انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ بن عبدنہم نام ونسب عبداللہ نام،ذوالبجادین لقب، نسب نامہ یہ ہے، عبداللہ بن عبد نہم بن عفیف بن سحیم بن عدی بن ثعلبہ بن سعد بن عدی عثمان وغیرہ۔ اسلام باپ کا سایہ بچپن ہی میں سر سے اٹھ گیا،چچا نے بڑے لطف ومحبت سے پرورش کی ٹوٹے ہوئے دلوں میں قبولِ حق کا مادہ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے عبداللہ کا دل جس میں یتیمی نے بہت گداز پیدا کردیا تھا، ہوش سنبھالتے ہی اسلام سے متاثر ہوگیا، چچا کافر تھے انہیں جب معلوم ہوا کہ بھتیجے نے محمد کا مذہب اختیار کرلیا،تو ساری شفقت ومحبت سرد مہری سے بدل گئی اور عبداللہ سے کہا اگر تم نے محمد کا دین قبول کرلیا تو جو کچھ دیا لیا ہے،سب چھین لونگا ،مکہ جس دل میں ایمن کی دولت بھر چکی تھی وہ دنیوی مزخرفات کو کیا دھیان میں لاسکتا تھا،عبداللہ نے کہا اگر ایسا ہے تو میں مسلمان ہوں ،یہ بے باکانہ جواب سن کر چچا نے جو کچھ دیا تھا، سب واپس لے لیا حتیٰ کہ بدن کے کپڑے تک اتر والئے، عبداللہ اسی حالت میں ماں کے پاس پہنچے ماں کی مامتا سے اس حالت میں نہ دیکھا گیا، ایک چادر تھی، اس کے دو ٹکڑے کرکے عبداللہ کے حوالہ کی،انہوں نے ایک کاتہ بند بنایا اورایک کی چادر، اعزہ اقربا سے ناتہ ٹوٹ چکا تھا، نماز فجر کے وقت مسجد نبوی میں پہنچے اور آنحضرتﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، نماز کے بعد حسب معمول رسول اللہ ﷺ سب سے مصافحہ کرنے اورآنے والوں پر نظریں دوڑانے لگے،عبداللہ پر نظر پڑی، پوچھا تم کون ہو؟ عرض کی عبدالعزیٰ ،فرمایا تم عبداللہ ذوالجادین (دو چادروں والے) ہو تم میرے دروازہ پر رہا کرو، آستانہؓ نبویﷺ کی دربانی سے بڑھ کر کیاشرف ہوسکتا ہے؛چنانچہ عبداللہ بابِ نبویﷺ پر رہنے لگے اور جب تک زندہ رہے اس در کے دربانی نہ چھوٹی۔ (اسد الغابہ:۳/۱۲۳) وفات ۹ھ میں آنحضرتﷺ کے ساتھ غزوۂ تبوک میں گئے،وقت آخر ہوچکا تھا،معمولی بیمار پڑ کر تبوک کے لشکر گاہ میں وفات پاگئے،خود آقائے نامدار ﷺ نے صدیق اکبرؓ اور فاروقؓ اعظم کے ساتھ مل کر رات کی تاریکی میں مشعل جلا کر قبر کھودی اوراپنے دستِ مبارک سے عبداللہ کی لاش قبر میں اتار کر دعافرمائی، خدایا میں اس سے راضی تھا تو بھی رضا مندی ظاہر فرما، غرض آستان نبوی کا یہ دربان اس قابلِ رشک طریقہ پر سرکارِ دو عالمﷺ کےہاتھوں پیوندِ خاک ہوا، اس واقعہ کے راوی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے عبداللہ کی موت پر اتنا رشک آیا کہ دل نے کہا کاش ان کے بجائے میں مرا ہوتا۔ (سیرۃ ابن ہشام:۳/۳۲۵) عبادت عبداللہ کا دل سوزِ ایمان اورگدازِ قلب سے پھکا جاتا تھا، اورآستان نبویﷺ ان کی پرسوز تہلیل و تسبیح اور تلاوتِ قرآن سے گونجا کرتا تھا، ایک دن حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ !یہ ریا کار معلوم ہوتا ہے، فرمایا، نہیں وہ سوزِ قلب رکھنے والوں میں ہیں۔ (اسد الغابہ:۳/۳۳)