انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** وفاتِ مہدی خلیفہ مہدی کوتجربہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ہادی کے مقابلہ میں دوسرا بیٹا ہارون زیادہ قابل اور اُمورِسلطنت کے انصرام کی زیادہ اہلیت رکھتا ہے؛ چنانچہ اس نے سنہ۱۶۸ھ میں اس خیال کے پختہ ہونے کے بعدارادہ کیا کہ ولی عہدی میں ہارون کوہادی پرمقدم کردے اور ہادی کوولی عہدی سے معزول کرکے ہارون کواس کی جگہ ولی عہد بناکر لوگوں سے بیعت لے، ان دنوں ہادی جرجان ہی میں مقیم تھا، مہدی نے اس کی طلبی کے لیے قاصد روانہ کیا، اس نے یہ گستاخی وشوخ چشمی دکھائی کہ اس قاصد کوپٹواکر نکلوادیا اور باپ کے حکم کی تعمیل میں جرجان سے بغداد کی طرف روانہ ہوا، یہ کیفیت دیکھ کرمہدی خود جرجان کی طرف روانہ ہوا راستہ میں مقام باسبذان میں پہنچا تھا کہ ۲۲/محرم سنہ۱۶۹ھ مطابق اگست سنہ۷۸۵ء میں انتقال کیا، ہارون رشید اس سفر میں باپ کے ساتھ تھا، اس نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور بھائی کے پاس جرجان میں وفاتِ پدر کی خبر بھیجی، ہادی نے وہاں اہلِ لشکر سے اپنی خلافت کی بیعت لی، ہارون رشید لشکر کولیے ہوئے بغداد کی طرف لوٹ آیا؛ یہاں آکر اپنے بھائی ہادی کی خلافت کی لوگوں سے بیعت لی اور ایک گشتی اطلاع خلیفہ مہدی کے فوت ہونے اور ہادی کے خلیفہ ہونے کی تمام عمال کے پاس روانہ کردی، بیس روز کے بعد ہادی جرجان سے روانہ ہوکر بغداد پہنچا اور تختِ خلافت پربیٹھ کرحاجب ربیع کوخلعتِ وزارت عطا کی، ربیع چند روز کے بعد فوت ہوگیا۔ خلیفہ مہدی عباسیوں میں نہایت نیک طینت، متقی، سخی، خوش مزاج، بہادر اور نیک دل خلیفہ تھا، اس نے اپنے باپ کے زمانے میں اُن خوں ریزیوں کودیکھا جوعلویوں کی ہوئی تھیں وہ ان خوں ریزیوں کواچھا نہیں جانتا تھا، وہ اپنے نیک سلوک اور رفاہِ رعایا کے کاموں میں کوشش کرکے لوگوں کے دل میں گھرکرنا قیامِ سلطنت کے لیے ضروری سمجھتا تھا اور خوف وجبر اور تشدد قہر کوبالکل غیرضروری جانتا تھا؛ اسی لیے اُس نے اپنے ندیموں اور مصاحبوں کی مجلس میں بے تکلف بیٹھنا شروع کیا؛ ورنہ اس سے پہلے منصور کے عہد میں ندماء اور مصاحبین پردہ کی آڑ میں بیٹھتے تھے اور خلیفہ صرف اُن کی آواز سنتا اور وہ خلیفہ کی آواز سنتے، آنکھوں سے ایک دوسرے کودیکھ نہیں سکتے تھے، خلیفہ مہدی نے اپنے دورِ حکومت میں اپنے حکم سے کسی ہاشمی کوقتل نہیں کرایا، اس نے قسم کھالی تھی کہ میں کسی ہاشمی کوقتل نہ کروں گا، وہ کشتنی وگردن زدنی ہاشمیوں کوبھی صرف قید کردیا کرتا تھا، زنادقہ کا وہ جانی دشمن تھا اور کسی زندیق کوبغیر قتل کیے نہ چھوڑتا تھا، یعقوب بن فضل جوہاشمی تھا زندیق ہوگیا اور اُس نے اپنے زندیق ہونے کا اقرار بھی کرلیا تھا، مہدی نے اس کوقید کردیا اور اپنے ولی عہد ہادی سے کہا کہ جب تم خلیفہ ہوتواس کوقتل کردینا، میں اپنی قسم پرقائم رہنے کے سبب اس کوقتل نہیں کرسکتا؛ چنانچہ ہادی نے خلیفہ ہوتے وقت اس کوقتل کیا، مہدی کواتباعِ سنت رسول اللہ کا بہت خیال تھا اُس نے وہ مقصورے جومساجدمیں خلفاء کے لیے بنائے جاتے تھے، خلافِ سنت سمجھ کرسب تڑوادیئے، جن مسجدوں میں منبرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر سے زیادہ بلند تھے اُن کوپست کرادیا وہ عبادت بھی بہت کرتا تھا، حلیم الطبع اور خوش گفتار تھا اس کے دربار میں ہرشخص بلاروٹ ٹوک جاسکتا تھا، سلطنت کے کاموں میں نہایت مستعد اور ہوشیار تھا، وہ اپنے غلاموں اور خادموں کی عیادت کے حکم نامہ کی تعمیل میں فریقِ مقدمہ کی حیثیت سے قاضی کی عدالت میں حاضر ہوا اور عدالت کے فیصلے کواپنے اوپر تعمیل کرایا، اس کے زمانہ کے مشہور عالم شریک اس کے پاس آئے، مہدی نے کہا کہ آپ کوتین باتوں میں سے ایک ضرور ماننی پڑے گی یاتوآپ قاضی کا عہدہ قبول کریں یامیرے لڑکے کوپڑھائیں یامیرے ساتھ کھانا کھائیں، قاضی شریک نے سوچ کرکہا کہ ان سب میں کھانا کھانا سب سے زیادہ آسان ہے؛ چنانچہ دسترخوان پرانواع واقسام کے کھانے چنے گئے، جب کھانے سے فارغ ہوگئے توشاہی باورچی نے کہا کہ بس! آپ پھنس گئے؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا؛ انھوں نے عہدۂ قضا بھی منظور کیا اور مہدی کے لڑکوں کوبھی پڑھایا، مہدی جب کبھی بصرہ میں آتا توپانچوں وقت کی نماز جامع مسجد میں پڑھایا کرتا، ایک روز لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے اُس کے بعد ایک اعرابی آیا جس کونماز باجماعت نہ ملی اُس نے مہدی سے کہا کہ میں نے ظہر کی نماز تیرے پیچھے پڑھنی چاہی تھی؛ مگرممکن نہ ہوا، مہدی نے حکم دیا کہ اس شخص کا ہرنماز میں انتظار کیا جائے؛ چنانچہ عصر کی نماز کے وقت مہدی محراب میں کھڑا ہوگیا اور جب تک وہ اعرابی نہ آگیا تکبیر اقامت کی اجازت نہ دی، لوگ یہ دیکھ کراس کی وسیع الاخلاقی سے متعجب رہ گئے، سب سے پہلے مہدی نے بصرے میں اپنے ایک خطبہ کے اندر یہ آیت پڑھی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا۔ (الأحزاب:۵۶) ترجمہ:بیشک اللہ اور اُس کے فرشتے نبی پردُرود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اُن پردُرود بھیجو! اور خوب سلام بھیجا کرو۔ اس کے بعد خطیبوں نے اس آیت کوخطبووں کا جزولاینفک قرار دے لیا۔