انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تعمیرِرصافہ جس زمانہ میں اُستاد سیس نے خروج کیا توخراسان کا گورنرمہدی تھا وہ مرومیں مقیم تھا، خازم بن خزیمہ اسی کے پاس مقیم تھا، اور منصور کے حکم کے موافق حمل ہآور ہوا تھا، اس فتنہ سے فارغ ہوکر مہدی منصور کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت تک فوج کا عنصر غالب عربی قبائل تھے اور ہرایک معرکہ میں عربوں ہی کی شمشیرِ خاراشگاف کے ذریعہ فتح وفیروزی حاصل ہوتی تھی، عجمیوں اور خراسانیوں کوعربوں کی ہمسری کا دعویٰ نہ تھا، ان عربی قبائل سے ہمیشہ اندیشہ رہتا تھا کہ اگریہ مخالفت پرمتحد ہوگئے توحکومت کوذراسی دیر میں اُلٹ دیں گے، امام ابراہیم نے سب سے پہلے اس بات کوقبل ازوقت محسوس کرکے عجمیوں کوطاقتور بنانے اور اُن سے کام لینے کی پالیسی ایجاد کی تھی، اُن کے جانشین بھی اسی خیال پرقائم رہے؛ چنانچہ عبداللہ سفاح نے ابوسلمہ کوقتل کراکرخالد بن برمک کوجوبلخ کے آتش کدۂ نوبہار کا مغ زادہ نومسلم اور ابومسلم کا ایک فوجی سردار تھا، اپنا وزیر بنایا تھا، چند روز کے بعد خالد بن برمک کیس ولایت کا والی بن کرچلا گیا اور ابوایوب اُس کی جگہ وزیر ہوا اب منصور نے دوبارہ اس کووزارت کا عہدہ عطا کردیا، فوجوں کی سرداریوں اور صوبوں کی حکومتوں پربھی مجوسی النسل لوگ مامور ہوتے تھے اور بتدریج اُن کا اقتدار ترقی کررہا تھا؛ لیکن عربوں کا فوجی عنصر ابھی تک غالب تھا، اس موقع پر بے اختیار اکبربادشاہِ ہند کی وہ پالیسی یاد آجاتی ہے جواُس نے پٹھانوں کی طاقت ور اور بااقتدار قوم سے محفوظ رہنے کےلیے ہندوستان میں اختیار کی تھی کہ پٹھانوں کے خطرہ کوبے حقیقت بنانے کے لیے ہندوؤں کی مردہ قوم کوزندہ کرنا اور اُن کوطاقتور بنانا ضروری سمجھا؛ حتی کہ مان سنگھ کوہندوستان کا سپہ سالارِاعظم بنایا اور پٹھانوں کوہرجگہ کمزور وناتواں بنانے کی کوششوں کوجاری رکھا، عباسیوں نے بھی عربوں کی طاقت کومٹاکر ان کی جگہ مجوسیوں اور ایرانیوں کوطاقتور بنایا کہ کوئی عربی قبیلہ اور عربی قبائل کی مدد سے کوئی علوی خروج پرآمادہ نہ ہوسکے۔ مہدی کے بعض ایسی حرکات سرزد ہوئیں جس سے آزاد مزاجی اور خودسری کا اظہار ہوتا تھا، یہ فوج والے سب عربی قبائل پرمشتمل تھے اور مجوسیوں کی طرح ضرورت سے زیادہ اپنے بادشاہ یاخلیفہ کی تعظیم وتکریم کے عادی نہ تھے ان کی یہی بات عباسیوں کوخائف وترساں رکھتی تھی اور غالباً اسی آزاد مزاجی کی وجہ سے وہ ہرایک نئی تحریک اور نئے مدعی خلافت کے ساتھ شامل ہوجانے میں شریک نہ ہوتے تھے، اس موقع پرلشکر کی یہ حالت دیکھ کرقثم بن عباس بن عبیداللہ بن عباس نے عربوں کے قبائل ربیعہ اور قبائل مضر کے درمیان ایک مناسب طریقے سے رقابت ومخالفت پیدا کرکے منصور کومشورہ دیا کہ قبائل مضر اور قبائلِ ربیع میں چونکہ رقابت پیدا ہوگئی ہے اس لیے مناسب یہ ہے کہ فوج کے دوحصے کرکے قبائل مضر کوتومہدی کے ماتحت رکھو؛ کیونکہ اہلِ خراسان قبائل مضر کے ہمدرد ہیں اور قبائل ربیعہ کواپنے ماتحت رکھو، تمام یمنی ان کے ہوا خواہ ہیں، اس طرح دوجانب دوفوجی مرکز قائم ہوجائیں توایک کودوسرے کا خوف رہے گا اور کوئی بغاوت کامیاب نہ ہونے پائے گی، منصور نے اس رائے کوپسند کیا اور اپنے بیٹے مہدی کے قیام کے واسطے بغداد کی مشرقی جانب رصافہ کی تعمیر کا حکم سنہ۱۵۱ھ میں دیا کہ وہاں الگ ایک فوجی چھاؤنی قائم ہوجائے؛ اسی سال یعنی سنہ۱۵۱ھ میں دیا کہ وہاں الگ ایک فوجی چھاؤنی قائم ہوجائے، اسی سال یعنی سنہ۱۵۱ھ میں محمداشعث نے بلادِ روم کی طرف سے واپس آتے ہوئے راستے میں وفات پائی۔ سنہ۱۵۳ھ میں منصور نے حکم جاری کیا کہ میری تمام رعایا لمبی ٹوپیاں اوڑھاکرے، یہ ٹوپیاں بانس اور پتے سے بنائی جاتی تھیں، اس ززانہ میں حبشی اُن ٹوپیوں کواوڑھا کرتے تھے، سنہ۱۵۴ھ میں زفربن عاصم نے بلادِروم پرحملہ کیا۔ سنہ۱۵۵ھ میں قیصرِروم نے مسلمانوں کے آئے دن کے حملوں سے تنگ آکرصلح کی درخواست پیش کی اور جنت دینے کا اقرار کیا۔