انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ذکر اللہ اللہ کے ذکرکی عظمت اور اس کی تاکید اور کچھ خاص اذکار اللہ کے ذکرکی عظمت اور اس کےبرکات ذکر اللہ کی عظمت اور برکات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پڑھیے۔ حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب بھی اور جہاں بھی بیٹھ کے کچھ بندگانِ خدا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں تو لازمی طور پر فرشتے ہرطرف سے ان کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور ان کو گھیرلیتے ہیں اور رحمتِ الٰہی ان پرچھاجاتی ہے اور ان کو اپنے سایہ میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینہ کی کیفیت نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ مقربین میں ان کا ذکر فرماتا ہے۔ (مسلم، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن، حدیث نمبر:۴۸۶۸۔ مسنداحمد، حدیث ابی سعید الخدریؓ، حدیث نمبر:۱۱۸۹۳) اس حدیث سے یہ بھی اشارہ ملا کہ اگر اللہ کا کوئی ذاکر بندہ اپنے قلب وباطن میں "سکینت" کی کیفیت محسوس نہ کرے (جو ایک محسوس کی جانے والی چیز ہے) تو اس کو سمجھنا چاہیے کہ ابھی وہ ذکر کے اس مقام تک نہیں پہنچ سکا ہے جس پر یہ نعمتیں موجود ہیں، یااس کی زندگی میں کچھ ایسی خرابیاں ہیں جو آثارِ ذکر کے حصول میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں؛ بہرحال اسے اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے، رب کریم کے وعدے برحق ہیں۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مسجد میں قائم ایک حلقہ پر پہنچے تو آپ نے ان اہل حلقہ سے پوچھا "تم یہاں کس لیے بیٹھے ہو"؟ انہوں نے کہا "ہم بیٹھ کر اللہ کو یاد کررہے ہیں" حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا اللہ کی قسم!تم صرف ذکر اللہ ہی کے لیے بیٹھے ہو؟ انہو ں نے کہا: قسم بخدا! ہمارے بیٹھنے کا کوئی اور مقصد اللہ کے ذکر کے سوا نہیں ہے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے کسی بدگمانی کی بناء پر آپ لوگوں سے قسم نہیں لی ہے، اصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جس درجہ کا تعلق اور قرب مجھے حاصل تھا اس درجہ کے تعلق والا کوئی آدمی آپ کی حدیثیں مجھ سے کم بیان کرنے والا نہیں ہے (یعنی میں روایت حدیث میں بہت زیادہ احتیاط کرتا ہوں اس لیے اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی بہ نسبت بہت کم حدیثیں بیان کرتا ہوں مگر اس وقت ایک حدیث ذکر کرتا ہوں) اور میں نے اسی کی پیروی میں آپ لوگوں سے قسم لی ہے، وہ حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن اپنے اصحاب کے ایک حلقہ کے پاس پہنچے، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: آپ لوگ یہاں کیوں جڑے بیٹھے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: ہم اللہ کو یاد کررہے ہیں اور اس نے جو ہم کو ہدایت سے نوازا اور ایمان واسلام کی توفیق دے کر احسانِ عظیم فرمایا، اس پر اس کی حمد وثناء کررہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا اللہ کی قسم؟ تم صرف ذکراللہ ہی کے لیے بیٹھے ہو؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جواب دیا: قسم بخدا! ہمارے بیٹھنے کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر کر ہے؛ پھرآپ ﷺ نے فرمایا: تمھیں معلوم ہو کہ میں نے تمہارے ساتھ کسی بدگمانی کی بناء پر تم سے قسم نہیں لی؛ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ابھی جبرئیل امین میرے پاس آئے اور انہو ں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فخرومباہات کے ساتھ فرشتوں سے تم لوگوں کا ذکر فرما رہا ہے۔ (مسلم، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن، حدیث نمبر:۴۸۶۹۔ ترمذی، باب ماجاء فی القوم یجلسون فیذکرون اللہ، حدیث نمبر:۳۳۰۱) حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "کیا میں تم کو وہ عمل بتاؤں جو تمہارے سارے اعمال میں بہتراور تمہارے مالک کی نگاہ میں پاکیزہ رہے اور تمہارے درجوں کو دوسرے تمام اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے اور راہِ خدا میں سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بھی زیادہ ہو اور اس جہاد سے بھی زیادہ تمہارے لیے اس میں ثواب ہو جس میں تم اپنے دشمنوں اور خدا کے دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتارو اور وہ تمھیں ذبح کریں اور شہید کریں؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: ہاں! یارسول اللہ! ایسا قیمتی عمل ضرور بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا "وہ اللہ کا ذکر ہے"۔ (ترمذی، باب منہ، بعدباب ماجاء فی فضل الذکر، حدیث نمبر:۳۲۹۹۔ ابن ماجہ، باب فضل الذکر، حدیث نمبر:۳۷۸۰۔ مسنداحمد، باب باقی حدیث ابی الدردائؓ، حدیث نمبر:۲۱۷۵۰) ذکراللہ کی تاکید وترغیب قرآنِ کریم میں قرآن شریف میں بہت سی جگہوں پر اللہ کے ذکر کی تاکید وترغیب آئی ہے: (۱)"بعض آیات میں اہلِ ایمان کو حکم دیا گیا؛ اے ایمان والو! اللہ کی بہت یاد کیا کرو اور صبح وشام اس کی پاکی بیان کرو" (الاحزاب: ۴۱،۴۲) "اور اپنے جی میں گڑگڑا کر اور خوف کی کیفیت کے ساتھ اپنے رب کا ذکر کرو" (الاعراف:۲۰۵) (۲)بعض آیات میں اللہ کو بھولنے اور اس کی یاد سے غافل ہونے سے شدت کے ساتھ منع فرمایاگیا ہے (یہ بھی ذکر اللہ کی تاکید ہی ہے) فرمایا: "اور تم غفلت والوں میں سے نہ ہونا" (الاعراف:۲۰۵) "اور تم ان میں سے نہ ہوجاؤ؛ جنہوں نے اللہ کو بھلادیا پھر (اس کی پاداش میں) اللہ نے ان کو ان کے نفس بھلادئیے (اور خدا فراموشی کے نتیجہ میں وہ خود فراموش ہوگئے)" (الحشر:۱۹) (۳)بعض آیات میں فرمایا گیا ہے کہ فلاح اور کامیابی اللہ کے ذکر کی کثرت کے ساتھ وابستہ ہے، ارشاد ہے: "اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرو پھر تم فلاح وکامیابی کی امید کرسکتے ہو" (الانفال:۴۵۔ الجمعہ:۱۰) (۴)بعض آیات میں حق تعالیٰ کی طرف سے اہلِ ذکر کی تعریف کی گئی ہے اور بتایا گیا کہ ذکر کے صلہ میں ان کے ساتھ رحمت ومغفرت کا خاص معاملہ کیا جائیگا اور ان کو اجرِعظیم سے نوازا جائیگا؛ چنانچہ احزاب میں ایمان والے بندوں اور بندیوں کے چند دوسرے ایمانی اوصاف بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا گیا: "اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے اس کے بندے اور اس کی بندیاں، اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں اور بندیوں کے لیے خاص بخشش اور عظیم ثواب تیار کررکھا ہے" (الاحزاب:۳۵) (۵)اسی طرح بعض آیات میں آگاہی دی گئی کہ جو لوگ دنیا کی بہاروں اور لذتوں میں منہمک اور مست ہوکر اللہ کی یاد سے غافل ہوجائیں گے وہ ناکام اور نامراد رہیں گے، فرمایا گیا: "اے ایمان والو! تمہاری دولت اور تمہاری اولاد تم کو اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے اور جو لوگ اس غفلت میں مبتلا ہوں گے وہ بڑے گھاٹے اور نقصان میں رہیں گے"۔ (المنافقون:۹) یہ تینوں عنوان بھی ذکر اللہ کی تاکید اور ترغیب کے لیے بلاشبہ بڑے موثر ہیں۔ (۶)بعض آیات میں فرمایا گیا کہ جو بندے ہمیں یاد کریں گے ہم ان کو یادکریں گے اور یادرکھیں گے، فرمایا: "اے بندو! تم مجھے یادکرو میں تم کو یادرکھونگا اور میرا احسان مانو اور ناشکری نہ کرو"۔ (البقرہ:۱۵۲) "سُبْحَانَ اللہ وَبِحَمْدِہٖ" بندے کی اس سے بڑی سعادت وکامیابی اور کیا ہوسکتی ہے کہ پوری کائنات کا خالق ومالک اس کو یادکرے اور یادرکھے۔ (۷)بعض آیات میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے ذکر کو ہرچیز کے مقابلہ میں عظمت وفوقیت حاصل ہے اور اس کائنات میں وہ ہرچیز سے بالاتر اور بزرگ تر ہے، فرمایا:: "اور یقین کرو کہ اللہ کا ذکر ہرچیز سے بزرگ ترہے" (العنکبوت:۴۵) (بے شک اگر بندے کو عرفان نصیب ہوجائے تو اللہ کا ذکر اس کے لیے ساری کائنات سے عظیم ترہے)۔ (۸)بعض آیات میں بڑے اونچے درجہ کے اعمال کے بارے میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ان کے اختتام پر اللہ کا ذکر ہونا چاہیے؛ گویاذکر اللہ ہی کو ان اعمال کا "خاتمہ" بنانا چاہیے، مثلاً نماز کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا: "جب تم نماز اداکرو تو (ہرحال میں) کھڑے بیٹھے اور اپنے پہلوؤں کے بل لیٹے اللہ کا ذکر کرو" (النساء:۱۰۳) خاص جمعہ کی نماز کے بارے میں لکھا ہے: "جب جمعہ کی نماز ختم ہوجائے تو (اجازت ہے) کہ تم (سجدے سے نکل کر اپنے کام کاج کے سلسلہ میں) زمین میں چلو پھرو اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اس حالت میں بھی اللہ کا خوب ذکر کرو؛ پھر فلاح کی امید کرسکتے ہو" (الجمعہ:۱۰) اور حج کے بارے میں ارشاد ہے: پھرجب تم اپنے مناسک ادا کرکے فارغ ہوجاؤ تو اللہ کا ذکر کرو جیسا کہ تم (تفاخر کے طورپر) اپنے باپ داداؤں کا ذکر کیا کرتے تھے؛ بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ اللہ کا ذکر کرو (البقرۃ:۲۰۰) ان آیات سے معلوم ہوا کہ نماز اور حج جیسی اعلیٰ درجہ کی عبادات سے فارغ ہونے کے بعد بھی بندہ کے لیے اللہ کے ذکر سے غافل ہونے کی گنجائش نہیں ہے؛ بلکہ ان سے فراغت کے بعد بھی اس کے دل میں اور اس کی زبان پر اللہ کا ذکر ہونا چاہیے اور اسی کو ان اعمال کا خاتمہ بننا چاہیے۔ (۹)بعض آیات میں ذکر اللہ کی ترغیب اس عنوان سے دی گئی ہے کہ دانشمند اور صاحبِ بصیرت بندے وہی ہیں جو ذکر اللہ سے غافل نہیں ہوتے، جس کا لازمی مفہوم یہ ہے کہ جو ذکر اللہ سے غافل ہوں وہ عقل وبصیرت سے محروم ہیں، مثلاً آل عمران کے آخری رکوع میں ارشاد فرمایا گیا ہے: "یقینا زمین وآسمان کی تخلیق میں اور رات ودن کی تبدیلیوں میں کھلی نشانیاں ہیں ان اربابِ دانش کے لیے جو کھڑے بیٹھے اور لیٹنے کی حالت میں بھی اللہ کو یاد کرتے ہیں (اور اس سے غافل نہیں ہوتے)"۔ (آل عمران:۱۹،۱۹۱) (۱۰)بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اونچے سے اونچے اعمالِ صالحہ کا مقصد اور ان کی روح ذکر اللہ ہے، مثلاً نماز کے بارے میں ارشا دہے: میری یاد کے لیے نماز قائم کرو" (طٰہٰ:۱۴) اور مناسکِ حج کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: بیت اللہ کا طواف اور صفاومروہ کے درمیان سعی اور جمرات کی رمی یہ سب چیزیں ذکر اللہ ہی کے لیے مقرر ہوئی ہیں۔ (ابوداؤد، باب فی الرمل، حدیث نمبر:۱۶۱۲ عن عائشہؓ۔ مسنداحمد، حدیث السیدۃ عائشۃؓ، حدیث نمبر:۲۴۳۹۶ عن عائشہؓ۔ صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر:۲۶۶۴) جہاد کے بارے میں ارشادِ خداوندی ہے: اے ایمان والو! جب تمہاری کسی دشمن فوج سے مڈبھیڑ ہوجائے، تو ثابت قدم رہو (اور قدم جماکے جنگ کرو) اور اللہ کا ذکر کرو، امید ہے کہ تم فلاح یاب ہوگے (الانفال:۴۵) اور ایک حدیث قدسی میں ہے: میرا بندہ مکمل بندہ وہ ہے جو اپنے حریف مقابل سے جنگ کے وقت بھی مجھے یاد کرتا ہے۔ (ترمذی، باب فی دعاء الضیف، حدیث نمبر:۳۵۰۴) قرآن وحدیث کے ان نصوص سے ظاہر ہے کہ نماز سے لے کر جہاد تک تمام اعمالِ صالحہ کی روح اور جان ذکر اللہ ہے اور یہی ذکر اور دل وزبان سے اللہ کی یاد وہ پروانۂ ولایت ہے جس کو عطا ہوگیا وہ واصل ہوگیا اور جس کو عطا نہیں ہوا وہ دور اور مہجور رہا، یہ ذکر اللہ والوں کے قلوب کی غذا اور ذریعۂ حیات ہے؛ اگر وہ ان کو نہ ملے تو جسم ان قلوب کے لیے قبور بن جائیں اور ذکر ہی سے دلوں کی دنیا کی آبادی ہے اگر دلوں کی دنیا اس سے خالی ہوجائے تو بالکل ویرانہ ہوکر رہ جائے اور ذکر ہی ان کا وہ ہتھیار ہے جس سے وہ روحانیت کے رہزنوں سے جنگ کرتے ہیں اور وہی ان کے لیے وہ ٹھنڈا پانی ہے جس سے وہ اپنے باطن کی آگ بجھاتے ہیں اور وہی ان کے بیماریو ںکی وہ دوا ہے کہ اگر ان کو نہ ملے تو ان کے دل گرنے لگیں اور وہی وسیلہ اور ربط ہے ان کے اور ان کے علام الغیوب رب کے درمیان، کیا خوب کہا گیا ہے ؎ اِذَا مَرِضْنَا تَدَاوَیْنَا بِذِکْرِکُمْ فَنَتُرْکُ الذِکْرَ أَحْیَانًا فَنَنْتَکسُ (اصلاح القلوب: ۱/۳۴) "ترجمہ: جب ہم بیمار ہوجاتے ہیں تو تمہاری یاد سے اپنا علاج کرتے ہیں اور جب کسی وقت یاد سے غافل ہوجائیں تو مرنے لگتے ہیں"۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح بینا یعنی آنکھوں کو روشنی اور بینائی سے منور کیا ہے اسی طرح ذکر کرنے والی زبانوں کو ذکر سے مزین فرمایا ہے؛ اِسی لیے اللہ کی یاد سے غافل زبان اس آنکھ کی طرح ہے جو بینائی سے محروم ہے اور اس کان کی طرح ہے جو شنوائی کی صلاحیت کھوچکا ہے اور اس ہاتھ کی طرح ہے جو مفلوج ہوکر بیکار ہوگیا ہے، ذکراللہ ہی وہ راستہ اور دروازہ ہے جو حق جل جلالہ اور اس کے بندے کے درمیان کھلا ہوا ہے اور اس سے بندہ اس کی بارگاہِ عالی تک پہنچ سکتا ہے اور جب بندہ اللہ کے ذکر سے غافل ہوتا ہے تو یہ دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ (ملخصا من کلام الشیخ ابن قیم فی مدارک السالکین، فصل ومن منازل ایاک نعبدوایاک نستعین منزلۃ الذکر:۲/۵۵) مندرجہ بالا اقتباس میں ذکر اللہ کی تاکید وترغیب کے جن دس عنوانات کا ذکر کیا گیا ہے قرآن مجید میں ان کے علاوہ بھی بعض عنوانات سے ذکر اللہ کی ترغیب دی گئی ہے، مثلاً فرمایا گیا: قلوب کو (اللہ سے رابطہ رکھنے والوں کے دلوں اور ان کی روحوں کو) اللہ کے ذکر ہی سے چین واطمینان حاصل ہوتا ہے۔ (الرعد:۲۸) کچھ خاص اذکار حضور اکرم ﷺ نے جن کلمات کے ذکر کی تلقین فرمائی ہے وہ اختصار کے باوجود اللہ تعالیٰ کی تنزیہ وتقدیس اور تحمید وتوحید اور اس کی شانِ کبریائی وصمدیت کے بیان میں بلاشبہ معجزانہ شان رکھتے ہیں اور اس کی معرفت کے گویا دروازے ہیں۔ یہاں اختصار کے ساتھ پوری حدیث بیان کئے بغیر صرف الفاظ ذکر کیئے جارہے ہیں: (۱)تمام کلموں میں افضل یہ چار کلمہ ہیں: "سُبْحَانَ اللہ، الْحَمْدُلِلّٰہِ، لَااِلٰہَ اِلَّااللہ اور اللہ اَکْبَرْ"" اللہ تعالیٰ پاک ہیں، تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ تعالیٰ سب کے بڑے ہیں"۔ (بخاری، باب اذاقال واللہ لاأتکلم الیوم۔ مسلم، باب کراھۃ التسمیۃ بالاسماء القبیحۃ، حدیث نمبر:۳۹۸۵) (۲)سُبْحَانَ اللہ وَبِحَمْدِہٖ "میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں اس کی (تمام) تعریفوں کے ساتھ"۔ (بخاری، باب فضل التسبیح، حدیث نمبر:۵۹۲۶۔ مسلم، باب فضل التھلیل والتسبیح والدعاء، حدیث نمبر:۴۸۵۷) (۳)سُبْحَانَ اللہ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہ الْعَظِیْم۔ "اللہ تعالیٰ کی میں تعریف بیان کرتا ہوں اس کی (تمام) تعریفوں کے ساتھ، اللہ تعالیٰ (ہرعیب سے) پاک ہے جو بڑی عظمت والا ہے"۔ (بخاری، باب فضل التسبیح، حدیث نمبر:۵۹۲۷۔ مسلم، باب فضل التھلیل والتسبیح والدعاء، حدیث نمبر:۴۸۶۰) (۴)سُبْحَانَ اللہ وَبِحَمْدِہٖ عَدَدَخَلْقِہِ وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ وَرِضٰی نَفْسِہٖ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ۔ "میں خدا کی پاکی بیان کرتا ہوں اس کی (تمام) خوبیوں کے ساتھ ا سکی مخلوقات کی تعداد کے برابر اور اس کی رضامندی اور خوشنودی کے برابر اس کے عرش کے وزن کے برابر اور اس کے کلمات کی سیاہی کے برابر (یعنی بے انتہا اس لیے کہ خدا کے کلموں کی کوئی حد نہیں سارا سمندر اگرسیاہی ہو وہ ختم ہوجاوے اور خدا کے کلمہ تمام نہ ہو)"۔ (مسلم، باب التسبیح أول النھار وعندالنوم، حدیث نمبر:۴۹۰۵۔ ابوداؤد، باب التسبیح بالحصیٰ، حدیث نمبر:۱۲۸۵) (۵)سب سے افضل ذکر "لَااِلٰہَ الَّااللہ"۔ (ترمذی، باب ماجاء أن دعوۃ المسلم مستجابۃ، حدیث نمبر:۳۳۰۵۔ ابن ماجہ، باب فضل الحامدین، حدیث نمبر، حدیث نمبر:۳۷۹۰) (۶)"لَااِلٰہَ الَّااللہ وَحْدَہُ لَاشَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَعَلَی کُلِّ شَیْیٍٔ قَدِیْر"" اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کا ہے اور تمام تعریف اسی کے لیے ہے اور وہ ہرچیز پر قادر ہے"۔ (بخاری، باب صفۃ ابلیس وجنودہ، حدیث نمبر:۳۰۵۰۔ مسلم، باب فضل التھلیل والتسبیح والدعاء، حدیث نمبر:۴۸۵۷) (۷)لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّابِاللہ۔ (بخاری، باب قول لاحول ولاقوۃ الاباللہ، حدیث نمبر:۵۹۳۰۔ مسلم، باب استحباب خفض الصوت بالذکر، حدیث نمبر:۴۸۷۳) اس کے علاوہ بہت سارے اذکار ہیں، سب کا احاطہ کرنے میں تفصیل ہوجائیگی؛ نیزہرذکر کی الگ الگ فضیلت اور ذکر کے اوقات کی تعیین بھی احادیث میں آئی ہے۔