انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جانوروں ،پرندوں اور بے جان چیزوں کا خوف حضرت داؤدؑ اور حیوانات تمام قسم کے چار پائے اورجنگلی جانور اورپرندوں کے جہنم سے خوف کے متعلق بھی روایات موجود ہیں ایک روایت یہاں ذکر کی جاتی ہے کہ حضرت یحیی بن ابی کثیر فرماتے ہیں ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جب حضرت داؤد علیہ السلام کے غم کا دن ہوتا تو وحشی جانور میدانوں سے،درندے جنگلات سے،شیرپہاڑوں سے،پرندے گھونسلوں سے جمع ہوجاتے اورانسان بھی اس دن اکھٹے ہوتے حضرت داؤد علیہ السلام تشریف لا کر ممبر پر چڑھ جاتے اورسب سے پہلے اپنے رب کی تعریف بیان فرماتے تو یہ سب رو رو کر چیخ چیخ کر چیخ وپکار کرتے پھر حضرت داؤد علیہ السلام جنت اورجہنم کا ذکر شروع فرماتے تو ایک گروہ انسانوں سے ایک درندوں سے ایک شیروں سے،ایک وحشی جانوروں سے،ایک عبادت گذار مردوں اور عورتوں سے مرجاتا، اس کے بعد موت اورقیامت کے ہولناک مناظر کا ذکر فرماتے اورخود رونا شروع کردیتے پس ایک گروہ اس سے،ایک اس سے اسی طرح ہر گروہ سے ایک ایک گروہ فوت ہوجاتا۔ (ابن ابی الدنیا) بے جان چیزوں کا خوف حیوانات کے علاوہ وہ مخلوقات جن میں روح نہیں ہے وہ بھی اللہ تعالی سے ڈرتی ہیں۔ پہاڑوں کا خوف اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ (بقرہ:۷۴) (ترجمہ)اوربعضے پتھر تو ایسے ہیں جن سے نہریں پھوٹ کر چلتی ہیں اورانہی پتھروں میں بعضے ایسےہیں جو پھٹ جاتے ہیں پھر ان سے پانی نکل آتا ہے اورانہیں پتھروں میں بعضے ایسے ہیں جو خدا تعالی کے خوف سے اوپر سے نیچے لڑھک آتے ہیں۔ چٹانوں کے گرنے کی وجہ (فائدہ)حضرت مجاہد فرماتے ہیں ہر پتھر جس سے پانی پھوٹے یا پانی نکلے یا کسی پہاڑ کی چوٹی سے لڑھکے تو یہ اللہ کے خوف سے ہوتا ہے قرآن میں اس کا ذکر ہے۔ (منہ) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو چٹان زمین کی طرف گرتی ہے اگر اس کے گرانے کے لئے انسانوں کی ایک جماعت بھی کوشش کرے تو نہ گراسکے تویہ اللہ تعالی سے خوف کی وجہ سے گرتی ہے۔ (جو زجانی وغیرہ) حضرت عیسیؑ کے زمانہ کا ایک پہاڑ حضرت فضیل بن العباس ابدال کے درجہ پر تھے آنسوؤں نے ان کے چہرے پر چھریاں ڈال دی تھیں، پورا سال روزہ رکھتے تھے روزانہ رات کو ایک چپاتی سے روزہ افطار کرتے تھے یہ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک پہاڑ کے پاس سے گذرے جو دونہروں کے درمیان واقع تھا ایک نہر اس کے داہنے بہتی تھی اورایک بائیں ان کو یہ معلوم نہ ہوا کہ یہ پانی کہاں سے آتا ہے اورکہاں جاتا ہے تو پہاڑ نے کہا جو نہر میرے بائیں بہتی ہے یہ میری بائیں آنکھ کے آنسو ہیں (اور جو داہنے بہتی ہے وہ میری دائیں آنکھ کے آنسو ہیں) تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پوچھا ایسا کیوں ہے؟ عرض کیا اپنے رب سے خوف کی وجہ سے کہ وہ مجھے جہنم کا ایندھن نہ بنادے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں اللہ عزوجل سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھ کو مجھے عطاء فرمادے تو انہوں نے دعا فرمائی تو اللہ تعالی نے اسے حضرت عیسیٰ کو عطاء فرمادیا تو حضرت عیسیٰ نے فرمایا تو مجھے بخش دیا گیا ہے یہ ابدال فرماتے ہیں پس اس پہاڑ سے پانی کا ایک ریلا آیا جس نے حضرت عیسیٰ کو اٹھایا اوربہالے گیا تو حضرت عیسیٰ نے اسے کہا اللہ کی عزت کے حکم سے ٹھہر جا میں نے تجھ اپنے رب سے مانگا ہے اوراس نے تجھ مجھے دیدیا ہے تو یہ کیا ہے؟ تو اس نے عرض کیا پہلا رونا خوف کا تھا یہ رونا شکر کا ہے۔ (ابن ابی الدنیا) چاند بھی خوف خدا سے روتا ہے حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں چاند بھی اللہ کے خوف سے روتا ہے حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ چاند بھی خوف خدا سے روتا ہے حالانکہ اس کا کوئی قصور نہیں اور نہ اس سے سوال ہوگا نہ اسے سزادی جائے گی۔ دنیا کی آگ جہنم کی آگ سے ڈرتی ہے (حدیث)حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: إِنَّ نَارَكُمْ هَذِهِ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ وَلَوْلَا أَنَّهَا أُطْفِئَتْ بِالْمَاءِ مَرَّتَيْنِ مَا انْتَفَعْتُمْ بِهَا وَإِنَّهَا لَتَدْعُو اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يُعِيدَهَا فِيهَا (ابن ماجہ،باب صفۃ النار،حدیث نمبر۴۳۰۹) (ترجمہ)تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے اگر یہ دو مرتبہ پانی سے نہ بجھائی جاتی تو تم اس سے نفع نہ حاصل کرسکتے،یہ آگ اللہ تعالی سے دعا کرتی ہے کہ وہ اس کو دوبارہ جہنم میں نہ ڈالے۔ اس مضمون کی ایک حدیث حاکم نے بھی مستدرک میں روایت کی ہے۔ تین دن تک آگ کیوں بے اثر رہی؟ ابو رجاء کہتے ہیں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تھا تو اللہ تعالی نے آگ کی طرف وحی فرمائی اگر تونے ان کو تکلیف دی تو میں تجھے بڑی آگ میں دوبارہ پھینک دوں گا تو یہ تین روز تک بے ہوش ہوکر گرپڑی اس عرصہ میں لوگ اس سے کوئی نفع نہ حاصل کرسکے۔ (ابن ابی الدنیا) حضرت ابن عمروؓ کا پناہ طلب کرنا ابو عمران الجونی فرماتے ہیں ہمیں عبداللہ بن عمروؓ کی یہ بات پہنچی کہ انہوں نے جب آگ کی آواز سنی تو فرمایا مجھے بھی تو ان کو کہا گیا یہ آپ نے کیا کہا؟ تو فرمایا مجھے قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ آگ جہنم کی بڑی آگ سے اس بات سے پناہ مانگ رہی ہے کہ دوبارہ نہ اس میں لوٹادی جائے، (تو میں نے بھی دعا کی کہ مجھے بھی اس آگ سے پناہ عطاء فرمائی جائے) امام اعمش حضرت مجاہد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ سے پناہ مانگتی ہے۔