انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۳)فن اسماء الرجال کی تدوین کیسے ہوئی؟ ضرورت ایجاد کی ماں ہے،حدیث کے راوی جب تک صحابہ کرامؓ تھے،اس فن کی کوئی ضرورت نہ تھی، وہ سب کے سب عادل، انصاف پسند اور محتاط تھے (لان الصحابۃ عدول ونقلہم صحیح فلاوجہ للخلاف۔ مرقات:۵/۱۷) کبارِ تابعین بھی اپنے علم وتقویٰ کی روشنی میں ہر جگہ لائق قبول سمجھے جاتے تھے، جب فتنے پھیلے اور بدعات شروع ہوئیں تو ضرورت محسوس ہوئی کہ راویوں کی جانچ پڑتال کی جائے، فتنے سب سے پہلے کوفہ اور بصرہ سے اُٹھے، اس لیے علم کی تدوین و تنقیح پہلے یہیں ہونی ضروری تھی، کوفہ میں دو علمی مرکز تھے (۱)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) کا اور (۲)حضرت علی کرم اللہ وجہہ (۴۰ھ) کا، حضرت علیؓ کے خلیفہ بنتے ہی مسلمانوں کا سیاسی اختلاف عراق میں اُمڈ آیا اوراس راستے سے حضرت علی ؓ کے حلقے میں بہت سے غلط لوگ آشامل ہوئے،حضرت علیؓ کی زندگی میں وہ ان اختلافات کو دینی اختلاف نہ بناسکے؛ لیکن آپ کے بعد انہوں نے حضرت علی ؓ کے نام سے بہت سی غلط باتیں کہنی شروع کردیں؛ اس ورطۂ شبہات میں انہوں نے دین کا بنیادی تصور تک بدل ڈالا، یہ اسلام میں فرقہ بندی کی طرف پہلا قدم تھا،اہل حق کے لیے اب صرف ایک ہی سلامتی کی راہ تھی؛کہ حضرت علیؓ کی وہی روایات قابل اعتماد سمجھی جائیں جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگردوں کے واسطہ سے آئیں ؛کیونکہ کوفہ میں یہی ایک علمی حلقہ تھا جو بیرونی حکمت سے محفوظ اور بچا رہا تھا اورحضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے یہ شاگرد حضرت علیؓ کے حلقہ درس میں بھی گاہے بگاہے حاضر ہوتے رہے تھے،حضرت مغیرہ بن شعبہؓ (۵۰ھ) جو کوفہ میں رہے ہیں فرماتے ہیں: "لَمْ يَكُنْ يَصْدُقُ عَلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الْحَدِيثِ عَنْهُ إِلَّا مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ"۔ (مقدمہ مسلم،حدثنا علی بن خشرم اخبرنا ابو:۱/۳۱) ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وہی روایات لائق قبول، سمجھی جاتی تھیں جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگردوں سے منقول ہوں۔ حضرت ابو اسحٰق السبیعی (۱۲۹ھ) کہتے ہیں کہ بدعات کے ان شیوع پر خود حضرت علیؓ کے شاگردوں میں سے ایک نے کہا کہ ان لوگوں (بدعتیوں) کو خدا غارت کرے انہوں نے کتنا علم (حضرت علیؓ کا) ضائع کردیا ہے۔ امام ابن سیرینؒ (۱۱۰ھ) کہتے ہیں کہ جب یہ فتنے اٹھے تو علماء نے طے کیا: "سَمُّوا لَنَا رِجَالَكُمْ فَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ السُّنَّةِ فَيُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ وَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ الْبِدَعِ فَلَا يُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ"۔ (مسلم،باب حدثنا ابو جعفر محمد بن الصباح:۱/۳۴) ترجمہ: اپنے روات حدیث کے نام بتاؤ، دیکھا جائے گا کہ اہل سنت کون ہیں؛ انہی کی روایات لی جائیں گی، اہلِ بدعت کا بھی پتہ لگایا جائے گا اوران کی احادیث نہ لی جائیں گی۔ یہ صحیح ہے کہ عراق کی سرزمین پہلے فتنوں کی آماجگاہ بنی، کوفہ کے بعد بصرہ عراق کا دوسرا بڑا شہرتھا کوفہ سے تشیع اُٹھا تو بصرہ سے انکار قدر کی صدا اٹھی۔ "عن یحییٰ بن یعمر قال کان اول من قال فی القدر بالبصرہ معبد الجھنی"۔ ترجمہ: سب سے پہلے بصرہ میں جس نے عقیدہ قدر میں بات چیت کی وہ معبد جہنی تھا۔ یحییٰ بن یعمر اورحمید بن عبدالرحمن حمیری حج کے موقع پر حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے ملے اور ان لوگوں کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: "فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُمْ وَأَنَّهُمْ بُرَآءُ مِنِّي وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَ اللَّهُ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ"۔ (مسلم،باببیان الایمان والاسلام والاحسان:۱/۸۷) ترجمہ :جب تم ان لوگوں سے ملو تو انہیں کہہ دو کہ میں ان سے لا تعلق ہوں اور وہ مجھے سے لا تعلق ہیں، میں بقسم کہتا ہوں کہ اگر یہ احد کے برابر سونا خیرات کریں اسے اللہ تعالی ان سے قبول نہ کریگا، جب تک کہ وہ تقدیر پرایمان نہ لائیں۔ اس سے پتہ چلا کہ ان دنوں صحابہ کی بات اہل حق کے ہاں حجت سمجھی جاتی تھی؛ تبھی تو یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمن نے صحابی رسول سے اس بارے میں پوچھنے کا فیصلہ کیا تھا اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا جواب بھی اسی طرف رہنمائی کررہا ہے کہ صحابہ جس سے لا تعلق ہوں وہ اس کے اہل باطل ہونے کا ایک کھلا نشان ہے اور یہ کہ صرف اہل باطل ہی صحابہ سے بے تعلق رہتے ہیں، اہل حق ہمیشہ ان کی پیروی کرتے آئے ہیں۔ علم اسماء الرجال کا احساس یہیں سے پیدا ہوا، حضرت عبداللہ بن عباسؓ (۶۸ھ) حضرت علیؓ کی بہت سی مرویات کے بارے میں کہہ چکے تھے کہ یہ بات حضرت علیؓ نے کبھی نہ کہی ہوگی، امام مسلم لکھتے ہیں: "فَدَعَا بِقَضَاءِ عَلِيٍّ فَجَعَلَ يَكْتُبُ مِنْهُ أَشْيَاءَ وَيَمُرُّ بِهِ الشَّيْءُ فَيَقُولُ وَاللَّهِ مَا قَضَى بِهَذَا عَلِيٌّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ ضَلَّ"۔ (مقدمہ مسلم، باب حدثنا بن عمرو الضبی حدثنا:۱/۲۸) ترجمہ :آپ نے حضرت علیؓ کے فیصلے منگوائے، ان سے کچھ باتیں نقل بھی فرمائیں اور ایسی چیزیں بھی آپ کے سامنے سے گزریں کہ آپ نے فرمایا: یہ بات حضرت علیؓ نے کبھی نہ کہی ہوگی، مگریہ کہ آپ راہ سے اترجائیں۔ امام ترمذیؒ (م۲۷۹ھ) لھتے ہیں: تابعین میں کئی ائمہ گزرے؛ جنہوں نے اسماء الرجال (راویان حدیث) میں کلام کیا، ان میں حسن بصری (۱۱۰ھ) اورطاؤس (۱۰۵ھ) نے معبد جہنی میں کلام کیا، سعید بن جبیر (۹۵ھ) نے طلق بن حبیب میں کلام کیا، ابراہیم نخعی (۹۵ھ) اور عامر الشعبی (۱۰۳ھ) نے حارث الاعور میں کلام کیا؛اسی طرح ایوب سختیانی، عبداللہ بن عون، سلیمان تیمی، شعبہ بن حجاج، سفیان الثوری، مالک بن انس، اوزاعی، عبداللہ بن مبارک، یحییٰ بن سعید القطان، وکیع بن الجراح اور عبدالرحمن بن المہدی جیسے اہل علم نے بھی رجال میں کلام کیا ہے اور کمزور راویوں کی تضعیف کی ہے؛ انہیں اس بات پر اللہ بہتر جانتا ہے،مسلمانوں کے خیر خواہی کے جذبہ نے آمادہ کیا یہ نہ سمجھا جائے کہ ان کی غرض لوگوں پر طعن کرنا اوران کی غیبت کرنا تھا، ہمارے نزدیک ان کی غرض ان راویوں کا ضعف بیان کرنا تھا؛ تاکہ وہ پہچانے جائیں، بعض وہ راوی جن کی تضعیف کی گئی بدعتی تھے، بعض ان میں سے متہم فی الحدیث تھے،بعض بھولنے والے تھے اور کثرت سے غلطی کرنے والے تھے؛ سوان ائمہ نے چاہا کہ ان کے احوال بیان کردیئے جائیں اور اس سے دین کی خیر خواہی ملحوظ نظر تھی اور دین میں ثابت قدمی پیش نظر تھی، حقوق واموال کے بارے میں شہادت دینے سے دین کے بارے میں شہادت دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ (کتاب العلل:۲/۲۳۵) طلق بن حبیب میں امام ابو حنیفہؒ نے بھی کلام کیا ہے کہ وہ تقدیر کا قائل نہ تھا (الجواہر المضیہ:۱/۳۰) زید بن عیاش کے بارے میں کہا وہ مجہول ہے (تہذیب التہذیب:۲/۳۲۴) جابر جعفی (۱۲۸ھ) کے بارے میں کہا کہ میں نے اس سے زیادہ جھوٹا کسی کو نہیں پایا (تہذیب التہذیب) سویہ صحیح ہے کہ ائمہ کرام نے راویوں کی جانچ پڑتال کو تحفظ دین کی خاطر جائز کہا ہے، نہ اسے غیبت سمجھا گیا، نہ اکرام مومن کے خلاف، یہ صرف تحفظ دین کا جذبہ تھا جو ان سے راویوں کی جانچ پڑتال کراتا رہا اور اس سے دین کی پوری حفاظت ہوتی رہی۔