انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** علماء اہلِ حدیث" کے ہاں امام ابوحنیفہؒ کا مقام مولانا محمدابراہیم سیالکوٹی، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری کے بہت قریبی دوست ہونے کے باعث علماء دیوبند سے بھی اتنے ہی قریب تھے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بہت معتقد تھے؛ اکثر فرماتے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا احترام مجھے رُوحانی طور پر بتلایا گیا ہے، میں اُن شخصوں کو جن کوحضرت امام سے حسنِ عقیدت نہیں ہے کہا کرتا ہوں "أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَايَرَى" (النجم:۱۲) میں نے جوکچھ عالم بیداری اور ہوشیاری میں دیکھ لیا اس میں مجھ سے جھگڑا کرنا بے سود ہے ۔ (تاریخ اہلِ حدیث:۷۹) جوشخص ائمہ دین اور خصوصاً امام ابوحنیفہ کی بے ادبی کرتا ہے اس کا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا۔ (تاریخ اہلِ حدیث:۴۲۸، نقلا عن الحافظ عبدالمنان) آپ نے تاریخ اہلِ حدیث کے نام سے محدثین اور اپنے اکابر جماعت کی ایک تاریخ لکھی، اس میں آپ نے امام ابوحنیفہ کا بھی ذکر کیا، آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس دہلی اس کوشائع کرنا چاہتی تھی؛ لیکن وہ لوگ اس پررضامند نہ تھے کہ امام ابوحنیفہ کومحدثین میں ذکر کیا جائے انہوں نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ حضرت امام صاحب کا ذکر اس کتاب سے نکال دیں مولانا ابراہیم صاحب نے کتاب ان سے واپس لے لی؛ مگرامام صاحب کا نام اس کتاب سے نہ نکالا اور فرمایا کہ امام ابوحنیفہؒ کا نام محدثین سے کبھی الگ نہیں ہوسکتا۔ غزنوی خاندان کے علماء بھی حضرت امام صاحب کی شان میں بہت مؤدب رہے ہیں، سیدابوبکر غزنوی نے اپنے والد مولانا محمدداؤد غزنوی کے سوانح حیات میں مولانا محمداسحاق بھٹی کا ایک مقالہ بھی درج کیا ہے، اس میں آپ سیدمحمدداؤد غزنوی کے بارے میں لکھتے ہیں: "ائمہ کرام کا اُن کے دل میں انتہائی احترام تھا، حضرت امام ابوحنیفہؒ کا اسمِ گرامی بے حد عزت سے لیتے، ایک دن میں اُن کی خدمت میں حاضر تھا کہ جماعت اہلِ حدیث کی تنظیم سے متعلق گفتگو شروع ہوئی، بڑے دردناک لہجہ میں فرمایا: مولوی اسحاق! جماعت اہلِ حدیث کوحضرت امام ابوحنیفہؒ کی روحانی بددعا لے کر بیٹھ گئی ہے ہرشخص ابوحنیفہ ابوحنیفہ کررہا ہے، کوئی بہت ہی عزت کرتا ہے توامام ابوحنیفہ کہہ دیتا ہے؛ پھراُن کے بارے میں ان کی تحقیق یہ ہے کہ وہ تین حدیثیں جانتے تھے یازیادہ سے زیادہ گیارہ؛ اگرکوئی بڑا احسان کرے تووہ اُنہیں سترہ حدیثوں کا عالم گردانتا ہے، جولوگ اتنےجلیل القدر امام کے بارے میں یہ نقطۂ نظر رکھتے ہوں ان میں اتحاد اور یک جہتی کیوں کرپیدا ہوسکتی ہے"۔ (مولانا داؤد غزنوی:۱۳۶) ان دنوں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت جوآپ نے اپے بیٹے حماد کے نام لکھی، نئی نئی طبع ہوکر آئی تھی، آپ اسے آنے جانے والوں کودکھاتے اور فرماتے، حضرت امام ابوحنیفہ کی نظر کم از کم پانچ لاکھ احادیث پر تھی، اب بھی جماعت اہلِ حدیث میں اچھے خاصے لوگ ملیں گے جوائمہ کرام اور فقہاء اسلام کا خاصا احترام کرتے ہیں؛ لیکن افسوس کہ چند ناعاقبت اندیش متعصب افراد کی جسارت اور دوسروں کی اس پر مصلحت کیش خاموشی پوری جماعت کواہل السنت والجماعت سے باہر کھڑا کرتی ہے، اناللہ وانا الیہ راجعون؛ لیکن افسو س کہ ان کے خطیب قسم کے علماء اور جماعت میں اپنی جھوٹی شخصیت اُبھارنے والے فقہ حنفی سے برسرِعام کھیلتے ہیں، حضرت امام کے علم حدیث کاتمسخراڑاتے ہیں اور یہ مسخرے نہیں جانتے کہ حضرت امام کی بددعا جس کے بھی شاملِ حال ہوئی وہ قادیانی ہوکرمرا یارفض کی گود میں گیا یااسے منکرینِ حدیث میں جگہ ملی اور یاوہ پاگل ہوگیا، سلامتی سے اُسے یہاں سے رخصتی نہیں ہوی، "اعاذنا اللہ من سوء الادب فی الائمۃ المجتھدین"۔ یہ درست ہے کہ اس حلقے میں بعض حضرات معتدل مزاج بھی تھے؛ انہوں نے کوشش کی کہ جماعت کومطلق العنان ہونے سے بچایا جائے اور انہیں پابند کیا جائے کہ کسی مسئلہ میں سلف کی حدود سے نہ نکلیں، اس جذبہ سے بہت سے لوگ سلفی کہلائےپہلے جولوگ قال اللہ اور قال الرسول کے سوا کچھ نہ سنتے تھے، اب سلف کی پیروی میں فخر محسوس کرنے لگے، یہ اِن لوگوں میں پہلی نظریاتی تبدیلی ہے جوعمل میں آئی ہے ؎ زاجتہادِ عالماں کوتاہ نظر اقتادء رفتگاں محفوظ ت ہمیں پورا احساس ہے کہ موضوعِ زیربحث اہلِ حدیث (باصطلاحِ جدید) کا تعارف ہے، یہ چند باتیں ہم نے صرف تاریخی پہلو سے کہی ہیں، کسی فریق کے کسی موقف کا اثبات یاابطال ہرگز پیشِ نظر نہیں، حدیث کے طلبہ کے لیئے حدیث سے متعلق جملہ مباحث لائقِ مطالعہ ہوتے ہیں، ہم نے ضرورت کے مطابق یہ تاریخی نقشہ آپ کے سامنے پیش کردیا ہے، کسی عزیز نے کسی بات پرکوئی گرانی محسوس کی ہوتو ہم اس سے معذرت خواہ ہیں، تاریخی حقائق سے صرفِ نظر توکی جاسکتی ہے؛ لیکن انہیں مٹایا نہیں جاسکتا، یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ جودرخت تقریباً ایک صدی پہلے ترکِ تقلید کے نام سے بویا گیا تھا اس کے نکیلے کانٹوں سے خود اس کے داعی بھی خون آلودہ ہوئے بغیر نہ رہے سکے، غزنوی حضرات اس لیے ان مفاسد سے بچےرہے کہ وہ سلوک واحسان کے قائل تھے، مولانا عبدالجبار غزنوی کی کتاب "اثبات الالہام والبیعۃ" کا ذکر پہلے آچکا ہے، یہ کتاب مولوی غلام علی قصوری کی ایک کتاب کے جواب میں لکھی گئی تھی، مقلدین کے بارے میں آپ کا نظریہ تھا: "مذاہب اربعہ حق ہیں اور ان کا آپس کا اختلاف ایسا ہے جیسا صحابہ کرامؓ میں بعض مسائل کا اختلاف ہوا کرتا تھا، باوجود اختلاف کے ایک دوسرے بغض وعداوت نہیں رکھتے اور باہم سب وشتم نہیں کرتے مثل خوارج وروافض کے، صلحاء اور ائمہ دین کی محبت جزوِ ایمان ہے"۔ (اثبات الالہام والبیعۃ:۶، طبع دوم) مولانا عبدالجبار غزنوی مولانا عبداللہ غزنوی کے بیٹے تھے، مولانا عبدالجبار کے بیٹے مولانا محمدداؤد غزنوی اور مولانا عبدالغفار تھے، مولانا عبداللہ غزنوی کے ایک دوسرے پوتے مولانا اسماعیل غزنوی تھے، جوسعودی عرب کے ملک عبدالعزیز بن آلِ سعود کے مقربین میں سے تھے، ان کے باعث سعودی حکومت اور موحدینِ ہند میں خاصے روابط پیدا ہوئے اور اب تک یہ روابط قائم ہیں، اس مناسبت سے پھر سے لفظ وہابی ان حلقو میں عام ہوگیا ہے، یہ حضرات اب اس لفظ سے نفرت نہیں کرتے، سعودی عرب سے تعلقات رکھنے کے لیئے انہیں اب اس نام کی ضرورت ہے؛ ورنہ علماء آلِ سعود تومقلدین ہیں اور حنبلی مذہب رکھتے ہیں۔