انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت اسد بن موسیٰؒ اہل قلم اتباعِ تابعین میں اسد بن موسیٰ کا نام کافی ممتاز ہے، ان کی مُرتِّبَہ مسندِ حدیث کی قدیم ترین تصانیف میں شمار کی جاتی ہے،ان کا تعلق خاندانِ بنی امیہ سے تھا،عہدِ بنی امیہ اپنے حُکام وعُمال کی بد عنوانیوں اورکجرویوں کے باعث بہت بدنام ہے؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی علوم وفنون کی اس عہد میں بہت ترقی ہوئی ہے،خاص طور سے حدیث کی اشاعت و تدوین کے اعتبار سے یہ زمانہ بہت نمایاں اورممتاز ہے۔ نام ونسب نام اسد اور والد کا اسم ِ گرامی موسیٰ تھا، جو مشہور خلیفہ ولید بن عبدالملک کے پوتے تھے ،پورا سلسلۂ نسب یہ ہے، اسد بن موسیٰ بن ابراہیم بن الخلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروان بن الحکم الاموی (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۶۸)حدیث میں غیر معمولی زرف نگاہی کی وجہ سے اسد السنہ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ ولادت اوروطن ان کی پیدائش ۱۳۲ھ میں بمقام مصر عین اس پر آشوب وقت میں ہوئی جب دریائے زاب کے کنارے سفاح کے چچا عبداللہ بن علی اور مروان ثانی کے درمیان فیصلہ کن جنگ ہو رہی تھی، اس میں بنو امیہ کا آفتاب اقبال ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا، اسد السنۃ کے مولد کے بارے میں ایک قول بصرہ کا بھی ملتا ہے لیکن وہ صحیح نہیں ہے۔ (تہذیب التہذیب:۱/۲۶۰) شیوخ ان کے مشہور وممتاز اساتذہ میں یہ نام ملتے ہیں،شعبہ ،حماد بن سلمہ،عبدالعزیز بن الماحبشون،ابن ابی ذئب،شیبان،روح، لیث بن سعد،معاویہ بن صالح،محمد بن طلحہ،سب سے بزرگ شیخ جن سے اسد السنۃ کو شرفِ تلمذ حاصل ہوا،یونس بن ابی اسحاق ہیں۔ (ایضاً:۲۶۰) فضل وکمال ان کے فکر ونظر کا خصوصی جو لانگاہ علمِ حدیث تھا،حدیث میں ان کے غیر معمولی انہماک نے دوسرے علوم کو پس پشت ڈال دیا تھا،امام بخاری نے انہیں مشہور الحدیث قرار دیا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۶۵) جرح وتعدیل امام اسد السنۃ کے حفظ واتقان اورثقاہت وعدالت کا اعتراف تمام علماء نے کیا ہے،ابن حماد حنبلی رقمطراز ہیں: ھواحد الثقات الاکیاس (شذرات الذہب:۱/۲۷) علاوہ ازیں امام نسائی، عجلی،ابنِ مانع،بزاء اورابنِ یونس نے بھی بصراحت تصدیق وتوثیق کی ہے۔ صرف ابو سعید بن یونس نے اپنے ایک قول میں انہیں غریب الحدیث اور علامہ بن حزم نے منکر الحدیث کہا ہے،لیکن بقول حافظ ذہبی یہ تضعیف چنداں لائق اعتنا نہیں کیونکہ ائمہ کی اکثریت ان کی ثقاہت پر متفق ہے،اگر ان کی بعض روایات میں کوئی سقم نظر آتا ہے تو وہ بعد کے رواۃ کے ضعف کی بنا پر ہے،علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں اس کی تصریح کی ہے۔ (میزان الاعتدال:۱/۹۷) تلامذہ ان کے دامانِ فیض سے مستفید ہونے والوں میں احمد بن صالح،عبدالملک بن حبیب، ربیع بن سلیمان مرادی،مقدام بن داؤ الرعینی، ابویزید یونس القراطیسی اورمحمد بن عبدالرحیم البرتی کے اسمائے گرامی لائق ذکر ہیں۔ وفات محرم ۲۱۳ھ میں بمقام مصر رحلت فرمائی۔ (حسن المحاضرۃ:۱/۱۴۵) تصنیفات ان کے اہل قلم ہونے کی شہادت تمام تذکروں سے ملتی ہے لیکن تلاش وتحقیق کے بعد ان کی تصانیف میں صرف کتاب الزہد اورمسندِ اسدی کا پتہ چل سکا ہے (الرسالۃ المسنطرفہ:۵۳) مصر میں سب سے پہلے انہی نے مسند مرتب کی جو تمام مسانید میں سب سے قدیم تسلیم کی جاتی ہے،لیکن ابھی اس کے کسی مخطوطہ کا علم نہیں ہوسکا ہے۔