاکر ان کو مکان تک پہنچادیا، شب کے وقت بھی حضرت ابوبکرؓ باوجود درداور تکلیف کے اپنے والد اور خاندانی اعزہ کو اسلام کی دعوت دیتے رہے، صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ دریافت کرکے اپنی والدہ کے ساتھ ارقم بن ارقم ؓ کے مکان میں آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور وہ مشرف باسلام ہوگئیں۔ (الاصابہ جلد۸ ۲۲۹) حضرت ام الخیر ؓ نے بھی طویل عمر پائی چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت تک زندہ رہیں ؛لیکن اپنے شوہر سے پہلے وفات پائی۔ (ایضاً بحوالہ طبرانی) قبل اسلام حضرت ابوبکرصدیق ؓ اسلام سے قبل ایک متمول تاجر کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی دیانت،راستبازی اور امانت کا خاص شہرہ تھا اہل مکہ انکو علم تجربہ اورحسن خلق کے باعث نہایت معزز سمجھتے تھے، ایام جاہلیت میں خوں بہا کامال آپ ہی کے ہاں جمع ہوتا تھا، اگر کبھی کسی دوسرےشخص کے یہاں جمع ہوتا تو قریش اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے،(کنزالعمال ج ۶ :۳۱۳) حضرت ابوبکر ؓ کو ایام جاہلیت میں بھی شراب سے ویسی ہی نفرت تھی جیسی زمانۂ اسلام میں،اس قسم کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ شراب نوشی میں نقصان آبروہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچپن ہی سے ان کو خاص انس اور خلوص تھا اورآپ کے حلقہ احباب میں داخل تھے، اکثر تجارت کے سفروں میں بھی ہمراہی کا شرف حاصل ہوتاتھا۔ (ایضاً)