انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کفر کی سزا ہمیشہ کی دوزخ کیوں ہے پہلا جواب حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ اگر پوچھیں کہ حسنات میں اجر کئی گنا ہے اوربرائیوں میں سزا ان کی مثل ہے تو پھر کفار کو چند روزہ برائیوں کے بدلہ میں ہمیشہ کا عذاب کیوں ہوگا؟ میں کہتا ہوں کہ عمل کے لئے جزاء کا ہم مثل ہونا اللہ تعالی کے علم پر موقوف ہے جس کے سمجھنے سے مخلوق کا علم قاصر (عاجز ) ہے مثلاً نیک شادی شدہ عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے سے اس کی ہم مثل سزا اسی کوڑے فرمائی ہے اور چوروں کی حد میں چور کا دایاں ہاتھ کاٹ ڈالنا اس کی سزا ہے اور زنا کی حد میں غیر شادی شدہ کا غیر شادی شدہ سے زنا کرنے کی صورت میں سو کوڑے اورایک سال کی جلاوطنی مقرر کی ہے (یہ ایک سال کی جلا وطنی حد زنا میں داخل نہیں ہے؛بلکہ ایک سیاسی حکم تھا جو اب منسوخ ہے جیسا کہ مصنف عبدالرزاق وغیرہ کے حوالے سے احکام القرآن للتھانوی میں آیت الزانیہ والزانی کے تحت احقر نے تفصیل سے دلائل ذکر کردیئے ہیں اور سوکوڑوں کے ساتھ ایک سال کی جلا وطنی کی مذکورہ سزا امام شافعی کے مذہب میں ہے احناف کثراللہ کم کے مذہب میں صرف سو کوڑے حد زنا ہے امداد اللہ)اوربوڑھے آدمی کا بوڑھیا عورت(یعنی شادی شدہ مرد کا شادی شدہ عورت) کے ساتھ زنا کی صورت میں سنگسار کرنے کا حکم فرمایا ہے ان حدود اور تعزیرات کا علم انسان کی طاقت سے خارج ہے یہ خدائے عزیز وعلیم کا اندازہ ہے پس کفار کے بارہ میں اللہ تعالی نے کفر موقت کے لئے ہمیشہ کا عذاب موافق و مناسب جزا فرمائی ہے تو معلوم ہوا کہ کفر موقت کی ہم مثل سزا یہی ہمیشہ کا عذاب ہے،اور وہ شخص جو تمام احکام شرعیہ کو اپنی عقل کے مطابق کرنا چاہے اور عقلی دلائل کے برابر کرنا چاہے وہ شان نبوت کا منکر ہے اس کے ساتھ کلام کرنا بے وقوفی ہے۔ (مکتوبات مجدد الف ثانی مترجم:۱/۳۵۸) دوسرا جواب یہ بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ سزا جرم کے مناسب ہونی چاہیے مگر یہ ضروری نہیں کہ جرم اورسزاکا زمانہ بھی برابر ہو جیسا کہ کسی جگہ دو گھنٹہ تک ڈکیتی پڑے اورڈاکو پکڑا جائے تو اس کو دوگھنٹہ تک سزادے کر رہا نہیں کیا جاتا پس معلوم ہوا کہ سزا میں شدت جرم کی شدت کے حساب سے ہوتی ہے؛چونکہ کفر کا جرم شدید ہے تو اس کی سزا بھی شدید ہی ہوگی۔ اگر خیال ہوکہ جرم شدید تو ہے مگر ایسا شدید نہیں کہ اس کی سزا ہمیشہ کے لئے دوزخ ہو۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خیال اسلئے پیدا ہوا کہ تم نے صرف اس جرم کی ظاہری صورت پر نظر کی ہے؛حالانکہ سزا اورجزاء کا مدار محض اس کی ظاہری صورت پر نہیں ہوتا ؛بلکہ اس میں نیت کو بھی بڑا دخل ہے؛بلکہ یوں کہناچاہیے کہ اصل مدار ہی نیت پر ہے؛چنانچہ اگر شادی کی پہلی رات میں عورتوں نے غلطی سے دولہا کے پاس کسی دوسری عورت کو بھیج دیا جس کے ساتھ اس نے یہ جان کر صحبت کی کہ یہ میری بیوی ہے تو اس پر گناہ نہیں ہوگا؛بلکہ یہ وطی باالشبہ کہلائے گی اور اگر کسی نے اپنی بیوی سے صحبت کی مگر خیال یہ رکھا کہ میں فلاں غیر عورت سے صحبت کررہا ہوں تو اس کا گناہ ہوگا،جب یہ بات معلوم ہوگئی تو اب یہ سمجھیں کہ ظاہری طور پر تو کافر کا کفر اس کی عمر تک محدود ہے مگر اس کی نیت یہ تھی کہ اگر زندہ رہا تو ہمیشہ اسی حالت پر رہوں گا اس لئے اپنی نیت کے مطابق اس کو ہمیشہ کے لئے دوزخ کا عذاب ہوگا اسی طرح مسلمان کا اسلام گو بظاہر ایک زمانہ تک محدود ہے مگر اس کی نیت یہ ہے کہ اگر میں ہمیشہ زندہ رہوں تو ہمیشہ اسلام کا پابند رہوں گا اس لئے اس کا ثواب بھی ہمیشہ کی جنت ملے گا۔ (اشرف الجواب حضرت تھانویؒ:۱/۳۶،مع تغیر) تیسرا جواب کافر کو جو ہمیشہ کا عذاب ہوگا اس میں اس پر کوئی ظلم نہیں ؛کیونکہ کافر اللہ تعالی کی ہر ہر صفت کے حقوق کو ضائع کرتا ہے اور اس کی صفات لامتناہی ہیں اور ہر صفت کے حقوق بھی غیر متناہی ہیں تو چاہیے تو یہ تھا کہ ہر صفت کے انکار پر لامتناہی سزا ہوتی اور پھر ہر صفت کے حقوق پر اس طرح غیر متناہی سزا ہوتی ؛لیکن ایسا نہیں کیا جائے گا ؛بلکہ صرف کفر کی سزا دائمی طور پر جہنم کا عذاب ہوگا پس معلوم ہوا کہ اس سزا میں زیادتی نہیں؛بلکہ ایک معنی کو کمی ہے۔ (اشرف الجواب مذکور ص۳۷،ص۲۹۴) چوتھا جواب بغاوت کی سزادائمی ہوتی ہے جس کا دوام حکام ظاہری(دنیاوی حکمرانوں)کے اختیار میں ہے یعنی باغیوں کے لئے تاحیات دائمی سزا مقرر کرتے ہیں اورجس قسم کا دوام احکم الحاکمین(خدا تعالی)کے اختیار میں ہے یعنی اصلی اختیار جو مرنے کے بعد بھی موجود ہے وہ اپنے باغیوں(کافروں)کے واسطے ہمیشہ دوزخ کی سزا مقرر فرمائیں گے اس میں ظلم اورزیادتی کچھ بھی نہیں؛بلکہ عین عدل ہے۔ (اشرف الجواب مذکور:۲۹۴،بتسہیل) پانچواں جواب اللہ تعالی نے ہر انسان کووجود بخشا اور اپنے بیش قیمت بے شمار انعامات فرمائے اور ان کے مقابلہ میں صرف ایمان اور عمل کا مطالبہ فرمایا ہے تو اگر کوئی اپنے اس محسن حقیقی اورخالق حقیقی کو اور اس کے مطالبات کو ٹھکرادے تو وہ اس کی دائمی سزاہی کے لائق ہے۔ چھٹا جواب خدا کے پیغمبروں نے ساری دنیا میں اس کی منادی فرمائی ہے کہ وہ خدا اور اس کے احکام کو تسلیم کریں جو انکار کرے گا اس کو ہمیشہ کے لئے دوزخ کا عذاب جھیلناہوگا تواب جس نے بھی انکار اور کفر کیا تو اس کو ابدی سزادی جائے تو یہ اس کا حق ہے؛کیونکہ اس نے اس پیغام کےپہنچنے کے باوجود کفر کو اختیار کیا اور اگر کسی کے پاس نبوت کا پیغام نہیں پہنچا تو اس کے بارہ میں علمائے اسلام کے دو نظریے ہیں ایک کے نزدیک ایسے لوگ دوزخ میں نہیں جائیں گے جبکہ دوسرے کے نزدیک وہ بھی دوزخ میں جائیں گے ؛کیونکہ اگرچہ کسی کے پاس نبی اور رسول یا ان کے نائب کا پیغام یا کوئی رہنما کتاب اورلٹریچر نہ بھی پہنچا ہو تب بھی اس کے ذمہ ہے کہ وہ مظاہر قدرت اور اپنے وجود اور انعامات سے استدلال کرے اور صرف خدا کے وجودہی پر ایمان لائے باقی تفصیلات کا چونکہ اس کو علم نہیں اس لئے اس کی نجات کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ ساتواں جواب دین کا علم حاصل کرنا ہر ایک پر فرض ہے اگر کسی نے اس فریضہ سے لاپرواہی یا سستی برتی تو اس سے لا علمی کا کوئی عذر مقبول نہ ہوگا جیسا کہ دنیا کی حکومتوں کا اصول ہے کہ ناواقفیت کوئی عذر نہیں جس کی وجہ سے کسی مجرم کو اس سے فائدہ پہنچا کر معاف کردیا جائے؛بلکہ ناواقفیت بھی ایک جرم ہے تو اس طرح سے کافر دوہرا مجرم ہوا ایک ناواقفیت کا مجرم ایک کفر کا مجرم اس لئے اگر کافر کو ہمیشہ کے لئے دوزخ میں جلنے کا علم نہ ہو تو بھی اس پر کوئی ظلم نہیں ؛کیونکہ جہالت کوئی عذر نہیں۔ آٹھواں جواب یہ زندگی محدود ہے آخرت کی زندگی اسی پر مرتب ہے جیسا کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے یہاں جو کچھ بویا جائے گا اس کو آخرت میں ہمیشہ کے لئے کاٹا جائے گا تو گویا کہ یہ محدود زندگی اعمال کرنے اورثمرات کے مرتب ہونے کے اعتبار سے برابر کا حکم رکھتی ہے ؛چنانچہ اگر یہاں مثلا دس بیس پچاس سو سال تک کفر کیا انسان کی یہ زندگی سزا کے اعتبارسے آخرت کی دائمی زندگی کے برابر کاحکم رکھتی ہے اس لئے ناواقفیت کی بنا پر اس زندگی کو محدود اورآخرت کی زندگی کو لامحدود سمجھ کر کفر کی سزا کو ظلم اور زیادتی تصور نہ کیا جائے۔ نواں جواب گناہگاروں کی سزا کے بارہ میں ہندو مذہب میں اس طرح سے ہے کہ جس وقت کوئی گناہگار مرتا ہے تو جمراج(دوزخ کا داروغہ)جس کو دھرم رائے بھی کہا کرتے ہیں اس کے سپاہی گناہگار کی روح کو جمراج کے پاس لے جاتے ہیں جمراج اس کے عملوں کا حساب لیتا ہے پھر وہ جس سزا کے لائق ہوتا ہے ویساہی دوسرا جنم ملتا ہے اس جنم میں اپنے اعمال کا حساب لیتا ہے پھر وہ جس سزا کے لائق ہوتا ہے ویسا ہی دوسرا جنم ملتا ہے اس جنم میں اپنے اعمال کی سزا پاکر اس جنم سے نکل کر پھر کسی اور جنم میں داخل ہوتا ہے اس طرح سے ہزارہا جنم لیتا ہے اورحسب اعمال ہر طرح کے حیوان کی صورت میں جنم لیتا ہے یہاں تک کہ مکھی ،بھڑ،سور اور کتا وغیرہ حیوانات؛بلکہ کبھی درخت بھی ہوجاتا ہے اور بعض ہندو کہتے ہیں کہ پتھر بھی ہو جاتا ہے اور بہت سے جنم لے کر اوراپنے عملوں کی سزا پاکر جب گناہوں سے صاف ہوتا ہے تب اس کی نجات ہوتی ہے اورنجات یہ ہوتی ہے کہ وہ نیست و نابود ہوکر خدا کی ذات میں مل جاتا ہے اور کبھی گناہوں کی شامت سے دوزخ میں جاکر وہاں سے نکل کر کبھی پھر جنم لیتا ہے۔ (تحفۃ الہند:۴۵) ہندوؤں کے نزدیک زمانے کے چار دور مقرر ہیں پہلا ست جگ،دوسرااتریتا جگ،تیسرا دواپر جگ،چوتھا کلجگ۔ (حاشیہ تحفۃ الہند:۱۴) جب سے انسان ست جگ کی ابتداء میں جنم میں آیا ہے اب تک ان کے نزدیک لاکھوں سال گذر گئے ہیں اور معلوم نہیں کہ ان کے نزدیک باقی کتنے کروڑہا سال باقی ہیں ان میں انسان اپنے گناہوں کی پاداش میں نہ جانے کتنے جنم لے چکا ہے اورکب سے اپنے گناہوں کی سزا پا رہا ہے۔ مذکورہ دونوں حوالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کے اس زندگی میں کئے ہوئے گناہوں کی سزا اس کی دنیاوی زندگی سے کروڑہا سال زیادہ پر مشتمل ہے جہنم اس بات کی دلیل ہے کہ ہندو مذہب میں بھی مذہبی مجرم کی سزا بہت ہی زیادہ ہے جس کی انتہاء کا کسی کو علم نہیں ہندو مذہب کے اس نظریہ سے بھی اسلام کے اس نظریہ کی کسی حد تک تائید ہوتی ہے کہ کافرخدا کے نافرمان کا انجام جہنم میں ہمیشہ کا عذاب ہونا چاہیے۔ دسواں جواب مسیحی مذہب بھی اس مسئلہ میں مذہب اسلام کی تائید کرتا ہے؛چنانچہ ہم اس کی تائید میں اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف دوحوالے پیش کرتے ہیں۔ (۱)انجیل مرقس باب ۹درس ۴۳اورانجیل متی باب ۱۸ درس ۸ میں ہے جہنم کے بیچ اس آگ میں جائے جو کبھی بجھنے کی نہیں۔ اس حوالے سے معلوم ہوا کہ دوزخ ہمیشہ باقی رہے گی اس پر کبھی فنا نہ آئے گی۔ (۲)مکاشفہ باب ۲۰ آیت ۱۰ اور۱۵ میں ہے۔ حیوان،ابلیس اورغیر نجات یافتہ لوگ رات دن ابد الاباد(ہمیشہ کے لئے)عذاب (آگ کی جھیل دوزخ) میں رہیں گے۔ اس میں کفار کا دوزخ میں ہمیشہ کے لئے جلنا ثابت ہے۔ (تلک عشرۃ کاملۃ) پوری دنیا میں بڑے مذاہب تین ہیں اسلام ہندومت اور عیسائیت ان تینوں سے متفقہ طور پر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ دوزخ بھی ہمیشہ رہے گی اوردوزخ میں جانے والے کافر بھی ہمیشہ کے لئے سزا پائیں گے یہودی بھی مسیحی مذہب کے مطابق نظریہ رکھتے ہیں،اب صرف منکرین خدا اور منکرین مذہب ہی باقی رہ گئے ہیں جو مذکورہ اہل مذاہب کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں ہم نے پوری دیانتداری سے مختلف مذاہب کے نظریے نقل کردئے ہیں۔ (حاشیہ ختم ہوا)