انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تبدیلی کا مطلب زمانے کی تبدیلی جو احکام شرعیہ پر اثر انداز ہوتی ہے ،وہ تبدیلی ہے جس سے حکم کی علت بدل جائے،مثلاً ہمارے قدیم فقہاء نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گھوڑا کرایہ پر لے اور گھوڑے کے مالک سے یہ طے نہ کرے کہ کتنی دور اس پر سفر کرنا ہے اور اس کی کُل اُجرت کیا ہوگی ،تو یہ اجارہ فاسد اور ناجائز ہے؛ لیکن آج جب کہ میٹر والی ٹیکسیاں ایجاد ہوچکی ہیں تو یہ حکم باقی نہیں رہا ،آج لوگ ٹیکسی میں بیٹھنے سے قبل ڈرائیور سے کوئی معاملہ نہیں کرتے اورفریقین میں کسی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سفر میں مجموعی اُجرت کیا ہوگی؟ لیکن اس کے باوجود یہ اجارہ جائز اور درست ہے ،وجہ یہ ہے کہ پہلے زمانے کہ فقہاء نے جو مسئلہ بیان کیا تھا اس کی علت خود انہی کے بیان کے مطابق یہ تھی کے اجرت طے نہ ہونے کی صورت میں فریقین کے درمیان جھگڑے کا قوی امکان تھا،اب زمانہ بدل گیا اور میٹروں کی ایجاد کے بعد عرف عام یہ ہوگیا کہ میٹر جو اجرت بتادیتا ہے اس پر فریقین متفق ہوجاتے ہیں، اس لیے جھگڑے کا وہ قوی امکان باقی نہیں رہا جو معاملہ کے ناجائز ہونے کی علت تھا؛چنانچہ زمانے کی اس تبدیلی سے حکم بھی بدل گیا، اس کے برعکس جہاں حکم کی علت برقرار ہو وہاں محض زمانے کے عام چلن کی بنیاد پر احکام میں تبدیلی نہیں ہوسکتی ،اسلام میں اس اصول کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ زمانے میں جس جس برائی کا رواج پھیلتا ہے اس کو جائز اور حلال اور جس جس نیکی کو لوگ چھوڑتے جائیں اسے غیر ضروری قرا دیتے جاؤ کیونکہ اس شکست خوردہ ذہنیت کی تان آخر اسی خواہش پرستی پر جاکر ٹوٹتی ہے جس سے بچانے کے لیے اللہ تعالی نے قرآن نازل کیا ہے اور جس کی غلامی سے نجات دینے کے لیے سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔