انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جامع الابواب تلاوت قرآن صحابہ کرامؓ تلاوت قرآن میں مصروف رہتے تھے اورتلاوت کا طریقہ یہ تھا کہ وہ قرآن مجید کے متعدد ٹکڑے کئے تھے اوربلاناغہ اس کی تلاوت فرماتے تھے، ایک نووارد صحابی نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا ایک ٹکڑے میں کتنی صورتیں شامل تھیں؟ بولے تین، پانچ، سات، نو، گیارہ ،تیرہ اوراخیر کی تمام چھوٹی چھوٹی سورتیں ایک ٹکڑے میں داخل تھیں۔حوالہ نہیں ملا (ابوداؤ، کتاب الصلوٰۃ، ابواب شہر رمضان ،باب تخریب القران،حدیث نمبر:) رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کے اس شوق وشغف کے دیکھتے تو خوش ہوتے اوران کی حوصلہ افزائی فرماتے، ایک بار صحابہ کرام جن میں عجمی اوربدوی سبھی شامل تھے، تلاوت کررہے تھے آپ کا شانۂ نبوت سے برآمد ہوئے تو فرمایا، پڑھے جاؤ، سب کا طرز اچھا ہے، اس کے بعد ایک قوم پیدا ہوگی جو قرآن کو تیر کی طرح سیدھا کرلے گی؛ لیکن اس کا مقصد ثواب آخرت نہ ہوگا بلکہ دنیا ہوگی۔ (ابوداؤد، بَاب مَا يُجْزِئُ الْأُمِّيَّ وَالْأَعْجَمِيَّ مِنْ الْقِرَاءَةِ ،حدیث نمبر:۷۰۶) اسی طرح ایک روز صحابہ کرام ؓ تلاوت کررہے تھے آپ نے دیکھا تو فرمایا خدا کا شکر ہے خدا کی کتاب ایک ہے اور تم میں سرخ، سیاہ، سپید، ہر قسم کے لوگ ہیں،الخ۔ (ابوداؤد، بَاب مَا يُجْزِئُ الْأُمِّيَّ وَالْأَعْجَمِيَّ مِنْ الْقِرَاءَةِ ،حدیث نمبر:۷۰۶) رمضان میں یہ شوق اور بھی ترقی کرجاتا تھا ؛چنانچہ آپ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے اس شوق کو دیکھا تو فرمایا کہ پورے ایک مہینے میں قرآن ختم کیا کرو، بولے کہ، مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے، حکم ہوا بیس دن میں گذارش کی کہ میں اس سے بھی زیادہ طاقت پاتا ہوں، فرمایا پندرہ دن میں ،بولے کہ،مجھ میں اس سے بھی زیادہ طاقت ہے،ارشاد ہوا کہ دس دن میں عرض کی کہ مجھ میں اس سے بھی زیادہ طاقت ہے، فرمایا ساتھ دن میں اوراب اسے سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ (ابوداؤد ،کتاب الصلوٰۃ ،ابواب شہر رمضان ،باب فی کم یقرا القرآن،حدیث نمبر:۱۱۸۰) سخت سے سخت مصیبت میں بھی صحابہ کرام کے اس شوق میں کوئی فرق نہیں آتا تھا، بلکہ اس حالت میں قرآن مجید ہی ان کے لئے مایہ تسکین ہوتا تھا، جس وقت حضرت عثمانؓ کی شہادت واقع ہوئی وہ قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھے ؛چنانچہ ان کے خون کے قطرے قرآن مجید کی اس آیت پر گرے ۔"فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ" (استیعاب ،تذکرہ عثمان بن عفان) قرآن مجید کی تلاوت ہم بھی کرتے ہیں ؛لیکن معلوم ہوتا ہے کہ سرکا بوجھ اتاررہے ہیں، لیکن بعض صحابہ اس خوش الحانی کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے تھے کہ سننے والوں پرمحویت کا عالم طاری ہوجاتا تھا،ایک رات حضرت عائشہ گھر میں دیر کو آئیں رسول اللہ ﷺ نے وجہ پوچھی، تو بولیں آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص قرآن پڑھ رہے تھے، میں نے ایسی قرأت کبھی نہیں سنی تھی، آپ بھی ا نکے ساتھ ہولیے اورکہا ،یہ سالم مولیٰ بن ابی حذیفہ ہیں،خدا کا شکر ہے کہ میری امت میں ایسے لوگ موجود ہیں۔ حضرت عبداللہ بن قیسؓ نہایت خوش الحان تھے،ایک روزوہ قرآن پڑھ رہے تھے، آپ نے سنا تو پوچھا کون ہے ؟لوگوں نے نام بتایا توفرمایا ان کو نغمہ داؤوی عطا کیا گیا ہے۔ ( ابن ماجہ، کتاب الصلوٰۃ، باب فی حسن الصوت باالقرآن،حدیث نمبر:۱۳۲۸ ) حضرت ابوعثمانؓ نہدی کا بیان ہے کہ میں نے جاہلیت کا زمانہ بھی پایا ہے ؛لیکن میں نے چنگ و بربط کی آواز کو بھی ابوموسیٰ اشعریؓ کی خوش الحانی سے بہتر نہیں پایا، وہ ہم کو نماز فجر پڑھاتے تھے تو جی چاہتا تھا کہ پوری سورہ ٔبقرہ پڑھ ڈالتے۔ (استیعاب، تذکرہ عبدالرحمن بن مل) وہ حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو فرماتے کہ ہم کو خدا کا شوق دلاؤ، وہ قرأت شروع کرتے اورحضرت عمرنہایت محویت سے سنتے ایک باراسی حالت میں کسی نے کہا کہ، نماز کا وقت آگیا،بولے کیا یہ نماز نہیں ہے، وہ قرآن پڑھتے تو ازواج مطہرات نہایت شوق سے سنتیں ایک دن ان کو معلوم ہوا تو بولے کہ، اگر مجھے خبر ہوتی تو تم لوگوں کو اوربھی شوق دلاتا۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ) حضرت ابوموسیٰ اشعری ہی کی خصوصیت نہیں بلکہ خوش الحانی ان کے تمام قبیلہ کا وصف امتیاز تھا ،رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ رات کو جب قبیلہ اشعری کے لوگ آتے ہیں تو میں ان کی قرآن خوانی ہی سے ان کے جائے قیام کو پہچان لیتا ہوں۔ (مسلم ،کتاب الفضائل ،باب من فضائل الاشعرین،حدیث نمبر:۴۵۵۵) حضرت عبدالرحمن بن سائبؓ بھی نہایت خوش الحان تھے،خود ان کا بیان ہے کہ ایک دن میرے پاس حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ آئے اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم قرآن نہایت خوش الحانی کے ساتھ پڑھتے ہو، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ قرآن غم کے لیے نازل ہوا ہے اس لیے جب پڑھو تو روؤ اگر نہیں روتے تو رونی صورت بناؤ اور اس کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھو۔ صحابہ کرام ؓ تلاوت کی حالت میں قرآن مجید کے ادب واحترام کا نہایت لحاظ رکھتے تھے، حضرت مصعب بن سعد بن ابی وقاصؓ کا بیان ہے کہ میں ہاتھ میں قرآن مجید لئےہوئے تھا اورحضرت سعد بن ابی وقاص تلاوت فرمارہے تھے میں نے بدن کھجلایا تو حضرت سعدؓ نے فرمایا شاید تم نے اپنے شرمگاہ کامس کیا ، میں نے کہا ہاں بولے جاؤ وضو کرکے آؤ۔ (مؤطا مالک ،کتاب الصلوٰۃ ،باب الوضو من مس الفرج،۸۲) حضرت عبداللہ بن عمرتلاوت فرماتے تھے تو جب تک فارغ نہ ہوجائیں کسی سے بات چیت نہیں کرتے تھے۔ (بخاری کتاب التفسیر،باب قولہ نسا کم حرث لکم،حدیث نمبر:۴۱۶۳) حفظ قرآن قرآن مجید کی متفرق سورتیں اگرچہ تقریبا تمام صحابہ کو یاد تھیں؛لیکن ان میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ حضرت ابوایوبؓ، حضرت عبادہ بن صامتؓ ،حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ ،حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت ابوزیدؓ، حضرت سالمؓ ،حضرت ابوالدرداءؓ نے خود رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہی میں پورا قرآن حفظ کرلیا تھا، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو خود بھی اس پر نہایت فخر تھا،ایک بار انہوں نے ایک خطبے میں فخریہ لہجے میں فرمایا کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے کچھ اوپر ستر آیتیں یاد کی ہیں، تمام اصحاب رسول اللہ ﷺ جانتے ہیں کہ میں ان میں سب زیادہ کتاب اللہ کا عالم ہوں۔ (بخاری، کتاب ابواب فضائل القرآن،بَاب الْقُرَّاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَمع فتح الباری) لیکن حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ اس سے لازم نہیں آتا کہ اس زمانے میں اورصحابہ حافظ قرآن نہ تھے بلکہ اورحفاظ کی تعداد ان سے بہت زیادہ تھی چنانچہ غزوہ بیر معونہ میں جو ستر صحابہ شہید ہوئے سب کے سب قراء کہے جاتے تھے۔ (فتح الباری ،۱۴:۲۱۱) حضرت ابی بن کعب کی نسبت حضرت عمر فرمایا کرتے تھے "أُبَيٌّ أَقْرَؤُنَا" ہم میں قرآن کے سب سے زیادہ قاری اُبی ہیں (بخاری، کتاب ابواب فضائل القرآن،بَاب الْقُرَّاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلم،حدیث نمبر:۴۶۲۱) اسی بناء پر جب نماز تراویح باجماعت قائم کی تو حضرت ابی بن کعبؓ کو امام بنایا (بخاری ،باب فضل من قام رمضان، حدیث نمبر:۱۸۷۱) اوراسی فضیلت کی بناپر حضرت ابی بن کعبؓ ،حضرت معاذ بن حیلؓ، حضرت زید بن ثابت اورحضرت ابوزیدؓ پر ان کے قبیلہ خزرج کو بڑا ناز تھا، ایک بار قبیلہ اوس و خزرج میں مفاخرت ہوئی تو اوس نے کہا کہ ہم میں حنظلہ بن عامرؓ ہیں جن کو فرشتوں نے غسل دیا تھا، ہم میں عاصم بن ثابتؓ ہیں جن کے جسم کو بھڑوں نے کفار کی دست برو سے محفوظ رکھا تھا ہم میں سعد بن معاذؓ ہیں جن کی موت پر عرش الہی ہل گیا تھا، ہم میں خزیمہ بن ثابت ؓ ہیں جن کی شہادت کو رسول اللہ ﷺ نے دو شہادتوں کے برابر قراردیا،خزرج بولے، ہم میں چار شخص ہیں جنہوں نے خود عہد نبوت میں قرآن یاد کرلیا تھا پھر ان بزرگوں کے نام لئے۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت ابوزیدؓ) ان بزرگوں کے علاوہ اوربہت سے صحابہ تھے جن کو قرآن مجید از بریاد تھا،ان میں حضرت مجمع ؓ بن جاریہؓ (اسدالغابہ،تذکرہ مجمع بن جاریہ) حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ بن العاص کے نام ہم کو معلوم ہیں (اسدالغابہ، تذکرہ حضرت قیس بن سکنؓ ) لیکن جن کے نام معلوم نہیں ان کی تعداد ان سے بھی زیادہ ہے،جنگ یمامہ میں بکثرت حفاظ شریک ہوئے تھے،چنانچہ ان ہی لوگوں کے شہید ہونے پر حضرت عمرؓ کو جمع قرآن کا خیال پیدا ہوا اورانہوں نے حضرت ابوبکرؓ کو اس پر آمادہ کیا۔ (بخاری ،کتاب فضائل القرآن ،باب جمع القرآن،حدیث نمبر:۴۶۰۳) ان لوگوں کی نسبت حافظ ابن حجرفتح الباری میں لکھتے ہیں: " أَنَّ كَثِيرًا مِمَّنْ قُتِلَ فِي وَقْعَة الْيَمَامَة كَانَ قَدْ حَفِظَ الْقُرْآن "۔ (فتح الباری،حدیث نمبر:۴۶۰۳،ج۱۴/۱۹۳) جو لوگ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے ان میں اکثروں نے قرآن کو حفظ کرلیا تھا۔ تسبیح و تہلیل تسبیح و تہلیل پاک مذہبی زندگی کی مخصوص علامت ہے ،اس لیے صحابہ کرام اکثر تسبیح وتہلیل کیا کرتے تھے ،جب جہاد میں روانہ ہوتے تو تمام پہاڑیاں ان کے غلغلہ تسبیح و تہلیل سے گونج اٹھتی تھیں، اس وقت اگرچہ عقیق وکہربا کی تسبیح موجود نہ تھی تاہم سنگریز ے اورکھجور کی گٹھلیوں کی کمی نہ تھی، جن صحابہ نے خاص طورپر تسبیح وتہلیل کا التزام کرلیا تھا ان ہی سے تسبیح کا کام لیتے تھے، ایک بار آپﷺ نے ایک صحابیہ کو دیکھا کہ سامنے کنکری یا گٹھلی رکھ کرتسبیح پڑھ رہی ہیں،فرمایا:میں اس سے آسان تدبیر بتادیتا ہوں،اس کے بعد ایک دعا بتادی۔ (ابوداؤد، بَاب التَّسْبِيحِ بِالْحَصَى،حدیث نمبر:۱۲۸۲) حضرت ابوہریرہ ہمیشہ تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے تھے، اس غرض سے ایک تھیلی بنارکھی تھی جس میں کنکریاں یا گٹھلیاں بھری رہتی تھیں جن پر وہ تسبیح پڑھتے تھے، جب تھیلی خالی ہوجاتی تو وہ لونڈی کو حکم دیتے وہ پھر بھر دیتی۔ (ابوداؤد ،کتاب النکاح ،باب مایکرہ الرجل یکون من اصابۃ اہلہ،حدیث نمبر:۱۸۵۹) ذکر الہی ذکر الہی صحابہ کرام کا محبوب ترین مشغلہ تھا، خود اللہ تعالی نے قرآن مجید میں صحابہ کرام کے اس وصف کو نمایاں کیا ہے"والذاکرین اللہ کثیر اوالذاکرات "(الاحزاب:۳۵) (اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے والی عورتیں) ایک دن حضرت امیر معاویہؓ مسجد میں آئے تو دیکھا کہ لوگوں کا حلقۂ ذکر قائم ہے،بولے،کیوں بیٹھے ہو؟ لوگوں نے جواب دیا کہ،ذکر الہٰی کرتے ہیں پھر فرمایا صرف اسی لیے بیٹھے ہو، جواب ملا، ہاں صرف اس لیے ،فرمایا: ایک بار اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کا حلقۂ ذکر دیکھا تو اسی طرح سوال کیا اور جواب ملنے پر فرمایا کہ میرے پاس جبرئیل آئے اور خبر دی کہ اللہ تعالی تمہارے ذریعہ فرشتوں پر فخر کرتا ہے۔ (مسلم ،كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ،بَاب فَضْلِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَعَلَى الذِّكْرِ،حدیث نمبر:۴۸۶۹) صحابہ کرام جب نماز سے فارغ ہوتے تو نہایت بلند آہنگی سے ذکر الہی کرتے، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب میں یہ غلغلہ سنتا تو سمجھ جاتا کہ صحابہ نماز پڑھ کر واپس آتے ہیں۔ (مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب الذکر بعد الصلوٰۃ،حدیث نمبر:۹۱۹) خوفِ قیامت صحابہ کرام کے دلوں میں قیامت کا خوف اس قدر سماگیا تھا کہ اس کے ڈر سے ہروقت کانپتے رہتے تھے، ایک بار دفعتاً اندھیراہوگیا،ایک صاحب نے حضرت انس بن مالکؓ سے پوچھا کہ کیا عہد نبوت میں بھی ایسا ہوتا تھا؟ بولے معاذ اللہ اگر ہوا بھی تیز ہوجاتی تھی تو ہم سب قیامت کے ڈرسے مسجد کی طرف بھاگ دوڑتے تھے۔ (ابوداؤد ،کتاب الصلوٰۃ عند الظلمۃ ونحوھا،حدیث نمبر:۱۰۱۱) یہ خوفِ قیامت ہی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرامؓ پر وقائع اخروی کے ذکر سے رقت طاری ہوجاتی تھی ،بیہوش ہوجاتے تھے،گر گرپڑتے تھے ایک بار دو صحابیوں میں وراثت کے متعلق نزع پیدا ہوئی، گواہ کس کے پاس نہ تھا،دونوں صاحب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے فرمایا میں ایک آدمی ہوں ممکن ہے کہ تم میں کوئی نہایت چرب زبان اور طرار ہو اورمیں اس کے موافق فیصلہ کردوں ؛لیکن اگر یہ اس کا حق نہیں ہے تو اس کو یقین کرنا چاہئے کہ میں نے اس کے گلے میں آگ کا ایک طوق لٹکادیا ہے، دونوں بزرگ آخرت کے خوف سے رونے لگے اورہر ایک نے اپنا حق دوسرے کو دینا چاہا۔ (ابوداؤد، کتاب الاقضیہ، بَاب فِي قَضَاءِ الْقَاضِي إِذَا أَخْطَأَ ،حدیث نمبر:۳۱۱۲) جب یہ آیت نازل ہوئی: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ" (الحج:۱) لوگو اپنے خدا سے ڈرو کیونکہ قیامت کا زلزلہ ایک بڑی مصیبت ہوگی۔ تو آپ نے صحابہ کی طرف خطاب کرکے فرمایا جانتے ہو یہ کون سادن ہے یہ وہ دن ہے جب خدا آدم سے کہے گا کہ آگ کی فوج بھیجو، وہ کہیں گے خدا وندا آگ کی فوج کون ہے،خدا کہے گا ہزار میں نو سو ننانوے جہنم میں جھونکے جائیں گے، اورجنت میں صرف ایک ،تمام صحابہ یہ سن کر بے اختیار روپڑے۔ (ترمذی، ابواب التفسیر القرآن ،تفسیر سورہ حج) ایک بار شفیا الاصبحی مدینہ میں آئے دیکھا کہ ایک بزرگ کے سامنے بھیڑ لگی ہوئی ہے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں، لوگوں نے کہا "ابوہریرہؓ" پاس آئے اورجب لوگ ہٹ گئے تو کہا کہ، رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث بیان فرمائیے ،فرمایا، بیان کرتا ہوں یہ کہہ چیخے اوربے ہوش ہوگئے ،افاقہ ہوا تو کہا ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو اس گھر میں آپ نے مجھی سے بیان فرمائی تھی پھر چلائے اورغشی طاری ہوگئیں،ہوش آیا تو منہ پونچھا اورپھر یہی الفاظ فرمائے پھر چلائے اورزمین پر گرنے لگے شفیا نے فوراتھام لیا،ہوش آیا تو فرمایا کہ، قیامت کے دن خدا بندوں کے فیصلے کے لئے اترےگا، تو پہلے تین شخص طلب کئے جائیں گے، ایک قاری، ایک دولتمند ،ایک مجاہد خداقاری سے پوچھے گا، کیا ہم نے تجھ کو قرآن کی تعلیم نہیں دی اس پر تونے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں نے رات دن اس کی تلاوت کی خدا کہے گا جھوٹ بکتے ہو، تم نے یہ سب اس لئے کیا ہے کہ لوگ تم کو قاری کا خطاب دیں، دولت مند سے سوال ہوگا تو وہ کہے گا کہ میں نے صلہ رحمی کی اورصدقہ دیا خدا کہے گا یہ جھوٹ ہے تم نے یہ سب کچھ اس لئے کیا کہ لوگ تم کو فیاض کہیں ،مجاہد سے پوچھا جائے گا تو وہ کہے گا تونے مجھے کو جہاد کا حکم دیا میں لڑا اورشہید ہوا خدا فرمائے گا: یہ تو غلط ہے تمہارا صرف یہ مقصد تھا کہ لوگ تم کو بہادر کہیں، یہ بیان کرکے رسول اللہ ﷺ نے میرے زانوپر ہاتھ مارا اور کہا کہ سب سے پہلے ان ہی پرجہنم کی آگ بھڑکے گی،شفیا نے مدنیہ سے آکر حضرت امیر معاویہؓ سے یہ حدیث بیان کی تو وہ روتےروتے قریب بہلاکت ہوگئے۔ (ترمذی ،ابواب الزہد، بَاب مَا جَاءَ فِي الرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ ،حدیث نمبر:۲۳۰۴) صحابہ کرام کو ہر قسم کی دنیوی تکلیفیں قبول تھیں،دنیوی مال ومتاع کا قربان کردینا منظور تھا، لیکن عذاب اخروی گوارانہ تھا ،ایک بار رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کی عیادت کی دیکھا کہ سوکھ کے قاق ہوگئے ہیں، فرمایا کیا تم صحت کی دعا نہیں کرتے تھے بولے میں یہ دعا کرتا تھا کہ اے خدا اگر تو مجھے عذاب اخروی دینا چاہتا ہے تو دنیا ہی میں دے دے۔(پھرحضوراکرمﷺ نے فرمایا"سُبْحَانَ اللہ تم اس کی طاقت نہیں رکھتےتم نے یوں کیوں نہیں کہا" اللَّهُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّار") (ترمذی ،ابواب الدعوات ،باب ماجاء فی عقد التسبیح بالید،حدیث نمبر:۳۴۰۹) جب حضرت عمرؓ زخمی ہوئے تو حضرت ابن عباسؓ نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، آپ نے رسول اللہ ﷺ کی حسن رفاقت کا حق ادا کیا، اوروہ آپ سے راضی ہوگئے پھر ابوبکرؓ کی حسن رفاقت کا حق ادا کیا اور وہ آپ سے راضی ہوگئے پھر ان کے اصحاب کی حسن رفاقت کا حق ادا کیا اورآپ ان کو داغ جدائی دے کر گئے تو وہ آپ سے راضی رہیں گے بولے رسول اللہ ﷺ اورابوبکر ؓ کی حسن رفاقت اوران کی رضا مندی تو ایک احسان الہی تھا یہ گھبراہٹ صرف تمہارے اورتمہارے اصحاب کے لئے ہے، خدا کی قسم اگر زمین کی سطح پر سونا بکھیر دیا جائے تو میں اس کو دے کر عذاب الہی سے بچنے کو ترجیح دوں گا۔ (بخاری ،کتاب المناقب، فضائل عمرؓ،حدیث نمبر:۳۴۱۶) شدت خوف قیامت سے ان کو یہی غنیمت معلوم ہوتا تھا کہ وہ اگر جنت میں داخل نہیں ہوسکتے تو کم از کم عذاب دوزخ سے تو بچ جائیں، ایک بار انہوں نے ایک صحابی سے کہا کہ تمہیں یہ پسند ہے کہ ہم جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اسلام لائے ہجرت کی جہاد کیا اوربہت سے نیک کام کئے ان سب کا ثواب تو ہم کو مل جائے ؛لیکن آپ کے بعد ہم نے جو نیک کام کئے تو اس کے بدلے میں صرف دوزخ سے بچ جائیں اورعذاب وثواب برابر سرابر ہوجائیں، بولے خدا کی قسم نہیں ہم نے آپ کے بعد بھی جہاد کیا ،روزہ رکھا، نماز پڑھی، بہت سے نیک کام کئے اورہمارے ہاتھ پر بہت سے لوگ اسلام لائے ہم کو ان اعمال سے بڑی بڑی توقعات ہیں، حضرت عمرؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے تو یہی غنیمت معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان کے بدلے عذاب سے بچ جائیں اورنیکی و بدی برابر سرابر ہوجائے۔ (بخاری ،باب ایام الجاہلیۃ،حدیث نمبر:)۔ خوف عذاب قبر قبرسفرآخرت کی پہلی منزل ہے، اس لئے صحابہ کرامؓ اس منزل کو نہایت کٹھن سمجھتے تھے اوراس کے دشوار گذار اورپر خطر راستوں سے ہمیشہ لرزتے رہتے تھے،ایک باررسول اللہ ﷺ نے قبر کی آزمائش اورامتحان پر خطبہ دیا تو صحابہ کرام چیخ اُٹھے۔ (نسائی، کتاب الجنائز ،باب التعوذمن عذاب القبر،حدیث نمبر:۲۰۳۵) حضرت عمروبن العاص ؓکا انتقال ہونے لگا تو وصیت کی کہ مجھ کو دفن کرنا تو تھوڑی سی خاک ڈالنا ،پھر قبر کے پاس اتنی دیر تک کھڑے رہنا کہ اونٹ ذبح کردیے جائیں، اوران کا گوشت تقسیم کردیا جائے؛ تاکہ تمہارے ساتھ انس قائم رہے اور اتنی دیر میں خدا کے قاصدوں منکرنکیر کا جواب سوچ لوں۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب کون الاسلام یہدم ماقبلہ وکذالحج والہجرۃ،حدیث نمبر:۱۷۳) ایک بار آپ ﷺ نے ایک خطبہ میں فرمایا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم جانتے تو ہنستے کم اور روتے بہت ، تمام صحابہؓ بے اختیار منہ ڈھانک ڈھانک کر رونے لگے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب لاتسا لوا عن اشیاء ان تبدلکم تسوءکم،حدیث نمبر:۴۲۵۵) ایک بار رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی کے دل میں رائی برابر بھی غرور ہوگا تو وہ مرنے کے بعد دوزخ میں داخل ہوگا، حضرت عبداللہ بن قیس انصاری ؓ یہ سن کر روپڑے ،آپ نے فرمایا کیوں روتے ہو؟ بولے، آپ کا ارشاد سن کر فرمایا تمہیں خوش خبری ہو کہ تم جنتی ہو۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت عبداللہ ابن قیس انصاری ) حضرت عبداللہ بن عمرؓ جب قرآن مجید کی یہ آیت پڑھتے تھے: "أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ" (الحدید:۱۶) کیا ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ خدا کے ذکر پر ان کے دل گداز ہوں۔ تو بے اختیار روپڑتے تھے اوردیر تک روتے رہتے تھے۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) ایک بار انہوں نے حضرت عمیرؓ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيد۔ (النساء:۴۱) اس دن ان لوگوں کا کیا خیال ہوگا جب ہم ہرامت سے ایک گواہ لائیں گے تو اس قدرروئے کہ داڑھی اورگریبان دونوں تر ہوگئے۔ (طبقات ابن سعد،تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) حضرت سہیل بن عمروؓ جب قرآن پڑھتے تھے تو ان پر گریہ طاری ہوجاتا تھا۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت سہیل بن عمروؓ) تمام صحابہ میں حضرت ابوبکرؓ نہایت رقیق القلب تھے، وہ قرآن مجید پڑھتے تھے تو ان پر اس قدر اثر پڑتا تھا کہ بے اختیار رونے لگتے تھے۔ (بخاری ،کتاب الصلوٰۃ، باب المسجد یکون فی الطریق من غیر ضرربالناس،حدیث نمبر:۴۵۶) ایک بار حضرت عکرمہ ؓ نے حضرت اسماء سے پوچھا کہ صحابہؓ پر خوف الہی سے کبھی غشی بھی طاری ہوتی تھی؟ بولیں،نہیں وہ صرف روتے تھے۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت اسماء ) الحب فی اللہ اسلام ایک رشتہ اتحاد تھا، جو صحابہ کرام کو دور دور سے کھینچ کر لاتا تھا اورایک دائمی محبت کے سلسلہ میں منسلک کردیتا تھا، مہاجرین وانصار دونوں کا خاندان الگ تھا، سلسلہ نسب الگ تھا، طرز معاشرت الگ تھا؛لیکن یہ صرف اسلام کا تعلق تھا جس نے دونوں کو اس قدر متحد کردیا کہ دونوں بھائی بھائی ہوگئے اورمال میں جائیداد میں وراثت میں ایک دوسرے کے شریک ہوگئے ،اسی کا نام حب فی اللہ ہے اورصحابہ کرام کا ہر فرد اسی محبت کے نشہ میں چور تھا، ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ، میرے دو بھائی تھے اورمیں ایک سے صرف خدا اوررسول کے لئے محبت اوردوسرے سے صرف خدا اورخدا کے رسول کیلئے بعض رکھتا تھا۔ (اسدالغابہ ،تذکرہ حضرت خالد الاحد بن حارثی )۔ حضرت مجاہد کا بیان ہے کہ ایک صحابی نے پیچھے سے میرا شانہ پکڑکر کہا کہ میں تم سے محبت رکھتا ہوں ،انہوں نے کہا کہ جس ذات خدا کے لئے تم مجھ سے محبت رکھتے ہو میں بھی اسی ذات کے لئے تم سے محبت رکھتا ہوں۔ (ادب المفرد، باب اذااحب الرجل اخاہ فلیعلمہ،حدیث نمبر:۵۶۱) یہ حب فی اللہ ہی کا نتیجہ تھا کہ جو لوگ کوئی نیک کام کرتے تھے ،صحابہ کرامؓ کو ان سے محبت ہوجاتی تھی،ایک بار حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے سامنے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کاذکر ہوا تو بولے تم نے ایسے شخص کا ذکر کیا کہ جب سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن چار آدمیوں سے سیکھو اوران میں سب سے پہلے عبداللہ بن مسعودؓ کا نام لیا اسی دن سے میں برابر ان کو محبوب رکھتا ہوں۔ (مسند ابن حنبل جلد ۲ :۱۹۱) ایک بار قبیلہ بنو تمیم کا صدقہ آیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ میری قوم کا صدقہ ہے اور یہ لوگ دجال کے مقابلہ میں سب سے قوی تر ہیں ،حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ عرب کے قبائل میں کوئی قبیلہ مجھے اس قبیلہ سے زیاہد مبغوض نہ تھا، لیکن جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی نسبت یہ کلمات سنے وہ مجھے محبوب ہوگیا۔ (ایضاً :۳۹۰) البغض فی اللہ صحابہ کرام ہمہ تن محبت تھے، اس لیے ان کے نزدیک بغض سے زیادہ کوئی چیز مبغوض نہ تھی تاہم خدا کے عشق میں انہوں نے دوسروں کی محبت کو بھلا دیا تھا وہ اگر محبت کرتے تھے تو خدا ہی کے لئے اوربغض رکھتے تھے تو خدا ہی کے لئے۔ بیٹا ہر شخص کو محبوب ہوتا ہے لیکن اگر وہ خدا سے محبت نہیں رکھتا تو اس سے کوئی عاشق خدا محبت نہیں رکھ سکتا ،حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ اسلا م نہیں لاتے تھے، اس لیے حضرت ابوبکرؓ نے قسم کھالی تھی کہ ان کو وراثت نہ دوں گا۔ (ابوداؤد ،بَاب نَسْخِ مِيرَاثِ الْعَقْدِ بِمِيرَاثِ الرَّحِمِ،حدیث نمبر:۲۵۳۴) اعزہ و احباب سے کس کو محبت نہیں ہوتی؛ لیکن صحابہ کرام نے خدا کے لئے ان سب کی محبت کو خیرباد کہہ دیا تھا، اسیر انِ بدر گرفتار ہوکر آئے اور رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ سے مشورہ لیا تو حضرت ابوبکرؓ نے فدیہ لے کر رہا کرنے کا مشورہ دیا؛لیکن حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہم کو ان سب کی گردن مارنے کا اختیار عطا فرمائیے،علیؓ عقیل کی اورمیں اپنے ایک عزیز کی گردن اُڑادوں،کیونکہ یہ لوگ ائمۃ الکفر ہیں۔ (مسلم ،کتاب الجہاد ،باب لامدادالملائکۃفی غزوۃ بدر واباحۃ الغنائم،حدیث نمبر:۳۳۰۹) مقامات مقدسہ کی زیارت خانہ کعبہ کی طرح صحابہ کرامؓ اوردوسرے مقامات مقدسہ کی زیارت سے بھی شرف اندوز ہوتے تھے۔ ایک بار ایک خاتون بیمار ہوئیں اورنذر مانی کہ اگر خدا شفادیگا تو بیت المقدس میں جاکر نماز پڑھوں گی،صحت یاب ہوئیں تو سامان سفر کیا،رخصت ہونے کے لئے حضرت میمونہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، انہوں نے کہا، مسجد نبوی ہی میں نماز پڑھ لو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری مسجدمیں ایک نماز خانہ کعبہ کی مسجد کے سوا اوردوسری مساجد کی ہزاروں نمازوں سے بہترہے۔ (مسلم، کتاب الحج ،بَاب فَضْلِ الصَّلَاةِ بِمَسْجِدَيْ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ،حدیث نمبر:۲۴۷۴) حضرت ابو جمعہ انصاریؓ بیت المقدس میں نمازا اداکرنے کے لئے آئے نماز ادا کرکے چلنے لگے تو لوگ پہنچانے آئے بولے مجھ پر تمہارا حق ہے اس کے بدلے میں ایک حدیث بیان کرتا ہوں۔ (اصابہ، تذکرہ حضرت ابوجمعہ انصاریؓ) کوہ طور تجلی گاہ نورِ الہی تھا، اس لیے حضرت ابوہریرہؓ وہاں گئے اوراس پر نماز پڑھی پلٹے تو حضرت ابو بصرہ سے ملاقات ہوگئی، انہوں نے کہا کہ اگر میں پہلے ملا ہوتا تو تم وہاں نہ جانے پاتے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسجد نبوی ،مسجد حرام اورمسجد اقصیٰ کے سوا قصدر حال نہیں کیا جاسکتا ۔ (مسند ابوداؤد طیالسی :۱۹۲ مسند ابوبصرہ غفاریؓ)۔ رسول اللہ ﷺ ہر سنیچر کو معمولا قبا میں تشریف لے جایا کرتے تھے، حضرت عبداللہ بن عمرؓنے بھی یہی التزام کرلیا تھا۔ (مسلم ،کتاب الحج، باب فضل مسجد قبا،حدیث نمبر:۲۴۸۳) ایک دن حضرت عبداللہ بن قیس بن مخزمہ ؓ مسجد قبا کے پاس سے خچر پر سوار ہوکر نکلے دیکھا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ پاپیادہ جارہے ہیں ،خچر سے اُتر کر کہا کہ چچاجان اس پر سوار ہولیجئے، بولے اگر سواری درکار ہوتی تو مل سکتی تھی؛لیکن رسول اللہ ﷺ اس مسجد میں پاپیادہ آکر نماز پڑھا کرتے تھے، اس لیے میں بھی پاپیادہ آنا پسند کرتا ہوں۔ (مسنداحمد،مُسْنَدُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا،حدیث نمبر:۵۷۲۷) ایک صحابیہ نے مسجد قبا تک پاپیادہ جانے کی نذر مانی تھی، ابھی نذر پوری کرنے بھی نہ پائی تھیں کہ انتقال ہوگیا، حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فتویٰ دیا کہ ان کی صاحبزادی نذرپوری کریں۔ (موطا محمد، کتاب الایمان والتدر،باب الرجل يحلف بالمشي إلى بيت الله،حدیث نمبر:۷۴۳ ) فرائضِ مذہبی کے ادا کرنے میں جسمانی تکلیفیں اٹھانا ہم کو ہرقسم کی آسانیاں حاصل ہیں،تاہم مذہبی فرائض واعمال ادا نہیں کرتے ؛لیکن صحابہ کرام ہر قسم کی تکلیفیں برداشت کرتے تھے اورفرائض اسلام کو بخوشی اداکرتے تھے، حضرت علی ؓ کو اکثر مذی کے قطرے آجایا کرتے تھے،اس لیے وہ عموماً نہا تے رہتے تھے، جب بار بار کے نہانے سے ان کی پیٹھ پھٹ پھٹ گئی تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا،آپ نے فرمایا، اس کے لئے وضو کافی ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الطہارۃ،باب فی المذی،حدیث نمبر:۱۷۸) رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز پڑھتے تھے تو دھوپ کی شدت سے زمین اس قدر گرم رہتی تھی کہ بعض صحابہ مٹھی میں کنکریاں اُٹھا کر اس کو ٹھنڈا کرتے تھے پھر سامنے رکھ کر اس پر سجدہ کرتے تھے۔ (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب فی وقت صلوٰۃ الظہر،حدیث نمبر:۳۳۸) حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالْهَاجِرَةِ وَلَمْ يَكُنْ يُصَلِّي صَلَاةً أَشَدَّ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا " (ابوداؤود،کتاب الصلوٰۃ، باب فی وقت العصر،حدیث نمبر:۳۴۸) رسول اللہ ﷺ ٹھیک دوپہر کے وقت ظہر پڑھتے تھے اورآپ کی کوئی نماز صحابہ پر ظہر سے زیادہ شاق اورسخت نہ تھی۔ ایک بار سوج گہن لگا،تو رسول اللہ ﷺ نے نماز کسوف پڑھائی اورقیام و قعود اوررکوع وسجود میں اس قدر دیر لگائی کہ بہت سے صحابہ بے ہوش ہوگئے ،ان پر پانی کی مشکیں ڈھالی گئیں۔ (ابوداؤد ،باب الصلوٰۃ الکسوف،حدیث نمبر:۹۹۵) اسلام نے اگرچہ رہبا نیت کو مٹادیا ،تاہم ذوق عبادت میں حضرت حمنہ بنت ؓ جحش برابر مصروف نماز رہتی تھیں اورجب تھک جاتی تھیں تو مسجد کے دونوں ستونوں میں ایک رسی باندھ رکھی تھی، اس سے لٹک جاتی تھیں، تاکہ نیند نہ آنے پائے، رسول اللہ ﷺ نے اس رسی کو دیکھا تو فرمایا، ان کو صرف اسی قدر نماز پڑھنی چاہئے جو ان کی طاقت میں ہو، اگر تھک جائیں تو بیٹھ جانا چاہئے چنانچہ وہ رسی کھلواکر پھنکوادی۔ (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ ،ابواب التطوع ورکعات السنۃ ،باب النعاس فی الصلوٰۃ،حدیث نمبر:۱۱۱۷) شوق حصول ثواب صحابہ کرام کے تمام اعمال کا محور صرف ثوابِ آخرت تھا ،اسی کے لئے وہ طرح طرح کی تکلیفیں اُٹھاتے تھے اوراسی پر انہوں نے اپنے تمام عیش و آرام کو قربان کردیا تھا، ایک صحابی کا گھر مسجد سے بہت دور تھا، لیکن ان کی کوئی جماعت قضا نہیں ہوتی تھی، ایک صحابی نے ان سے کہا کہ کاش آپ ایک گدھا خرید لیتے جس پر دن کی دھوپ اوررات کی اندھیری میں سوار ہوکر شریک نماز ہوتے ،انہوں نے جواب دیا کہ میں سر ے سے یہی نہیں پسند کرتا کہ میرا گھر مسجد کے پہلو میں ہو، رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس کا تذکرہ آیا تو آپ نے وجہ پوچھی بولے کہ میرا مقصد یہ ہے کہ میری طویل آمدورفت داخل حسنات ہو، آپ نے یہ سن کر فرمایا خدانے تم کو یہ سب دے دیا۔ (ابوداؤد، باب ماجاء فی فضل المشی الی الصلوٰۃ،حدیث نمبر:۴۷۰ ) آپ نے فرمایا تھا کہ مسجد کی طرف جو قدم اُٹھتا ہے اس پر ثواب ملتا ہے اس لئے صحابہ کرام نماز کو آتے تھے تو قدم قریب قریب رکھتے تھے کہ نقش قدم کی تعداد بڑھ جائے اور اس پر ثواب ملے۔ (نسائی، کتاب الامام، باب المحافظة على الصلوات حيث ينادى بهن،حدیث نمبر:۸۴۰) حضرت مالک بن عبداللہؓ نے حضرت حبیب بن مسلمہؓ کو دیکھا کہ گھوڑا ساتھ ہے اورخود پاپیادہ جارہے ہیں، بولے جب خدانے سواری دی ہے تو سوار کیوں نہیں ہولیتے ؟ بولے ،رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ خدا کی راہ میں جس شخص کے پاؤں غبار آلودہ ہوجائیں خدا اس کو آگ پر حرام کردیتا ہے۔( یعنی پیدل اس لئے چلتا ہوں کہ پاؤں میں مٹی لگ جائے تاکہ اس بشارت سے مجھ کو بھی حصہ ملے) (مسند دارمی،باب فی فضل الغبار فی سبیل اللہ،حدیث نمبر:۲۴۵۲) ایک روز حضرت جابرؓ سخت دھوپ میں پا پیادہ اپنے خچر کو ہانکتے ہوئے جارہے تھے، راستہ میں فوج سے ملاقات ہوگئی، تو اس کے سپہ سالار نے کہا،خدانے آپ کو سواری دی ہے پھر سوار کیوں نہیں ہولیتے؟ بولے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جس شخص کے پاؤں خدا کی راہ میں غبار آلود ہوجائیں اللہ تعالی اس کو آگ پر حرام کردیتا ہے، یہ سن کر تمام فوج گھوڑے سے اتر گئی۔ (مسند ابوداؤد طیالسی،مااسند جابر بن عبداللہ،حدیث نمبر:۱۸۷۲) پابندی نذروقسم ہم لوگ ہر وقت قسمیں کھایا کرتے ہیں اور ہم کو محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کس قدر ذمہ داری کا کام ہے؛ لیکن صحابہ کرام بہت کم قسم کھاتے تھےاور جس بات پر قسم کھالیتے تھے اس کو پورا کرتے تھے، ایک بار حضرت عائشہ ؓ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے ناراض ہوگئیں اورقسم کھالی کہ اب ان سے کبھی بات چیت نہ کریں گی، لیکن جب حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے دوسرے صحابہ کی سفارش پہنچائی تو رو کر کہنے لگیں۔ انی نذرت والنذرشدید میں نے نذر مانی لی ہے اورنذر کا معاملہ نہایت سخت ہے۔ بالآخر اصرار وسفارش سے معاف کردیا اورکفارہ قسم میں ۴۰ غلام آزاد کیے۔ (بخاری ،کتاب الادب ،باب الہجرۃ،حدیث نمبر:۵۶۱۱) حضرت عمرؓ خلافت کے کاروبار میں مشغول رہتے تھے اس لئے اپنے دربان کو حکم دیا تھا کہ اگر کوئی قسم کھالیں اورمصروفیت کی وجہ سے اس کو پورا نہ کرسکیں تو وہ ان کی طرف سے کفارے میں دس فقیر کو پانچ صاع گیہوں دے دے۔ (یعنی ہر فقیر کو نصف صاع) (مؤطا محمد، کتاب الایمان والنذوروادنی مایجزی فی کفارۃ الیمین،۷۳۹) حضرت کرومؓ نے کوہ بوانہ پر بچاس بکریوں کے ذبح کرنے کی نذر مانی تھی،رسول اللہ ﷺ سے اس کے ایفاء کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا کہ وہاں کوئی بت تو نصب نہیں ہے بولے نہیں، اب آپ نے نذر پوری کرنے کی اجازت دے دی ،انہوں نے بکریاں جمع کیں اور ان کو ذبح کرنے لگے، سوء اتفاق سے ایک بکری بھاگ گئی وہ اس کی جستجو میں نکلے تو کہتے جاتے تھے کہ خداوندا میری نذر پوری کر، چنانچہ جب اس بکری کو پکڑ کر ذبح کرلیا، تو ان کو تسکین ہوئی۔ (طبقات ابن سعد،تذکرہ حضرت میمونہ بنت کرومؓ) اسلام نے اگرچہ رہبانیت کو ناجائز قرار دیا تھا، تاہم بعض صحابہ ناواقفیت کی وجہ سے نہایت تکلیف دہ نذریں مانتے تھے اوران کو پورا کرتے تھے، ایک بوڑھے صحابی نے پا پیادہ حج کی نذر مانی اوراس کو پورا کیا؛لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان کو منع فرمایا، ایک اورصحابیہ نے بھی اس قسم کی نذر مانی ؛لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کی اجازت نہیں دی۔ (بخاری، کتاب الحج، باب من نذر المشی الی الکعبۃ،حدیث نمبر:۱۷۳۳) ایک بار رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کو دیکھا کہ کھڑے ہوئے ہیں ،دریافت فرمایا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے یہ نذر مانی ہے کہ نہ بیٹھیں گے نہ سائے میں کھڑے ہوں گے نہ کسی سے بولیں گے اورروزہ رکھیں گے، آپ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ یہ سب چھوڑدیں اورصرف روزے کو پورا کریں۔ (بخاری ،کتاب النذور، باب النذر فیما لایملک وفی معصیۃ،حدیث نمبر:۶۲۱۰)